دائرے سے باہر مت نکلنا
کسی کے چلتے روزگار پر ہاتھ مارو گے ، کسی کے پیٹ پر لات مارنےکی کوشش کروگےتورکھ کےوہ چپیڑپڑےگی کہ منہ لقوہ ہوجائےگا۔
ISLAMABAD:
مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ دلی اور اسلام آباد والوں کو یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ پاک بھارت تعلقات کی ٹرانسمیشن لائن پر دو ہڈیوں اور کھوپڑی کے نشان کے نیچے لال رنگ سے بڑا بڑا لکھا ہے، خطرہ ڈھائی ہزار وولٹ۔ پھر بھی کچھ لوگ اس کے عین نیچے گھر بنانے کی کوشش کرتے ہیں ، گیلے کپڑے پہن کر گذرتے ہیں۔ تار کو کبھی کبھی اچھل اچھل کے بچگانہ تجسس کے ساتھ چھو نے کی کوشش کرتے ہیں۔روزانہ کوئی نا کوئی کبوتر یا فاختہ اس تار سے پنجے چھونے کے سبب بار بی کیو ہو کر لٹک جاتا ہے پھر بھی نادان پرندے اس پر بیٹھنے سے باز نہیں آتے۔
اور یہ چند ریٹائرڈ بیوروکریٹ ، کچھ ویلے سابق جرنیل ، درجن بھر فارغ البال دانشور اور مٹھی بھر سول سوسائٹیے آخر خود کو سمجھتے کیا ہیں ؟ ان کا خیال ہے کہ دانشوری بھگار کے ، کچھ علامتی مشعلیں بارڈر پر روشن کرنے کا ڈرامہ کرکے ، سیمینار فرما کے ، کانفرنسوں کی باری لے کے ، گال سے گال ملا کے موہا موہا موہا کرنے سے اور ٹریک ٹو یا ٹریپ ٹو ڈپلومیسی کا چکر چلا کے یہ تاریخ بدل دیں گے ، خوں آشام فطرت کے نوکیلے سینگ کند کردیں گے۔ خون پسینے کی کمائی سے خریدی مہنگی مہنگی توپوں کی نالوں کو موڑ کے گرہ لگا دیں گے۔
چمچماتے ایف سولہ ، جیگواروں ، میراجوں اور ایف سیون تھنڈروں کے ٹائروں کو پیار کی چٹکی لے کے پنکچر کردیں گے۔فریگیٹس کو تیرتے ہوٹلوں میں بدل ڈالیں گے۔ایسے ایسے دبدبے دار ضراروں اور ارجنوں کی چین کھول کے ان ٹینکوں کو ریسنگ ہمرز یا ٹریکٹروں کی شکل دے دیں گے۔ایٹم بموں کے لوہے کو کباڑی کے ہاتھ بیچ دیں گے اور اندر سے یورینیم نکال کے اپنے اپنے بجلی گھروں کی بھٹیوں میں ڈال دیں گے ؟ یہ سمجھتے کیا ہیں اپنے آپ کو ؟ چند حرف پڑھ لکھ کے جانے یہ کس دنیا میں رہ رہے ہیں اور نیند میں چلے جارہے ہیں، چلے جارہے ہیں، چلے جا رہے ہیں، اور ہمیں بھی ساتھ گھسیٹنے کے گمان میں ہیں۔
ویک اپ ویک اپ۔۔۔اٹھو بیٹا آنکھیں کھولو ، بستر چھوڑو منہ دھولو ، اتنا سونا ٹھیک نہیں ہے۔وقت کا کھونا ٹھیک نہیں ہے۔کسی کے چلتے روزگار پر ہاتھ مارو گے ، کسی کے پیٹ پر لات مارنے کی کوشش کرو گے تو رکھ کے وہ چپیڑ پڑے گی کہ منہ لقوہ ہوجائے گا۔تمہارا خیال ہے کہ کشمیر ، بلوچستان ، افغانستان ، دریائی پانی کی تقسیم ، ویزوں کی کنجوسی ، مساواتی اقتصادی تعلقات وغیرہ یہ سب محض مسئلے ہیں۔اور اگر یہ مسئلے ہیں تو پھر ایک نہ ایک دن ضرور حل ہوں گے۔۔ہیں نا ؟ بس یہیں تم بھولے کبوتروں سے غلطی ہوجاتی ہے اور ہر دفعہ چپیڑ پڑنے کے بعد تھوڑے ہی عرصے میں تم لوگ بھول بھال کر دوبارہ شیخ چلی کی طرح انڈے خریدنے نکل پڑتے ہو۔
یار تمہیں کب سمجھ میں آئے گا کہ یہ سب مسئلے نہیں ہیں بلکہ کارخانے ہیں ، یہ سرمایہ کاری ہے ، پروجیکٹس اور اسکیمیں ہیں جن سے بھارت اور پاکستان کے لاکھوں لوگوں کا براہ ِ راست اور بلاواسطہ روزگار وابستہ ہے۔لوگوں کے اربوں کھربوں ڈالر، ترقیاں ، سیاستیں اور پالیسیاں داؤ پر لگے ہوئے ہیں اور تم انھیں صرف مسئلے سمجھ کے حل کرنے کی دھن میں ہو۔
اب کیا یہ بھی میں ہی بتاؤں کہ اگر بھارت اور پاکستان کے تعلقات ایسے ہوجاتے ہیں جیسے کہ موجودہ جرمنی اور فرانس کے یا عرب امارات اور سعودی عرب کے یا منگولیا اور چین کے یا جاپان اور امریکا کے یا برازیل اور ارجنٹینا کے یا جنوبی افریقہ اور موزمبیق کے تو جانتے ہو کس قدر بے روزگاری اور سیاسی اتھل پتھل ہوگی ؟
دونوں ملکوں کی فوج اور ان کے مہنگے کھلونوں کا کیا ہوگا ؟ را اور آئی ایس آئی کی مصروفیت کتنی رہ جائے گی ؟ دونوں ملکوں کے سرکاری بابوؤں کا کیا ہوگا جو لاہور سے ملتان اور دلی سے لکھنؤ جانے کا سیدھا راستہ بھی بذریعہ تاجکستان بتانے کے فن میں یدِ طولی رکھتے ہیں۔وہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کا کیا ہوگا اور یہاں جماعتِ اسلامی کا کیا ہوگا ؟ وہاں نکسلوں کا کیا ہوگا اور یہاں طالبان کا کیا ہوگا ؟ وہاں شیو سینا کا کیا ہوگا اور یہاں جماعتِ الدعوہ کا کیا بنے گا ؟ وہاں بجرنگ دل کا کیا ہوگا اور یہاں حزب المجاہدین کدھر جائے گی ؟ اور پھر آل ساؤتھ ایشین ملیٹنٹس ایسوسی ایشن کہاں جائے گی ؟اور دونوں طرف کا میڈیا ؟ اس کا شعلہ فگن فاسفورس اور جذباتی دیا سلائی گیلی نہ ہو جائے گی ؟ ریٹنگ نہ گرے گی ، اشتہاری ندی نہ سوکھ جائے گی ؟ مالکانی اثرو رسوخ کم نہ ہوجاوے گا ؟
تمہیں کیوں سمجھ میں نہیں آتا کہ بھارت پاکستان تعلقات برٹش انڈیا کی عطا کردہ وہ چیک بک ہے جس کی دونوں ممالک میں ہر جماعت ، ہر نظریے ، ہر ادارے اور ہر سوچ کو اشد ضرورت ہے۔جہاں بھی کسی کو ذہنی ، سیاسی ، سماجی ، اقتصادی ، عسکری ، داخلی و خارجی خسارے اور دیوالیہ پن کا سامنا ہوتا ہے، وہ فوراً اس چیک میں سے ایک بلینک صفحہ پھاڑ کر اپنا خسارہ پورا کرلیتا ہے۔۔۔تو کیا تم اس چیک بک کو ہی پھاڑنا چاہ رہے ہو۔۔واہ جی واہ۔۔۔۔وہ تمہیں ہی نہ پھاڑ ڈالیں گے کیا۔۔۔۔۔
جس طرح پاگل پن پہ کسی کا اجارہ نہیں ویسے ہی خواب دیکھنے پر بھی کوئی پابندی نہیں۔بھلے وہ اقلیتوں کے تحفظ کا لیاقت نہرو پیکٹ ہو، کہ نہرو کی نہ جنگ سمجھوتے کی پیش کش ، کہ شملہ سمجھوتے کے اندر انسانوں کی طرح ساتھ ساتھ رہنے کا وعدہ ، کہ کرکٹ ڈپلومیسی ہو، کہ مشترکہ کرکٹ ورلڈ کپ ، کہ ٹی ٹوئنٹی سیریز کے کھلاڑیوں کی نیلامی ، کہ سرکریک کا مجوزہ سمجھوتہ ، کہ ایک دوسرے پر حملے میں پہل نہ کرنے کی تجویز ، کہ سیاچن کے مسئلے کے حل کے لیے ایک کے بعد ایک مسودہ ، کہ سارک کو یورپی یونین اور آسیان کا مرحلہ وار روپ دینے کا خواب ، کہ کشمیر کو کمپوزٹ ڈائیلاگ کا حصہ بنانے کی سعیِ ناکام ، کہ لائن آف کنٹرول اور واہگہ اٹاری کے آرپار آلو ، پیاز ، ٹماٹر سے بھرے ٹرکوں کی آنیاں جانیاں ، کہ تجارتی ساجھے داری کا ترجیحاتی سمجھوتہ ، کہ عسکری اداروں کی ٹیلی فونک ہاٹ لائن ، کہ کشمیر کے آؤٹ آف باکس حل کی مشرفانہ تجاویز...خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔۔۔قطعاً نہیں۔
بس ایف ایم چینلز پر دلی میں عابدہ پروین ، غلام علی اور مہدی حسن کو اور لاہور میں لتا جی ، سنیدھی چوہان اور پنکج اداس کی آواز پر سر دھنتے رہو، ممبئی میں فیض صاحب کو اور اسلام آباد میں گلزار کو پڑھتے ہوئے جھومتے رہو۔راحت فتح علی خان ، جنون ، سٹرنگس ، انڈین اوشن کے ایک دوسرے کے ہاں چکر پہ چکر لگواتے رہو۔ان کا تاج محل اور یہاں گرو نانک کی سمادھی سب کے لیے کھلی ہے۔
تین شہروں کے بجائے پانچ شہروں کا ویزہ ہونے پر بھی بغلیں بجانے کی اجازت ہے۔ جتنی مرضی فلمیں ، ریالٹی شوز ، ڈرامے دیکھ سکتے ہو دیکھتے رہو ، دیکھتے رہو۔مشترکہ ٹیلی فونک کرکٹی سٹہ بھی کھیل لو۔۔اپنا نام حفیظ احمد رامپوری لکھو کہ خود کو سکھدیو سیالکوٹی کہو ، کہ ماضی کو لیے سہانی آہیں بھرو ، کہ حال میں مست رہو، کہ مستقبل کے رسیلے چھیچڑے گنتے رہو۔۔۔۔سب اجازت ہے۔ایک بار نہیں سو بار ہے۔۔
لیکن خبردار۔۔۔جو دائرہ چھیاسٹھ برس پہلے کھنچ گیا ہے، اس سے باہر ہونے کی کوشش کرو گے تو کوئی اور آپے سے باہر ہو جائے گا۔اور کسی کے پیٹ سے بھی مت ٹکرانا۔کون برداشت کرتا ہے پیٹ سے کسی کا ٹکرانا ؟
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )