وزیر اعلیٰ کی وزیراعظم سے ملاقات مختلف معاملات پر مشاورت
بی آرٹی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے قیام سے متعلق معاملہ تو فی الحال ختم ہوگیا ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی وزیراعظم سے اچانک ملاقات سے سب کے کان کھڑے ہونا لازمی تھا کیونکہ اس سے ایک دن قبل وزیراعظم نے پنجاب کے وزیراعلیٰ کو بلا کر انھیں اچھی خاصی ''ہدایات'' دی تھیں جس کے اگلے ہی روز جب خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمودخان، وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے لیے پہنچے توگماں کیا گیا کہ خیبرپختونخوا کے معاملات پر بھی ''ہدایات''ملیں گی اور ہو سکتا ہے کہ اس قرارداد پر بھی پوچھ گچھ ہو جو خیبرپختونخوا اسمبلی نے عالمی یوم نسواں پر منعقدہ خواتین مارچ کے خلاف متفقہ طور پر منظور کی۔
تاہم مذکورہ ملاقات کے حوالے سے یہی خبر باہر آئی ہے کہ وزیراعظم نے وزیراعلیٰ کو بی آرٹی کے ادھورے منصوبے کے افتتاح سے روک دیا اور ہدایت کی کہ جب منصوبہ مکمل ہو تب اس کا افتتاح کیا جائے تاکہ اس پر سیاست بازی نہ ہو سکے، تاہم یہ اطلاعات بھی ہیں کہ صوبائی حکومت کے حوالے سے بھی وزیراعلیٰ کو ''وعظ ونصیحت ''کی گئی کیونکہ بہرکیف وزیراعظم عمران خان تحریک انصاف کے چیئرمین بھی ہیں جو اپنی پارٹی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر پوری طرح نظر رکھے ہوئے ہیں ۔
چونکہ اس وقت صوبائی دارالحکومت پشاورکا سب سے ہاٹ ایشو بی آرٹی ہی ہے اس لیے وزیراعلیٰ جنہوں نے23 مارچ کو مذکورہ منصوبہ کا افتتاح کرنے کا اعلان کر رکھا تھا وہ اس کے افتتاح سے قبل اپنے بگ باس سے ہدایات لینے گئے اور بگ باس نے انھیں افتتاح سے روک دیا کیونکہ جس طرح بی آرٹی کا منصوبہ 6 ماہ میں مکمل کرنے کی غیرحقیقت پسندانہ ڈیڈ لائن دی گئی تھی اسی طرح جب اس کا افتتاح23 مارچ کو کرنے کا اعلان کیا گیا تو اس وقت بھی سب کو نظر آرہا تھا کہ اس اعلان کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکے گا کیونکہ منصوبہ کو پورے طریقے سے فعال ہونے میں ابھی بھی تین سے چار ماہ لگیں گے یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عین وقت پر اس منصوبے کے افتتاح سے ہاتھ کھینچ لیا اور وزیراعظم کو اس معاملے میں ڈالتے ہوئے اپنے لیے محفوظ راستہ تلاش کیا۔
تاہم جہاں تک منصوبہ کا تعلق ہے تو اس کے حوالے سے صوبائی اسمبلی میں بھی اچھی خاصی لے دے ہوئی ہے اور اپوزیشن کا مطالبہ رہا کہ اس کی نگرانی کے لیے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے جسے حکومت نے نہیں مانا ۔
اپوزیشن کے مطالبے کے جواب میں حکومت کی جانب سے بڑے کھلے انداز میں پیشکش کی گئی کہ وہ اس سلسلے میں ایوان میں بحث کرانے اور تمام تر ریکارڈ پیش کرنے کے لیے تیار ہے تاہم اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی مصر رہے کہ ہر صورت اس کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے جس سے شکوک وشبہات بھی پیدا ہوئے کہ حکومت جو بحث کھلے بندوں سب کے سامنے کرانے کی خواہاں ہے، اپوزیشن اسے بند کمرے میں کیوں لے جانا چاہتی ہے؟
یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کے اس مطالبے کو مختلف جامے پہنائے گئے تاہم حکومت کے انکار سے یہ معاملہ پارلیمان کے اندر وقتی طور پر دب گیا ہے لیکن چونکہ اپوزیشن ہی کی ریکوزیشن پر طلب کردہ اجلاس جاری ہے جس میں اپوزیشن ہی کی جانب سے دیا گیا ایجنڈا زیر بحث لایا جائے گا اس لیے اپوزیشن دوبارہ بھی یہی مطالبہ کرسکتی ہے تاہم اس بارے میں وزیر بلدیات شہرام ترکئی سمیت پوری حکومت بھی بڑی واضح ہے کہ منصوبے کے حوالے سے ایوان میں بحث تو کرائی جا سکتی ہے لیکن پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی کوئی تک نہیں بنتی کیونکہ حکومت اسے اپوزیشن کی جانب سے مداخلت تصور کر رہی ہے ۔
بی آرٹی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے قیام سے متعلق معاملہ تو فی الحال ختم ہوگیا ہے تاہم جہاں تک خواتین مارچ کے خلاف خیبرپختونخوا اسمبلی کی جانب سے منظور کردہ متفقہ قرارداد کا تعلق ہے تو یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا کیونکہ وہ این جی اوز جو مذکورہ مارچ کا انعقاد کرانے میں پیش ، پیش تھیں انھیں اس قرارداد کے حوالے سے پیپلزپارٹی اور اے این پی کا کردار ہضم نہیں ہو پا رہا، جمیعت علماء اسلام (ف) ہو، جماعت اسلامی یا پھر مسلم لیگ(ن)، ان کی جانب سے ایسے مارچ اور اس میں لگنے والے نعروں کی مخالفت تو ہونی ہی تھی تاہم جہاں تک پیپلزپارٹی اور اے این پی کی جانب سے اس قرارداد کو دائیں بازو کی جماعتوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر منظور کرانے کا تعلق ہے تو اسے حیرانگی کی نظر سے دیکھاجا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن نگہت اورکزئی سے اس پر جواب طلبی کر لی ہے کہ انہوںنے قرارداد پر دستخط کیوں کیے؟
سینیٹر سراج الحق ایک مرتبہ پھر جماعت اسلامی کے مرکزی امیر منتخب ہوگئے ہیں اور آئندہ پانچ سالوں تک پارٹی کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں رہے گی، ان کے ساتھ پینل میں لیاقت بلوچ اور پروفیسر ابراہیم شریک تھے تاہم یہ بڑے واضح انداز میں دکھائی دے رہا تھا کہ سراج الحق ہی کو دوبارہ امارت کی ذمہ داریاں حوالے کی جائیں گی کیونکہ سوائے سید منور حسن کے جماعت اسلامی کے دیگر تینوں امراء نے ایک سے زائد دورانئے کے لیے امارت کی ذمہ داریاں نبھائیں اور موجودہ امیر سراج الحق اپنے پیش رو سید منورحسن کی طرح کسی تنازعہ کا شکار بھی نہیں تھے کہ ان کی جگہ لیاقت بلوچ یا پروفیسر ابراہیم کا انتخاب کیا جاتا، جماعت اسلامی اپنے نئے امیر کے انتخاب سے تو فارغ ہوگئی لیکن ساتھ ہی اس نے ایم ایم اے سے بھی اپنی راہیں جدا کر لی ہیں، اگرچہ عام انتخابات میں ایم ایم اے کا جو حال ہوا اس کو دیکھتے ہوئے ہی ایم ایم اے کا مستقبل بڑا واضح دکھائی دے رہا تھا تاہم جماعت اسلامی کے قائم مقام مرکزی امیر لیاقت بلوچ نے باقاعدہ طور پر اعلان کرتے ہوئے ایم ایم اے سے راہیں جدا کر لی ہیں۔
جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ پہلے ہی اس بات کی منظوری دے چکی تھی کہ جماعت اسلامی کو اپنی راہیں ایم ایم اے سے جدا کر لینی چاہئیں اور جو بھی انتخابات منعقد ہوں ان میں وہ ایم ایم اے کے انتخابی نشان کی بجائے اپنے الگ انتخابی نشان کے ساتھ میدان میں اترے جس کی ابتداء وہ قبائلی علاقہ جات میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات سے کرنے جا رہے ہیں جس میں جماعت اسلامی ترازو کے انتخابی نشان کے ساتھ میدان میں اترے گی۔
تاہم جماعت اسلامی کی جانب سے باقاعدہ طور پر ایم ایم اے سے اپنی راہیں جداکرنے کے بعد اس کے ان ارکان کی پارلیمانی حیثیت پر ضرور سوالیہ نشان لگ گیا ہے جو قومی اسملبی یا صوبائی اسمبلی میں جماعت اسلامی کی بجائے ایم ایم اے کے ارکان کی حیثیت سے موجود ہیں، مذکورہ ارکان نے عام انتخابات میں جماعت اسلامی کی بجائے ایم ایم اے کے ٹکٹ اور انتخابی نشان پر حصہ لیا تھا اور اسی حیثیت سے کامیاب ہوئے، تاہم اب اگر جماعت اسلامی،ایم ایم اے سے الگ ہوتی ہے تو اس صورت میں اس کے ان ارکان کی حیثیت پر سوالیہ نشان ضرور لگے گا۔
اور اگر جے یوآئی نے ترکی بہ ترکی جواب دینے کا فیصلہ کیا تو اس صورت میں ایم ایم اے کے سربراہ کی حیثیت سے مولانا فضل الرحمٰن جماعت اسلامی کے ان ارکان کو نااہل قراردلوانے کے لیے ریفرنس بھیج سکتے ہیں تاہم بظاہر یہی لگتا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اس حد تک نہیں جائیں گے کیونکہ ان کا فوکس ایک جانب موجودہ مرکزی حکومت کا بوریا بستر گول کرنے پر ہے تو دوسری جانب وہ قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی انتخابات پر بھی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں جس کے لیے انہوں نے شمالی وزیرستان میں ملین مارچ کا انعقادکیا اور اب قبائلی اضلاع میں سے ان کا اگلا پڑائو خیبر ایجنسی میں ہوگاجس کے بعد دیگر قبائلی اضلاع کی باری بھی آئے گی تاکہ وہاں سے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ سپورٹ اور نشستوں کے حصول کو یقینی بنا سکے۔
تاہم مذکورہ ملاقات کے حوالے سے یہی خبر باہر آئی ہے کہ وزیراعظم نے وزیراعلیٰ کو بی آرٹی کے ادھورے منصوبے کے افتتاح سے روک دیا اور ہدایت کی کہ جب منصوبہ مکمل ہو تب اس کا افتتاح کیا جائے تاکہ اس پر سیاست بازی نہ ہو سکے، تاہم یہ اطلاعات بھی ہیں کہ صوبائی حکومت کے حوالے سے بھی وزیراعلیٰ کو ''وعظ ونصیحت ''کی گئی کیونکہ بہرکیف وزیراعظم عمران خان تحریک انصاف کے چیئرمین بھی ہیں جو اپنی پارٹی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر پوری طرح نظر رکھے ہوئے ہیں ۔
چونکہ اس وقت صوبائی دارالحکومت پشاورکا سب سے ہاٹ ایشو بی آرٹی ہی ہے اس لیے وزیراعلیٰ جنہوں نے23 مارچ کو مذکورہ منصوبہ کا افتتاح کرنے کا اعلان کر رکھا تھا وہ اس کے افتتاح سے قبل اپنے بگ باس سے ہدایات لینے گئے اور بگ باس نے انھیں افتتاح سے روک دیا کیونکہ جس طرح بی آرٹی کا منصوبہ 6 ماہ میں مکمل کرنے کی غیرحقیقت پسندانہ ڈیڈ لائن دی گئی تھی اسی طرح جب اس کا افتتاح23 مارچ کو کرنے کا اعلان کیا گیا تو اس وقت بھی سب کو نظر آرہا تھا کہ اس اعلان کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکے گا کیونکہ منصوبہ کو پورے طریقے سے فعال ہونے میں ابھی بھی تین سے چار ماہ لگیں گے یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عین وقت پر اس منصوبے کے افتتاح سے ہاتھ کھینچ لیا اور وزیراعظم کو اس معاملے میں ڈالتے ہوئے اپنے لیے محفوظ راستہ تلاش کیا۔
