اقتصادی گرداب سے نکلنے کا چیلنج

وقت آگیا ہے کہ حکومت عالمی مالیاتی اداروں سے قابل عمل معاہدوں کے نتیجہ میں اقتصادی استحکام کے اہداف پورے کرے۔


Editorial March 27, 2019
وقت آگیا ہے کہ حکومت عالمی مالیاتی اداروں سے قابل عمل معاہدوں کے نتیجہ میں اقتصادی استحکام کے اہداف پورے کرے۔ فوٹو: فائل

اسٹیٹ بینک نے رمضان سے قبل ملک میں مہنگائی کے بے قابو ہونے کی نوید دی ہے۔ اپنی دوسری سہ ماہی جائزہ رپورٹ (اکتوبرسے دسمبر2018 ) جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ روپے کی قدر میں حالیہ کمی، گیس اوربجلی کے بلوں میں اضافے اوراسٹیٹ بینک سے بجٹ ادھار لینے کے باعث افراط رز6.5 سے 7.5 فی صد تک رہے گا۔

محاصل کی وصولی میں کمی جب کہ مالیاتی خسارہ بڑھے گا، بینک رپورٹ کے مطابق مالی سال 2018-19میں قومی پیداوار کا 6.2 فی صد شرح نمو کا ہدف حاصل کرنا بھی ممکن نہیں ہو گا ، یہ 3.5 سے 4 فی صد تک رہے گا۔

مالیاتی خسارہ 4.9 فی صد کے ہدف کے مقابلے میں 6 سے 7 فی صد جب کہ جاری کھاتے کا خسارہ 5.5 فی صد تک رہے گا۔ مزیدبرآں صنعتی پیداوار اور گندم کی فصل میں افزائش کم رہے گی جیسا کہ پہلے دیکھا گیا، ابتدائی خسارہ بڑھا ہے جب کہ مالیاتی صورتحال میں بہتری لانے کے لیے ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کی گئی ہے، یہ صورتحال مزیدمشکل ہو گئی ہے۔

اس گھمبیرتا کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، تقریباً ہر پاکستانی جانتا اور ہر اقتصادی ماہر مانتا ہے کہ ملکی معیشت کے اصل روگ اور خرابیوں کے بنیادی اسباب کیا ہیں اور ایک مستحکم، استحصال سے پاک و شفاف معاشی نظام کی نمود کی شرائط اور تقاضے کیا ہیں اور یہ بھی کوئی فلسفیانہ گتھی نہیں جسے سلجھانے کی تدابیر صرف عالمی مالیاتی اداروں کے چارہ گروں کے پاس ہیں۔ لہذا آج کا بنیادی سوال حکومت کے لیے یہی ہے کہ اس کے پاس عوام کو معاشی ثمرات دینے کا کیا پلان ہے۔

اس سوال کو سر دست ایک طرف رکھنا ہو گا کہ جمہوری اور آمرانہ ادوار میں قوم کو کتنی دیرپا آسودگی ملی تاہم معاشی مبصرین نے اسے خوش آیند ابتدا سے تعبیر کیا ہے کہ غیر ملکی محاذ سے پیسے اکٹھے کرنے کی حکومتی کوششیں بارآور ہونا شروع ہو گئی ہیں، سعودی عرب، متحدہ عرب امارت اور چین سے کچھ رقومات آ گئی ہیں جب کہ باقی جلد متوقع ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر 17 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔

لیکن اسٹیٹ بینک کی سہ ماہی رپورٹ میں کہا گیا کہ مہنگائی کا جن بے قابو رہے گا، مجموعی قومی پیداوار، مالیاتی خسارے اور برآمدات کا ہدف حاصل نہیں ہو سکے گا، زرعی شعبہ اور بڑی صنعتوں کی پیداوار میں کمی، معاشی اشاریے بہتر بنانے کے اقدامات ، حکومت کے عوامی اور ترقیاتی اخراجات میں کٹوتیاں مجموعی قومی پیداوار کی شرح میں کمی کے بنیادی اسباب ہیں جب کہ روپے کی قدر میں کمی کے دوسرے مرحلے کے اثرات، بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے قرض گیری مہنگائی میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔

اسٹیٹ بینک نے مجموعی قومی پیداوار کی شرح نمو کا تخمینہ 50 بیسک پوائنٹس کم کر دیا جب کہ روپے کی قدر میں کمی سے پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوئیں اور افراط زر کے دباؤ میں اضافہ ہوا، غربت بڑھی۔ دوسری سہ ماہی کے دوران اوسط عمومی مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت بڑھ کر 6.5 فیصد ہو گئی جو مالی سال 15 کی پہلی سہ ماہی، جب خام تیل کی عالمی قیمتیں 100 ڈالر فی بیرل کے لگ بھگ تھیں، سے اب تک بلند ترین ہے جو تشویش ناک ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ چار ماہ سے آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات میں پاکستان کا موقف تبدیل نہیں ہوا بلکہ آئی ایم ایف نے اپنے موقف پر نظرثانی کی اور ہمارے درمیان خلا کم ہوا یہی وجہ ہے کہ اب عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے پاکستان کو بیل آؤٹ پیکیج ملنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے آئی ایم ایف سے معاہدے کو جلد حتمی شکل دینے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں گیس اور بجلی کی قیمتوں میں مرحلہ وار اضافہ کیا جائے گا لیکن اس مد میں دی جانے والی سبسڈی یک دم ختم نہیں کریں گے ۔ اس بات کے امکانات ہیں کہ پاکستان اور آئی ایم ایف اپریل کے تیسرے ہفتے میں بیل آؤٹ پیکیج پر دستخط کر دیں جب آئی ایم ایف کا اسٹاف لیول مشن ملکی معیشت کا جائزہ لینے پاکستان پہنچے گا۔

ادھر چین کی جانب سے2 ارب 20 کروڑ ڈالرکے قرضوں کی وصولی، ملک میں ایشیا کے سب سے بڑے تیل و گیس کے ذخائر دریافت ہونے جیسی مثبت خبروں کے باوجود پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں پیرکو بھی مندی کا تسلسل قائم رہا جس سے انڈیکس کی 38500، 38400، 38300 اور 38200 پوائنٹس کی 4 حدیں بیک وقت گر گئیں۔

مندی کے سبب 75 فیصد حصص کی قیمتیں گر گئیں جب کہ سرمایہ کاروں کے مزید 79 ارب 56 کروڑ ایک لاکھ 23 ہزار 845 روپے ڈوب گئے۔ دریں اثنا عالمی بینک نے آئی ایم ایف کے مطالبات کی توثیق کرتے ہوئے پاکستان کو آزاد ایکس چینج ریٹ اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

کراچی میں تھنک ٹینک C100 کے تحت '' مستقبل کی تشکیل '' کے موضوع پر سیمینار سے خطاب میں عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر الان گوان پیچ موتو نے کہا پاکستان نے جغرافیائی اہمیت سے فائدہ نہیں اٹھایا، 2005ء کی شرح نمو برقرار رہتی اور مارکیٹ کے مطابق ایکس چینج اختیار کیا جاتا تو آج برآمدات 103ارب ڈالر ہوتیں۔ عالمی بینک نے پاکستان کو 2047ء تک فی کس آمدنی کے لحاظ سے متوسط آمدنی کے ممالک کی فہرست میں شامل کرنے اور بڑھتی آبادی کے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے سفارشات تیار کی ہیں۔

جنھیں PakistanAt100 رپورٹ کے عنوان سے جاری کیا گیا۔ سفارشات میں کہا گیا کہ تیزی سے بڑھتی آبادی، معاشی شمولیت میں صنفی عدم تواز ن، پانی کا غیر موثر استعمال ، طرز حکمرانی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے نجی شعبہ کو بھی کردار ادا کرنا ہو گا۔ پاکستان میں 80 فیصد پانی چار بڑی فصلوں پر خرچ کر دیا جاتا ہے، اس کے بجائے زیادہ قیمت والے پھل اور سبزیاں کاشت کی جائیں تو بہتر ہو گا۔ انھوں نے کاروبار اور سرمایہ کاری میں آسانی کے لیے حکمت عملی پر نظر ثانی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا یہاں کاروبار کے لیے 40 اداروں کی 1500 ریگولیشنز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان ،ملائیشیا، تھائی لینڈ اور کوریا کی طرز پر برآمدات بڑھانے پر توجہ دے اور ایکس چینج ریٹ مارکیٹ پر چھوڑ دے۔ پاکستان میں صنفی توازن بھی معاشی نمو کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے ۔ اگر صنفی توازن قائم کر لیا جائے اور خواتین کی معاشی شمولیت کو مردوں کے مساوی کیا جائے تو معاشی شرح نمو 35 فیصد تک بڑھائی جا سکتی ہے۔

انھوں نے سندھ، پنجاب اور خیبر پختون خوا کے پسماندہ علاقوں میں سماجی ڈھانچہ بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا سرکاری اداروں پر خرچ کی جانے والی سبسڈی صحت کی سہولتیں بہتر بنانے پرلگائی جائے۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت عالمی مالیاتی اداروں سے قابل عمل معاہدوں کے نتیجہ میں اقتصادی استحکام کے اہداف پورے کرے۔ تاہم حقیقی بریک تھرو معاشی ٹیم کا سب سے بڑا امتحان ہے، معاشی صورتحال نے ہمارے ماہرین معاشیات کو تین واضح اشارے دیے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ جغرافیہ نے ملکوں کو ہمسایہ، تاریخ نے دوست اور معاشیات نے شراکت دار بنا دیا ہے۔

دوست ملکوں نے مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے لیکن کہتے ہیں ہمت مرداں مدد خدا۔ عوام ٹریکل ڈاؤن ثمرات کے منتظر ہیں، عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کے دورے پر ہیں۔ کچھ مسائل اور چیلنجز درپیش ہیں مگر ضرورت معاشی گرداب سے نکلنے کی ہے اس سے نکلنے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں