اشرافیہ کے نفسیاتی حربے

یہ کس قدر دلچسپ حقیقت ہے کہ اربوں کی کرپشن کے ملزمان آج بھی اتنے ہی محترم ہیں جتنے کل تھے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

ہر ملک کا سربراہ اپنے ملک کا مان اور پہچان ہوتا ہے، پارلیمانی نظام میں ملک کا سربراہ وزیر اعظم اور صدارتی نظام میں ملک کا سربراہ صدر ہوتا ہے ۔جمہوری ملکوں میں سربراہان ملک کی تکریم کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وزیر اعظم یا صدر عوام کا منتخب حکمران ہوتا ہے، سربراہ مملکت کی عزت وتکریم ملک کی عزت و تکریم سمجھی جاتی ہے اسی لیے دنیا بھر میں سربراہان مملکت کا نام بھی بڑے احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے جو مہذب قوموں کا طریقہ کار اور کلچر کا حصہ ہوتا ہے۔

ہمارے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو احتراماً ان کے پورے نام میاں محمد نواز شریف سے مخاطب کیا جاتا رہا اب جب کہ وہ وزیر اعظم نہیں ہیں بلکہ ایک سزا یافتہ شخص ہیں پھر بھی انھیں میاں محمد نواز شریف کے نام ہی سے مخاطب کیا جاتا ہے یہ نہ صرف انفرادی اخلاق کی نشانی ہے بلکہ قومی اخلاق کا بھی ایک مہذب نمونہ ہے۔ میاں محمد نواز شریف ایک لمبا نام ہے لہٰذا عام طور پر نواز شریف یا میاں صاحب کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے اگر کوئی ملک کے وزیر اعظم کو صرف نواز شریف صاحب کہے تو یہ نام بھی اخلاقی لحاظ سے قابل قبول اور محترم سمجھا جاتا ہے۔

لیکن ہمارے ملک میں سیاسی اختلافات کی وجہ ہمارے لیڈران اور کارکنان مخالف کا نام اس بدتمیزی سے نامکمل یا توہین آمیز طریقے سے لیتے ہیں کہ سننے والے کو برا بھی لگتا ہے اور توہین آمیز بھی لگتا ہے ہمارے موجودہ وزیر اعظم کا نام عمران خان ہے چونکہ وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہیں اور عوام کے منتخب نمایندے بھی ہیں لہٰذا ان کا نام احترام سے لیا جانا چاہیے تاکہ دنیا میں ہماری اخلاقیات سربلند ہو۔

لیکن ہمارے سیاستدانوں اور ان کے کارکنوں کی اخلاقیات کا عالم یہ ہے کہ ملک کے منتخب وزیر اعظم کو صرف ''عمران'' کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے جس کا مقصد وزیر اعظم کی تحقیر کے علاوہ کچھ نہیں۔ صف اول کے سیاستدان اخلاقیات سے اوروں کی نسبت زیادہ واقف ہوتے ہیں لہٰذا ان کی ذمے داری ہے کہ وہ سیاستدانوں خاص طور پر ملک کے سربراہ کا نام عزت سے لیں لیکن ایک تو اختلاف کے کارن دوسرے طبقاتی فرق سے جنم لینے والے غرور کی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان کے بجائے صرف عمران کے نام سے وزیر اعظم کو مخاطب کرکے اپنی عام ذہنیت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اس طرز تخاطب میں سیاسی اختلاف سے زیادہ طبقاتی فرق کا دخل ہے۔


وزیر اعظم عمران خان کا تعلق چونکہ درمیانے طبقے سے ہے لہٰذا اشرافیائی طبقے کے غرور کی وجہ سے اشرافیہ کے جہلا ملک کے منتخب وزیر اعظم کو صرف عمران سے مخاطب کرکے طبقاتی فرق کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اصل میں عمران خان پاکستانی سیاست کے پہلے فرد ہیں جو مڈل کلاس سے تعلق رکھنے کے باوجود ملک کے منتخب وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہیں۔ جو اشرافیہ کے لیے کسی طور قابل قبول نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو عمران کہہ کر جہاں طبقاتی نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے وہیں طبقہ اشرافیہ کی مخصوص سوچ کا ثبوت بھی دیا جاتا ہے۔ اس طبقاتی غرور کے اظہار میں اشرافیہ اس حد تک گر جاتی ہے کہ ملک کے سربراہ کی بے توقیری کا بھی اسے لحاظ نہیں رہتا، یہ نفسیات ہے ہماری اشرافیہ کی۔

سب سے پہلے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تحقیر آمیز رویوں کا تعلق محض فرد یا افراد سے نہیں بلکہ طبقات سے ہے عمران خان اگر اشرافیہ کے طبقے سے تعلق رکھتے تو ان کے نام کو اس تحقیر آمیز طریقے سے نہیں لیا جانا تھا، تحقیر آمیز طریقے سے نام لینے کی ضرورت یا مقصد یہ ہے کہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی اس طرح تحقیر کی جائے کہ بحیثیت لوئر یا مڈل کلاس حکمرانی کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں دوسری طرف لوئر اور مڈل کلاس جس کی تعداد 90 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اس کا حال رعایا جیسا ہے وہ ہمیشہ اشرافیہ کے زیر اثر محکومی کی زندگی گزارتی ہے۔ بدقسمتی سے معاشرے کی اتنی بڑی اکثریت ہونے کے باوجود یہ طبقہ حصول اقتدار کے بارے میں خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا کیونکہ نفسیاتی طور پر اس کو یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ اس کا کام حکم سننا ہے حکم دینا نہیں ہے۔

جمہوریت کا بنیادی نظریہ اکثریت کی حکومت ہے ۔ اس حقیقت کے جمہوریت کے حامیوں نے ان الفاظ میں ظاہر کیا ہے ''عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے'' جمہوریت کی یہ تعریف کسی مزدور کسان مڈل یا لوئر مڈل کلاسر نے نہیں کی بلکہ طبقہ اشرافیہ کے حامیوں نے کی ہے۔ کیا جمہوریت کے کسی دور میں جمہوریت کی مذکورہ بالا تعریف کے مطابق کسی دور میں جمہوریت قائم رہی؟ یہ ایسا سوال ہے جس پر جمہوریت بلکہ فراڈ جمہوریت کے اندھے حامیوں کو غور کرنا چاہیے۔ جاگیردارانہ نظام کھلی طبقاتی آمریت تھی اس کھلی آمریت کو جمہوریت کے پردے میں چھپانے کے لیے نیابتی جمہوریت کا وہ فراڈ شروع کیا گیا جس میں منتخب نمایندے عوام کے مکمل حاکم مانے جاتے ہیں اور منتخب نمایندوں کا تعلق اشرافیہ سے ہی ہوتا ہے۔

بات چلی تھی وزیر اعظم عمران خان کے نام سے ہماری اشرافیہ نفسیاتی طور پر کسی مڈل یا لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے کو ملک کا وزیر اعظم تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ یہ کس قدر دلچسپ حقیقت ہے کہ اربوں کی کرپشن کے ملزمان آج بھی اتنے ہی محترم ہیں جتنے کل تھے اورکرپشن سے دور ایمانداری سے اپنے فرائض ادا کرنے والی مڈل کلاس کو پوری جانکاری کے ساتھ اس لیے بے توقیر کیا جا رہا ہے کہ اس کلاس سے تعلق رکھنے والے خواہ وہ کتنے ہی باعلم ایماندار اور مخلص ہوں احساس کمتری کا شکار ہوکر حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر آنے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکیں ۔ یہ ایلیٹ کے وہ نفسیاتی حربے ہیں جن کا مقصد عوام کے ذہنوں میں اقتدار کی سوچ تک کا داخلہ بند کرنا ہے۔

ہمارے میڈیا میں سو فیصد افراد کا تعلق لوئر اور مڈل کلاس سے ہے اور میڈیا کے کارکنوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اشرافیہ کے ان نفسیاتی حربوں کو سمجھیں اور ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے میڈیا میں مڈل کلاس کے حکمرانوں کی توقیر میں اضافے کے لیے میڈیا میں احترام کو مضبوط بنائیں ۔ ایک عام آدمی کا نام بھی عمران خان ہو تو عمران خان ہی کہا جاتا ہے عمران کہہ کر اس کی توہین نہیں کی جاتی جب کہ ہمارے وزیر اعظم کا نام عمران خان ہے اور محض عمران کہہ کر اس کی تحقیر کی جا رہی ہے۔ میڈیا کی یہ خصوصی ذمے داری ہے کہ اشرافیہ کی سازش کو ناکام بنانے کے لیے وزیر اعظم عمران خان کا پورا نام لکھے۔
Load Next Story