آگاہی اور سہولتوں کی شدید قلت سالانہ 12 ہزار خواتین اور 16700 بچے دوران زچگی ہلاک

پختونخوا میں سالانہ 1700 خواتین دوران زچگی جاں بحق، بڑی وجہ بیٹا پیدا کرنے کی خواہش۔

ہلاکتوں کی وجہ دور دراز علاقوں میں سرکاری میٹرنٹی ہومز کی شدیدقلت اور ا تائی دائیوں کے ہاتھوں ڈیلیوری آپریشن بھی ہیں۔ فوٹو: فائل

خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی گل سنگا کی پہلے ہی 6بیٹیاں ہیں اپنی خراب صحت اور زچگی مسائل کی وجہ سے اب وہ مزید بچے پیدا نہیں کرنا چاہتی تھیں لیکن معمول کے چیک اپ کے دوران لیڈی ڈاکٹر نے انھیں بتایاکہ وہ دوبارہ حاملہ ہیں ۔

کلینک سے باہر نکلتے ہوئے روایتی شٹل کاک برقعے میں ملبوس گل سنگا نے غمزدہ لہجے میں کہا کہ ڈاکٹر نے انھیں واضح بتایا ہے کہ ایک اور بچہ پیدا کرنے سے میری موت واقع ہو سکتی ہے لیکن مجبوری یہ ہے کہ میرے شوہر بیٹے کی پیدائش کے خواہشمند ہیں۔گل سنگا نے مزید کہا کہ میں نے آنیوالے بچے کو ہر صورت جنم دینا ہے کیونکہ میرے شوہر نے دھمکی دی ہے کہ اگر میں نے اس حمل کو جاری نہ رکھا تو وہ دوسری شادی کر لیں گے ۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال لگ بھگ 12000خواتین دوران زچگی جاں بحق ہوجاتی ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں دوران زچگی ہلاک ہونے والی ایسی خواتین کی سالانہ تعداد 1700 کے قریب ہے ۔

پاپولیشن کونسل آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال لگ بھگ 5 لاکھ 60ہزار خواتین نے اپنی مرضی کے بغیر بچوں کو جنم دیا جس کی بڑی وجہ پسماندہ علاقوں میں مانع حمل ادویات کے استعمال کا فقدان ہے۔


صوبائی بہود آبادی کے ڈی جی فضل نبی نے بتایا کہ مشترکہ مفادات کونسل اور سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اب ہم نے صوبے بھر میں قبل از شادی کونسلنگ کمیٹٰی قائم کر دی ہے جس میں مکحمکہ بہبود آبادی اور صوبائی خواتین کمیشن کی اہلکار شامل ہیں۔

پاپولیشن کونسل کی پراجیکٹ ڈائریکٹرصائمہ علی شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان فیملی پلاننگ بارے اگاہی پیدا کرنے پر فی کس ڈیڑھ ڈالر خرچ کرتا ہے جبکہ بنگلہ دیش میں فی کس 3 ڈالر سے زیادہ خرچ کر رہاہے ۔ پاکستان کی اس مسلے پر پیچھے رہ جانیکی وجہ بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان پہلے مانع حمل ادویات باہر سے منگواتا تھا اب جبکہ تمام ادویات پاکستان میں تیار کی جارہی ہیں ۔

انھوں نے مزید بتایا کہ کے پی میں آبادی میں اضافے کی بڑی وجہ فیملی پلاننگ بارے قائم سنٹرزکی کمی اور صوبے میں دائیوں کی جانب سے گھروں میں دیسی طریقے سے ڈیلیوری کروانا ہے جس وجہ سے زچہ بچہ کی شرح اموات میں اضافہ دیکھا جاتا ہے۔

فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن پاکستان کے پروگرام مینجر گوہر زمان کا کہنا ہے کہ لندن میں ہونے والے فیملی پلاننگ سمٹ میں پاکستان نے عہد کیا تھاکہ وہ ملک میں مانع حمل اداویات کی موجودگی کی شرح کو تیس فیصد سے بڑھا کرپچپن فیصد کریگا تاہم پاکستان نے ابھی تک یہ ٹارگٹ حاصل نہیں کیا ۔
Load Next Story