ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا
افسوس کہ ووٹوں کے گننے میں تو برس ہا برس گزرگئے مگر ووٹرزکو تولنے والی بائیومیٹرک مشین ایجاد نہ ہوسکی۔
علامہ اقبال جمہوریت کے حسن کی بابت یہ کہتے ہیں:
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو ''گنا'' کرتے ہیں ''تولا'' نہیں کرتے
افسوس کہ ووٹوں کے گننے میں تو برس ہا برس گزرگئے مگر ووٹرزکو تولنے والی بائیومیٹرک مشین ایجاد نہ ہوسکی۔ امریکا کے غلام شکن صدر ابراہم لنکن نے جمہوریت کی جو تعریف کی تھی وہ برصغیر کے اسکول ، کالج اور جامعات سے نکلنے والے طالب علموں کے ذہنوں میں صیقل ہوگئی ، تعریف کچھ یوں تھی کہ A government of the people,by the people and for the people
اس کا بھی بعض ستم ظریفوں نے یہ توڑ نکالا :
A government off the people, far the people and buy the people
بہرکیف اس کا بلامبالغہ نچوڑ ، عطر یا ماحصل یہ ہے کہ عوام کی حاکمیت، جمہورکی منشاء کے مطابق حکمرانی، اکثریتی اقتدار، اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری ، بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ، آزاد و منصفانہ انتخابات ، قانون کی نظر میں سارے شہری برابر، قانون کی حکمرانی، حکومت کی آئینی حد بندی ، معاشرے میں سماجی ، معاشی اور سیاسی کثرت پسندی، رواداری کی اقدار، عملیت پسندی ، اشتراک و تعاون اور معاملہ فہمی و سمجھوتہ ۔ یہ سارے عناصر ہوں تو بنتی ہے جمہوریت۔ یہ نظریات کے وہ آبدار موتی ہیں جو ملکی سیاست کے قیام سے لے کر آج تک خوب لٹائے گئے۔
اقبال نے سلطانیٔ جمہور کے زمانہ میں ہر نقش کہن کو مٹانے اور ممولے کو شہباز (شہباز شریف نہیں) سے لڑانے کی بات کی ، لیکن دلچسپپ کہانی یہ ہے کہ جمہوری زور جمہوری روایات واقدار کو مٹانے اور رسوا کرنے پر صرف ہوتا رہا، پارلیمنٹ کی تضحیک کی گئی ، کہتے ہیں پاکستان دنیا کے جمہوری ملکوں میں اپنی الگ شان اور آب و تاب رکھتا ہے جس کی جمہوری استقامت بے مثال رہی ، آمروں نے جمہوریت کی تجہیزوتکفین کے خوب جتن کیے مگر آمریت کا دی اینڈ ہمیشہ ابھی بریک لیتے ہیں جیسے وقفہ سے مختلف نہیں رہا ۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا چنانچہ جمہوریت کو عصر حاضر میں بہترین انتقام سے تعبیرکیا گیا، یعنی بدترین،کرپٹ اور لتھڑی ہوئی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے ۔
ہماری سخت جان جمہوریت بلاشبہ واحد طرز حکومت ہے جسے ہراسمنٹ کا طویل دورانیہ ملا، اسے جسمانی، نظری، معاشی ، سیاسی اور نفسیاتی ہراسمنٹ سے کبھی نجات نہیں ملی، یہ وہ سہمی ہوئی محبوبہ تھی جسے ہراسمنٹ کی شکایت کے ازالہ میں جواب ملا '' آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسارکر'' اس لیے سات عشروں کے بعد بھی جمہوری دیوی رسوا سر بازار اور اس کے مجاوروں اور پیروکاروں کی دونوں ٹانگیں انگاروں پر اور سر سوا نیزے پر جلوہ افروز ہے۔ متعدد وزرائے اعظم کرپشن اور نااہلی کے الزام میں بزم ناز سے اٹھائے گئے اور گزشتہ دس سال کی دو حکومتیں (پی پی پی ، مسلم لیگ ن ) احتساب کی چکی میں پیسی جا رہی ہیں ۔ اب تک ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چکی کے اس جمہوری آٹے کے پیڑے چائے پراٹھے کی عوامی مقبولیت کو ماند کرلیتے مگرلگتا ہے سیاست دفاعی رعونت اور غضبناکی کی زد پر ہے۔
مارشل میکلوہن نے بھی کیا غضب کی بات کی کہ ہر رومن غلاموں کے مدار میں گھومتا تھا ، اس کے چاروں طرف غلام منڈلاتے رہتے تھے، اس طرح غلام اور اس کی نفسیات نے اٹلی کو اپنے سحر اور سماجی اثرات میں جکڑلیا اور ہر رومن اپنے اندر سے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ایک غلام بن کر رہ گیا، وجہ صاف ظاہر تھی کہ مسلسل غلامی کے ماحول میں اسے ہر دم موجود غلامی کی نفسیات نے مریض بنا دیا، کوئی بھی اس قسم کے اثرات ونتائج سے بچ نہیں سکتا۔ باقی باتیں قارئین فلم ''فال آف دی رومن ایمپائیر'' میں دیکھ لیں۔ اور آنکھیں کھول کر دیکھ لیں کہ عظیم و ناقابل تسخیر سلطنتیں کس طرح برباد ہوگئیں۔
میکلوہن نے دوسرا عجب انکشاف یہ کیا کہ جان ایف کینیڈی کا قتل اور اس کے قاتل آسوالڈ کا جیک روبی کے ہاتھوں پراسرار قتل ٹی وی اسکرین کی بے محابہ طاقت کی بدولت ہوا، جو سیکیورٹی پر مامور تھے وہ محو نظارہ تھے، ہوش میں کہاں تھے، ان کی نگاہیں ٹی وی اسکرین پر جمی ہوئی تھی ، اس کولڈ میڈیم کے جادو نے ان کوگونگا ، بہرا اور اندھا بنا دیا تھا ۔ میڈیا کے اس بے بدل فلسفی نے بات کہاں سے کہاں پہنچا دی ۔ یاد رکھیں ! سابق صدر بش جونیئر نے ہالی ووڈ کے مشہور فلم سازوں اور ہدایتکاروں کو وائٹ ہاؤس میں بلایا اور ان سے التجا کی وہ اپنی کارٹون اور اینی میٹڈ فلموں پر نظر ثانی کریں ۔ تمہارے اس الہ دین نے بچوں کی صحت ،ان کی معصومیت اور عادتوں کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
چلیے !کینیڈی کے امریکی سیکیورٹی حکام کی محویت سے ہٹ کر آج کے نئے پاکستان میں ''حکومت اور ٹیلیوژن'' کے منظر نامہ کی طرف آتے ہیں جس میں حکمرانی کا محور ٹی وی چینلز کی بمبارڈ منٹ ہے ۔ لوگ جو اکثرکہتے ہیں کہ فلم از ڈیڈ، موویز آر alive وہ غلط نہیں کہتے، بعض تجزیہ کارکہتے ہیں کہ آج ملکی جمہوریت نئے عہد کی ترجمان ہے ۔ آپ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہونگے۔ نئے عہد کی تفسیر و توضیح جو پی ٹی آئی کرے گی وہی درست سمجھی جانی چاہیے، جس طرح یوٹرن کی جدید تعریف وزیراعظم عمران خان نے کی وہی سیاسی لغت کی آبرو ہے۔
یوں بھی حکومتی تھنک ٹینک کے بزرجمہروں نے بیان و زبان کی جو نئی طرح ڈالی ہے، کس کی مجال ہے کہ وہ شیخ رشید، مراد سعید، فواد چوہدری، فیصل واوڈا اورشہریار آفریدی کی سخن وری کو چیلنج کرے ۔ ان کا اجتماعی انداز بیان بلے بلے۔ اپوزیشن اہل اقتدار کی لسانی بد تہذیبی پر لاکھ شور مچائے، اپوزیشن کو اس نکتہ پر غورکرنا چاہیے کہ نیا پاکستان ایک نئی سیاسی تشکیل کے میڈیائی برمودا ٹرائنگل میں الجھاؤکا شکار ہے اور منتخب نمایندے جب کہ اپوزیشن ٹی وی کے بغیر چل ہی نہیں سکتے۔آجکل اے ڈیموکریسی بائے ٹی وی کا چلن عام ہے، پاکستان کی معروضی صورتحال وہ نہیں جو بقول شاعر
ہمارے گھرکی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
ٹی وی کے آئینہ میں میرے نئے پاکستان کو دیکھو۔ میڈیا کا طلسم ملاحظہ کرو، کیا کسی جنگ میں دیکھا ہے کہ جنگی طیارے بم پھینک کر جاتے ہیں ، پھر دو جنگی طیارے مار گرائے جاتے ہیں ، ایک ہوا باز چائے پی کر واہگہ سرحد پارکرتا ہے اور دبئی میں پی سی ایل کے شاندار اور سنسنی خیز میچ جاری رہتے ہیں۔ یہ ٹی وی کا نسخہ کیمیا ہے، کون سا درد ہے جو لادوا ہے ۔ ٹی وی کھولیے، درد منت کش ِدوِا نہ ہوا۔ آپ کو حقیقی زندگی جہنم اور ٹی وی پر نظر آنے والی دنیا جنت نظیر ملے گی۔ اس میں نیا پاکستان شامل کرلیں۔ اسی میڈیم کی نرگسیت سے آپ پر یہ راز کھلتے جائیں گے کہ معاشرہ میں فتنہ انگیزیاں اور ابلیسیت ، یہ خاموش دشمنیاں ، قتل وغارت، دہشتگردی، فرقہ واریت کے شرارے اور سیاستدانوں کی رنجشیں رات کی تاریکیوں کا تحفہ ہیں، کسی کا قول ہے کہ جاہلانہ غراہٹیں ہیں۔
علم دشمنی کی گھناؤنی وارداتیں ہو رہی ہیں، خود کشی کے سیکڑوں زاویے اور بے شمار اسباب ہیں، مگر بے منزل زندگی سے جڑے ہیں ، فکرکوئی بات نہیں۔ ایک طالب علم اپنے استاد کے پیٹ میں چھرا گھونپتا ہے، ماں اپنے بچوں کے ساتھ گرتی چھت کے ملبے تلے دب جاتی ہے، پانچ بچے ایک ساتھ موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، پروفیسر میاں بیوی اس جمہوری بھیڑ میں یوں جان سے جاتے ہیں کہ تین دن بعد ان کی متعفن لاشیں اٹھائی جاتی ہیں۔ جرائم اتنے بہیمانہ کہ سزاؤں کا تعین کرنا مشکل، قانون انگشت بدنداں ،انگلیاں فگار اپنی ، خامہ خونچکاں اپنا۔ آئیے گوربخش سنگھ عرف مخمور جالندھری کی ایک نظم کے کچھ شعر سنتے ہیں۔
سال ہا سال سے گھلتا ہے فضا میں زہرآب
دورو نزدیک سے آوازیں چلی آتی ہیں
تلخیٔ زیست کا پٹتا ہے ڈھنڈورا جن میں
سر راہ پھیلے ہوئے دامن ِتذلیل وطلب
بھوکے محتاج کی ٖحالت پہ ترس کھا بابا
راستہ روکے سرشام انوکھے تاجر
کیا کوئی مال نیا کورا دکھاؤں صاحب
مزد ِغیور میں آمیزش ِدریوزہ گری
ایک اور آنہ دو سرکارگراں ہے گندم
روح افگار غلامانہ تفاخرکی نمود
ڈیوڑھا درجہ ہے کہاں بھاگے چلے آتے ہو
مفلسی فاقہ کشی قابل تعدیب وسزا
چور نوکر ہو نکل جاؤ نہ آنا کل سے
بندہ پرورو۔ یہ شعری مناظر تقسیم ہند سے قبل کے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ظلمت شب، بھوک، بے حسی، گداگری، جسم فروشی اور ذہنی غلامی آج کا مسئلہ بھی ہے۔ ظالما! غریب شہر کے آنسو سوال کرتے ہیں ۔ بتا گڈ گورننس کیا ہے؟ اگرکوئی خواب ہے تو۔
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا؟