پختون کلچر کے خدوخال
’’ثقافت‘‘ میں اس کے یہی معنی شامل ہوتے ہیں اور چھت اگر دیواروں کو مکان بناتی ہے تو’’مکان‘‘انسانی آبادی کی علامت ہے۔
روخان یوسف زئی کا مزاج صحافت اور شعروادب کا امتزاج ہے اس کا قلم بھی اور تحریریں بھی۔اس لیے وہ خیالی دنیاؤں سے زیادہ زندہ اور موجودہ دنیا کی بات کرتا ہے، اپنے ماحول،معاشرے اور زیست روزگار کی بات کرتا ہے، اسی سلسلے میں یہ کتاب''پختون کلچر کے خدوخال'' بھی لکھی گئی ہے اور جس میں پشتونوں کی زندگی کے مختلف پہلو اجاگر کیے گئے ہیں۔ثقافت اور کلچر دونوں الفاظ ہمارے ہاں تقریروں میں تحریروں میں اور مجلسی زندگی میں بہت زیادہ استعمال ہوتے ہیں اور تقریباً ہر شخص ثقافت اور کلچر کے بارے میں کچھ نہ کچھ نظریہ یا عقیدہ رکھتا ہے لیکن جتنے یہ نام اور الفاظ معروف ہیں اتنے ہی زیادہ ناقابل فہم ہے۔اگرآپ کسی سے ثقافت یا کلچر کی تعریف یا تشریح کرنے کے لیے کہہ دیں تو وہ نہیں کرپائے گا یا وہ تشریح کرے گا جو دوسروں اور آپ سے مختلف ہوگی۔
بالکل اسی طرح جس طرح اگر ہم کسی سے خدا،اسلام اور انسان کے بارے میں پوچھیں توشاید کوئی بھی نہ کرپائے اور جوکچھ کہے گا وہ دوسروں سے مختلف ہوگا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ چیزیں اتنی بڑی وسیع وعریض اور گہرائی و گیرائی رکھتی ہیں کہ انسان اور اس کا فہم وادراک اس کے مقابل ویسا ہی ہے جیسے قطرے کا سمندر،ذرے کا صحرا اور پتے کا جنگل کے بارے میں ہوسکتا ہے کیونکہ''انسان جزو'' ہے اور یہ چیزیں''کلُ'' ہیں اور کوئی''جزو'' اپنے ''کلُ'' کا احاطہ وادراک نہیں کرسکتا۔ثقافت عربی لفظ ہے ویسے تو اس کے معنی بہت وسیع ہیں جن میں ذہانت،مہارت،غلبہ جھگڑے وغیرہ کے بھی ہیں لیکن ایک معنی سیدھا کرنے کے بھی ہیں اور مجازاً چھت کے لیے استعمال ہوتے ہیں جو دیواروں کو جوڑ کر سیدھا رکھ کر''مکان'' بناتی ہے۔
''ثقافت'' میں اس کے یہی معنی شامل ہوتے ہیں اور چھت اگر دیواروں کو مکان بناتی ہے تو''مکان''انسانی آبادی کی علامت ہے۔لیکن ثقافت کے لیے استعمال ہونے والے انگریزی لفظ''کلچر'' کا ایک بہت ہی وسیع و عریض اور گہرا پس منظر ہے اور یہ لفظ بنیادی طور پر انگریزی کا ہے بھی نہیں بلکہ ہندی اور ہند میں بھی یہ قدیم قبل آریائی زبانوں سے آیا ہے۔ہندی زبانوں کے ماہر لسانیات نیستی کمارمیئرجی نے اپنی کتاب''آریائی زبان'' میں لکھاہے کہ آریاوں اور دراوڑوں سے بھی پہلے یہاں جو آسٹرک(کول،فٹرا کھمیراڑسی چام وغیرہ)لوگ آباد تھے اور ابتدائی زراعت کار تھے وہ ایک لکڑی کے آلے سے زمین کھودتے تھے جس کا نام لگ یا لیگ تھا۔جو بعد میں''لیک'' ہوگیا یعنی سیدھی لکیریں کھینچنے کے لیے جیسے سنسکرت کا لیکھا اور پھر ریکھا۔(خط لکیریں) وغیرہ۔یہ لفظ لکیروں اور لکھنے کے لیے بھی ہے۔لیکن زراعتی آبادی میں منتقل ہوکر کیل بن گیا، اسی کیل سے پھر ''کلے''کلہ وغیرہ کے الفاظ بنے۔
پشتو میں زراعت کو کرکیلہ کہتے ہیں پنجابی میں''کلہ'' ایک خاص زمین کے مقدار اور ٹکڑے کو کہتے ہیں اور یہ بھی صراحت ضروری ہے کہ وہ قدیم آسٹرک لوگ چھوٹی چھوٹی بستیاں یعنی گاؤں بناکر رہتے تھے جب کہ بعد میں آنے والے دراوڑوں نے بڑے بڑے شہر بسانا شروع کیے جیسے ہڑپہ، موہنجوجوڈارو،رحمان ڈھیری وغیرہ کیونکہ اب زراعت کے ساتھ دوسرے''پیشے'' بھی منسلک کیے گئے ۔
اس زرعی آبادی کلہ یا کلے(پنجابی پنڈ) میں سارا دن تو لوگ اپنا اپنا کھیت کلیان کاکام کرتے تھے لیکن رات کو یا فارغ اوقات میں خود کو آرام دینے،تازہ ترکرنے اور تھکان دور کرنے کے لیے کچھ اجتماعی سرگرمیاں بھی کرتے تھے۔اب تھوڑی سی بات اس پر بھی ہوجائے کہ انسان تھکتاکیوں ہے اور تھکان دور کرنے کے طریقے کیا ہیں۔ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ محنت کا سخت کام کرنے والے مزدور کاشتکار وملاح چرواہے اور ساربان ''گاتے'' ہیں یہ وہ غیرشعوری طور پر کرتے ہیں کیونکہ جسمانی نظام کا تقاضا ہوتاہے۔انسان جب سانس لیتاہے تو آکسیجن کھینچ کر پھیپھڑوں کے ذریعے''خون'' دل کو دیتاہے دل وہ خون پمپ کرکے جسم کو پہنچاتاہے لیکن ساتھ ہی ساتھ''دل'' واپسی میں استعمال شدہ خون بھی کھینچ کر پھپھڑوں کو صفائی کے لیے دیتاہے، پھپھڑے اسے صاف کرکے''کاربن'' نکال دیتے ہیں اور اس کے بعد دوسرا سانس کھینچ کر آکسیجن کھینچ کر پھر خون میں شامل کرتا ہے۔
یوں کہیے کہ ہمیں پتہ بھی نہیں کہ ایک اتنا بڑا کارخانہ سانس کی آمد ورفت کے ذریعے چلتاہے اندر کھینچنے والی سانس آکسیجن سے بھری ہوتی ہے اور نکالنے والی سانس اس کاربن کو باہر نکالتی ہے جوخون میں استعمال کی وجہ''کاربن'' بن چکی ہوتی ہے۔عام حالات میں تو انسان آرام سے سانس لیتا رہتاہے اور معمول کے مطابق آکسیجن اور کاربن کا یہ سلسلہ متوازن رہتاہے لیکن جب انسان کسی نہ کسی شکل میں جسمانی کام اور محنت کرتاہے تو زیادہ آکسیجن خرچ ہونے پر خون میں کاربن بڑھ جاتاہے اور قدرت کا یہ عجیب وغریب انتظام ہے کہ انسان کو شعوری طور پر تو اس کا علم نہیں ہوتا لیکن خودکار جسمانی نظام اس فالتو کاربن کو نکالنے اور زیادہ آکسیجن کھینچنے کے لیے یا توجمائیاں لینے لگتاہے یا پھر گاتاہے ہنستاہے اور یاپھر تھک کر پڑا رہتاہے۔
چنانچہ اگر ہم محنت کرنے اور زیادہ تھکان والے لوگوں کو دیکھیں تو وہ یہی کام کرتے ہیں آرام سے بیٹھے ہوئے لوگوں کو اس کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔اور اگر ہم تحقیق کریں تو انسان کے تمام ابتدائی آلات موسیقی پھونک سے بجنے والے ہوا کرتے تھے جو سوچے سمجھے بغیر اس نے فطرت یا جسمانی نظام نے اس سے بنوائے جن کے ذریعے کاربن کا بے تحاشا اخراج ممکن ہوجاتاتھا اور آکسیجن کی سپلائی بڑھ کر جسمانی نظام کو متوازن کردیتی ہے ۔
جس زرعی آبادی یا بستی یا پنڈ کا ہم نے ذکرکیاہے اس کے سارے لوگ دن بھر تو اپنا اپنا ذاتی اور انفرادی کام کرتے تھے لیکن رات کو آرام اورفرحت یا بالفاظ دیگر آکسیجن اور کاربن کو متوازن کرنے کے لیے ایسی سرگرمیاں کرتے تھے جو ذاتی نہیں اجتماعی ہوتی تھیں اور''کام'' کے بجائے آرام فرحت اور تازگی حاصل کرنے کے لیے ہوتی تھیں، ان ہی اجتماعی سرگرمیوں اور مشاغل کا نام (کلی یا اجتماع کی نسبت سے) ''کلتور'' ہوگیاہے جو انگریزی میں جاکر ''کلچر'' بن گیا ہے لیکن حروف کی ترتیب سے اب بھی''کلچر'' سے زیادہ ''کلتور'' ہوتاہے اور یہی کلتور لفظ پشتو میں اب بھی ویسے کا ویسا اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔
انگریزی میں اس سے اور بھی بہت سارے الفاظ بنتے ہیں اور سب کا تعلق زراعت یعنی''کلی'' سے ہوتاہے،جسے ایگری۔کلتور،ہارئی کلتورآربورکلتور،ٹشو کلتور،اور یا پھر کلٹی ویٹر جیسے نام۔ چنانچہ''کلتور'' میں ہر وہ چیز شامل ہے جو ذاتی اورانفرادی نہ ہو اور اجتماع کے لیے فائدہ سہولت اور نشوونما کے لیے ہو۔
روخان یوسف زئی نے اپنی اس کتاب''پختون کلچر کے خدوخال'' میں پشتون کلتور کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے اور حتی الوسع پشتون کلتور کے اجزاء اور خدوخال واضح کیے ہیں جو دوسری اقوام کے کلتور سے تھوڑے مختلف ہیں کیونکہ ہر قوم ونسل کا کلتور اس کی ضرورتوں، تقاضوں اور بودوباش کے تابع ہوتا ہے جس میں جغرافیائی عوامل،قومی مزاج اور مسائل کے عناصر بھی شامل ہوتے ہیں۔کتاب پشتونوں کے لیے بھی قابل مطالعہ ہے اور ان غیر پشتونوں کے لیے بھی جو پشتون اور پشتون کلتور کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں کہ ساتھ ساتھ رہنے والوں کے لیے ایک دوسرے کے کلتور کے بارے میں جاننا ضروری ہوتاہے۔
بالکل اسی طرح جس طرح اگر ہم کسی سے خدا،اسلام اور انسان کے بارے میں پوچھیں توشاید کوئی بھی نہ کرپائے اور جوکچھ کہے گا وہ دوسروں سے مختلف ہوگا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ چیزیں اتنی بڑی وسیع وعریض اور گہرائی و گیرائی رکھتی ہیں کہ انسان اور اس کا فہم وادراک اس کے مقابل ویسا ہی ہے جیسے قطرے کا سمندر،ذرے کا صحرا اور پتے کا جنگل کے بارے میں ہوسکتا ہے کیونکہ''انسان جزو'' ہے اور یہ چیزیں''کلُ'' ہیں اور کوئی''جزو'' اپنے ''کلُ'' کا احاطہ وادراک نہیں کرسکتا۔ثقافت عربی لفظ ہے ویسے تو اس کے معنی بہت وسیع ہیں جن میں ذہانت،مہارت،غلبہ جھگڑے وغیرہ کے بھی ہیں لیکن ایک معنی سیدھا کرنے کے بھی ہیں اور مجازاً چھت کے لیے استعمال ہوتے ہیں جو دیواروں کو جوڑ کر سیدھا رکھ کر''مکان'' بناتی ہے۔
''ثقافت'' میں اس کے یہی معنی شامل ہوتے ہیں اور چھت اگر دیواروں کو مکان بناتی ہے تو''مکان''انسانی آبادی کی علامت ہے۔لیکن ثقافت کے لیے استعمال ہونے والے انگریزی لفظ''کلچر'' کا ایک بہت ہی وسیع و عریض اور گہرا پس منظر ہے اور یہ لفظ بنیادی طور پر انگریزی کا ہے بھی نہیں بلکہ ہندی اور ہند میں بھی یہ قدیم قبل آریائی زبانوں سے آیا ہے۔ہندی زبانوں کے ماہر لسانیات نیستی کمارمیئرجی نے اپنی کتاب''آریائی زبان'' میں لکھاہے کہ آریاوں اور دراوڑوں سے بھی پہلے یہاں جو آسٹرک(کول،فٹرا کھمیراڑسی چام وغیرہ)لوگ آباد تھے اور ابتدائی زراعت کار تھے وہ ایک لکڑی کے آلے سے زمین کھودتے تھے جس کا نام لگ یا لیگ تھا۔جو بعد میں''لیک'' ہوگیا یعنی سیدھی لکیریں کھینچنے کے لیے جیسے سنسکرت کا لیکھا اور پھر ریکھا۔(خط لکیریں) وغیرہ۔یہ لفظ لکیروں اور لکھنے کے لیے بھی ہے۔لیکن زراعتی آبادی میں منتقل ہوکر کیل بن گیا، اسی کیل سے پھر ''کلے''کلہ وغیرہ کے الفاظ بنے۔
پشتو میں زراعت کو کرکیلہ کہتے ہیں پنجابی میں''کلہ'' ایک خاص زمین کے مقدار اور ٹکڑے کو کہتے ہیں اور یہ بھی صراحت ضروری ہے کہ وہ قدیم آسٹرک لوگ چھوٹی چھوٹی بستیاں یعنی گاؤں بناکر رہتے تھے جب کہ بعد میں آنے والے دراوڑوں نے بڑے بڑے شہر بسانا شروع کیے جیسے ہڑپہ، موہنجوجوڈارو،رحمان ڈھیری وغیرہ کیونکہ اب زراعت کے ساتھ دوسرے''پیشے'' بھی منسلک کیے گئے ۔
اس زرعی آبادی کلہ یا کلے(پنجابی پنڈ) میں سارا دن تو لوگ اپنا اپنا کھیت کلیان کاکام کرتے تھے لیکن رات کو یا فارغ اوقات میں خود کو آرام دینے،تازہ ترکرنے اور تھکان دور کرنے کے لیے کچھ اجتماعی سرگرمیاں بھی کرتے تھے۔اب تھوڑی سی بات اس پر بھی ہوجائے کہ انسان تھکتاکیوں ہے اور تھکان دور کرنے کے طریقے کیا ہیں۔ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ محنت کا سخت کام کرنے والے مزدور کاشتکار وملاح چرواہے اور ساربان ''گاتے'' ہیں یہ وہ غیرشعوری طور پر کرتے ہیں کیونکہ جسمانی نظام کا تقاضا ہوتاہے۔انسان جب سانس لیتاہے تو آکسیجن کھینچ کر پھیپھڑوں کے ذریعے''خون'' دل کو دیتاہے دل وہ خون پمپ کرکے جسم کو پہنچاتاہے لیکن ساتھ ہی ساتھ''دل'' واپسی میں استعمال شدہ خون بھی کھینچ کر پھپھڑوں کو صفائی کے لیے دیتاہے، پھپھڑے اسے صاف کرکے''کاربن'' نکال دیتے ہیں اور اس کے بعد دوسرا سانس کھینچ کر آکسیجن کھینچ کر پھر خون میں شامل کرتا ہے۔
یوں کہیے کہ ہمیں پتہ بھی نہیں کہ ایک اتنا بڑا کارخانہ سانس کی آمد ورفت کے ذریعے چلتاہے اندر کھینچنے والی سانس آکسیجن سے بھری ہوتی ہے اور نکالنے والی سانس اس کاربن کو باہر نکالتی ہے جوخون میں استعمال کی وجہ''کاربن'' بن چکی ہوتی ہے۔عام حالات میں تو انسان آرام سے سانس لیتا رہتاہے اور معمول کے مطابق آکسیجن اور کاربن کا یہ سلسلہ متوازن رہتاہے لیکن جب انسان کسی نہ کسی شکل میں جسمانی کام اور محنت کرتاہے تو زیادہ آکسیجن خرچ ہونے پر خون میں کاربن بڑھ جاتاہے اور قدرت کا یہ عجیب وغریب انتظام ہے کہ انسان کو شعوری طور پر تو اس کا علم نہیں ہوتا لیکن خودکار جسمانی نظام اس فالتو کاربن کو نکالنے اور زیادہ آکسیجن کھینچنے کے لیے یا توجمائیاں لینے لگتاہے یا پھر گاتاہے ہنستاہے اور یاپھر تھک کر پڑا رہتاہے۔
چنانچہ اگر ہم محنت کرنے اور زیادہ تھکان والے لوگوں کو دیکھیں تو وہ یہی کام کرتے ہیں آرام سے بیٹھے ہوئے لوگوں کو اس کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔اور اگر ہم تحقیق کریں تو انسان کے تمام ابتدائی آلات موسیقی پھونک سے بجنے والے ہوا کرتے تھے جو سوچے سمجھے بغیر اس نے فطرت یا جسمانی نظام نے اس سے بنوائے جن کے ذریعے کاربن کا بے تحاشا اخراج ممکن ہوجاتاتھا اور آکسیجن کی سپلائی بڑھ کر جسمانی نظام کو متوازن کردیتی ہے ۔
جس زرعی آبادی یا بستی یا پنڈ کا ہم نے ذکرکیاہے اس کے سارے لوگ دن بھر تو اپنا اپنا ذاتی اور انفرادی کام کرتے تھے لیکن رات کو آرام اورفرحت یا بالفاظ دیگر آکسیجن اور کاربن کو متوازن کرنے کے لیے ایسی سرگرمیاں کرتے تھے جو ذاتی نہیں اجتماعی ہوتی تھیں اور''کام'' کے بجائے آرام فرحت اور تازگی حاصل کرنے کے لیے ہوتی تھیں، ان ہی اجتماعی سرگرمیوں اور مشاغل کا نام (کلی یا اجتماع کی نسبت سے) ''کلتور'' ہوگیاہے جو انگریزی میں جاکر ''کلچر'' بن گیا ہے لیکن حروف کی ترتیب سے اب بھی''کلچر'' سے زیادہ ''کلتور'' ہوتاہے اور یہی کلتور لفظ پشتو میں اب بھی ویسے کا ویسا اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔
انگریزی میں اس سے اور بھی بہت سارے الفاظ بنتے ہیں اور سب کا تعلق زراعت یعنی''کلی'' سے ہوتاہے،جسے ایگری۔کلتور،ہارئی کلتورآربورکلتور،ٹشو کلتور،اور یا پھر کلٹی ویٹر جیسے نام۔ چنانچہ''کلتور'' میں ہر وہ چیز شامل ہے جو ذاتی اورانفرادی نہ ہو اور اجتماع کے لیے فائدہ سہولت اور نشوونما کے لیے ہو۔
روخان یوسف زئی نے اپنی اس کتاب''پختون کلچر کے خدوخال'' میں پشتون کلتور کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے اور حتی الوسع پشتون کلتور کے اجزاء اور خدوخال واضح کیے ہیں جو دوسری اقوام کے کلتور سے تھوڑے مختلف ہیں کیونکہ ہر قوم ونسل کا کلتور اس کی ضرورتوں، تقاضوں اور بودوباش کے تابع ہوتا ہے جس میں جغرافیائی عوامل،قومی مزاج اور مسائل کے عناصر بھی شامل ہوتے ہیں۔کتاب پشتونوں کے لیے بھی قابل مطالعہ ہے اور ان غیر پشتونوں کے لیے بھی جو پشتون اور پشتون کلتور کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں کہ ساتھ ساتھ رہنے والوں کے لیے ایک دوسرے کے کلتور کے بارے میں جاننا ضروری ہوتاہے۔