قوت اخوت عوام

نجی تعلیمی اداروں اور اکیڈیمیوں کے درمیان تجارتی رقابت نے عام کاروباری طبقہ کی ہوس زر کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔


Asghar Abdullah March 27, 2019
[email protected]

DUBAI: ذوالفقار علی بھٹو نے برسراقتدار آنے کے کچھ عرصے بعد جب تعلیمی اداروں کو بغیر کسی سیاسی اور مذہبی امتیاز کے قومیانے کا انقلابی قدم اٹھایا، تو اس پر بعض حلقوں کی طرف سے بڑی سخت تنقید ہوئی، جماعت اسلامی کی جانب سے تو یہاں تک کہا گیا کہ بھٹو صاحب نے یہ اقدام محض جماعت اسلامی کے تعلیمی اداروں پر قبضہ کرنے اور اسلامی انقلاب روکنے کے اٹھایا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں پہلی بار بھٹو صاحب کے اس انقلابی اقدام کے نتیجہ میں ہی متوسط اور غریب طبقہ کے بچوں کی بنیادی تعلیم تک رسائی ممکن ہوسکی، بلکہ کالج اور یونیورسٹی میں پڑھائی کا خرچہ بھی ان دنوں نہ ہونے کے برابر تھا۔

جنرل ضیاالحق نے اس اقدام کی روح کو نہ سمجھا اور بھٹو دشمنی میں ڈی نیشنلائزیشن کے نام پر پھر سے الٹا پہیہ گھما دیا۔ بعد کو نوازشریف، بینظیر، جنرل مشرف اور آصف زرداری کے ادوار میں ریاست اور حکومت کی توجہ مکمل طور پر نجی تعلیمی اداروں کی طرف ہو گئی۔ آج یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں تعلیم سب سے منفعت بخش کاروبار بن چکا ہے۔ نجی اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر تعلیمی اداروں سے زیادہ فیکٹریوں کا زیادہ گمان گزرتا ہے۔اس پر مستزاد اکیڈیمیوں کی بھرمار ہے، جس نے متوسط اور غریب طبقہ کی گویا کمر ہی توڑ دی ہے۔

ستم یہ ہے کہ بھاری فیسوں کی وصولی کے باوجوداکثر وبیشتر نجی اسکولوں میں قابل اور محنتی تدریسی عملہ کی فراہمی تو ایک طرف رہی، بچوں کے کھیلنے کے لیے گراونڈاور لائبریری تک موجود نہیں۔ نجی تعلیمی اداروں اور اکیڈیمیوں کے درمیان تجارتی رقابت نے عام کاروباری طبقہ کی ہوس زر کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس تعلیمی مافیا کی طاقت اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب تو حکومت بھی، تمام تر دعوؤں کے باوجود،ان کے آگے بے بس نظر آتی ہے۔ پاکستان کے اس تاریک اور مسموم تعلیمی ماحول میں ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب کا اخوت کالج ، جس کو وہ آگے یونیورسٹی کا درجہ دلوانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں، روشنی کی ایک کرن ہے۔

ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب کے نام اور کام کا تذکرہ بہت سن رکھا تھا، لیکن یہ زیادہ تر ان کی بلاسود قرضہ اسکیم ''اخوت '' کے بارے میں تھا۔ جس کے تحت غریب لوگوںکو چھوٹے موٹے کاروبار کرنے کے لیے بلاسود قرضے مہیا کیے جاتے ہیں۔

یہ تنظیم اب تک81 ارب کے قرضہ جات تقسیم کر چکی ہے، جن سے تقریباً 32 لاکھ کے قریب خاندان مستفید ہوئے ہیں لیکن کچھ عرصے پہلے جب برادر محترم ڈاکٹر اظہار ہاشمی نے یہ اطلاع دی کہ بلاسود قرضہ اسکیم کے بعد اب ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب مفت تعلیم کی فراہمی کے لیے بھی ایک منصوبہ پر کام کر رہے ہیں، توخوشی ضرور ہوئی مگر یقین نہیں آیا، کیونکہ ظاہراً یہ منصوبہ ناممکن نظر آتا تھا۔ مگر اب سوچتا ہوں کہ یقین نہ آنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس وقت تک میں ڈاکٹر امجدثاقب صاحب سے ملا نہیں تھا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب سے ملاقات کایہ بہانہ اس طرح بنا کہ ان کے دست راست ڈاکٹر اظہار ہاشمی صاحب گزشتہ اتوار کو ''اخوت'' کالج گئے تو ان کے حکم کے بموجب عامر ہاشم خاکوانی صاحب، کرامت بھٹی صاحب اور دیگر صحافی دوستوں کے علاوہ میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔

قصورللیانی روڈ پرواقع اخوت کالج کی عالی شان عمارت، جو نوے فی صد مکمل ہو چکی ہے، کالج کے بجائے کسی یونیورسٹی کا منظر پیش کر رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ 21ایکڑاراضی میں سے ابھی صرف 8 ایکٹر پر کالج کی تعمیرات کی گئی ہیں۔ ہاسٹل کے کمروںاور میس روم میں صفائی کا اعلیٰ معیار دیکھ کرخوش گوار حیرت ہوئی۔ یہ جان کر مزید حیرت ہوئی کہ زیرتعلیم تمام طلبہ ہاسٹل میں ہی رہیں گے۔

داخلہ کے لیے سینیٹ کی طرز پر پنجاب، سندھ، خیبرپختون خوا اور بلوچستان کا بیس بیس فی صد مساوی کوٹہ رکھا گیا ہے، جب کہ باقی بیس صد آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے مختص ہے۔تیس ہزار سے کم آمدنی رکھنے والے خاندانوں کے بچے، جن کے کم ازکم ستر فی صد نمبر ہوں، درخواست داخلہ دینے کے اہل ہیں۔ اس کے بعد کالج کااپنا ٹیسٹ اور انٹرویو بھی ہوگا۔ لیکن ایک بار جن طلبہ کا داخلہ ہو جائے گا، ان کے پھر تمام تعلیمی اخراجات مع فیس اور ہوسٹل واجبات، اخوت کالج کے ذمے ہوں گے۔اس لحاظ سے پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد کالج ہے، قوت اخوت عوام کی ایک جیتی جاگتی مثال ۔

کالج اور اس کے ہاسٹل کے اندرونی حصوں کو دیکھ کر ہم باہر آئے تو معلوم ہوا کہ کالج کے اوپن ایئر کانفرنس ہال میں آج طلبہ کی کوئی الوداعی تقریب بھی ہے۔ یہ اوپن ایئرکانفرنس ہال، جو کسی قدیم یونانی تھیٹر کی طرز پربناہوا ہے، گراونڈ کی سطح سے کافی نیچے ہے۔ گراونڈ کے اوپر ڈاکٹر امجدثاقب، ان کے مہمانوں اور ہم سب کی نشستیں جما دی گئیں۔ بلوچستان کا ایک بگٹی طالب علم بڑی صاف اور شائستہ اردو میں کمپیئرنگ کر رہا تھا۔بلوچ طلبہ کے ایک گروپ نے روایتی بلوچ رقص بھی پیش کیا؛ لیکن اس تقریب کا سب سے متاثر کن حصہ ڈاکٹر امجد ثاقب کی مختصر، مربوط اور جامع تقریردلپذیر تھی۔

ان کی تقریر کا دل کو چھو لینے والا حصہ وہ تھا، جس میں انھوں نے بڑی دردمندی سے یہ کہا، ''مواخات مدینہ میں ہمارے لیے پیغام ہے کہ اگر ہم انسانیت کے ناتے ایک دوسرے کا درد محسوس کریں اور ایک دوسرے کی مدد کریں تو اللہ کے فضل وکرم سے سب کچھ ممکن ہے۔ اخوت کے بلاسود قرضہ منصوبہ کی بنیاد بھی ''مواخات مدینہ'' پر رکھی گئی اور اب اخوت کالج اور یونیورسٹی کی بنیاد بھی ''مواخات مدینہ'' پر رکھی جا رہی ہے آج بحیثیت قوم ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کو روشنی نہیں،بلکہ محض ایک تجارت بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے تعلیم کی روح مر گئی ہے۔ حقیقتاً یہی ہمارا تعلیمی بحران یہی ہے۔ لوگ کہتے تھے، آج کے دور میں بغیر سود کوئی قرضہ اسکیم نہیں چل سکتی، الحمدللہ ہم نے ''مواخات مدینہ'' کی روشنی میں یہ ممکن کر دکھایا، اور آج اخوت بلاسود قرضہ منصوبہ کی گونج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔

اب لوگ کہتے ہیں کہ مفت تعلیم کا تجربہ چلنے والا نہیں۔ لیکن ''مواخات مدینہ '' کی روشنی میں ہم نے اس عظیم نصب العین کی طرف بھی پیش قدمی شروع کر دی ہے۔صرف ایک سال کی محنت کا ثمر آپ اخوت کالج کی اس اس عالی شان عمارت اور چاروں صوبوں کے ان طلبہ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں''۔ کالج کے وسط میں ایستادہ لفظ اللہ کے مینارہ ء نور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب نے کہا،'' اللہ نورالسموات و الارض(اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے) اور یہ مینارہ نور ہمارے اس عزم کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں تعلیم فی سبیل اللہ کا یہ مقدس مشن جاری رکھیں گے اور ہمارے بعد یہ طلبہ جو آج یہاں سے پڑھ رہے ہیں اور پڑھ کر جا رہے ہیں، وہ ہمارے اس مشن کو آگے بڑھائیں گے، ان شااللہ۔''

انیسویں صدی کے آخر میں علی گڑھ میں ایک کالج کی بنیاد رکھی گئی، اور دیکھتے دیکھتے علی گڑھ کالج نے ہندوستان کی سیاسی تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ یہ تحریک علی گڑھ ہی تھی جو مسلم لیگ کی سیاسی جدوجہد اور تحریک پاکستان میں رواں دواں تھی۔قیام پاکستان کے بعد علی گڑھ کالج ہندوستان میں رہ گیا اور پاکستان میں اس طرح کا کوئی ادارہ وجود پذیر نہ ہو سکا۔ کچھ لوگوں اس طرح کے ادارے قائم کرنے کی کوششیں ضرورکی، مگر یہ بارآور نہ ہو سکیں۔ یہ بھاری پتھر اب ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب نے اٹھایا ہے ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب، سرسید احمد خان تو نہیں، لیکن جس قومی اور ایمانی جذبہ سے انھوں نے اخوت کالج کا منصوبہ شروع کیا ہے، اگر یہ کامیاب ہو جاتا ہے تو جس طرح قیام پاکستان میں علی گڑھ کالج کا ایک ناقابل فراموش کردار ہے، اسی طرح تعمیر پاکستان میں اخوت کالج کا بھی ایک دوامی کردار ہو گا۔ شاعر نے کہا تھا،

ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام

جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں