آیندہ چند ماہ انتہائی کٹھن اورمشکل
بلاول بھٹو جانتے ہیں کہ خان صاحب کی حکومت کو آنے والے دنوں میں مشکل اور سنگین حالات کا سامنا ہے۔
پلوامہ کے واقعے کے بعد ہماری حکومت کی جانب سے کالعدم تنظیموں کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین جناب بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے جو باؤنسر کھیلا گیاوہ کوئی خلاف توقع نہیں تھا۔بلاول کی جگہ آج اگر عمران خان ہوتے اورمسند اقتدار پر میاں صاحب براجمان ہوتے تو خان صاحب بھی یہی کچھ کرتے جو آج بلاول نے کیا ہے۔اپوزیشن تو ایسے موقعے ڈھونڈا کرتی ہے کہ کس طرح حکومت کی کمزوریوں اور مجبوریوں سے فائدہ اُٹھاکر اُسے جتنا ممکن ہو زیر کیاجائے۔
خان صاحب نے بھی اپنے 126دنوں کے دھرنے میں ایسی بہت سے باتیں کی تھیں جو انھیں نہیں کہنی چاہیے تھیں۔بلاول بھٹو جانتے ہیں کہ خان صاحب کی حکومت کو آنے والے دنوں میں مشکل اور سنگین حالات کا سامنا ہے۔(FATF)فنائنشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے اور تقریباً ایک سال کی دی جانے والی مہلت اِس سال مئی کے مہینے میں ختم ہونے والی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انتہائی کٹھن اور مشکل مالی حالات کا بھی سامنا ہونے والا ہے۔
لہذا ایسی صورت میں بلاول کی جانب سے کھیلا جانے والا باؤنسر یقینا بہت بھرپور اور بروقت ہے۔کالعدم تنظیموں سے متعلق ماضی میں بیان کیے گئے خان صاحب کی خیالات سے ہر کوئی واقف ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ وہ اِن تنظیموں کے بارے میں ایک مثبت اور ہمدردانہ سوچ رکھتے ہیں۔
اِسی لیے سمجھاجاتا ہے کہ اُن کے خلاف کوئی سخت گیر کارروائی خان صاحب کی پالیسیوں سے میل نہیں کھاتی۔لہذا بلاول نے موقعہ کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ہی یہ باؤنسر کھیلا ہے جس سے حکومتی وزراء بوکھلاسے گئے ہیں۔وہ اِسے غداری کے زمرے میں گردانتے ہوئے اِسے مودی کا بیانیہ قرار دے رہے ہیں۔خان صاحب کو مئی کے مہینے سے پہلے FATFکے مطالبوں پر مکمل کاروائی کرناہوگی ورنہ گرے لسٹ سے باہر نکلنا تودرکناربلکہ بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کا امکان اور احتمال یقینی ہے۔
اِن کالعدم تنظیموں کے خلاف اب تک کی حکومتی کاروائی بظاہر کاسمیٹک ہی دکھائی دیتی ہے۔ایسالگتا ہے غیر ملکی دباؤ کوکچھ کم کرنے کے لیے فی الحال یہ عارضی اور وقتی کارروائی کی گئی ہے۔اِسی کو دیکھتے ہوئے جناب بلاول نے اپنے اِن خدشات کا اظہار بھی کیاہے کہ اِن تنظیموں کے اکاؤنٹس منجمد کرنا بھی محض دکھاوا ہی دکھائی دیتا ہے۔ایسا نہ ہو کہ پرویز مشرف کے منجمد بینک اکاؤنٹس کی طرح اِن سے بھی جب چاہے پیشہ نکالا جاسکتا ہو۔حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ عالمی طاقتیں اور ادارے صرف بلاول بھٹو کے کہنے پر ایسا سوچنے اور دباؤ بڑھانے پر مجبور ہونگے تووہ شایداپنے آپ کو دھوکہ دے رہی ہے۔عالمی ادارے ہمارے ہر ایکشن اور ہرکارروائی کا بغور جائزہ لے رہے ہوتے ہیں۔
انھیں سب پتہ ہوتا ہے کہ ہم اُن کے مطالبوں پرعمل پیرا ہونے میں کتنے سنجیدہ اور مخلص ہیں۔وہ اپنے مطالبوں پر عملدرآمد کے لیے ہمارے کسی لیڈر کے بیانوں کے محتاج نہیں ہوتے۔خان صاحب کی حکومت اِس لحاظ سے یقینا بڑی خوشق قسمت ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمدکے لیے وہ اورہمارے تمام عسکری ادارے ایک پیج پر ہیں۔اِس سے پہلے کی حکومتوں کو ہمیشہ سے یہ گلہ رہا ہے کہ وہ اگر کچھ تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنا بھی چاہیںتونادیدہ قوتوں کی مزاحمت کی وجہ سے وہ ایساکرنے سے قاصر رہتے ہیں۔مگر خان صاحب کے لیے اب ایسی کوئی مشکل نہیں ہے۔ وہ چاہیں تو FATFکو مکمل مطمئن کرکے پاکستان کو گرے لسٹ سے باآسانی باہر نکال سکتے ہیں۔
آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی کی اِس حکومت کو جوسب سے بڑا چیلینج درپیش ہے وہ اِس ملک کی دگرگوں ہوتی معاشی اور اقتصادی حالت اور مہنگائی ہے۔حکومت نے اب تک اِس ضمن میں جوکچھ کیا ہے وہ صرف اور صرف ادھار لینے اور قرضے لینے پر ہی منحصررہا ہے۔مالی حالت بہتربنانے کے لیے ابھی تک کوئی ٹھوس اورمثبت پالیسی سامنے نہیں آپائی ہے۔چند دوست ممالک نے خان صاحب کی اِس حکومت کوگزشتہ برس امداد اور قرضے شاید اِس لیے بھی دیدیے کہ وہ اُس وقت ایک نئی نئی حکومت تھی۔ مگر اب اگر پھر سے ہاتھ پھیلایاگیا تو یاد رہے کہ اب ایسا ممکن نہیں ہوگا۔دنیا کا کوئی ملک اب ہمیں اپنے در پر کھڑا رکھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔یو اے ای کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جس نے وعدہ کرنے کے باوجود اب ہمیں ادھار تیل دینے سے معذرت کرلی ہے۔
ہم نے اب اگر اپنی معاشی حالت خود درست نہ کی تودنیا میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ ہونگے۔حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پرایسے منصوبوں کا اعلان کرے جن سے ہم اپنے ملک کو ملائشیا نہیں تو کم از کم بنگلادیش تو ضرور بناسکیں۔سوچاجائے تو یہ بات ہمارے لیے کتنی ذلت اور شرم کی ہے کہ چالیس سال پہلے ہم سے جدا ہوکر آزادی لینے والا ملک معاشی اوراقتصادی میدانوں میں ہم سے آگے نکل چکاہے اور ہم ایک ایٹمی قوت بن جانے کے باوجود دنیا سے بھیک اور امداد مانگتے پھر رہے ہیں۔
ایسی ایٹمی ریاست جو دنیا کے سامنے ساتویں نیوکلیئر قوت ہونے کا دعویٰ بھی کرتی ہے اورساتھ ہی ساتھ کشکول تھامے دردر بھیک بھی مانگتی پھرتی ہے۔ خان صاحب برسراقتدار آنے سے پہلے ادھار اور قرضے نہ لینے کے کیسے کیسے دعوے کیاکرتے تھے۔ لیکن اقتدار ملتے ہی سارے دعوے اوراصول دھرے کے دھرے رہ گئے۔اور اب یہ حالت ہے کہ امداد اور قرضوں کے علاوہ کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا۔ ساری قابلیت اورلیاقت صرف نئے نئے قرضوں کے حصول میں خرچ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔دوست ممالک کادروازہ جب بندہونے لگاتو آئی ایم ایف سے معاہدہ سائن ہونے جارہا ہے۔اِس کے بعد کیا ہوگا کسی کوپتہ نہیں۔قرضے کیسے اداہونگے یہ عثمان بزدار جیسے لوگ سوچیں گے۔دیکھا جائے تو ساری کابینہ میں ایسے ہی لوگ شامل ہیں جنھیں کل کے بارے میں کچھ پتہ نہیں۔
مئی کا مہینہ خان صاحب کے لیے زبردست امتحان کا مہینہ ہے۔اب ہمیں FATFکے شرائط پر بھی فیصلہ کرنا ہے، وفد پاکستان پہنچ چکا ہے، اورہمیں اپنے ملک کے سالانہ بجٹ کو بھی پیش کرنا ہے۔ یہ دونوں کام ہمارے آنے والے دنوں کاتعین کرینگے۔حکومت کے پاس بظاہر معاشی ماہرین کے ایک بہت بڑی ٹیم موجود ہے۔
لیکن معلوم نہیں وہ کیا کررہی ہے۔اُس نے ابھی تک کوئی ایسا فارمولا پیش نہیں کیا ہے جن سے ہم قرضوں کی بجائے خود اپنے وسائل سے اپنی معاشی حالت بہتر بناسکیں۔ وزیراعظم صاحب عنقریب کراچی کے نزدیک سمندر میں تیل دریافت ہونے کی خوش خبری قوم کے گوش گزار کرنے والے ہیں۔لیکن شاید انھیں پتہ نہیں کہ یہ قوم اِس سے پہلے بھی ایسی کئی خوشخبریاں سن چکی ہے۔
دھوڈک ، سینڈک ، ریکوڈک اور چینوٹ سمیت تھرکول کے خزانوں کے بارے میں بھی ایسی ہی نوید ہماری اِس قوم کو پہلے بھی سنائی جاچکی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کشکول ہمارے ہاتھوں سے ابھی تک نہیں چھوٹا۔اِس لیے قوم ایسی خوشخبریوں پر اُس وقت ہی خوش اور مطمئن ہوگی جب وہ حقیقتاً اُن کے ثمرات سے لطف اندوز ہوگی ۔فی الحال تو اُس کی قسمت میں مصائب ومسائل ہی ہیں۔وزیراعظم انھیں حل کرنے کوکوشش کریں تو بہتر ہوگا۔