پی ایس ڈی پی میں اپوزیشن کے فنڈز کی کٹوتی حکومت پر تنقید

کوئٹہ کے اس ترقیاتی پیکج میں وفاقی حکومت کی گرانٹ بھی شامل ہے جبکہ صوبائی حکومت نے بھی خطیر رقم مختص کی ہے۔

کوئٹہ کے اس ترقیاتی پیکج میں وفاقی حکومت کی گرانٹ بھی شامل ہے جبکہ صوبائی حکومت نے بھی خطیر رقم مختص کی ہے۔فوٹو: فائل

بلوچستان کی پی ایس ڈی پی2018-19 صوبائی مخلوط حکومت کیلئے درد سر بن گئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے پی ایس ڈی پی کا معاملہ صوبائی اسمبلی کے اندر اور باہر اُٹھانے کیلئے اپنی حکمت عملی وضع کر دی اور بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے پہلے روز پی ایس پی ڈی پی2018-19 پر اپوزیشن نے زبردست احتجاج کیا اور پی ایس ڈی پی 2018-19ء میں اپوزیشن ارکان کے ممکنہ فنڈز کی کٹوتی کے معاملے پر حکومت کوآڑے ہاتھ لیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔

اپوزیشن جماعتوں کا اس حوالے سے یہ موقف ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے اراکین کا بنیادی استحقاق ہے کہ اُنہیں یکساں طور پر فنڈز فراہم کئے جائیں اور پی ایس ڈی پی میں اپوزیشن ارکان کے فنڈز برسر اقتدار حکمرانوں کے برابر ہونے چاہئیں۔

تاہم صوبائی حکومت اپوزیشن ارکان کو ترقیاتی فنڈز فراہم کرنے سے گریز کر رہی ہے جسے کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اپوزیشن جماعتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی ایس ڈی پی2018-19 کے حوالے سے صوبائی مخلوط حکومت کا جو غیر مناسب رویہ ہے اُس سے یہ لگ رہا ہے کہ پی ایس ڈی پی کا زیادہ سے زیادہ ترقیاتی فنڈ اس سال بھی لیپس ہو جائے گا کیونکہ صوبائی مخلوط حکومت نے اس ترقیاتی فنڈز کو استعمال کرنے میں سُستی کا مظاہرہ کیا ہے اور اب جب وقت کم رہ گیا ہے تو اُس میں بھی صوبائی مخلوط حکومت اُس طرح سے مثبت حکمت عملی بنانے میں ناکام رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپوزیشن ارکان کے ترقیاتی فنڈز میں سیاسی بنیادوں پر کٹوتی کا جو راستہ اپنا رہی ہے اُس سے اس بات کا خدشہ ہے کہ پی ایس ڈی پی 2018-19ء کا 70 سے80 فیصد فنڈ لیپس ہو جائے گا۔

صوبائی مخلوط حکومت کا اپوزیشن جماعتوں کے اس موقف کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ وہ پی ایس ڈی پی2018-19ء میں اجتماعی نوعیت کے اُن ترقیاتی منصوبوں کو ترجیح دے رہی ہے جو کہ عوام کے مفاد میں ہیں۔ صوبائی حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ پی ایس ڈی پی میں1515 اسکیمات کیلئے30.717 ارب روپے رکھے گئے تھے جس میں سے952 اسکیمات کیلئے23.257 ارب روپے جاری کر دیئے گئے ہیں جو کہ جاری اسکیمات کی مد میں75 فیصد بنتا ہے اس طرح سابقہ حکومت کے جاری411 منصوبوں کیلئے6 ارب روپے جاری کردیئے گئے ہیں۔

جنہیں رواں سال مکمل کر لیا جائے گا اسی طرح موجودہ حکومت نے مانگی ڈیم کیلئے60 کروڑ، اور ماڑہ ڈیم کیلئے50 کروڑ روپے اور کچھی کینال کیلئے25 کروڑ روپے جاری کئے ہیں ۔ زرعی کالج کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے، شہید سکندر یونیورسٹی خضدار کیلئے 25 کروڑ روپے اور آواران کیڈٹ کالج کیلئے بھی فنڈ جاری کر دیئے گئے ہیں۔


حکومتی ذرائع کے مطابق موجودہ پی ایس ڈی پی میں شامل میگا منصوبوں کیلئے 12848-25 ملین روپے مختص کئے گئے تھے جن میں سے9585.97 ملین روپے جاری کردیئے گئے ہیں اسی طرح موجودہ حکومت نے10 ارب روپے تک کی اسکیمات کو ایک سے دو سال میں مکمل کرنے کیلئے منصوبہ بندی کی ہے اور آمدن میں اضافے کیلئے بلوچستان ریونیو اتھارٹی قائم کی گئی ہے۔ موجودہ صوبائی مخلوط حکومت کے ذرائع کے مطابق حکومت کا کہنا ہے کہ پی ایس ڈی پی2018-19 کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کے الزامات بے بنیاد ہیں جس کا اسمبلی کے اندر اور باہر بھرپور دفاع کیا جائے گا ۔

دوسری جانب جام حکومت نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کیلئے25 ارب روپے کے ترقیاتی پیکج کی منظوری دی ہے جس میں شہر کی مختلف سڑکوں کی توسیع اور تعمیر و مرمت کے منصوبے شامل ہیں جن کی تکمیل سے ایک جانب تو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی خوبصورتی میں اضافہ ہوگا تو دوسری جانب ٹریفک کے دبائو میں کمی اور بہائو میں بہتری آئے گی ۔ کوئٹہ کے اس ترقیاتی پیکج میں وفاقی حکومت کی گرانٹ بھی شامل ہے جبکہ صوبائی حکومت نے بھی خطیر رقم مختص کی ہے۔ سیاسی و عوامی حلقوں نے صوبائی حکومت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ حکومت جلد از جلد اس ترقیاتی پیکج پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گی اور کوئٹہ جو کہ صوبے کا فیس ہے اُس کی بہتری اور خوبصورتی کے ساتھ ساتھ جن گوناگوں مسائل سے لٹل پیرس کہلانے والا شہر آج دوچار ہے۔

اُس سے عوام کو نجات ملے گی۔ ان حلقوں کے مطابق اس سے قبل بھی شہر کی خوبصورتی اور مسائل کے حل کے حوالے سے خطیر رقوم کا اعلان ہوتا رہا ہے لیکن صرف اعلانات تک محدود رہنے اور فنڈز کچھ اشرافیہ کی جیبوں کی نذر ہونے کے باعث صورتحال میں کوئی تبدیلی نہ آنے سے عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس خطیر فنڈ میں کرپشن کے دروازے کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے ضیاع کو روکنا اور شہر کی خوبصورتی کو واپس لوٹانا اور دیگر عوامی مسائل کا حل حکومت وقت کی ذمہ داری ہے؟ جسے مخلص ہو کر نبھانا ہوگا۔

گذشتہ دنوں اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کی قائم مقام گورنر کی حیثیت سے اچانک سرگرمیوں پر سیاسی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی، اس دوران قائم مقام گورنر کی حیثیت سے اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو نے ساراوان ہائوس جا کر سابق وزیراعلیٰ اور اپوزیشن رکن اسمبلی نواب محمد اسلم رئیسانی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں بی این پی کے ارکان اسمبلی اختر حسین لانگو اور میر حمل کلمتی بھی موجود تھے۔

ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے میر عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ نواب اسلم رئیسانی انکے بڑے ہیں اور کافی عرصے سے صوبے میں عدم موجودگی کے باعث اُن سے ملاقات نہیں ہوئی تھی اُن کے حال احوال کیلئے آیا تھا اس کے پیچھے کوئی سیاسی کہانی نہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ میرے اچانک متحرک ہونے کی خبریں درست نہیں، میرے متحرک ہونے کو کسی سیاسی تبدیلی سے نہ جوڑا جائے، میڈیا خوامخواہ ہی ایسی خبریں چھوڑ کر ہماری نوکری کو خطرے میں ڈال دیتا ہے بحیثیت اسپیکر بلوچستان اسمبلی حکومت اور اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلنا میرے فرائض منصبی میں شامل ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کا تعلق بھی وزیراعلیٰ جام کمال کی جماعت بی اے پی سے ہے اور وہ اس جماعت کی صدارت اور وزارت اعلیٰ کے اُمیدوار رہ چکے ہیں اور صوبے میں حکومت سازی کے بعد سے وہ اس طرح متحرک نظر نہیں آرہے تھے جس طرح سے نواب ثناء اﷲ زہری کی سابقہ حکومت کے آخری ایام میں اچانک متحرک ہوئے اور (ن) لیگ کے ارکان اسمبلی کو توڑ کر اُنہوں نے صوبے میں اپنی مخلوط حکومت تشکیل دی جبکہ ان کا تعلق اس وقت (ق) لیگ سے تھا ۔کافی عرصے خاموش رہنے کے بعد اچانک کوئٹہ آکر اُن کی سیاسی ملاقاتوں کے سلسلے نے حکومتی حلقوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا اس حوالے سے بعض حکومتی حلقوں میں یہ مثال بھی دی جاتی ہے کہ ''سانپ کا ڈسا رسی کے بل سے بھی ڈرتا ہے''۔
Load Next Story