وعلیکم السلام پاکستان

پیشہ وارانہ شعبوں میں محنت کرنے والے لوگ ہی اصل پاکستانی ہیں جو ووٹ نہیں مانگتے کوئی تحفہ نہیں مانگتے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

پاکستان ٹیلی ویژن پر یوم پاکستان کی تقریب میں جب ہماری فضائی فوج کے سربراہ نے اپنے ہم وطنوں کو ایئر فورس کے طیاروں کے فلائی پاسٹ کی سربراہی کرتے ہوئے ہزاروں فٹ کی بلندی اور پاکستان کی آزاد فضاؤں سے السلامُ علیکم پاکستان کہا تو بے ساختہ میرے منہ سے بلند آو از میں وعلیکم اسلام پاکستان نکل گیا۔

جی ہاں کیونکہ میں خود ایک پاکستانی ہوں اور اسی جذبے سے یوم پاکستان اور آزادی کی پریڈ دیکھتا ہوں جیسے میں جوانی میں ان مخصوص دنوں میں صبح سویرے ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتا اور اپنی افواج کی پریڈ اور فوجی سازو سامان کی نمائش دیکھتا اور خوش ہوتا رہتا کہ ہمارے پاس بھی دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے بہتر اوزار موجود ہیں۔

یوم پاکستان کے روز ٹیلیویژن پر دو پروگرام دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں، پہلے صبح سویرے پریڈ اور بعد ازاں ایوان صدر میں اعزازات تقسیم کرنے کی تقریب دیکھنے کی ہوتی ہے ۔ ان ایوارڈز کی تقریب میں زیادہ تر ایوارڈز یافتہ ایسے ہوتے ہیں جن کو کچھ کیے بغیر سفارش سے ایوارڈز ملتے ہیں اور وہ لوگ انھیں فوری قبول کرتے ہیں بلکہ ان کے لیے مرے جا رہے ہوتے ہیں جن کی کم مائیگی کو کوئی سہارا مطلوب ہوتا ہے تا کہ جھکے رہنے کے قابل سر کو اٹھا سکیں۔

باکمال لوگوں کے ایوارڈز کی تقریب میں اس سال بھی ملا جلا رجحان نظرآیا۔ میں کسی کی ذات پر تنقید کا حق نہیں رکھتا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ مجھ سے زیادہ قابل ہو اور میں اپنی کم علمی کی وجہ سے میں اس کی دل آزاری کر بیٹھوں۔ لیکن اس برس ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جنھوں نے کوئی کسب کمال کیا ہے اور ملک کی کسی شعبے میں خدمت کی ہے ۔ ان ایوارڈز کی تقسیم سے علم ہو ا کہ پاکستان اس قدر کمزور نہیں ہو گیا کہ اس سے ہاتھ اٹھا لیا جائے۔ یہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں کمال دکھانے والوں کو ایوارڈز دینے سے پہلے ان کا تعارف کرایا جا رہا تھا۔ ان میں سے کئی تعارف میرے لیے انکشاف انگیز تھے اور انتہائی ولولہ انگیز کہ میرے وطن میں عزیز میں ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اپنے شعبوں میں بڑا اونچا نام پیدا کیا۔


اور میں یہ سوچتا رہا کہ اگر اس ملک کو اچھی حکومتیں ملتی رہتیں تو باکمال لوگوں کی گنتی مشکل ہو جاتی اور اتنے سارے لوگوں کو ایوارڈ کون دیتا۔ دنیا مانتی ہے کہ پاکستانی بے حد ذہین لوگ ہیں اور ایسے ایسے کمال دکھا جاتے ہیں کہ دنیا دنگ رہ جاتی ہے۔ یہ ہمارے موڈ کی بات ہے ہم ایٹم بم بھی بنا سکتے ہیں اور ایک معمولی سی چیز درآمد کرنے پر بھی مجبور ہو سکتے ہیں ۔ ترقی میں توازن پیدا کرنا حکومتوں اور حکمرانوں کی متوازن پالیسیوں کا تھا جو نہ ہو سکا ۔ جب پاکستان بنا تو اس کے پاس دو سیمنٹ فیکٹریاں ، دو گھی ملیں اور دو ٹیکسٹائل ملیں تھیں ۔ آج اگرچہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن ان میں سے بیشتر بند پڑی ہیں اور یہ اس لیے بند ہیں کہ ماضی کی حکومتوں کی پالیسیاں اس قدر ناقص اور غیر پاکستانی رہیں کہ ان کی وجہ سے ملک کی صنعت برباد ہو گئی ۔ یہ پاکستانی ذہانت اور محنت کا کمال ہے کہ ان ملک دشمن پالیسیوں کے باوجود کچھ لوگوں نے ضد کر کے کمال دکھا دیا ۔ یہ جو ایٹم بم ہے یہ اسی ضد کی پیداوار ہے ۔

ایوارڈز کی تقریب میں ملک کے اہل دماغ اور عمل لوگوں کی خدمات کا اعتراف کر کے قوم کو یہ پیغام دیا گیا کہ ان لوگوں کی قدر کرو جو تندی باد مخالف کے باوجود اڑنے کی سکت اور ہمت رکھتے ہیں ۔ ہم پاکستانی اگر اپنی ستر برس کی تاریخ کے اعمال کا حساب لگائیں تو اس میں اگرچہ وہ نفع نہیں مل سکا جو آسانی کے ساتھ مل سکتا تھا لیکن اتنا خسارہ بھی نہیں رہا ۔ ملک کو لوٹنے برباد کرنے اور اس کی راکھ کو بھی اڑا دینے کی انتھک کو ششیں کی گئیں ۔ کچھ لوگ جو اقتدار کے مالک تھے اور سب کچھ ان کے اختیار میں تھا انھوں نے ڈاکہ زنی کی انتہا کر دی ۔

یہ لوگ اپنے کرتوت خود ہی بتاتے رہتے ہیں جب ایک ٹولہ اقتدار سے الگ ہوتا ہے اور دوسرا آتا ہے تو وہ پہلے والوں کے کرتوت قوم کے سامنے پیش کرنا شروع کر دیتا ہے پھر جب کسی دوسرے کی باری آتی ہے تو وہ پہلے والے کو ننگا کر دیتا ہے اور اس طرح یہ سلسلہ بے نقابی اور پردہ دری جاری رہتا ہے لیکن اس سب کے باوجود اس ملک کی قسمت میں ایسے لوگ بھی آتے رہے جو اپنے شعبوں میں اس کی تعمیر بھی کرتے رہے اور خاموشی سے حکمرانوں کی تخریب کا مقابلہ کرتے رہے۔ ان معماروں کا تعارف اور ان کی خدمات جلیلہ کا اعتراف کرنے والا خود بھی ایک حکمران ہی ہے لیکن یہ حکمران ماضی کے حکمرانوں سے مختلف ہے اور یہ حقیقت میں ملک کے ان معماروں کی خدمات کا اعتراف کر رہا ہے ۔

مشہور ہے کہ کوئی بستی خدا کے چند نیک بندوں کی وجہ سے سزا اور عذاب سے بچ جاتی ہے ۔ یہ ملک بھی چند نیک پاکستانیوں کی وجہ سے بچا ہوا ہے ۔ عوام کوچھوڑ کر اصل میں جو سب کے سب نیک ہیں لیکن حکمرانوں نے ان کو بڑی مشکل سے بدی پر آمادہ کر رکھا ہے ۔ بڑے لوگوں میں بھی ایسے نیک اور محب وطن پاکستانی موجود ہیں جو حالات سے گھبراتے نہیں ہیں اور خاموشی کے ساتھ اپنی اپنی جگہ تعمیر میں لگے رہتے ہیں ۔ ان کے قرضے ری شیڈول نہیں ہوتے ، وہ ہزاروں ارب کی جگہ پر قابض ہو کر اور اس کے بدلے چند سو ارب دے کر پاک صاف نہیں ہو جاتے لیکن وہ اتنی محنت کرتے ہیں کہ بینکوں کو ناراض نہیں ہونے دیتے ۔ بد نیتی اور خاص مقاصد کے لیے بار بار اور مسلسل تبدیل ہونے والی سرکاری پالیسیوں کا سسک سسک کر مقابلہ کرتے ہیں مگر ہار نہیں مانتے۔ رشوت دے کر درآمد کرتے ہیں اور رشوت دے کر برآمد کرتے ہیں مگر ملک کے لیے زر مبادلہ حاصل کرنے سے باز نہیں آتے ۔ حکمرانوں کی طرف سے ہر قسم کی مخالفانہ کارروائی کے باوجود اپنے محاذ پر ڈٹے رہتے ہیں ۔

صنعت و حرفت، تعلیم، زراعت ، سائنس اور دوسرے پیشہ وارانہ شعبوں میں محنت کرنے والے لوگ ہی اصل پاکستانی ہیں جو ووٹ نہیں مانگتے کوئی تحفہ نہیں مانگتے ۔ قرب کی تلاش میں نہیں رہتے ۔ صرف جینے اور اطمینان سے اپنا کام کرنے کا حق مانگتے ہیں ۔ یہ صرف معدودے چند ضدی اور ہٹ دھرم لوگ ہیں جن کی وجہ سے یوم پاکستان زندہ ہے۔ ذرا تصور کریں کہ حکمرانوں کی پالیسیاں اگر پاکستان کے مفاد ات کے مطابق ہوں۔ ملک کے ذہین اور محنتی لوگوں کو کام کرنے کی آزادی ہو۔ سرکاری کارندے ان کا راستہ نہ روکیں اور ان کو ترقی کی رہ پر چلنے دیں تو یہ ملک وہ ملک بن جائے جس کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا اور پھر ایسے ملک کے یوم پاکستان کیا ہو گا اس کا تصور کیجیے پھر ہرطرف سے اپنے بہادر جوانوں کے سلام کی آوازو ں کے جواب میں وعلیکم السلام کی آوازیں ہی سنائی دیں گی۔
Load Next Story