تاہم جہاں تک منصوبہ کا تعلق ہے تو اس کے حوالے سے صوبائی اسمبلی میں بھی اچھی خاصی لے دے ہوئی ہے اور اپوزیشن کا مطالبہ رہا کہ اس کی نگرانی کے لیے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے جسے حکومت نے نہیں مانا ۔
اپوزیشن کے مطالبے کے جواب میں حکومت کی جانب سے بڑے کھلے انداز میں پیشکش کی گئی کہ وہ اس سلسلے میں ایوان میں بحث کرانے اور تمام تر ریکارڈ پیش کرنے کے لیے تیار ہے تاہم اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی مصر رہے کہ ہر صورت اس کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے جس سے شکوک وشبہات بھی پیدا ہوئے کہ حکومت جو بحث کھلے بندوں سب کے سامنے کرانے کی خواہاں ہے، اپوزیشن اسے بند کمرے میں کیوں لے جانا چاہتی ہے؟
یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کے اس مطالبے کو مختلف جامے پہنائے گئے تاہم حکومت کے انکار سے یہ معاملہ پارلیمان کے اندر وقتی طور پر دب گیا ہے لیکن چونکہ اپوزیشن ہی کی ریکوزیشن پر طلب کردہ اجلاس جاری ہے جس میں اپوزیشن ہی کی جانب سے دیا گیا ایجنڈا زیر بحث لایا جائے گا اس لیے اپوزیشن دوبارہ بھی یہی مطالبہ کرسکتی ہے تاہم اس بارے میں وزیر بلدیات شہرام ترکئی سمیت پوری حکومت بھی بڑی واضح ہے کہ منصوبے کے حوالے سے ایوان میں بحث تو کرائی جا سکتی ہے لیکن پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی کوئی تک نہیں بنتی کیونکہ حکومت اسے اپوزیشن کی جانب سے مداخلت تصور کر رہی ہے ۔
بی آرٹی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے قیام سے متعلق معاملہ تو فی الحال ختم ہوگیا ہے تاہم جہاں تک خواتین مارچ کے خلاف خیبرپختونخوا اسمبلی کی جانب سے منظور کردہ متفقہ قرارداد کا تعلق ہے تو یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا کیونکہ وہ این جی اوز جو مذکورہ مارچ کا انعقاد کرانے میں پیش ، پیش تھیں انھیں اس قرارداد کے حوالے سے پیپلزپارٹی اور اے این پی کا کردار ہضم نہیں ہو پا رہا، جمیعت علماء اسلام (ف) ہو، جماعت اسلامی یا پھر مسلم لیگ(ن)، ان کی جانب سے ایسے مارچ اور اس میں لگنے والے نعروں کی مخالفت تو ہونی ہی تھی تاہم جہاں تک پیپلزپارٹی اور اے این پی کی جانب سے اس قرارداد کو دائیں بازو کی جماعتوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر منظور کرانے کا تعلق ہے تو اسے حیرانگی کی نظر سے دیکھاجا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن نگہت اورکزئی سے اس پر جواب طلبی کر لی ہے کہ انہوںنے قرارداد پر دستخط کیوں کیے؟
