استاد کا قتل حکمرانوں کی خاموشی
نیشنل ایکشن پلان پر پہلے دن سے عمل نہ ہوسکا اور یہ وبا اب بہاولپور تک پہنچ گئی اور پھر ایک استاد کی جان چلی گئی۔
پروفیسر خالد حمید بہاولپور کے کالج میں قتل کردیے گئے۔ قاتل کو پروفیسر خالد حمید کے خیالات سے اختلاف تھا۔ کالج میں نئے آنے والے طلباء و طالبات کو خوش آمدید کہنے کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا جانے والا تھا۔ پروفیسر خالد حمید کا کہنا تھا کہ جب طالبات کالج میں داخلہ لینے کی اہل ہیں تو پھر وہ تقریبات میں برابر کی شرکت کی حقدار بھی ہیں۔
نئے طالب علموں کو خوش آمدید کہنا جدید تعلیمی اداروں کی قدیم روایت ہے مگر ایک جنونی گروہ کو ایسی تقریب میں فحاشی اور عریانی نظر آنے لگی۔ پروفیسر خالد حمید جو انگریزی کے استاد تھے اس تقریب کے انعقاد کے حامی تھے۔ انھوں نے کلاس میں دلائل کے ذریعے طالب علموں کو سمجھانے کی کوشش کی مگر قاتل کا ذہن مفلوج تھا۔ جب پروفیسر خالد حمید کلاس سے باہر آئے تو جنونی طالب علم نے چاقو کے وار کر کے پروفیسر خالد حمید کی جان لے لی۔ پروفیسر خالد حمید نے زندگی کا خاصا عرصہ سعودی عرب میں گزارہ تھا۔ وہ کئی حج کرچکے تھے اور پابند صوم صلوۃ تھے۔
پروفیسر خالد حمید کے جنازے میں پورا بہاولپور شہر امنڈ آیا۔ ایک طالب علم نے خیالات کے اختلاف پر ایک استاد کو قتل کردیا۔ یوں استاد تو امر ہوگیا مگر قاتل طالب علم ہمیشہ کے لیے ذلت، رسوائی اور پیشی کے سمندر میں ڈوب گیا۔ ایک استاد کا قتل ہوا مگر وزیر اعظم، صدر مملکت، گورنر اور وزیر اعلیٰ کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ استاد کے اہل خانہ کو دلاسہ دینے کے لیے ان کے گھر جاتے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اس واقعے کے بعد بہت یاد آئی۔ وہ دوپٹہ اوڑھ کر متاثرہ مسلمان خاندانوں کے گھروں پر پہنچ گئی اور فلک شگاف انداز میں اعلان کیا کہ قاتل دہشتگرد اور جنونی ہے جس کا تاریخ میں نام نہ ہوگا۔
ملک میں مذہبی انتہاپسندی کی جڑیں انتہائی گہری ہیں۔ اگرچہ تین سال قبل پشاور آرمی پبلک اسکول پر دہشتگردی کے حملے کے بعد مذہبی انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان منظور ہوا مگر اس ایکشن پلان پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہوا۔اس ایکشن پلان کے تحت کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی ہوئی تھی۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو تبدیل ہونا تھا اور ایسے مواد کو حذف کیا جانا تھا جو ذہنوں کو جنونیت کے دھارے سے منسلک کرتا ہے اور اس کے ساتھ دینی مدارس کے نظام کو تبدیل ہونا تھا مگر ابھی اس پلان کی روشنائی خشک نہیں ہوئی تھی کہ شوروغوغا سنائی دینے لگا۔ بعض جماعتوں کو نصاب کی تبدیلی میں سازش نظر آنے لگی۔ عجب ستم ظریفی تھی کہ تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق ان مذہبی جماعتوں کی ہم نوا تھی۔
حکومت سندھ نے نصاب کی تبدیلی کے لیے جن ماہرین پر مشتمل کمیٹی بنائی تھی اس میں جناح میڈیکل کالج کی ایک استاد بھی شامل تھیں جن کا تعلق ایک مغربی ملک سے تھا۔ ان پروفیسر خاتون کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں کہ وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئیں۔ پھر ولی خان یونیورسٹی مردان میں شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم مشال خان کو ایک طلبہ کے ہجوم نے تشدد کر کے قتل کردیا۔ یونیورسٹی میں ایک طالب علم کا قتل عدم برداشت کی سب سے بڑی مثال تھا۔ مشال خان قتل کیس کا فیصلہ ہوگیا ہے اور اس میں کئی ملزموں کو سزائیں بھی ہوئی ہیں۔
خیالات کی بناء پر باشعور افراد کا قتل اس ملک کا ایک بڑا المیہ ہے۔ راشد رحمن سرائیکی علاقے میں انسانی حقوق کے کارکن تھے۔ انھوں نے انسانی حقوق کی پامالی کا شکار اساتذہ، صحافیوں، خواتین، مزدوروں، کسانوں اور غیر مسلم شہریوں کی دادرسی کے لیے ساری زندگی وقف کی۔ راشد رحمن انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی کے ملتان کی ٹاسک فورس کے سربراہ تھے۔ نامعلوم قاتلوں نے 7 مئی 2014 کی رات کو راشد رحمن کو ان کے دفتر میں کلاشنکوف سے فائرنگ کر کے شہید کردیا۔ راشد رحمن کے قاتل پکڑے نہیں گئے۔ اسی طرح پروفیسر پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کراچی میں گلشن اقبال میں اردو یونیورسٹی کے سامنے اوور ہیڈ برج پر نامعلوم قاتل کی ایک گولی کا شکار ہوئے۔ پولیس اپنے دعووں کے باوجود قاتلوں کا پتہ نہ چلا سکی۔ پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج ایک روشن خیال عالم تھے۔
اوج صاحب نے فقہ پر تحقیق کی تھی اور نئے خیالات پیش کیے تھے۔ ڈاکٹر یاسر رضوی نے جن کا تعلق شعبہ ابلاغ عامہ سے تھا، ڈاکٹر شکیل اوج کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کا تھیسز مکمل کیا تھا۔ شاید ڈاکٹر شکیل اوج کی استادی ان کی موت کا سبب بنی۔ کراچی پولیس ڈاکٹر یاسر رضوی کے قاتلوں کے بارے میں کچھ معلوم کرنے میں ناکام رہی۔
پروفیسر سبط جعفر کراچی میں اسلامیات کے استاد تھے۔ ان کی سوزخوانی کا انداز خاصا مقبول تھا۔ شاید پروفیسر سبط جعفر کا جرم یہی تھا۔ قاتل سبط جعفر کو قتل کرکے آسانی سے اپنی کمین گاہوں میں محفوظ ہو گئے۔ پروفیسر شبیر شاہ گجرات یونیورسٹی میں استاد تھے۔ ان کی روشن خیالی کا ذکر گجرات میں عام تھا۔ پروفیسر شبیر شاہ اخوت، محبت اور رواداری کا سبق دیا کرتے تھے۔ قاتلوں نے پروفیسر شبیر شاہ کو گجرات یونیورسٹی آتے ہوئے قتل کیا۔
کراچی یونیورسٹی کی شعبہ ابلاغ عامہ کی ایک استاد جو پروفیسر خالد کے قتل پر رنجیدہ ہیں یہ کہہ رہی تھیں کہ اب ہر اس استاد کی جان کو خطرہ ہے جو طلبہ کا شعور بلند کرنے کی جرات کرے گا۔ مذہبی دہشتگردی کا شکار صرف اساتذہ ہی نہیں ہوئے بلکہ سیاسی اور سماجی کارکن، وکلاء، صحافی، دانشور، بیوروکریٹس، پولیس افسران بھی گزشتہ 19 برسوں کے دوران نامعلوم قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بنے مگر پاکستانی ریاست کے پالیسی سازوں کو صورتحال کی سنگینی کا احساس نہیں ہوا۔
یہی وجہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر پہلے دن سے عمل نہ ہوسکا اور یہ وبا اب بہاولپور تک پہنچ گئی اور پھر ایک استاد کی جان چلی گئی۔ سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر استاد کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں کالعدم تنظیموں کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ نیوزی لینڈ میں ایک جنونی کی فائرنگ کے بعد تمام نیوزی لینڈر بلا امتیاز مذہب، نسل اور رنگ جاگ اٹھے۔ وزیر اعظم نے گھر گھر دورہ کیا اور اعلان کیا کہ قاتل گمنام رہے گا۔ ہزاروں لوگ مسلمانوں کی مساجد پر جمع ہوگئے۔
ان لوگوں نے نماز کے اوقات میں مسلمانوں کی مساجد پر جمع ہو کر مسلمانوں کی حفاظت کے لیے انسانی زنجیر بنائی۔ یونیورسٹی میں اذان کی آواز گونجی، عورتوں اور مردوں نے شہید ہونے والے مسلمانوں کی یاد میں گلدستے رکھے اور موم بتیاں جلائیں۔ یوں ثابت ہوگیا کہ اس معاشرے میں انتہاپسند تنہا ہیں مگر وطن عزیز میں حکمرانوں کی خاموشی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انصاف فراہم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