افسران نے واٹر بورڈ کا این او سی کمائی کا ذریعہ بنالیا
ایکسئین سے چیف انجینئرز تک تمام افسران کی چاندی، بلڈرز کے کا غذات میں اعتراض لگاکر رقوم کا تقاضہ کیاجارہا ہے۔
ادارہ فراہمی و نکاسی آب کراچی میں پروجیکٹ این او سی کے نام پر مبینہ کر پشن شروع ہوگئی۔
ہائی رائز بلڈنگز اور پلاٹوں کی اسکیم کے لیے دی جانے والی این او سی میں فیزیبلٹی کی تیاری میں مبینہ طور پر بھاری نذرانے وصول کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے، ایکسیئن سے چیف انجینئرز تک تمام افسران کی چا ندی ہوگئی جب کہ این او سیز سے حاصل لاکھوں کی آمدنی افسران میں منظم انداز سے تقسیم کی جانے لگی، چالان کے لیے فارورڈ کیے جانے والے کیسوں میں اقربا پروری کے ذریعے واٹر بورڈ کو بھاری مالی نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
ذرائع کے مطابق کراچی میں کئی سال کے بعد کثیر المنزلہ عمارتوں اور پلاٹوں کے منصوبوں کے لیے پانی وسیوریج کی فراہمی کے لیے دی جانے والی این او سیز واٹر بورڈ کے کرپٹ افسران کے لیے زبردست کمائی کا ذریعہ بن گئی ہیں ،واٹر بورڈ حکام نے اس سلسلے میں شفاف انداز میں این اوسیز جاری کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی جس کیلیے کمیٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا، آغاز میں چند این او سیز جاری کرنے کے بعد افسران نے این او سیز کے اجرا کے لیے بھاری نذرانے وصول کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔
این او سیز کے لیے درخواست جمع کرانے والے بلڈرز کے کا غذات پر مختلف اعتراض لگاکر بھاری رقوم کا تقاضہ کیا جاتا ہے ،بلڈرز کے مطابق فزیبلٹی رپورٹ تیار کرنیوالے ایکسئین سے لے کر چیف انجینئرز تک افسران لوٹ مار میں مصروف ہیں ،پانی وسیوریج کی این او سی کیلیے باقاعدہ پرائیویٹ ایجنٹ میدان میں اتاردیے گئے ہیں ،منہ مانگا مبینہ نذرانہ دینے والے افراد کی فزیبلٹی رپورٹ چند گھنٹوں میں جبکہ نذرانہ نہ دینے والے افراد کی درخواستیں ردی کی ٹوکری کی نذر کی جارہی ہیں۔
واضح رہے کہ رہائشی وتجارتی منصوبوں کو بلک اور ریٹیل دونوں کی لائنوں سے کنکشن کی فراہمی کے لیے این او سی جاری کی جارہی ہے جس میں ریٹیل کے چیف انجینئر غلام قادر عباس اور بلک میں چیف انجینئر محمد سلیم تعینات ہیں، 250 سے زائد پروجیکٹس کو این او سیز جاری کی جاچکی ہیں تاہم سیکڑوں کیس معاملات طے نہ ہونے کے باعث التوا کا شکار ہیں۔
واٹر بورڈ ذرائع کا کہنا ہے کہ ادارے میں پروجیکٹ این او سیز کے نام پر کروڑوں کا کھیل جاری ہے، افسران منظم انداز میں لوٹ کے مال کی منصفانہ تقسیم میں مصروف ہیں نئے ایم ڈی واٹر بورڈ اسداللہ خان مذکورہ صورتحال سے لاعلم ہیں اس سلسلے میں موقف حاصل کر نے کے لیے کئی بار چیف انجینئر غلام قادر عباس سے را بط کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے فون سننے سے گریز کیا۔
ہائی رائز بلڈنگز اور پلاٹوں کی اسکیم کے لیے دی جانے والی این او سی میں فیزیبلٹی کی تیاری میں مبینہ طور پر بھاری نذرانے وصول کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے، ایکسیئن سے چیف انجینئرز تک تمام افسران کی چا ندی ہوگئی جب کہ این او سیز سے حاصل لاکھوں کی آمدنی افسران میں منظم انداز سے تقسیم کی جانے لگی، چالان کے لیے فارورڈ کیے جانے والے کیسوں میں اقربا پروری کے ذریعے واٹر بورڈ کو بھاری مالی نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
ذرائع کے مطابق کراچی میں کئی سال کے بعد کثیر المنزلہ عمارتوں اور پلاٹوں کے منصوبوں کے لیے پانی وسیوریج کی فراہمی کے لیے دی جانے والی این او سیز واٹر بورڈ کے کرپٹ افسران کے لیے زبردست کمائی کا ذریعہ بن گئی ہیں ،واٹر بورڈ حکام نے اس سلسلے میں شفاف انداز میں این اوسیز جاری کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی جس کیلیے کمیٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا، آغاز میں چند این او سیز جاری کرنے کے بعد افسران نے این او سیز کے اجرا کے لیے بھاری نذرانے وصول کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔
این او سیز کے لیے درخواست جمع کرانے والے بلڈرز کے کا غذات پر مختلف اعتراض لگاکر بھاری رقوم کا تقاضہ کیا جاتا ہے ،بلڈرز کے مطابق فزیبلٹی رپورٹ تیار کرنیوالے ایکسئین سے لے کر چیف انجینئرز تک افسران لوٹ مار میں مصروف ہیں ،پانی وسیوریج کی این او سی کیلیے باقاعدہ پرائیویٹ ایجنٹ میدان میں اتاردیے گئے ہیں ،منہ مانگا مبینہ نذرانہ دینے والے افراد کی فزیبلٹی رپورٹ چند گھنٹوں میں جبکہ نذرانہ نہ دینے والے افراد کی درخواستیں ردی کی ٹوکری کی نذر کی جارہی ہیں۔
واضح رہے کہ رہائشی وتجارتی منصوبوں کو بلک اور ریٹیل دونوں کی لائنوں سے کنکشن کی فراہمی کے لیے این او سی جاری کی جارہی ہے جس میں ریٹیل کے چیف انجینئر غلام قادر عباس اور بلک میں چیف انجینئر محمد سلیم تعینات ہیں، 250 سے زائد پروجیکٹس کو این او سیز جاری کی جاچکی ہیں تاہم سیکڑوں کیس معاملات طے نہ ہونے کے باعث التوا کا شکار ہیں۔
واٹر بورڈ ذرائع کا کہنا ہے کہ ادارے میں پروجیکٹ این او سیز کے نام پر کروڑوں کا کھیل جاری ہے، افسران منظم انداز میں لوٹ کے مال کی منصفانہ تقسیم میں مصروف ہیں نئے ایم ڈی واٹر بورڈ اسداللہ خان مذکورہ صورتحال سے لاعلم ہیں اس سلسلے میں موقف حاصل کر نے کے لیے کئی بار چیف انجینئر غلام قادر عباس سے را بط کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے فون سننے سے گریز کیا۔