پیپلز پارٹی کی احتجاجی حکمت عملی ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب کریگی
بلاول بھٹو زرداری کی عوامی رابطہ مہم سے قبل بڑے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی سے لاڑکانہ تک ٹرین مارچ کا آغاز کردیا ہے۔ جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے بعد یہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سب سے بڑی عوامی رابطہ مہم ہے، جس کے بہت اہم سیاسی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔
سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور 20 اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے انتخابات اپوزیشن کی شرکت کے بغیر ہو چکے ہیں اور تمام ارکان بلا مقابلہ کامیاب قرار دیئے گئے ہیں ۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کا جاری احتجاج کیا رخ اختیار کرتا ہے، اس پر سیاسی حلقوں میںقیاس آرائیاں جاری ہیں ۔ کراچی میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے فائنل سمیت آٹھ میچز کے پرامن اور کامیاب انعقاد کے بعد دہشت گردی کا ایک بہت بڑا واقعہ رونما ہوا ہے۔ دہشت گردوں نے ممتاز عالم دین مولانا تقی عثمانی پر حملہ کیا لیکن وہ خوش قسمتی سے بچ گئے ۔ ان کا محافظ ایک پولیس کانسٹیبل شہید ہو گیا ۔ اس واقعہ نے لوگوں کے ذہنوں میں بہت سے خدشات کو جنم دیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کی عوامی رابطہ مہم سے قبل بڑے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اور دیگر اہم شخصیات کے خلاف مبینہ جعلی اکاؤنٹس کیس بینکنگ کورٹ کراچی سے نیب راولپنڈی کو منتقل ہو چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد سابق صدر آصف علی زرداری کو گزشتہ ہفتے نیب نے راولپنڈی میں طلب کرکے پوچھ گچھ کی ۔ نیب نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو بھی طلب کیا اور ان سے ڈیڑھ گھنٹے تک سوالات کیے ۔ نیب کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے اور ایف بی آر بھی زیادہ متحرک ہو گئے ہیں ۔
اس پس منظر میں پیپلز پارٹی کی عوامی رابطہ مہم کے بارے میں پیپلز پارٹی کے مخالفین اور حامیوں کی اپنی اپنی آراء ہیں۔ مخالفین کا کہنا یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اپنے والد آصف علی زرداری اور دیگر رہنماؤں کو احتساب سے بچانے کے لیے یہ مہم چلا رہے ہیں ۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری خاص طور پر اسی طرح کی باتیں کر رہے ہیں جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت اور اس کے حامیوں کا مؤقف یہ ہے کہ احتساب کے نام پر جو کچھ کیا جا رہا ہے، وہ کچھ حلقوں کا پرانا ایجنڈا ہے، جس پر بتدریج عمل کیا جا رہا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں مقبول سیاسی قیادت اور عوامی سیاست کا خاتمہ کر دیا جائے۔
پاکستان میں بلا امتیاز احتساب نہیں ہو رہا ۔ اس پرانے ایجنڈے کا ایک بار پھر مقابلہ کرنے کے لیے پیپلز پارٹی عوام سے رجوع کر رہی ہے ۔ پیپلز پارٹی مخالف حلقوں کی رائے ان کے نزدیک درست ہو گی لیکن عوامی طاقت اور سندھ کے مزاحمتی سیاسی مزاج کا شاید انہیں اس طرح اندازہ نہیں ہے، جس طرح سیاست اور تاریخ کا ادراک رکھنے والوں کو ہونا چاہیے۔
سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کی تین سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) نے اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ، ان کا مطالبہ تھا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ انہیں دی جائے۔ اپوزیشن کے احتجاج کے دوران ہی سندھ حکومت نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا ۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے نامزدگی فارم جمع نہیں کرائے، لہٰذا کمیٹیوں کے لیے تمام امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہو گئے ۔
سندھ حکومت نے سندھ اسمبلی کی 34 میں سے 20 کمیٹیوں پر انتخابات کرائے اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے بھی انتخابات کرا دیئے گئے ۔ فریال تالپور اور شرجیل انعام میمن بھی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ارکان منتخب ہوئے۔ شرجیل میمن نے بوجوہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ۔ وہ باقی کمیٹیوں کے رکن رہیں گے ۔ پیپلز پارٹی کے غلام قادر چانڈیو کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا ہے ۔ حکومت سندھ نے 14 اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے انتخابات مؤخر کردیئے ہیں ۔ یہ کمیٹیاں اپوزیشن کو دینے کی بات ہو رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن اپنا احتجاج ختم کرتی ہے یا نہیں اور باقی 14 اسٹینڈنگ کمیٹیوں میں اپنے ارکان کے نام دیتی ہے یا نہیں؟ ۔ ان سوالوں کا جواب سندھ کی مستقبل قریب کی سیاست سے ہی مل سکتا ہے۔
ممتاز عالم دین اور دارالعلوم کورنگی کے سربراہ مولانا تقی عثمانی کو دہشت گردوں کے حملے دوران خدانخواستہ کچھ ہو جاتا تو سندھ میں حالات بہت زیادہ خراب ہو سکتے تھے ۔ ان پر حملہ کرنے والوں کا مطمع نظر بھی شاید یہی تھا کہ سندھ میں امن قائم ہونے کے تاثر کو ختم کیا جائے ۔ مولانا تقی عثمانی اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں اور ہر مسلک کے لوگ ان کا احترام کرتے ہیں ۔ ان پر دہشت گردوں کے حملے نے لوگوں میں خدشات پیدا کردیئے ہیں ۔ اْنہیں خوف ہے کہ سندھ خصوصاً کراچی کا امن تباہ کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں ۔ اس واقعہ کے بعد لوگ یہ دعا کر رہے ہیں کہ سندھ میں امن قائم رہے کیونکہ یہ واقعہ پیپلز پارٹی کی عوامی رابطہ مہم سے پہلے ہوا ہے۔
سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور 20 اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے انتخابات اپوزیشن کی شرکت کے بغیر ہو چکے ہیں اور تمام ارکان بلا مقابلہ کامیاب قرار دیئے گئے ہیں ۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کا جاری احتجاج کیا رخ اختیار کرتا ہے، اس پر سیاسی حلقوں میںقیاس آرائیاں جاری ہیں ۔ کراچی میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے فائنل سمیت آٹھ میچز کے پرامن اور کامیاب انعقاد کے بعد دہشت گردی کا ایک بہت بڑا واقعہ رونما ہوا ہے۔ دہشت گردوں نے ممتاز عالم دین مولانا تقی عثمانی پر حملہ کیا لیکن وہ خوش قسمتی سے بچ گئے ۔ ان کا محافظ ایک پولیس کانسٹیبل شہید ہو گیا ۔ اس واقعہ نے لوگوں کے ذہنوں میں بہت سے خدشات کو جنم دیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کی عوامی رابطہ مہم سے قبل بڑے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اور دیگر اہم شخصیات کے خلاف مبینہ جعلی اکاؤنٹس کیس بینکنگ کورٹ کراچی سے نیب راولپنڈی کو منتقل ہو چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد سابق صدر آصف علی زرداری کو گزشتہ ہفتے نیب نے راولپنڈی میں طلب کرکے پوچھ گچھ کی ۔ نیب نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو بھی طلب کیا اور ان سے ڈیڑھ گھنٹے تک سوالات کیے ۔ نیب کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے اور ایف بی آر بھی زیادہ متحرک ہو گئے ہیں ۔
اس پس منظر میں پیپلز پارٹی کی عوامی رابطہ مہم کے بارے میں پیپلز پارٹی کے مخالفین اور حامیوں کی اپنی اپنی آراء ہیں۔ مخالفین کا کہنا یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اپنے والد آصف علی زرداری اور دیگر رہنماؤں کو احتساب سے بچانے کے لیے یہ مہم چلا رہے ہیں ۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری خاص طور پر اسی طرح کی باتیں کر رہے ہیں جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت اور اس کے حامیوں کا مؤقف یہ ہے کہ احتساب کے نام پر جو کچھ کیا جا رہا ہے، وہ کچھ حلقوں کا پرانا ایجنڈا ہے، جس پر بتدریج عمل کیا جا رہا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں مقبول سیاسی قیادت اور عوامی سیاست کا خاتمہ کر دیا جائے۔
پاکستان میں بلا امتیاز احتساب نہیں ہو رہا ۔ اس پرانے ایجنڈے کا ایک بار پھر مقابلہ کرنے کے لیے پیپلز پارٹی عوام سے رجوع کر رہی ہے ۔ پیپلز پارٹی مخالف حلقوں کی رائے ان کے نزدیک درست ہو گی لیکن عوامی طاقت اور سندھ کے مزاحمتی سیاسی مزاج کا شاید انہیں اس طرح اندازہ نہیں ہے، جس طرح سیاست اور تاریخ کا ادراک رکھنے والوں کو ہونا چاہیے۔
سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کی تین سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) نے اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ، ان کا مطالبہ تھا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ انہیں دی جائے۔ اپوزیشن کے احتجاج کے دوران ہی سندھ حکومت نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا ۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے نامزدگی فارم جمع نہیں کرائے، لہٰذا کمیٹیوں کے لیے تمام امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہو گئے ۔
سندھ حکومت نے سندھ اسمبلی کی 34 میں سے 20 کمیٹیوں پر انتخابات کرائے اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے بھی انتخابات کرا دیئے گئے ۔ فریال تالپور اور شرجیل انعام میمن بھی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ارکان منتخب ہوئے۔ شرجیل میمن نے بوجوہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ۔ وہ باقی کمیٹیوں کے رکن رہیں گے ۔ پیپلز پارٹی کے غلام قادر چانڈیو کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا ہے ۔ حکومت سندھ نے 14 اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے انتخابات مؤخر کردیئے ہیں ۔ یہ کمیٹیاں اپوزیشن کو دینے کی بات ہو رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن اپنا احتجاج ختم کرتی ہے یا نہیں اور باقی 14 اسٹینڈنگ کمیٹیوں میں اپنے ارکان کے نام دیتی ہے یا نہیں؟ ۔ ان سوالوں کا جواب سندھ کی مستقبل قریب کی سیاست سے ہی مل سکتا ہے۔
ممتاز عالم دین اور دارالعلوم کورنگی کے سربراہ مولانا تقی عثمانی کو دہشت گردوں کے حملے دوران خدانخواستہ کچھ ہو جاتا تو سندھ میں حالات بہت زیادہ خراب ہو سکتے تھے ۔ ان پر حملہ کرنے والوں کا مطمع نظر بھی شاید یہی تھا کہ سندھ میں امن قائم ہونے کے تاثر کو ختم کیا جائے ۔ مولانا تقی عثمانی اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں اور ہر مسلک کے لوگ ان کا احترام کرتے ہیں ۔ ان پر دہشت گردوں کے حملے نے لوگوں میں خدشات پیدا کردیئے ہیں ۔ اْنہیں خوف ہے کہ سندھ خصوصاً کراچی کا امن تباہ کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں ۔ اس واقعہ کے بعد لوگ یہ دعا کر رہے ہیں کہ سندھ میں امن قائم رہے کیونکہ یہ واقعہ پیپلز پارٹی کی عوامی رابطہ مہم سے پہلے ہوا ہے۔