بلوچستان کا حل میڈ اِن چائنا یا میڈاِن امریکا

یہ سیاسی مصلحتیں ہیں یا اقتدار کی ضرورتیں کہ جیسے اپنی تمام تر محرومیوں کا ذمے دار پنجاب کو قرار دینے۔۔۔


عابد میر August 12, 2013
[email protected]

یہ سیاسی مصلحتیں ہیں یا اقتدار کی ضرورتیں کہ جیسے اپنی تمام تر محرومیوں کا ذمے دار پنجاب کو قرار دینے والے قوم پرستوں کا اتحاد بالآخر اسی پنجاب کی سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین سے ہوتا ہے، اسی طرح خود کو سیکولر، سوشلسٹ اور سامراج دشمن کہنے والی بلو چ قوتیں عالمی سامراج سے ہی ہاتھ ملانے میں خوشی محسوس کرتی ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کی حکومت والا چین انھیں اچھا نہیں لگتا، دنیا بھر میں قومی تحریکوں کا دشمن نمبر ایک امریکا اور برطانیہ سے انھیں اچھائی کی توقع رہتی ہے۔

بلوچستان میں بعض بلوچ قوم پرست حلقے اس خوش فہمی میں ہیں کہ امریکا بہادر اور یورپ ان کی تحریک کی معاونت کریں گے اور ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کریں گے۔ اس لیے اگر چائنا گوادر میں ایک موٹر وے کی بات کرے تو اسے 'میڈ اِن چائنا' حل کہہ کر حقارت سے رد کر دیا جاتا ہے، لیکن دوسری طرف عالمی دنیا کا سردار، سرمایہ دار امریکا اسی ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو کروڑوں ڈالرز کی امداد دیتا رہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دیے گئے اس کے ہتھیار بلوچستان میں استعمال ہو رہے ہوں، یہ پوری دنیا میں گبرسنگھ کی طرح دندناتا پھرے، اس کے خلاف ہمارے منہ سے ایک حرف نہیں نکلتا۔

سات سمندر پار کے اس اجنبی کی یاری ہمیں قبول ہے، پڑوس کی دوستی گوارا نہیں۔ ایک ملٹی نیشنل کمپنی بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار میں اپنا حصہ 'پرامن' طور پر لینے کے لیے امریکی کانگریس میں بلوچستان کی تحریک کے حق میں بل پیش کرانے کے لیے لابنگ کرتی ہے تو ہماری بانچھیں کھل اٹھتی ہیں، ہم دن میں خواب دیکھنے لگتے ہیں کہ عالمی برادری اب بلوچ تحریک کی حمایت کرنے لگی ہے۔

حتیٰ کہ اس عقیدت میں ہم یہ بنیادی حقیقت بھی بھول جاتے ہیں کہ امریکن کانگریس فیصلہ سازی کا بنیادی ادارہ نہیں ہے۔ اس کا کردار پاکستان کے سینیٹ جیسا ہی ہے، جو کہنے کو تو سپریم ادارہ ہے لیکن اس کا کام بل اور قراردادیں پاس کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ حتیٰ کہ امریکی صدر کے اس واضح بیان کو بھی ہم عالمی سیاسی پالیسی کا حصہ قرار دے کر اس سے آنکھیں چرا لیتے ہیں، جس میں وہ بلوچ تحریک کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے کر اس میں کسی قسم کی مداخلت کو خارج از امکان قرار دے دیتا ہے۔ نیز اُس برطانیہ سے ہمیں رحم کی توقع ہے جس نے ہمارے اکابرین کے سرقلم کیے، جو ہماری دھرتی پہ غاصب بن کے رہا، جس نے سرداروں کو کرپٹ کیا، عوام کو مزید پسماندہ کیا۔ وہی برطانیہ جو بی ایل اے کو بھی دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے۔

برطانیہ اور امریکا کا سارا ماضی اور حال وسائل پر قبضہ گیری سے بھرا پڑا ہے۔ حتیٰ کہ وسائل کے حصول کے لیے یہ بے جواز جنگیں برپا کرتے رہے ہیں۔ یہ وسائل سے مالامال ملکوں کے حکمرانوں کو کرپٹ کر کے انھیں خرید لیتے ہیں، انھیں قرض اور امداد کے ایک منحوس معاشی دائرے میں قید کر کے اپنا غلام بنا لیتے ہیں۔ یہ دنیا بھر میں آمریتوں کے دلدادہ ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے آمروں کی حمایت کی۔ اپنے معاشروں کو پستی اور پسماندگی کی جانب دھکیلنے والے تمام آمر حکمران انھی کی مدد سے عوام پہ مسلط رہے ہیں۔ یہ ہر عوامی تحریک کے مخالف رہے ہیں۔ جہاں عوام نے اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ کرنا چاہا، وہاں انھوں نے سازشوں کے گرداب پیدا کر دیے۔ عوامی حکمرانوں کو انھوں نے کچھ یوں دیدہِ عبرت نگاہ بنادیا کہ پھر کوئی عوامی حقوق کی دعوے داری کی جرأت نہ کر پائے۔ ایجنٹ اب ہمارے آئیڈیل بنتے جا رہے ہیں۔ ہم اُن سے وفا کی امید باندھنے لگے ہیں جو وفا کے مفہوم سے ہی نا آشنا ہیں۔

دوسری طرف سرمایہ داری کی ملاوٹ والا سوشلسٹ چین ہے، جس کے دامن پہ قبضہ گیری کی کوئی چھینٹ نہیں ہے۔ جو دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت ہونے کے باوجود ملکوں کو قرض اور امداد کے منحوس چکر میں ڈالنے کے بجائے ان سے کاروبار کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ جو وسائل پہ ناجائز قبضہ گیری کے بجائے سرمایہ کاری کی دعوت دیتا ہے۔ یہ کسی قسم کی خفیہ امداد کی بجائے کسی بنیے کی طرح سارا حساب سامنے اور صاف رکھنے پہ یقین رکھتا ہے۔

یہ غلط بیانی نہیں کرتا، غلط فہمیوں میں نہیں ڈالتا، غلط کاریوں کی پردہ پوشی نہیں کرتا اور شاید اسی لیے ہمیں وارا نہیں کھاتا، اُس شریف النفس امیدوار کی طرح جو ووٹ لینے ایک گاؤں پہنچا تو گاؤں والوں نے پوچھا، ہمارا لڑکا دوسرے گاؤں والوں کی لڑکی اٹھا کر لے آئے، اور اُس پہ مقدمہ ہو جائے تو آپ ہمارے لیے کیا کریں گے؟ اُس 'شریف آدمی' نے کہا، میں ایسے لفنگے کو قانون کے مطابق سزا دلواؤں گا۔ گاؤں والوں نے یکدم کہا، تو ہم آپ کو کیوں ووٹ دیں؟ آپ کی شرافت سے زیادہ، ہمیں اپنے لڑکے عزیز ہیں۔

رہی بات پاک چین دوستی کی تو ہم جانتے ہیں کہ عالمی سطح پر ملکوں کے مابین تعلقات نہیں ہوتے، مفادات ہوتے ہیں، ورنہ یہ کوئی نظریاتی دوستی ہوتی تو چائنا سن اکہتر میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا اور پاکستان، چائنا سے محض مشینری ہی نہیں، اس کا نظام بھی ادھار لیتا۔ یہ کیا دلچسپ نہیں کہ اہلِ اسرائیل، اہلِ کتاب ہونے کے باوجود دشمن ہیں اور چائینز سے دوستی ہے جو کسی مذہب پہ ہی یقین نہیں رکھتے۔ جالب نے تبھی تو کہا تھا کہ ہمارے حکمرانوں کے لیے چین کہنے تو اپنا یار ہے، لیکن اس کے 'کافرانہ نظام' سے انھوں نے یاری نہیں کرنی۔ محض ہندوستان دشمنی میں ہم اس کے قصیدے پڑھتے ہیں اور وہ اپنی مارکیٹ کی ضرورت کے تحت ہم سے یاری کے ترانے گاتا ہے۔

بلوچ تحریک کے لیے سات سمندر پار عالمی حمایت لینے والے اپنے پڑوس میں کہیں سے حمایت لینے کو تیار نہیں۔ بلوچستان کی سرحدوں سے منسلک افغانستان، ایران اور چین تینوں سے ہماری مخاصمت ہے، اور ہمارا خیال ہے کہ سات سمندر پار سے آنے والی سامراجی قوتیں ہماری دوست بنیں گی ۔ ہم یہ سادہ سی حقیقت سمجھنے کو بھی تیار نہیں کہ جغرافیائی ہمسائے آپ کے مستقل ہمراہی ہوتے ہیں، بیرونی قوتیں کتنی ہی دوست کیوں نہ ہوں، بالآخر اپنا فائدہ لے کر واپس ہو جائیں گی۔ نیٹو فورسز کے دل میں افغانستان کے لیے کتنا ہی درد کیوں نہ ہو، دس برس بعد سہی، بالآخر انھیں واپس جانا پڑے گا، اور افغانستان کو ایک بار پھر پاکستان کی جانب ہی دیکھنا پڑے گا، چین اور ہندوستان سے اچھی ہمسایہ گیری ہی اس کے فائدے میں ہوگی۔ بلوچ خواہ پارلیمنٹ میں ہوں یا پہاڑوں میں، انھیں جغرافیائی حقائق کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ پسماندہ بلوچستان کو سڑکوں کی، موٹرویز کی، بندرگاہوں کی، اداروں کی، بہرحال ضرورت رہے گی۔ یہ ضرورت آپ سات سمندر پار والے سامراجیوں سے پوری کریں، یا پڑوس کی ابھرتی سوشلسٹ طاقت کی دوستی سے، اس نے بالآخر پورا ہونا ہے کہ سماج میں کوئی خلامستقل نہیں رہتا۔ اس نے آخر پُر ہونا ہے، اور وہ کسی کی خواہش سے نہیں، سماجی ضرورتوں اور معروضی حالات کے تحت ہی پر ہوگا۔

بلوچستان کا اگر میڈ اِن چائنا حل ممکن نہیں تو میڈ اِن امریکا حل بھی نہیں چلے گا۔ درحقیقت اس کا کوئی بھی بیرونی حل دیرپا نہیں ہوگا۔ مسئلہ اندرونی ہے تو اس کا حل بھی اندرونی ہی ہوگا، اور اندر عوام رہتے ہیں، تو عوام طے کریں گے کہ کون سا حل ان کے لیے مفید ثابت ہو گا۔ اور اتنا تو طے ہے، جہاں عوام ہوں گے، جہاں عوامی جدوجہد ہوگی... وہاں امریکی سامراج، مخالف کنارے پر ہی کھڑا ہو گا۔ اور یہ دایاں کنارہ ہی ہوگا۔ تب ہم دیکھیں گے کہ کون اُس کے ساتھ دائیں کنارے پہ جاتا ہے، کون عوام کے ساتھ بائیں کنارے آتا ہے!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |