عثمان بزدار کا چیلنج

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو اصل خطرہ خارجی نہیں بلکہ داخلی محاذ سے ہے۔


سلمان عابد March 28, 2019
[email protected]

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی تقرری ایک بڑا سیاسی موضوع ہے۔ کیونکہ وہ ایک تجربہ کار سیاستدان یا پارلیمنٹرین کی حیثیت نہیں رکھتے تھے اورنہ ہی ان کا تحریک انصاف میں کام کرنے کا کوئی وسیع تجربہ تھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان پر حد سے زیادہ تنقید کا پہلو بھی نظر آتا ہے اوران کے مخالفین کے بقول پنجاب کو ایک کمزور وزیر اعلیٰ دے کر اصل اختیارات کا مرکزاسلام آباد یا وزیر اعظم کو خود بنایا گیا ہے۔

ایک طرف ان کے مخالفین کی یہ دلیل ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف کے حامیوں کا نکتہ نظر ہے کہ پنجاب جیسے مضبوط اورطاقتور صوبہ میں ایک کمزور وزیر اعلیٰ دے کر پی ٹی آئی کی مستقبل کی سیاست کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ ایک دلیل سیاسی پنڈتوں کی بھی ہے کہ ان کے بقول اگر پنجاب میں مسلم لیگ ن اور شریف برادران کی سیاست کو کمزورکرنا تھا تو پی ٹی آئی کی وزیر اعلیٰ کے طور پر عثمان بزدار کی تقرری سمجھ سے بالاتر ہے اوریہ بات سیاسی طور پر ہضم نہیں ہوتی۔

پچھلے کچھ عرصہ سے یہ منطق دی جا رہی تھی کہ مختلف بحرانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عثمان بزدار کی تبدیلی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور وزیر اعظم عمران خان کسی نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن پچھلے چند دنوں سے تواتر کے ساتھ ایک بار پھر وزیر اعظم عمران خان نے عثمان بزدار کو بطور وزیر اعلیٰ پوری حمایت کا عندیہ دیا ہے۔ ان کے بقول کچھ عرصہ میں وزیر اعلیٰ بہتر طورپر خود کو قیادت کے طورپر پیش کرسکیں گے۔ کیونکہ وہ ناتجربہ کار ہیں تو کچھ وقت ان کو اپنی کارکردگی کے لیے ملنا چاہیے۔ اگرچہ عثمان بزدار نا تجربہ کار ہیں لیکن اگر ان کی پوری جماعت اورحکومت ان کے پیچھے کھڑی ہو تو وہ بہتر طور پر خود کو پیش کرسکتے تھے۔ لیکن اصل بحران تحریک انصاف کا داخلی ہے اورکئی سطح پر موجود گروپ بندیوں کی وجہ سے بھی وزیر اعلیٰ کو مسائل کا سامنا ہے۔

پنجاب میں طاقت کے کئی تکون ہیں۔ پہلی تکون خود وزیر اعظم ہیں جو براہ راست پنجاب کے معاملات پر نظر بھی رکھتے ہیں ۔ اس کی ایک بڑی مثال حالیہ دنوں میں وزیر اعلیٰ سمیت ارکان اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات کے بل پر وزیر اعظم عمران خان کا سخت ردعمل اور فیصلے کی واپسی تھی۔ دوئم، وزیر اعلیٰ اوران کے حامیوں کا ایک گروپ ہے جو پنجاب کے معاملات کو وزیر اعظم کے بعد اپنے کنٹرول میں رکھ کر چلانا چاہتا ہے۔ سوئم، پنجاب کے دو طاقتور عہدیدار ہیں جو پنجاب میں اپنی اپنی سطح پر اپنا کنٹرول چاہتے ہیں۔ چہارم، کچھ صوبائی وزرا ہیں جو یقینی طور پر اپنی برتری بھی قائم رکھنے کے خواہش مند ہیں۔ پنجم، پارٹی کا مرکزی اور صوبائی سطح کی قیادت کا ایک گروہ بھی موجود ہے جو وزیر اعظم کو اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔

اس لیے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو اصل خطرہ خارجی نہیں بلکہ داخلی محاذ سے ہے۔ ان کو اپنی ہی جماعت اور دوستوں کے اندر سے بھی بحران کا سامنا ہے۔ یہ وہ گروپ ہے جو کسی بھی شکل میں ان کی کامیابی کے تصور کو اجاگر کرنے کے بجائے ان کے مقابلے میں تبدیلی چاہتا ہے۔تحریک انصاف میں جو لوگ شامل ہیں ان میں سے اکثریت کا تعلق کسی بڑی سیاسی، سماجی تبدیلی سے زیادہ اپنے مفادات کی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت کے تصور میں کمزور افراد یا شخصیات کی بالادستی زیادہ نظر آتی ہے جو مسائل کو مزید بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

عثمان بزدار کو حکومت کے حوالے سے سات بڑے چیلنجز کا سامنا تھا اورہے۔ اول ایک مضبوط حکومتی نظام پر اپنا اور اپنی جماعت کا کنٹرول، دوئم تحریک انصاف کی پالیسی کی بنیاد پر ایک مضبوط مقامی حکومتوں کا نظام اورپولیس کے نظام میں موثر تبدیلی، سوئم پنجاب میں نئے صوبہ کا قیام یا اس میں بڑی پیشرفت، چہارم، تعلیم اور صحت سمیت گورننس کے مسائل، پنجم بیوروکریسی میں اصلاحات، ششم، کرپشن اوربدعنوانی کی سیاست کے خاتمہ میںموثر قانون سازی اورعملدرآمد کا نظام، ہفتم، مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔لیکن ان تمام اقدامات کا دیانتداری سے تجزیہ کریں تو ہمیں حکومتی سطح پر کوئی موثر عملی اقدامات کا فقدان نظر آتا ہے۔ یہ ہی وہ بنیادی وجہ ہے جو وزیر اعلیٰ پنجاب کی تبدیلی یا ان کی بری کارکردگی کی بنیاد پر ان کے مخالفین پیش کرتے ہیں۔

پنجاب کی سطح پر حکمرانی کا نظام ایک بڑا چیلنج ہے۔کیونکہ ایک بڑا صوبہ اپنی سطح پر ایک بڑی سیاسی، سماجی اورمعاشی حکمت عملی کے تحت ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر وزیر اعلیٰ پنجاب خود کو شہباز شریف سے مختلف وزیر اعلیٰ کے طورپر پیش کرسکتے ہیں۔ لیکن پولیس اورمقامی حکومتوں کے نظام میں اصلاحات کے بجائے سمجھوتے کی سیاست نے پنجاب حکومت کی حکمرانی کے تشخص کو خراب کیا ہے اورجس انداز سے ماضی کی حکومت نے پولیس کے نظام کو اپنے سیاسی مفادات کے تحت چلایا وہی رویہ اب بھی غالب ہے۔ سانحہ ساہیوال اس کی بڑی مثال ہے جو پولیس اورحکمرانوں کی بدنامی کا سبب بنا اورمقامی نظام حکومت کا ماڈل بھی کہیں گم ہوکر رہ گیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان خود باقاعدگی سے ماہانہ بنیادوں پر لاہور آتے ہیں اور کابینہ کی براہ راست صدارت کرکے معاملات کا جائزہ لیتے ہیں لیکن وہ ابھی تک اس حکومت کی جوابدہی کے نظام کو موثر نہیں بناسکے اورجو کام ابتدائی طورپر ہونے تھے اس کی ناکامی کا تجزیہ اور ذمے داران کا تعین نہیں کیا جاسکا۔اسپتالوں کی نگرانی کا نظام غیر موثر ہے اور اس میں عوام کے منتخب نمایندوں اور صوبائی وزراء کا کردار بہت کمزور نظرآتا ہے۔ شہباز شریف کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ بیوروکریسی پر حد سے زیادہ انحصار اور عوامی نمایندوں کو اہمیت نہ دینا تھا۔ یہ ہی پالیسی ابھی تک یہاں پر غالب ہے اوربیوروکریسی نے عملی طور پر حکومت کو اپنے جال میں پھنسایا ہوا ہے۔

ایک مسئلہ پارٹی اور حکمرانی کے نظام میں موجود خلیج کا ہے۔ پارلیمانی نظام عمومی طور پر اسی صورت میں کامیاب ہوتا ہے جب حکومت اپنی ہی سیاسی جماعت کی پالیسی اور نگرانی کے تابع ہوتی ہے۔ لیکن یہاں تحریک انصاف کی پارٹی کا پہلے ہی برا حال ہے اورپارٹی میں یہ آوازیں ہی سننے کو ملتی ہیں کہ پارٹی کے نظریاتی اورپرانے ساتھیوں کی اس حکمرانی کے نظام میں کوئی گنجائش نہیں۔بہتر ہوتا کہ پنجاب کی حکمرانی میںسب طاقت کے فریقین مل بیٹھ کر ایک ایسی سیاسی حکمت عملی اختیار کرتے جو سب کو سیاسی تنہائی میں ڈالنے کے بجائے یکسو ہوکر حالات کے مقابلہ کی صلاحیت پیدا کرتی۔اس تاثر کی بھی نفی کی جانی چاہیے کہ حکومت میں لوگ حکومت اورتحریک انصاف سے زیادہ ذاتی مفاد کی سیاست میں الجھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پنجاب میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی ناکامی کی ذمے داری خود وزیر اعظم پر بھی ہے کیونکہ عثمان بزدار ان ہی کی پسند ہے تو ان کو صوبائی سطح پر موجود تضاد اور گروپ بندی کو ختم بھی کرنا چاہیے۔

وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ایک بات سمجھنی ہوگی کہ وہ اپنی تقرری کوصرف اورصرف اپنی بہتر کارکردگی کی بنیاد پر ہی ثابت کرسکتے ہیں۔ ان کو اس بات سے کوئی ڈر اور خوف نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے مخالفین چاہے وہ حزب اختلاف ہو یا ان کی اپنی جماعت کے لوگ ہوں ان کی سیاسی مشکلات میں مزید اضافہ کریں گے۔ عثمان بزدار کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے پیچھے وزیر اعظم عمران خان ہیں اورجب تک وہ ان کی حمایت جاری رکھیں گے ان کو کوئی خطرہ نہیں۔

لیکن اس حمایت کے باوجود اگر وہ پنجاب میں عوامی توقعات کے مطابق کوئی بڑی تبدیلی کی سیاست کو پیدا نہیں کرتے تو وزیر اعظم کے لیے بھی ان کی حمایت کو لمبے عرصے تک جاری رکھنا مشکل ہوگا۔پچھلے دنوں تنخواہوں کے معاملات سے ان کی ساکھ متاثر ہوئی اور سمجھا گیا کہ وہ بھی روایتی سیاست کے حامی ہیں۔ یہ تاثر وزیر اعلیٰ جتنی جلدی قائم کرسکیں ان کے حق میں بہتر ہوگا کہ وہ تبدیلی چاہتے ہیںاور اس کی عملی طور پر صلاحیت بھی رکھتے ہیں، یہ ان کے حق میں بہتر ہوگا۔کیونکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کو اپنی سیاسی بقا کو کامیاب رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے اورا س میں فتح کے بغیرتخت لاہورپر حکمرانی لمبے عرصے تک قائم نہیں رکھی جاسکے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں