ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
پاکستان میں توانائی کا بحران اپنے عروج پر جا پہنچا ہے، جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ توانائی کے متبادل ذرائع پر۔۔۔
پاکستان میں توانائی کا بحران اپنے عروج پر جا پہنچا ہے، جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ توانائی کے متبادل ذرائع پر ماضی کی حکومتوں نے کوئی خاص توجہ ہی نہیں دی۔ اس ضمن میں شمسی توانائی خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ 80 کی دہائی میں عتیق مفتی صاحب نے اس شعبے میں اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بریک تھرو کی کوشش کی تھی لیکن افسوس کہ ان کی تمام کاوشیں افسر شاہی کی بھینٹ چڑھ گئیں اور معاملات وہیں کے وہیں رہ گئے۔
اس کے بعد ہماری بیوروکریسی نے بہت سے سبز باغ دکھائے اور نوبت کالا باغ تک جاپہنچی۔ اس مسئلے پر بھی بڑی لے دے ہوئی اور شدید بحث و مباحثے کے بعد انجام کار یہ معاملہ بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا۔ انتہا تو یہ ہے کہ ضیا الحق کی 11 سالہ اور پرویز مشرف کی 8 سالہ فوجی حکومتیں بھی کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی ہمت و جرأت نہ کرسکیں۔ یہ منصوبہ عرصہ دراز سے سرد خانے میں پڑا ہوا ہے اور کسی کی مجال نہیں ہے کہ اسے دوبارہ چھیڑ سکے۔
ماضی کی سول اور فوجی دونوں ہی طرح کی حکومتوں کی کم ہمتی کے باعث توانائی کا بحران درد سر کی حد سے گزر کر اب درد دل اور درد جگر بن چکا ہے جس کے نتیجے میں ایک جانب عوام بلبلا رہے ہیں اور دوسری جانب صنعتوں کا پہیہ جام پڑا ہوا ہے۔ ان نامساعد حالات میں ملک کو اپنی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کی تکمیل کے لیے اب زیادہ تر تیل پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے جب کہ دوسری جانب عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے جس کی وجہ سے بجلی کے نرخ بڑھتے جارہے ہیں اور بجلی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے زرمبادلہ کے محدود ذرائع پر دباؤ متواتر بڑھ رہا ہے۔ ان حالات میں نوبت کرو یا مرو تک جا پہنچی ہے اور توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنا اب تقریباً ناگزیر ہوگیا ہے۔
خوش قسمتی سے ہمارا ملک پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں سورج سارا سال اپنی آب و تاب کے ساتھ چمکتا رہتا ہے۔ چنانچہ یہاں وافر مقدار میں باآسانی شمسی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لیے شمسی توانائی یا سولر انرجی ایک بہترین متبادل ذریعہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گھر کے ایک کمرے کو روشن کرنے کے لیے سولر پینل کے سب سے چھوٹے سسٹم کو نصب کرنے پر زیادہ سے زیادہ دس ہزار روپے کے اخراجات آئیں گے اور اگر اس کے ساتھ ساتھ کوئی شخص پنکھا بھی چلانا چاہے تو یہ لاگت اسی تناسب سے تھوڑی سی بڑھ جائے گی لیکن یہ اخراجات محض ایک بار آئیں گے اور اس کے بعد شمسی توانائی گویا صدقہ جاریہ بن جائے گی اور بجلی کے بلبلا دینے والے ماہانہ بلوں سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل ہوجائے گی۔ سولر پینل 21 تا 25 سینٹ فی گھنٹہ بجلی پیدا کرسکتا ہے جب کہ حکومت بڑے پیمانے پر شمسی توانائی پیدا کرنے والے نجی اداروں سے بجلی خرید کر عوام کو توانائی فراہم کرسکتی ہے۔
آئین کی اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو بھی یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے اپنے یونٹس یا متبادل ذرائع اختیار کرسکتے ہیں۔ لہٰذا سندھ حکومت کے حالیہ بجٹ میں محکمہ ماحولیات اور متبادل توانائی کے متعدد منصوبوں کے لیے 38 کروڑ 80 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ متبادل توانائی کے شعبے میں 5 نئی اسکیمیں شروع کی جارہی ہیں جن میں صوبے کے مختلف مقامات اور علاقوں میں شمسی توانائی کے ذریعے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔
مٹھی، اسلام کوٹ اور تھرپارکر کے علاقے میں کھارے پانی کو میٹھا بنانے والے واٹر ڈی سیلی نیشن کی توسیع کا کام بھی ان منصوبوں میں شامل ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تھرپارکر کے 6 دیہات میں کھارے پانی کو میٹھا کرکے پینے کے قابل بنانے کے 6 واٹر ڈی سیلی نیشن پلانٹس کی تنصیب کے لیے خطیر رقوم مختص کی گئی ہیں۔ سندھ کے رواں مالی سال کے بجٹ میں لیاری کے لیے بھی ایک خصوصی پیکیج کے تحت خاصی بڑی رقوم کا بندوبست کیا گیا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں اخبارات میں ایک کمرشل بینک کی جانب سے ایک اشتہار بھی شائع ہوا تھا جس میں شمسی توانائی مہیا کرنے کے لیے خصوصی قرضے جاری کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ پاکستان میں شمسی توانائی کو فروغ دینے کی یہ اولین لائق تحسین کوشش ہے۔ خیال رہے کہ یہ پیشکش ایک ایسے وقت پر کی جارہی ہے کہ جب پورا ملک لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہے اور بے چارے عوام کے کڑاکے نکل رہے ہیں۔ مذکورہ بینک کی پیشکش میں مجوزہ کلائنٹس کو بنے بنائے سولر سسٹم کی باآسانی فراہمی شامل ہے۔
شمسی توانائی کے اس نظام کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ ایک ماحول دوست نظام ہے۔ مذکورہ بینک کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ وہ ایک اور اشتہار اخبارات میں شائع کرائے جس میں مختلف پیکیجز کی قیمتیں درج ہوں اور جس میں سولر سسٹم کی تنصیب کے چارجز بھی شامل ہوں۔ نیز ان پیکیجز میں یہ تفصیلات بھی درج ہوں کہ کس پیکیج میں کتنے پنکھوں، انرجی سیورز اور ٹی وی سیٹس کی گنجائش ہوگی۔ اس کے علاوہ آسان ادائیگی کی اقساط کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ مجوزہ پیکیج میں ابتدائی اخراجات کم سے کم ہونے چاہئیں تاکہ کم آمدنی والے طبقات بھی اس پیشکش سے فائدہ اٹھاسکیں۔
شمسی توانائی کو محض گھریلو ضروریات کی تکمیل کے لیے ہی نہیں بلکہ صنعتی شعبوں کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جس میں سولر واٹر پمپنگ کا نظام بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے یہ خبر نہایت خوش آیند اور حوصلہ افزا ہے کہ سندھ بھر میں پینے کے میٹھے اور صاف پانی کے پلانٹس لگانے والی نجی کمپنی نے بجلی کی قلت اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے سنگین مسئلے کا آسان اور کامیاب حل تلاش کرلیا ہے اور اس کا سولر پاور پلانٹ کا تجربہ بے حد کامیاب ثابت ہوا ہے۔ کمپنی کے ترجمان کے مطابق 10 ہزار گیلن پانی کو صاف اور میٹھا بنانے کے لیے اس پلانٹ کی لاگت صرف 15 لاکھ روپے ہے جب کہ اس سے بڑے پلانٹس بھی تیار کیے جارہے ہیں جن کی لاگت کا انحصار پانی کے کھارے پن کی نوعیت اور گنجائش کے مطابق ہوگا۔ پلانٹ سے نہ صرف بجلی کی لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر قابو پالیا جائے گا بلکہ کھارے پانی کو بہترین پروسیسنگ کے عمل سے گزار کر میٹھا بنایا جاسکے گا۔ اس آر او پلانٹ سے سندھ کی ساحلی پٹی کے علاقوں بالخصوص بدین، کیٹی بندر اور کھاروچن سمیت صوبے کے ریگستانی علاقے بھرپور فائدہ اٹھاسکیں گے۔ جن دیہات اور گوٹھوں میں پانی کی شدید قلت ہے اور جہاں عام لوگوں کو بجلی کی سولہ سولہ گھنٹے طویل شدید لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے وہاں یہ آر او سولر پلانٹس خاص طور پر انتہائی مفید اور کارآمد ثابت ہوں گے۔ یہ ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ ہے ۔
کیونکہ پلانٹس کی بدولت ایک جانب تو بجلی کی طویل اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے چھٹکارا حاصل ہوجائے گا اور دوسری جانب بجلی کے بھاری اور لمبے لمبے ناقابل برداشت بلوں کی ادائیگی سے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ صاف اور میٹھا پانی وافر مقدار میں بروقت باآسانی دستیاب ہوگا۔ وطن عزیز میں آر او پلانٹس کا یہ کامیاب تجربہ دھماکا خیز ہے اور اس تجربے پر غیر ملکی ماہرین بھی حیران ہیں۔ کمپنی کے ترجمان کے مطابق آر او سولر پلانٹس سے نہ صرف پاکستان کے صارفین فائدہ اٹھاسکیں گے بلکہ وہ تمام ممالک بھی مستفید ہوسکیں گے جہاں صاف اور میٹھے پانی کی قلت کے علاوہ بجلی کی کمی کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔
پاکستان میں آر او پلانٹس کا یہ کامیاب تجربہ آم کے آم گٹھلیوں کے دام کے مترادف ہے کیونکہ اس سے نہ صرف ملکی صنعت فروغ پائے گی بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ نیز ان پلانٹس کی ایکسپورٹ سے ملک کو غیرملکی زرمبادلہ بھی حاصل ہوگا جس کی وطن عزیز کو اس وقت شدید ضرورت ہے۔ پاکستان میں سولر آر او پلانٹس کا یہ کامیاب تجربہ پاکستانی انجینئرز کی ذہانت اور مہارت کا قابل تعریف کارنامہ ہے جس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی''۔
اس کے بعد ہماری بیوروکریسی نے بہت سے سبز باغ دکھائے اور نوبت کالا باغ تک جاپہنچی۔ اس مسئلے پر بھی بڑی لے دے ہوئی اور شدید بحث و مباحثے کے بعد انجام کار یہ معاملہ بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا۔ انتہا تو یہ ہے کہ ضیا الحق کی 11 سالہ اور پرویز مشرف کی 8 سالہ فوجی حکومتیں بھی کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی ہمت و جرأت نہ کرسکیں۔ یہ منصوبہ عرصہ دراز سے سرد خانے میں پڑا ہوا ہے اور کسی کی مجال نہیں ہے کہ اسے دوبارہ چھیڑ سکے۔
ماضی کی سول اور فوجی دونوں ہی طرح کی حکومتوں کی کم ہمتی کے باعث توانائی کا بحران درد سر کی حد سے گزر کر اب درد دل اور درد جگر بن چکا ہے جس کے نتیجے میں ایک جانب عوام بلبلا رہے ہیں اور دوسری جانب صنعتوں کا پہیہ جام پڑا ہوا ہے۔ ان نامساعد حالات میں ملک کو اپنی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کی تکمیل کے لیے اب زیادہ تر تیل پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے جب کہ دوسری جانب عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے جس کی وجہ سے بجلی کے نرخ بڑھتے جارہے ہیں اور بجلی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے زرمبادلہ کے محدود ذرائع پر دباؤ متواتر بڑھ رہا ہے۔ ان حالات میں نوبت کرو یا مرو تک جا پہنچی ہے اور توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنا اب تقریباً ناگزیر ہوگیا ہے۔
خوش قسمتی سے ہمارا ملک پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں سورج سارا سال اپنی آب و تاب کے ساتھ چمکتا رہتا ہے۔ چنانچہ یہاں وافر مقدار میں باآسانی شمسی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لیے شمسی توانائی یا سولر انرجی ایک بہترین متبادل ذریعہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گھر کے ایک کمرے کو روشن کرنے کے لیے سولر پینل کے سب سے چھوٹے سسٹم کو نصب کرنے پر زیادہ سے زیادہ دس ہزار روپے کے اخراجات آئیں گے اور اگر اس کے ساتھ ساتھ کوئی شخص پنکھا بھی چلانا چاہے تو یہ لاگت اسی تناسب سے تھوڑی سی بڑھ جائے گی لیکن یہ اخراجات محض ایک بار آئیں گے اور اس کے بعد شمسی توانائی گویا صدقہ جاریہ بن جائے گی اور بجلی کے بلبلا دینے والے ماہانہ بلوں سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل ہوجائے گی۔ سولر پینل 21 تا 25 سینٹ فی گھنٹہ بجلی پیدا کرسکتا ہے جب کہ حکومت بڑے پیمانے پر شمسی توانائی پیدا کرنے والے نجی اداروں سے بجلی خرید کر عوام کو توانائی فراہم کرسکتی ہے۔
آئین کی اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو بھی یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے اپنے یونٹس یا متبادل ذرائع اختیار کرسکتے ہیں۔ لہٰذا سندھ حکومت کے حالیہ بجٹ میں محکمہ ماحولیات اور متبادل توانائی کے متعدد منصوبوں کے لیے 38 کروڑ 80 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ متبادل توانائی کے شعبے میں 5 نئی اسکیمیں شروع کی جارہی ہیں جن میں صوبے کے مختلف مقامات اور علاقوں میں شمسی توانائی کے ذریعے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔
مٹھی، اسلام کوٹ اور تھرپارکر کے علاقے میں کھارے پانی کو میٹھا بنانے والے واٹر ڈی سیلی نیشن کی توسیع کا کام بھی ان منصوبوں میں شامل ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تھرپارکر کے 6 دیہات میں کھارے پانی کو میٹھا کرکے پینے کے قابل بنانے کے 6 واٹر ڈی سیلی نیشن پلانٹس کی تنصیب کے لیے خطیر رقوم مختص کی گئی ہیں۔ سندھ کے رواں مالی سال کے بجٹ میں لیاری کے لیے بھی ایک خصوصی پیکیج کے تحت خاصی بڑی رقوم کا بندوبست کیا گیا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں اخبارات میں ایک کمرشل بینک کی جانب سے ایک اشتہار بھی شائع ہوا تھا جس میں شمسی توانائی مہیا کرنے کے لیے خصوصی قرضے جاری کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ پاکستان میں شمسی توانائی کو فروغ دینے کی یہ اولین لائق تحسین کوشش ہے۔ خیال رہے کہ یہ پیشکش ایک ایسے وقت پر کی جارہی ہے کہ جب پورا ملک لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہے اور بے چارے عوام کے کڑاکے نکل رہے ہیں۔ مذکورہ بینک کی پیشکش میں مجوزہ کلائنٹس کو بنے بنائے سولر سسٹم کی باآسانی فراہمی شامل ہے۔
شمسی توانائی کے اس نظام کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ ایک ماحول دوست نظام ہے۔ مذکورہ بینک کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ وہ ایک اور اشتہار اخبارات میں شائع کرائے جس میں مختلف پیکیجز کی قیمتیں درج ہوں اور جس میں سولر سسٹم کی تنصیب کے چارجز بھی شامل ہوں۔ نیز ان پیکیجز میں یہ تفصیلات بھی درج ہوں کہ کس پیکیج میں کتنے پنکھوں، انرجی سیورز اور ٹی وی سیٹس کی گنجائش ہوگی۔ اس کے علاوہ آسان ادائیگی کی اقساط کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ مجوزہ پیکیج میں ابتدائی اخراجات کم سے کم ہونے چاہئیں تاکہ کم آمدنی والے طبقات بھی اس پیشکش سے فائدہ اٹھاسکیں۔
شمسی توانائی کو محض گھریلو ضروریات کی تکمیل کے لیے ہی نہیں بلکہ صنعتی شعبوں کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جس میں سولر واٹر پمپنگ کا نظام بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے یہ خبر نہایت خوش آیند اور حوصلہ افزا ہے کہ سندھ بھر میں پینے کے میٹھے اور صاف پانی کے پلانٹس لگانے والی نجی کمپنی نے بجلی کی قلت اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے سنگین مسئلے کا آسان اور کامیاب حل تلاش کرلیا ہے اور اس کا سولر پاور پلانٹ کا تجربہ بے حد کامیاب ثابت ہوا ہے۔ کمپنی کے ترجمان کے مطابق 10 ہزار گیلن پانی کو صاف اور میٹھا بنانے کے لیے اس پلانٹ کی لاگت صرف 15 لاکھ روپے ہے جب کہ اس سے بڑے پلانٹس بھی تیار کیے جارہے ہیں جن کی لاگت کا انحصار پانی کے کھارے پن کی نوعیت اور گنجائش کے مطابق ہوگا۔ پلانٹ سے نہ صرف بجلی کی لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر قابو پالیا جائے گا بلکہ کھارے پانی کو بہترین پروسیسنگ کے عمل سے گزار کر میٹھا بنایا جاسکے گا۔ اس آر او پلانٹ سے سندھ کی ساحلی پٹی کے علاقوں بالخصوص بدین، کیٹی بندر اور کھاروچن سمیت صوبے کے ریگستانی علاقے بھرپور فائدہ اٹھاسکیں گے۔ جن دیہات اور گوٹھوں میں پانی کی شدید قلت ہے اور جہاں عام لوگوں کو بجلی کی سولہ سولہ گھنٹے طویل شدید لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے وہاں یہ آر او سولر پلانٹس خاص طور پر انتہائی مفید اور کارآمد ثابت ہوں گے۔ یہ ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ ہے ۔
کیونکہ پلانٹس کی بدولت ایک جانب تو بجلی کی طویل اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے چھٹکارا حاصل ہوجائے گا اور دوسری جانب بجلی کے بھاری اور لمبے لمبے ناقابل برداشت بلوں کی ادائیگی سے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ صاف اور میٹھا پانی وافر مقدار میں بروقت باآسانی دستیاب ہوگا۔ وطن عزیز میں آر او پلانٹس کا یہ کامیاب تجربہ دھماکا خیز ہے اور اس تجربے پر غیر ملکی ماہرین بھی حیران ہیں۔ کمپنی کے ترجمان کے مطابق آر او سولر پلانٹس سے نہ صرف پاکستان کے صارفین فائدہ اٹھاسکیں گے بلکہ وہ تمام ممالک بھی مستفید ہوسکیں گے جہاں صاف اور میٹھے پانی کی قلت کے علاوہ بجلی کی کمی کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔
پاکستان میں آر او پلانٹس کا یہ کامیاب تجربہ آم کے آم گٹھلیوں کے دام کے مترادف ہے کیونکہ اس سے نہ صرف ملکی صنعت فروغ پائے گی بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ نیز ان پلانٹس کی ایکسپورٹ سے ملک کو غیرملکی زرمبادلہ بھی حاصل ہوگا جس کی وطن عزیز کو اس وقت شدید ضرورت ہے۔ پاکستان میں سولر آر او پلانٹس کا یہ کامیاب تجربہ پاکستانی انجینئرز کی ذہانت اور مہارت کا قابل تعریف کارنامہ ہے جس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی''۔