ایک تصویر کے دو رُخ

میری مراد نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن اور کینیڈا کے نوجوان لیڈر جسٹن ٹروڈو سے ہے۔


Amjad Islam Amjad March 28, 2019
[email protected]

گزشتہ دنوں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں جو رونگٹے کھڑے کر دینے والا واقعے رونما ہوا ہے وہ بلاشبہ اْس عالمی سطح پر بنتی ہوئی اْس خوفناک تصویر کا ایک رخ ہے جس کی طرف ضروری تو کیا رسمی توجہ بھی نہیں دی جا رہی کہ اس کے پس پشت جو بیانیہ کارفرما ہے اس کے ڈھول بجانے والوں کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ کہانیوں والے بندر کی طرح جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹ رہے ہیں اس واقعے نے کسی حد تک اور وقتی طور پر ضمیر عالم کو بیدار تو کیا ہے مگر عمومی سطح پر اب بھی سنگدلی اور بے خبری کا وہی عالم ہے جو اس سے پہلے تھا، سو اُن اکا دکا حق پرست آوازوں کو سلام جو پہلی یعنی ترقی یافتہ دنیا کے ایوانوں سے بلند ہوئی ہیں لیکن اس ضمن میں دو اللہ کے بندے خصوصی تعریف اور شکریے کے مستحق ہیں کہ جنھوں نے اپنی طرف سے مہذب کہلانے والی سفید فام اقوام کے دامن سے اس داغ کو دھونے کی بھرپور کوشش کی ہے جس کی موجودگی میں اُن کی تہذیب کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔

میری مراد نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن اور کینیڈا کے نوجوان لیڈر جسٹن ٹروڈو سے ہے جنہوں نے اس موقعے پر اپنی انسانیت اور انصاف پسندی سے پوری دنیا سمیت ان شہیدوں کے لواحقین کے دل بھی جیت لیے ہیں جن کے چاروں طرف اس وقت اندھیرے اور دکھ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ میرے دوست وارث شیخ نے امریکا سے عمران خان اور ان کی حکومت کے لیے اس حوالے سے ایک مشورہ بھیجا ہے جو بلاشبہ قابل تعریف بھی ہے اور لائقِ تائید بھی کہ حکومتِ پاکستان کو اس نیک دل عورت کو اپنے بڑے سے بڑے قومی اعزاز سے نوازنا چاہیے جس نے اس دکھ کی گھڑی میں مثالی کردار کا ثبوت دیا ہے کہ یہ اعزاز اصل میں اس تعصب زدہ سفید فام اقلیت کے لیے ایک چشم کشا پیغام ہوگا جس نے ساری دنیا کو "اسلاموفوبیا" کے نام نہاد خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔

اس معاملے پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور یقیناً ابھی اور بھی لکھا جائے گا۔ ایک شاعر نے یہ منظر کس طرح دیکھا اور اس کی معرفت کیا کچھ سوچا اور محسوس کیا اور اس تصویر کے دونوں رخ کس طرح سے دیکھے اور دکھائے ہیں ان کا اظہار اس نظم میں ہوا ہے جو شعری آمد کے حوالے سے اگرچہ ایک طویل خشک سالی کے اختتام کی بھی پیغامبر ہے لیکن اس کا اصل کمال فطرتِ انسانی کی اُس اندرونی روشنی کا انعکاس ہے جس نے بے گناہوں کی لاشوں اور سفاک قاتلوں کی انسان دشمنی کی ایسی تصویر مرتب کی ہے جس میں آخری فتح انصاف اور انسانیت کی ہی ہے۔

بانٹتے جانے سے کہتے ہیں خوشی بڑھتی ہے

درد اور غم کا مگر اس سے الگ رشتہ ہے

جس قدر بانٹیے یہ پہلے سے کم ہوتے ہیں

ایک ہی کھیل کے کردار ہیں دن بھی، شب بھی

آدمی زاد کے بہروپ میں ایسے بھی درندے ہیں یہاں

جن سے ابلیس پنہ مانگتا ہے

اور یہیں زندگی کرتے ہیں وہ سب لوگ کہ جو

بات کرتے ہیں تو لہجے میں خدا بولتا ہے

درد ایسا ہے جسے سوچ کے دل کانپتے ہیں

زخم ایسا ہے کہ جس کا کوئی مرہم ہی نہیں

آگ ایسی ہے کہ تا حشر نہیں بجھنے کی

خوف ایسا ہے کہ رگ رگ میں اتر جاتا ہے

اتنے بے گورو کفن لاشے خدا کے گھر میں

چشمِ خورشید نے شاید ہی کبھی دیکھے ہو

اس قدر سنگدلی ، ایسی شقاوت ، توبہ

وہ حقیقت جو تصور میں بھی تصویر نہ ہو

ایسے منظر جنھیں سوچے سے جگر پھٹتے ہوں

ایسا لگتا تھا قیامت کا سماں ہو جیسے

حدِ قطبین تلک جس کی دھمک پھیلی تھی

فاصلے سارے سمٹ آئے تھے اک لمحے میں

مرنے والے تھے کہیں اور کہیں ماتم تھا

دائرہ دائرہ پھیلتا، بڑھتا غم تھا

جن نے یہ ظلم کیا ان پر ہے لعنت، برحق

اس سے مطلب ہی نہیں

ان کا کیا رنگ تھا، کیا نسل تھی، مذہب کیا تھا !

ہیں یہ سب اصل میں اس خلق خدا کے مجرم

جو اسی خاک پہ رہتی ہے یہاں بستی ہے

ایک ہی ملک کے باشندے ہیں سب اہلِ ضمیر

جو کہ ہر ظلم پہ روتے ہیں تڑپ اٹھتے ہیں

جن سے قائم ہے بھرم

نسبت درد کا، ہم سب کے یہاں ہونے کا !

اور پھر ان کی عزیمت کو سلام

جن نے اس درد کے ہنگام میں بھی صبر کیا

اور ان سب کی ابد تاب محبت کو سلام

جو کہ ان درد گزیدوں کے گھروں تک پہنچے

کبھی سینے سے لگایا ، کبھی آنسو پونچھے

اور پھر ایسے معافی کے طلبگار ہوئے

جیسے اس ظلم کا ذمے ہو انھی کے سر پر

دل یہ کہتا ہے کہ جب تک یہ دمکتی روحیں

اس سیہ رات کی دہلیز پہ تابندہ ہیں

ظلم جیسا بھی ہو اس کو کہیں رکنا ہوگا

حق و انصاف کے معیار، ابھی زندہ ہیں

امن عالم کے طرفدار، ابھی زندہ ہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