قربانی کی بانہوں میں ملتی ہے آزادی
یہ عید بھی گزر گئی اور اس کے ساتھ ساتھ دل پر کیا کچھ گزر گیا۔ گزشتہ دنوں کوئٹہ والوں پر ایک اورقیامت گزر گئی۔
یہ عید بھی گزر گئی اور اس کے ساتھ ساتھ دل پر کیا کچھ گزر گیا۔ گزشتہ دنوں کوئٹہ والوں پر ایک اورقیامت گزر گئی۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک اور سیاہ دن گزر گیا۔ کل ہم یوم آزادی منائیں گے، یہ دن بھی گزر جائے گا۔ نہ جانے کتنی عیدیں گزریں، نہ جانے کتنے ایامِ آزادی گزرے اور کیا کچھ نہیں گزرا اُن دلوں پر، جن کے گھر اُجڑے، جن کے سہارے لُٹے، جن کا چین تو بے قراری میں بدلا لیکن حالات نہ بدلے۔
دن آتے رہے، سانحات ہوتے رہے اور دن گزرتے رہے۔ حکومتیں آتی رہیں اور گزرتی رہیں، ایک دوسرے پر الزامات لگاتی رہیں۔ آمریت اور جمہوریت بے گناہوں کی مقتل گاہ بنتی رہی۔ ہم داد و تحسین کے لائق ہیں کہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے۔ اپنے حال میں مست اور خود کو دھوکا دینے کی مشقت میں مبتلا ہیں، اور اب آج ایک اور یوم آزادی۔ کیا آزادی صرف زمین کا ٹکڑا حاصل کرلینے کا نام ہے؟
میں ''حرفِ آزادی'' پر کوئی لیکچر دینے کا ارادہ نہیں رکھتا، صرف اتنی خواہش ہے کہ آپ سے مخاطب ہوکر کچھ سوالات اپنے آپ سے پوچھوں، کچھ کے جوابات آپ تلاش کرکے دیں۔ شاید یہ الجھن کسی طرح سلجھ جائے۔ بے قراری کو چین آئے۔ ہماری قومی جمالیات کو کیا ہوگیا ہے؟ رواں برس کوئٹہ میں اتنے لوگ مرے، ہم نے خوشی خوشی عید منالی۔ گزشتہ برس کراچی میں رمضان میں خون کی ہولی کھیلی گئی، اب بھی وہ کسی نہ کسی طرح جاری ہے، ہم نے پھر بھی خوشی منالینے کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ وزیرستان میں ڈرون حملوں میں مرنے والے خاندان، معصوم بچے، پشاور میں مسلسل بم دھماکوں سے مرنے والے افراد اور ملک بھر میں قتل و غارت کا ایک طویل سلسلہ جاری ہے، مگر ہم پیچھے مڑکر دیکھنا ہی نہیں چاہتے کہ کہیں ہم پتھر کے نہ ہوجائیں۔
ایسا لگتا ہے، ہمیں جس بات کا ڈر تھا، وہ بات ہوچکی۔ ہم پیچھے دیکھے بغیر ہی پتھر کے ہوگئے۔ دل جس کو درد کا مسکن کہتے ہیں، وہ پتھر کی آماجگاہ بن چکا۔ کوئی سانحہ اور المیہ ہمیں نہیں جھنجھوڑتا، ہم عادی ہوگئے ہیں۔ بھلا پتھروں کے کیا جذبات ہوں گے؟ عالیشان عمارتوں کے سنگ اور اعلیٰ منصب پر قائم رہنے والے، اپنے وجود پر ناز کرتے ہیں، لیکن انھیں یاد نہیں رہتا کہ قبر کا کتبہ بھی پتھر سے ہی بنتا ہے۔
عوام نے گزشتہ ایک سو برس میں کیا کچھ نہیں جھیلا۔ پہلے فرنگی حکمرانوں کی چومکھی سیاست جھیلی، پھر ہندوؤں کا دوغلا پن جھیلا۔ عشق اور جنون واحد متاع حیات تھی، جس کی بنیاد پر ملک حاصل کیا، مگر ابھی بھی بہت کچھ جھیلنا باقی تھا۔ ملک پوری طرح اپنے قدموں پر قائم بھی نہیں ہوا تھا، تو پٹ سن کی لڑائی میں ایک بازو گنوا بیٹھے۔ اب گیس کی لڑائی میں دوسرے بازو والے جُدا ہونے کی جلدی میں ہیں۔ وطن سے دور حصول رزق کی خاطر جانے والے مزدوروں کو بسوں سے اتار کر زبان کی بنیاد پر مار رہے ہیں۔
کاش ہماری عقل، نفس اور احساس کو بھی 1947 میں آزادی مل گئی ہوتی۔ قدرت انسانیت کا تھوڑا سا بھرم ہماری جھولی میں ڈال دیتی۔ ہم ہیں کہ لڑے جارہے ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام لگانا تو ہمارا قومی مشغلہ ہے اور اپنے غلط کیے پر اکڑنا قومی بدمعاشی۔ اندھی تنقید تو خیر اب عام سی بات ہے۔ پتھر موم نہیں ہوا کرتے، صرف ٹوٹ سکتے ہیں۔
وہ لوگ جو ہجرت کرکے آئے اور جنھوں نے ان کا استقبال کیا، دونوں نے آزادی کی چاہ میں اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر یہ قربانی کی لڑائی لڑی تھی۔ پاکستان کے حصے میں کون سا خطہ آئے گا، یہ بعد میں طے ہوا، لیکن یہاں تو مسئلہ ہی دوسرا ہے۔ کشمیر اور فلسطین کی حالت زار دیکھ کر بھی ہم سبق نہیں سیکھتے۔ یہ باہمی چپقلش صرف سیاست تک محدود رہتی تو شاید ہم اسے ہجوم کو قوم میں بدلنے کا مرحلہ سمجھ لیتے، لیکن ہم نے تو مذہب، ذات، علاقہ، زبان کسی پہلو کو بھی نہیں چھوڑا۔ ہم تو نیکی میں بھی دکھاوے کا تڑکا لگاتے ہیں۔ رمضان میں نیکی کی دکانیں سجانے میں ہم سے بہتر کون تھا دنیا بھر میں؟
میں اپنے شعبے اور معاشرے کے تعصب سے پاک بزرگوں کے پاس بیٹھ کر یہ سمجھاکہ ہم نے بحیثیت قوم صرف سطحی طور پر تہواروں اور عقیدوں کو اپنایا ہے۔ مذہب کی روح، سماج کی اخلاقیات، نیکی کا فلسفہ، زخم کی سوزش اور علاج کی دوا پر ہم نے کوئی غور کبھی کیا ہی نہیں۔ اس کالم سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا، ہم تو مقدس حروفوں پر عمل پیرا نہیں ہوتے، تو یہ عام سے حروف کسی کی سوچ کا کیا بگاڑ لیں گے۔
میں نے جب صحافت کی ابتدا کی، تو اپنے آپ سے یہ عہد کیا کہ سیاست اور مذہب پر صحافت نہیں چمکانی۔ اس پیشے کے ذریعے عوام کی جمالیات کو بیدار کرنا ہے، کیونکہ میں جانتا ہوں، اتنی قربانیوں کے بعد ملنے والے وطن کی مٹی ابھی اتنی بنجر نہیں ہوئی کہ وہ زرخیز اذہان اور لطیف جذبات کے حامل افراد پیدا نہ کرسکے۔ لہٰذا اب تک میں نے فنون لطیفہ کی سیکڑوں شخصیات کے انٹرویوز کیے۔ گلوکاروں سے ان کے گیتوں کا فلسفہ سمجھا۔ اداکاروں سے ان کے کرداروں اور لکھاریوں سے ان کے لفظوں کی معنویت کو جانا اور پھر وہ لوگ جنھیں زندگی جمالیات کا پرتو لگتی ہے، ان کے لیے یہ سب کچھ لکھا، کئی کتابیں تخلیق کیں، اپنی سی کوشش کی، بھلی بری جیسی بھی تھی اور اب بھی کرتا رہتا ہوں۔
ہمارے وطن کا خواب ایک شاعر نے دیکھا۔ قیام پاکستان کی جدوجہد کرنے والوں کے قافلے کا سربراہ ایک وکیل تھا۔ برصغیر کے انگریزوں میں مقبول شخصیت اور انگریزی پر حیرت انگیز عبور رکھنے والا شخص ایک صحافی تھا۔ پاکستان کے لیے فزکس کا نوبیل انعام حاصل کرنے والا ایک سائنسدان تھا۔ روس کا لینن ایوارڈ حاصل کرنے والا بھی ایک شاعر تھا۔ شفیق الرحمن، کرنل محمد خان، صدیق سالک اور ضمیر جعفری جیسی شاندار ادبی روایات کی امین شخصیات فوجی تھیں۔
کیمبرج سسٹم میں ہمارے بچے آئے دن ریکارڈ بنارہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں ملالہ کی تقریر پر بہت سے لوگوں کو اعتراض ہوگا، لیکن اس کے اعتماد پر کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ بھارت کے معروف گیت نگار اور ہدایت کار ''گلزار'' جن کا میں خود بھی مداح ہوں، جب انھوں نے میری ایک کتاب کا فلیپ لکھا، تو ایک دوست نے اس پر شدید اعتراض کیا کہ وہ بھارتی ہیں، میرا جواب تھا۔ ''میں نے ایک ایسے شخص سے یہ فلیپ لکھوایا ہے، جس کے ہاتھ احمد ندیم قاسمی کے پاؤں کو چھویا کرتے تھے۔'' گلزار صاحب کی شہرت سے کون واقف نہیں، لیکن وہ احمد ندیم قاسمی کو اپنا استاد مانتے ہیں اور پاکستان سے بھی بے حد لگاؤ ہے۔ نصرت فتح علی خان کی شہرت تو ہمارے سامنے کی بات ہے اور ہمارے انگریزی ناول لکھنے والوں کا ڈنکا یورپ سمیت پوری دنیا میں بج رہا ہے۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن ہمارے قومی رویوں میں بہت الجھنیں ہے۔ جمیل دہلوی کی فلم ''جناح'' جب پاکستان میں ریلیز ہوئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کو دیکھنے کے لیے قطاریں لگ جاتیں، مگر میں دو مرتبہ جب یہ فلم سینما دیکھنے گیا تو نشستیں بھی پُر نہیں ہوئی تھیں۔ اس فلم میں جدید ٹیکنالوجی بھی تھی، ہالی ووڈ کے بڑے بڑے اداکار بھی، شاندار موسیقی بھی اور بہترین کہانی بھی اور سب سے بڑھ کر ہمارا ماضی بھی، مگر ہم پیچھے مڑکر کہاں دیکھتے ہیں۔ یہ فلم پاکستان میں بری طرح ناکام ہوئی۔
جب تک ہم میںعلامہ اقبال، محمد علی جناح، مولانا محمدعلی جوہر، ڈاکٹر عبدالسلام اور نشان حیدر حاصل کرنے والے شہدا پیدا ہوتے رہیں گے، ہماری تہذیب و ثقافت میں جب تک مہدی حسن، نصرت فتح علی خان، فیض احمد فیض، شیخ ایاز، جون ایلیا، عطا شاد، خاطر غزنوی، چغتائی، صادقین، سعادت حسن منٹو اور جمیل دہلوی پیدا ہوتے رہیں گے، تب تک ہمارے وطن کا پرچم سربلند ہے۔
ہمارے مصور، شاعر، ادیب، فلسفی، موسیقار، گلوکار، ہدایت کار، اداکار، صداکار، رقاص، مصنف، مورخ، سائنسدان، صحافی اور دیگر تخلیقی شعبوں کی شخصیات، جن کے سینے میں دل دھڑکتا ہے، جو پیچھے مڑ کر دیکھیں تو پتھر نہیں ہوتے، یہ ہمارا حقیقی چہرہ ہیں۔ ہم نے اپنی تہذیب اور شناخت بچالی تو باقی سب کچھ محفوظ ہوجائے گا۔
جمیل دہلوی کی فلم ''جناح'' کا مرکزی گیت صابر ظفر نے لکھا ہے، اس گیت کے ایک مصرعے کو میں نے آج کے کالم کا عنوان بنایا ہے۔ اِن کا شکریہ۔ عہدِ حاضر کے شاعر کا یہ خوب صورت گیت دل کو نرم کرتا ہے اور یوم آزادی کے لطیف احساس کو بھی ابھارتا ہے، اور کیا چاہیے میرے اچھے فنکار سے۔ اہلِ نفرت کے لیے آج اتنا ہی کافی ہے۔
آپ سب کوپیشگی یومِ آزادی مبارک ہو۔
دن آتے رہے، سانحات ہوتے رہے اور دن گزرتے رہے۔ حکومتیں آتی رہیں اور گزرتی رہیں، ایک دوسرے پر الزامات لگاتی رہیں۔ آمریت اور جمہوریت بے گناہوں کی مقتل گاہ بنتی رہی۔ ہم داد و تحسین کے لائق ہیں کہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے۔ اپنے حال میں مست اور خود کو دھوکا دینے کی مشقت میں مبتلا ہیں، اور اب آج ایک اور یوم آزادی۔ کیا آزادی صرف زمین کا ٹکڑا حاصل کرلینے کا نام ہے؟
میں ''حرفِ آزادی'' پر کوئی لیکچر دینے کا ارادہ نہیں رکھتا، صرف اتنی خواہش ہے کہ آپ سے مخاطب ہوکر کچھ سوالات اپنے آپ سے پوچھوں، کچھ کے جوابات آپ تلاش کرکے دیں۔ شاید یہ الجھن کسی طرح سلجھ جائے۔ بے قراری کو چین آئے۔ ہماری قومی جمالیات کو کیا ہوگیا ہے؟ رواں برس کوئٹہ میں اتنے لوگ مرے، ہم نے خوشی خوشی عید منالی۔ گزشتہ برس کراچی میں رمضان میں خون کی ہولی کھیلی گئی، اب بھی وہ کسی نہ کسی طرح جاری ہے، ہم نے پھر بھی خوشی منالینے کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ وزیرستان میں ڈرون حملوں میں مرنے والے خاندان، معصوم بچے، پشاور میں مسلسل بم دھماکوں سے مرنے والے افراد اور ملک بھر میں قتل و غارت کا ایک طویل سلسلہ جاری ہے، مگر ہم پیچھے مڑکر دیکھنا ہی نہیں چاہتے کہ کہیں ہم پتھر کے نہ ہوجائیں۔
ایسا لگتا ہے، ہمیں جس بات کا ڈر تھا، وہ بات ہوچکی۔ ہم پیچھے دیکھے بغیر ہی پتھر کے ہوگئے۔ دل جس کو درد کا مسکن کہتے ہیں، وہ پتھر کی آماجگاہ بن چکا۔ کوئی سانحہ اور المیہ ہمیں نہیں جھنجھوڑتا، ہم عادی ہوگئے ہیں۔ بھلا پتھروں کے کیا جذبات ہوں گے؟ عالیشان عمارتوں کے سنگ اور اعلیٰ منصب پر قائم رہنے والے، اپنے وجود پر ناز کرتے ہیں، لیکن انھیں یاد نہیں رہتا کہ قبر کا کتبہ بھی پتھر سے ہی بنتا ہے۔
عوام نے گزشتہ ایک سو برس میں کیا کچھ نہیں جھیلا۔ پہلے فرنگی حکمرانوں کی چومکھی سیاست جھیلی، پھر ہندوؤں کا دوغلا پن جھیلا۔ عشق اور جنون واحد متاع حیات تھی، جس کی بنیاد پر ملک حاصل کیا، مگر ابھی بھی بہت کچھ جھیلنا باقی تھا۔ ملک پوری طرح اپنے قدموں پر قائم بھی نہیں ہوا تھا، تو پٹ سن کی لڑائی میں ایک بازو گنوا بیٹھے۔ اب گیس کی لڑائی میں دوسرے بازو والے جُدا ہونے کی جلدی میں ہیں۔ وطن سے دور حصول رزق کی خاطر جانے والے مزدوروں کو بسوں سے اتار کر زبان کی بنیاد پر مار رہے ہیں۔
کاش ہماری عقل، نفس اور احساس کو بھی 1947 میں آزادی مل گئی ہوتی۔ قدرت انسانیت کا تھوڑا سا بھرم ہماری جھولی میں ڈال دیتی۔ ہم ہیں کہ لڑے جارہے ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام لگانا تو ہمارا قومی مشغلہ ہے اور اپنے غلط کیے پر اکڑنا قومی بدمعاشی۔ اندھی تنقید تو خیر اب عام سی بات ہے۔ پتھر موم نہیں ہوا کرتے، صرف ٹوٹ سکتے ہیں۔
وہ لوگ جو ہجرت کرکے آئے اور جنھوں نے ان کا استقبال کیا، دونوں نے آزادی کی چاہ میں اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر یہ قربانی کی لڑائی لڑی تھی۔ پاکستان کے حصے میں کون سا خطہ آئے گا، یہ بعد میں طے ہوا، لیکن یہاں تو مسئلہ ہی دوسرا ہے۔ کشمیر اور فلسطین کی حالت زار دیکھ کر بھی ہم سبق نہیں سیکھتے۔ یہ باہمی چپقلش صرف سیاست تک محدود رہتی تو شاید ہم اسے ہجوم کو قوم میں بدلنے کا مرحلہ سمجھ لیتے، لیکن ہم نے تو مذہب، ذات، علاقہ، زبان کسی پہلو کو بھی نہیں چھوڑا۔ ہم تو نیکی میں بھی دکھاوے کا تڑکا لگاتے ہیں۔ رمضان میں نیکی کی دکانیں سجانے میں ہم سے بہتر کون تھا دنیا بھر میں؟
میں اپنے شعبے اور معاشرے کے تعصب سے پاک بزرگوں کے پاس بیٹھ کر یہ سمجھاکہ ہم نے بحیثیت قوم صرف سطحی طور پر تہواروں اور عقیدوں کو اپنایا ہے۔ مذہب کی روح، سماج کی اخلاقیات، نیکی کا فلسفہ، زخم کی سوزش اور علاج کی دوا پر ہم نے کوئی غور کبھی کیا ہی نہیں۔ اس کالم سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا، ہم تو مقدس حروفوں پر عمل پیرا نہیں ہوتے، تو یہ عام سے حروف کسی کی سوچ کا کیا بگاڑ لیں گے۔
میں نے جب صحافت کی ابتدا کی، تو اپنے آپ سے یہ عہد کیا کہ سیاست اور مذہب پر صحافت نہیں چمکانی۔ اس پیشے کے ذریعے عوام کی جمالیات کو بیدار کرنا ہے، کیونکہ میں جانتا ہوں، اتنی قربانیوں کے بعد ملنے والے وطن کی مٹی ابھی اتنی بنجر نہیں ہوئی کہ وہ زرخیز اذہان اور لطیف جذبات کے حامل افراد پیدا نہ کرسکے۔ لہٰذا اب تک میں نے فنون لطیفہ کی سیکڑوں شخصیات کے انٹرویوز کیے۔ گلوکاروں سے ان کے گیتوں کا فلسفہ سمجھا۔ اداکاروں سے ان کے کرداروں اور لکھاریوں سے ان کے لفظوں کی معنویت کو جانا اور پھر وہ لوگ جنھیں زندگی جمالیات کا پرتو لگتی ہے، ان کے لیے یہ سب کچھ لکھا، کئی کتابیں تخلیق کیں، اپنی سی کوشش کی، بھلی بری جیسی بھی تھی اور اب بھی کرتا رہتا ہوں۔
ہمارے وطن کا خواب ایک شاعر نے دیکھا۔ قیام پاکستان کی جدوجہد کرنے والوں کے قافلے کا سربراہ ایک وکیل تھا۔ برصغیر کے انگریزوں میں مقبول شخصیت اور انگریزی پر حیرت انگیز عبور رکھنے والا شخص ایک صحافی تھا۔ پاکستان کے لیے فزکس کا نوبیل انعام حاصل کرنے والا ایک سائنسدان تھا۔ روس کا لینن ایوارڈ حاصل کرنے والا بھی ایک شاعر تھا۔ شفیق الرحمن، کرنل محمد خان، صدیق سالک اور ضمیر جعفری جیسی شاندار ادبی روایات کی امین شخصیات فوجی تھیں۔
کیمبرج سسٹم میں ہمارے بچے آئے دن ریکارڈ بنارہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں ملالہ کی تقریر پر بہت سے لوگوں کو اعتراض ہوگا، لیکن اس کے اعتماد پر کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ بھارت کے معروف گیت نگار اور ہدایت کار ''گلزار'' جن کا میں خود بھی مداح ہوں، جب انھوں نے میری ایک کتاب کا فلیپ لکھا، تو ایک دوست نے اس پر شدید اعتراض کیا کہ وہ بھارتی ہیں، میرا جواب تھا۔ ''میں نے ایک ایسے شخص سے یہ فلیپ لکھوایا ہے، جس کے ہاتھ احمد ندیم قاسمی کے پاؤں کو چھویا کرتے تھے۔'' گلزار صاحب کی شہرت سے کون واقف نہیں، لیکن وہ احمد ندیم قاسمی کو اپنا استاد مانتے ہیں اور پاکستان سے بھی بے حد لگاؤ ہے۔ نصرت فتح علی خان کی شہرت تو ہمارے سامنے کی بات ہے اور ہمارے انگریزی ناول لکھنے والوں کا ڈنکا یورپ سمیت پوری دنیا میں بج رہا ہے۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن ہمارے قومی رویوں میں بہت الجھنیں ہے۔ جمیل دہلوی کی فلم ''جناح'' جب پاکستان میں ریلیز ہوئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کو دیکھنے کے لیے قطاریں لگ جاتیں، مگر میں دو مرتبہ جب یہ فلم سینما دیکھنے گیا تو نشستیں بھی پُر نہیں ہوئی تھیں۔ اس فلم میں جدید ٹیکنالوجی بھی تھی، ہالی ووڈ کے بڑے بڑے اداکار بھی، شاندار موسیقی بھی اور بہترین کہانی بھی اور سب سے بڑھ کر ہمارا ماضی بھی، مگر ہم پیچھے مڑکر کہاں دیکھتے ہیں۔ یہ فلم پاکستان میں بری طرح ناکام ہوئی۔
جب تک ہم میںعلامہ اقبال، محمد علی جناح، مولانا محمدعلی جوہر، ڈاکٹر عبدالسلام اور نشان حیدر حاصل کرنے والے شہدا پیدا ہوتے رہیں گے، ہماری تہذیب و ثقافت میں جب تک مہدی حسن، نصرت فتح علی خان، فیض احمد فیض، شیخ ایاز، جون ایلیا، عطا شاد، خاطر غزنوی، چغتائی، صادقین، سعادت حسن منٹو اور جمیل دہلوی پیدا ہوتے رہیں گے، تب تک ہمارے وطن کا پرچم سربلند ہے۔
ہمارے مصور، شاعر، ادیب، فلسفی، موسیقار، گلوکار، ہدایت کار، اداکار، صداکار، رقاص، مصنف، مورخ، سائنسدان، صحافی اور دیگر تخلیقی شعبوں کی شخصیات، جن کے سینے میں دل دھڑکتا ہے، جو پیچھے مڑ کر دیکھیں تو پتھر نہیں ہوتے، یہ ہمارا حقیقی چہرہ ہیں۔ ہم نے اپنی تہذیب اور شناخت بچالی تو باقی سب کچھ محفوظ ہوجائے گا۔
جمیل دہلوی کی فلم ''جناح'' کا مرکزی گیت صابر ظفر نے لکھا ہے، اس گیت کے ایک مصرعے کو میں نے آج کے کالم کا عنوان بنایا ہے۔ اِن کا شکریہ۔ عہدِ حاضر کے شاعر کا یہ خوب صورت گیت دل کو نرم کرتا ہے اور یوم آزادی کے لطیف احساس کو بھی ابھارتا ہے، اور کیا چاہیے میرے اچھے فنکار سے۔ اہلِ نفرت کے لیے آج اتنا ہی کافی ہے۔
آپ سب کوپیشگی یومِ آزادی مبارک ہو۔