سینیٹر سراج الحق ایک مرتبہ پھر جماعت اسلامی کے مرکزی امیر منتخب ہوگئے ہیں اور آئندہ پانچ سالوں تک پارٹی کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں رہے گی، ان کے ساتھ پینل میں لیاقت بلوچ اور پروفیسر ابراہیم شریک تھے تاہم یہ بڑے واضح انداز میں دکھائی دے رہا تھا کہ سراج الحق ہی کو دوبارہ امارت کی ذمہ داریاں حوالے کی جائیں گی کیونکہ سوائے سید منور حسن کے جماعت اسلامی کے دیگر تینوں امراء نے ایک سے زائد دورانئے کے لیے امارت کی ذمہ داریاں نبھائیں اور موجودہ امیر سراج الحق اپنے پیش رو سید منورحسن کی طرح کسی تنازعہ کا شکار بھی نہیں تھے کہ ان کی جگہ لیاقت بلوچ یا پروفیسر ابراہیم کا انتخاب کیا جاتا، جماعت اسلامی اپنے نئے امیر کے انتخاب سے تو فارغ ہوگئی لیکن ساتھ ہی اس نے ایم ایم اے سے بھی اپنی راہیں جدا کر لی ہیں، اگرچہ عام انتخابات میں ایم ایم اے کا جو حال ہوا اس کو دیکھتے ہوئے ہی ایم ایم اے کا مستقبل بڑا واضح دکھائی دے رہا تھا تاہم جماعت اسلامی کے قائم مقام مرکزی امیر لیاقت بلوچ نے باقاعدہ طور پر اعلان کرتے ہوئے ایم ایم اے سے راہیں جدا کر لی ہیں۔
جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ پہلے ہی اس بات کی منظوری دے چکی تھی کہ جماعت اسلامی کو اپنی راہیں ایم ایم اے سے جدا کر لینی چاہئیں اور جو بھی انتخابات منعقد ہوں ان میں وہ ایم ایم اے کے انتخابی نشان کی بجائے اپنے الگ انتخابی نشان کے ساتھ میدان میں اترے جس کی ابتداء وہ قبائلی علاقہ جات میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات سے کرنے جا رہے ہیں جس میں جماعت اسلامی ترازو کے انتخابی نشان کے ساتھ میدان میں اترے گی۔
تاہم جماعت اسلامی کی جانب سے باقاعدہ طور پر ایم ایم اے سے اپنی راہیں جداکرنے کے بعد اس کے ان ارکان کی پارلیمانی حیثیت پر ضرور سوالیہ نشان لگ گیا ہے جو قومی اسملبی یا صوبائی اسمبلی میں جماعت اسلامی کی بجائے ایم ایم اے کے ارکان کی حیثیت سے موجود ہیں، مذکورہ ارکان نے عام انتخابات میں جماعت اسلامی کی بجائے ایم ایم اے کے ٹکٹ اور انتخابی نشان پر حصہ لیا تھا اور اسی حیثیت سے کامیاب ہوئے، تاہم اب اگر جماعت اسلامی،ایم ایم اے سے الگ ہوتی ہے تو اس صورت میں اس کے ان ارکان کی حیثیت پر سوالیہ نشان ضرور لگے گا۔
اور اگر جے یوآئی نے ترکی بہ ترکی جواب دینے کا فیصلہ کیا تو اس صورت میں ایم ایم اے کے سربراہ کی حیثیت سے مولانا فضل الرحمٰن جماعت اسلامی کے ان ارکان کو نااہل قراردلوانے کے لیے ریفرنس بھیج سکتے ہیں تاہم بظاہر یہی لگتا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اس حد تک نہیں جائیں گے کیونکہ ان کا فوکس ایک جانب موجودہ مرکزی حکومت کا بوریا بستر گول کرنے پر ہے تو دوسری جانب وہ قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی انتخابات پر بھی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں جس کے لیے انہوں نے شمالی وزیرستان میں ملین مارچ کا انعقادکیا اور اب قبائلی اضلاع میں سے ان کا اگلا پڑائو خیبر ایجنسی میں ہوگاجس کے بعد دیگر قبائلی اضلاع کی باری بھی آئے گی تاکہ وہاں سے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ سپورٹ اور نشستوں کے حصول کو یقینی بنا سکے۔