گزشتہ عید نہ جانے کس کو مبارک
یوں تو ہماری عید بھی وہی ہے جس کا ذکر مولانا ابو الکلام آزاد نے کبھی اپنی ایک تقریر کے شروع میں کیا تھا کہ۔۔۔
یوں تو ہماری عید بھی وہی ہے جس کا ذکر مولانا ابو الکلام آزاد نے کبھی اپنی ایک تقریر کے شروع میں کیا تھا کہ
عید آمد و افزود غم را غم دیگر
ماتم زدہ را عید بود ماتم دیگر
مولانا ہندوستان کے غلام مسلمانوں سے بروز عید خطاب کر رہے تھے، غالباً دلی کی جامع مسجد میں انھوں نے اپنے خطاب کا آغاز اس شعر سے کیا کہ عید آئی تو میرے غم میں ایک اور اضافہ کر گئی کیونکہ کسی ماتم زدہ کے لیے عید ایک اور ماتم ہوتی ہے۔ ہم پاکستان کے آزاد مسلمانوں کی حالت بھی سابقہ ہندوستان کے غلام مسلمانوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے اور جو عید بھی آتی ہے ہمارے دہشت گرد اسے ایک نہیں کئی ماتموں میں بدل دیتے ہیں لیکن ہمارے حکمران بالعموم محفوظ رہتے ہیں، صرف عوام مرتے ہیں کیونکہ ان کی سکیورٹی نہیں ہوتی یعنی عوام کے خرچ پر ان کے حکمرانوں کی حفاظت کا بندوبست تو ہوتا ہے عوام کا اپنا نہیں ہوتا۔
ہماری تاریخ کے تین عظیم ترین خلفاء سکیورٹی نہ ہونے کی وجہ سے شہید ہو گئے لیکن انھوں نے موت سے خوف نہیں کھایا، اسے اس کے مقررہ وقت پر ملتوی اور موقوف کر دیا، اپنی حفاظت پر عوام کا روپیہ خرچ نہ کیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے قاتل فیروز کو مسجد میں اپنے سامنے دیکھ کر کہا کہ یہ شخص مجھے قتل کر دے گا، اس پر ظاہر ہے کہ ان سے کہا گیا کہ اسے ابھی سے گرفتار کر لیتے ہیں لیکن عمرؓ نے جواب دیا کہ مگر اس نے ابھی تک تو کچھ کیا ہی نہیں کہ اس کی گرفتاری کا کوئی جواز پیدا ہو۔ خیر یہ بات تو یونہی سررا ہے یاد آ گئی، بات عید کی ہو رہی تھی جس پر صرف ماتم بچھی رہی اور تازہ خون پاکستان کی زمین پر بہتا رہا۔
بہر حال اب یہ خون تو معمول بن چکا ہے، اس بار عید پر خاص بات یہ ہوئی کہ یہ تقریب سعید مسلمانوں نے ایک ہی دن میں منائی حسب سابق اسے دو یا اس سے زیادہ دنوں میں تقسیم نہیں کیا گیا جب کہ ایک عام خیال کے مطابق اس دن دو خطبے بھی تھے۔ جو کسی حکمران کے لیے اچھے نہیں سمجھے جاتے یعنی جمعہ کا دن تھا، ایک خطبہ عید کا دوسرا جمعہ کا لیکن میاں صاحب اس سے خوفزدہ نہیں ہوئے شاید اس لیے کہ ان کے خوف کے اسباب اور بہت سے پیدا ہو چکے ہیں جن میں دو خطبوں کا خوف مارا گیا لیکن ایوب خان خوفزدہ ہو گیا تھا۔
اس کے دور اقتدار میں ایک عید جمعہ کے روز آ رہی تھی یعنی دو خطبوں والی عید۔ ایوب خان اس سے ڈر گیا اور اس نے حکم دیا کہ عید جمعہ کے دن سے پہلے منائی جائے لیکن عید کا تہوار تو سرکاری نہیں ہوتا، عام مسلمانوں کو اس نئی عید پر کیسے متفق کیا جائے۔ چنانچہ ایوب خان کی عید پڑھانے پر کوئی امام تیار نہ ہو سکا۔ ہمارے مرحوم دوست سید خالد محمود (ایس کے محمود) کراچی کے ڈی سی تھے، انھوں نے بتایا کہ وہ کراچی جیل سے سرکاری امام مسجد کو گھیر گھار کر لے آئے۔
نماز شروع ہوئی لیکن پہلے سجدے کے بعد تکبیر نہ ہوئی،کچھ دیر بعد جب کسی نمازی افسر نے سجدے سے سر اٹھا کر دیکھا تو امام مسجد غائب تھا۔ اس طرح صدر ایوب خان کسی حد تک دو خطبوں سے بچ گئے لیکن اکثر مقامات پر دو خطبے ہوئے۔ اب کسی حکمران کو یہ اختیار کہاں کہ وہ کوئی خطبہ منسوخ کرا دے۔ یہ تو کفر والی بات ہوتی چنانچہ پاکستان میں دو خطبوں کے دن ہی عید منائی گئی، اس طرح ایوبی دور میں عیدالفطر جو ایک معمول کا تہوار ہے ایک غیر معمولی تہوار بن گیا جس کا ذکر آج بھی کیا جا رہا ہے اور حکمران کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ اس دفعہ دو خطبے بھی ہو گئے لیکن اقتدار سلامت ہے، میں نے ایک مولوی صاحب سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ دو خطبے تو ایک برکت والی بات ہے اس میں خطرہ کیا ہو سکتا ہے۔
ہماری اس عید میں ایک حیرت انگیز بات ہوئی کہ عید کے دنوں میں اکثر لوڈشیڈنگ شاید نہیں ہوئی لیکن کیوں نہیں ہوئی اس کا جواب بجلی والوں نے یہ دیا ہے کہ ہمارے عملے نے فرض شناسی اور محنت کا ثبوت دیا ہے، دوسرے لفظوں میں اگر یہ فرض شناسی جاری رہے تو ہمیں لوڈشیڈنگ سے چھٹکارا مل سکتا ہے، گویا اس وقت ہمارے بجلی والے عملے کی اپنی سستی اور کام چوری لوڈشیڈنگ کے عذاب کا اصل سبب ہے۔ بجلی اسٹاک نہیں کی جا سکتی کہ بوقت ضرورت گودام میں سے نکال کر صارفین کو دی جا سکے۔ یہ تو اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے والی چیز ہے، ادھر آئی اور ادھر چلی گئی۔ عرض یہ ہے کہ ہمارا محکمہ بجلی خود اپنے ہاتھوں ہمارا ملزم بنا ہے، اس کے لیے کسی مقدمے اور تفتیش کی ضرورت نہیں ہے۔
معلوم نہیں کون لڑکا اس وقت بجلی کا وزیر ہے جو بھی ہے اسے اپنی نا تجربہ کاری کے باوجود اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ ان کے اقتدار کو سب سے زیادہ خطرہ اسی لوڈشیڈنگ سے ہے، یہ صرف اندھیرے روشنی کا مسئلہ نہیں ہے، یہ روز گار کا مسئلہ ہے۔ چھوٹی بڑی صنعتیں چلانے کا مسئلہ ہے جن سے لاکھوں مزدور وابستہ ہیں، بے روز گاری ایک قومی خطرہ بن چکی ہے۔ گرانی میں آئے دن کا اضافہ اور اس پر آمدنی میں آئے دن کی کمی یہ دونوں ایک ساتھ کیسے چل سکتے ہیں۔ کسی حکومت کے لیے یہ ایک انتہائی خطر ناک صورت حال ہے، یہ کوئی صرف سیاسی مسئلہ نہیں ہے، یہ پاکستان کے مزدور اور محنت کش عوام کا مسئلہ ہے جو ان کی برداشت سے بڑھتا جا رہا ہے۔
ہمارے دشمن ہماری حالت کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں اور ہماری طرف سے اس دشمن کی دلجوئی کی کوششیں بلکہ جدوجہد بھی دیکھ رہے ہیں یعنی ہماری کمزوری اور خوف ان پر واضح ہے، لازم ہے کہ ہم ملک کی معاشی ناہمواری کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ حکمران طبقے اور عوام میں بہت ہی زیادہ فاصلہ ہے، ان فاصلوں کو کم کریں، یہ ملک کے لیے خطرہ ہیں۔ عالمی طاقتیں اور ہمارے پڑوسی تو ہمارے اصلی دشمن ہیں۔ ہم صرف اپنی ہمت سے ہی بچ سکتے ہیں۔ شوقیہ حکمران ہمیں نہیں بچا سکتے۔ مثلاً وزیراعظم نے جناب صدر سے کہا ہے کہ وہ چپ رہا کریں اور بیان بازی کو ملتوی کر دیں۔ قیاس کن ز گلستان من بہار مرا۔