مسئلہ کشمیر اور قرارداد
پاکستان نے کشمیر سے اپنے لوگوں کے اخراج اور ہندوستان کو محدود فوج رکھنے کی اجازت پر اعتراض اٹھایا۔
کافی عرصے سے کشمیر کے مسئلے پر لکھنا چاہتا تھا، اب موقعہ ملا ہے کہ اس مسئلے کا جائزہ لیا جائے 'جس نے پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال رکھا ہے 'اس وقت صرف واقعات کا جائزہ لیں گے، تجزیہ بعد میں۔1947سے قبل تاج برطانیہ کے تحت جموں و کشمیر کی ریاست 'ہندو راجہ گلاب سنگھ کی زیر قیادت ایک ریاست تھی 'آزادی کے بعد برطانیہ کی حکومت نے ریاستوں کے حکمرانوں کو دونوں ملکوں میں کسی ایک میںشامل ہونے یاآزاد رہنے کااختیار بھی دیا۔
مہاراجہ کشمیر نے ریاست کی مخلوط آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ کشمیر کی ریاست آزاد رہے گی 'اس وقت ریاست کی مغربی علاقوں میں عوامی بغاوت شروع ہوئی اور اس کے ساتھ ہی پاکستان سے پختون قبائلیوں اور پاکستانی فوج نے کشمیری فوج کے باغی دستوں کے ساتھ مل کر کشمیرکے ایک حصے کو آزاد کرالیا۔ مہاراجہ نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی سے گھبرا کر 26اکتوبر 1947کو ہندوستان کے ساتھ مبینہ الحاق کا فیصلہ کیا 'فیصلے کے اگلے دن ہندوستان نے ہوائی جہازوں کے ذریعے اپنی فوج کشمیر میں اتار دی۔ اس کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ریاست کے اندر ایک محدود جنگ شروع ہوئی۔
یکم جنوری 1948کو ہندوستان نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 35کے تحت سارا معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کردیا 'ہندوستان کا الزام تھا کہ پاکستانی عوام اور قبائلیوں نے کشمیر پر حملہ کردیا'حالانکہ مہاراجہ کے فیصلے کے بعدیہ علاقہ ہندوستان کا ہے 'اس نے سلامتی کونسل سے درخواست کی کہ پاکستان کو روکے۔ہندوستان نے یہ وعدہ بھی کیا کہ مہاراجہ کے ہندوستان سے ادغام کے فیصلے کے باوجود 'وہ کشمیر کے عوام کی رائے معلوم کرنے لیے رائے شماری کرانے او ر عوام کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے 'اس کے جواب میں پاکستان نے موقف اختیار کیا کہ ہندوستان نے دھوکے اور زبردستی سے کشمیر پر قبضہ کرلیا ہے اور اب مسلمانوں کے قتل عام میں مصروف ہے۔
20جنوری 1948کو سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 39منظور کی 'جس کے مطابق حقائق معلوم کرنے کے لیے ایک تین رکنی کمیشن بنایا گیالیکن یہ کمیشن مئی 1948تک بروئے کار نہیں آیا 'اس دوران سلامتی کونسل میں مشورے بھی جاری رہے ۔18مارچ کو ریپبلک آف چین نے ایک نئی قرارداد کا مسودہ پیش کیا 'جس کے تین حصے تھے۔پہلا حصہ امن کے قیام کے متعلق تھا'دوسرے حصے میں کشمیر کے عوام کی پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ شامل ہونے کے لیے رائے شماری کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ تھا' ہندوستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ رائے شماری کے لیے ایک انتظامی ڈھانچہ بنائے 'جس کے ڈائریکٹرز کا انتخاب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کریں گے' قرارداد کے تیسرے حصے میں کشمیر میں ایک عبوری حکومت کا قیام تھا 'جس میں تمام سیاسی گروپ شامل ہوں 'بعد کے بحث مباحثوں میں قرارداد میں کافی تبدیلیاں کی گئیں'اس میں برطانیہ کی سفارش پر پاکستان کو کافی مراعات دی گئی تھی' جس پر ہندوستان نے ناراضی کا اظہار بھی کیا ۔
جو قرارداد منظور کی گئی اس کے دو حصے تھے۔پہلے حصے میں کمیشن کے ارکان کی تعداد بڑھا کر پانچ کردی گئی' ان ممبران سے کہا گیا کہ وہ فوراً برصغیر جائیں اور ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن کے قیام کے لیے مذاکرات کریں' قرار داد کے دوسرے حصے میں امن کے قیام اور رائے شماری کے انعقاد کے لیے سلامتی کونسل کی سفارشات دیں جو تین اقدامات پر مشتمل تھیں۔
٭۔پہلے قدم کے طور پر'پاکستان سے کہا گیا کہ وہ اپنے شہریوں اور قبائلی پختونوں کو کشمیر سے ہر حالت میں نکالے تاکہ امن قائم ہوسکے۔
٭۔دوسرے قدم کے طور پر ہندوستان سے کہا گیا کہ وہ اپنے فوج کی تعداد کم کرکے اس لیول تک لے آئے' جو امن و امان کے قیام کے لیے ضروری ہو'یہ بھی کہا گیا کہ ہندوستان کشمیر کے انتظامی معاملات کواقوام متحدہ کے کمیشن کے مشورے سے چلائے اور انتظامی معاملات میں مقامی افراد کو شامل کرنے کی کوشش کرے۔
٭۔تیسرے قدم کے طور پر۔ہندوستان سے کہا گیا کہ وہ کوشش کرے کہ تمام بڑی سیاسی پارٹیاں' حکومتی سطح پر وزارتی عہدوں پر شامل ہوں'تاکہ ایک اتحادی حکومت بن سکے 'ہندوستان پھر اقوام متحدہ کی طرف سے نامزد کردہ ''ایڈمنسٹریٹر برائے رائے شماری'' کا تقرر کرے' اس ایڈمنسٹریٹر کو دونوں ملکوں سے رابطوں اورغیر جانب داررائے شماری کرنے کا مکمل اختیار ہونا چائیے' مہاجرین کی واپسی' سیاسی قیدیوں کی رہائی اور سیاسی آزادیوں کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
قراردادنمبر47 ۔9ووٹوں کی اکثریت سے منظور ہوئی اور مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا 'سوویت یونین اور یوکرین غیر حاضر رہے۔
یہ قرارداد ''اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب VI''کے تحت پاس ہوئی۔(یہ باب تنازعات کے پرامن حل کے بارے میں اقدامات کے بارے میںہے)۔اس باب کے تحت فریقین کو ہدایات کے بجائے سفارشات دی جاتی ہیں'اقوام متحدہ کے سابق سفارت کار جوزف کوربیل نے کہا ہے کہ '' اس باب کے تحت اقدامات یا قراردادیں' فریقین کو اخلاقی طور پر پابند کرتی ہیں لیکن ان پر کوئی بات یا امر مسلط نہیں کرسکتی 'اس تنازع کا آخری حل بہر حال ہندوستان اور پاکستان کو باہمی طور سے نکالنا ہوگا''۔
سلامتی کونسل نے اس قرارداد میں کسی فریق کا ساتھ نہیں دیا'اس نے ہندوستان کے مطالبے کے باوجود پاکستان کی مذمت بھی نہیں کی 'نہ ہی اس نے کشمیر کی ہندوستان کے ساتھ الحاق کی قانونی حیثیت پر بحث کی' حالانکہ سفارتی نمایندوں کی رائے میں اگر سلامتی کونسل ''عالمی عدالت انصاف ''کو یہ معاملہ بھیج کر ان سے رائے طلب کرتا تو اس کو مجرم کی نشاندہی میں آسانی ہوتی۔ سفارت کاروں کی رائے میں سلامتی کونسل کا کردار غیر ضروری طور پر ناکام تھا'کشمیر جیسے اہم مسئلے کے بارے میں سلامتی کونسل کی رائے غیر حقیقت پسندانہ اور تسائل پر مبنی تھی' اس امر کا اندازہ قرارداد کی منظوری کے بعد ہونے والے طویل بحثوں'مسئلے کو پیچیدہ بنانے'مذاکرات کے بار بار التوا نے ثابت کردیا'وقت گزرنے کے ساتھ 'تنازعہ بڑھتا رہا اور پرامن رائے شماری کا انعقاد مشکل ہوتا رہا۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر وارن آر آسٹن نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد یا اس کے بعد ہونے والے اقدامات غیر حقیقت پسندانہ اور نا قاابل عمل تھے 'ان اقدامات کا انحصار اس بات پرتھا کہ پاکستان اور ہندوستان سلامتی کونسل کے ساتھ کتنا تعاون کرتے ہیں ۔اس قرارداد کے ذریعے پابندیاں لگانے کا اختیار بھی نہیں دیا گیا 'ہندوستان اور پاکستان میں واقع امریکی سفارت خانے بھی اس قراردادکے بارے میں مایوسی کا شکار تھے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سلامتی کونسل نے مسئلے کی بنیادی نوعیت کو نظر انداز کردیا 'اس کو ایک قانونی تنازعہ کے بجائے سیاسی مسئلہ سمجھا گیا۔ سلامتی کونسل کے خیال میں کشمیر کا ہندوستان سے الحاق نامکمل تھا'اس کی تکمیل کے لیے عوام کی رائے جاننا ضروری تھا'اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ مسئلے کا آخری حل رائے شماری ہے 'اس وقت بھی قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ قانونی مسئلے کے بجائے سیاسی مسئلے کے طور پر دیکھنا ایک غلطی ہے او ر اس سے پاکستان اور ہندوستان کو مسئلے کے حل میں ناکامی ہوگی۔
پاکستان اور ہندوستان دونوں نے قرارداد نمبر47 پر اعتراضات اٹھائے۔ہندوستان نے پہلا اعتراض یہ اٹھایا کہ قرارداد میں ہندوستان اور پاکستان کو ایک ہی حیثیت دی گئی ہے اور حملہ آور کی حیثیت سے پاکستان کی مذمت اور کشمیر کا الحاق ہندوستان کو قانونی قرار دینے سے انکارکیا ہے' اس کے علاوہ ہندوستان کو دفاعی ضروریات کے لیے ریاست میں فوج رکھنے کی اجازت دینی چائیے تھی۔ اگر مختلف پارٹیوں پر مشتمل حکومت کا مطالبہ مان لیا جائے تو کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعلی شیخ عبداللہ کی حکومت کو مشکلات درپیش ہوں گی 'رائے شماری ایڈمنسٹریٹر کو بہت زیادہ اختیارات کی منتقلی کا مطلب ریاست کی خود مختاری کو ختم کرنا تھا 'مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ بھی غیر حقیقت پسندانہ ہے' ہندوستان کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ رائے شماری کے عمل سے پاکستان کو باہر رکھا جائے۔
دوسری طرف پاکستان نے کشمیر سے اپنے لوگوں کے اخراج اور ہندوستان کو محدود فوج رکھنے کی اجازت پر اعتراض اٹھایا 'اس کا مطالبہ تھا پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں بڑی پارٹی مسلم کانفرنس کو حکومت میں برابر کی نمایندگی دی جائے۔حکومت پاکستان کا خیال تھا کہ سلامتی کونسل کا رویہ اور تجاویز مثبت تھیں لیکن امریکا اور برطانیہ نے ہندوستان کو خوش کرنے کے ان تجاویز میں رد و بدل کی۔بہر حال دونوں ملکوں نے کمیشن کے قیام اور اس کے ساتھ کام کرنے پر رضامندی ظاہر کردی۔ اقوام متحدہ کمیشن کی کشمیر آ مد اور رائے شماری کے لیے اقدامات کی دلچسپ کہانی آیندہ۔
مہاراجہ کشمیر نے ریاست کی مخلوط آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ کشمیر کی ریاست آزاد رہے گی 'اس وقت ریاست کی مغربی علاقوں میں عوامی بغاوت شروع ہوئی اور اس کے ساتھ ہی پاکستان سے پختون قبائلیوں اور پاکستانی فوج نے کشمیری فوج کے باغی دستوں کے ساتھ مل کر کشمیرکے ایک حصے کو آزاد کرالیا۔ مہاراجہ نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی سے گھبرا کر 26اکتوبر 1947کو ہندوستان کے ساتھ مبینہ الحاق کا فیصلہ کیا 'فیصلے کے اگلے دن ہندوستان نے ہوائی جہازوں کے ذریعے اپنی فوج کشمیر میں اتار دی۔ اس کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ریاست کے اندر ایک محدود جنگ شروع ہوئی۔
یکم جنوری 1948کو ہندوستان نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 35کے تحت سارا معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کردیا 'ہندوستان کا الزام تھا کہ پاکستانی عوام اور قبائلیوں نے کشمیر پر حملہ کردیا'حالانکہ مہاراجہ کے فیصلے کے بعدیہ علاقہ ہندوستان کا ہے 'اس نے سلامتی کونسل سے درخواست کی کہ پاکستان کو روکے۔ہندوستان نے یہ وعدہ بھی کیا کہ مہاراجہ کے ہندوستان سے ادغام کے فیصلے کے باوجود 'وہ کشمیر کے عوام کی رائے معلوم کرنے لیے رائے شماری کرانے او ر عوام کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے 'اس کے جواب میں پاکستان نے موقف اختیار کیا کہ ہندوستان نے دھوکے اور زبردستی سے کشمیر پر قبضہ کرلیا ہے اور اب مسلمانوں کے قتل عام میں مصروف ہے۔
20جنوری 1948کو سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 39منظور کی 'جس کے مطابق حقائق معلوم کرنے کے لیے ایک تین رکنی کمیشن بنایا گیالیکن یہ کمیشن مئی 1948تک بروئے کار نہیں آیا 'اس دوران سلامتی کونسل میں مشورے بھی جاری رہے ۔18مارچ کو ریپبلک آف چین نے ایک نئی قرارداد کا مسودہ پیش کیا 'جس کے تین حصے تھے۔پہلا حصہ امن کے قیام کے متعلق تھا'دوسرے حصے میں کشمیر کے عوام کی پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ شامل ہونے کے لیے رائے شماری کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ تھا' ہندوستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ رائے شماری کے لیے ایک انتظامی ڈھانچہ بنائے 'جس کے ڈائریکٹرز کا انتخاب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کریں گے' قرارداد کے تیسرے حصے میں کشمیر میں ایک عبوری حکومت کا قیام تھا 'جس میں تمام سیاسی گروپ شامل ہوں 'بعد کے بحث مباحثوں میں قرارداد میں کافی تبدیلیاں کی گئیں'اس میں برطانیہ کی سفارش پر پاکستان کو کافی مراعات دی گئی تھی' جس پر ہندوستان نے ناراضی کا اظہار بھی کیا ۔
جو قرارداد منظور کی گئی اس کے دو حصے تھے۔پہلے حصے میں کمیشن کے ارکان کی تعداد بڑھا کر پانچ کردی گئی' ان ممبران سے کہا گیا کہ وہ فوراً برصغیر جائیں اور ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن کے قیام کے لیے مذاکرات کریں' قرار داد کے دوسرے حصے میں امن کے قیام اور رائے شماری کے انعقاد کے لیے سلامتی کونسل کی سفارشات دیں جو تین اقدامات پر مشتمل تھیں۔
٭۔پہلے قدم کے طور پر'پاکستان سے کہا گیا کہ وہ اپنے شہریوں اور قبائلی پختونوں کو کشمیر سے ہر حالت میں نکالے تاکہ امن قائم ہوسکے۔
٭۔دوسرے قدم کے طور پر ہندوستان سے کہا گیا کہ وہ اپنے فوج کی تعداد کم کرکے اس لیول تک لے آئے' جو امن و امان کے قیام کے لیے ضروری ہو'یہ بھی کہا گیا کہ ہندوستان کشمیر کے انتظامی معاملات کواقوام متحدہ کے کمیشن کے مشورے سے چلائے اور انتظامی معاملات میں مقامی افراد کو شامل کرنے کی کوشش کرے۔
٭۔تیسرے قدم کے طور پر۔ہندوستان سے کہا گیا کہ وہ کوشش کرے کہ تمام بڑی سیاسی پارٹیاں' حکومتی سطح پر وزارتی عہدوں پر شامل ہوں'تاکہ ایک اتحادی حکومت بن سکے 'ہندوستان پھر اقوام متحدہ کی طرف سے نامزد کردہ ''ایڈمنسٹریٹر برائے رائے شماری'' کا تقرر کرے' اس ایڈمنسٹریٹر کو دونوں ملکوں سے رابطوں اورغیر جانب داررائے شماری کرنے کا مکمل اختیار ہونا چائیے' مہاجرین کی واپسی' سیاسی قیدیوں کی رہائی اور سیاسی آزادیوں کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
قراردادنمبر47 ۔9ووٹوں کی اکثریت سے منظور ہوئی اور مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا 'سوویت یونین اور یوکرین غیر حاضر رہے۔
یہ قرارداد ''اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب VI''کے تحت پاس ہوئی۔(یہ باب تنازعات کے پرامن حل کے بارے میں اقدامات کے بارے میںہے)۔اس باب کے تحت فریقین کو ہدایات کے بجائے سفارشات دی جاتی ہیں'اقوام متحدہ کے سابق سفارت کار جوزف کوربیل نے کہا ہے کہ '' اس باب کے تحت اقدامات یا قراردادیں' فریقین کو اخلاقی طور پر پابند کرتی ہیں لیکن ان پر کوئی بات یا امر مسلط نہیں کرسکتی 'اس تنازع کا آخری حل بہر حال ہندوستان اور پاکستان کو باہمی طور سے نکالنا ہوگا''۔
سلامتی کونسل نے اس قرارداد میں کسی فریق کا ساتھ نہیں دیا'اس نے ہندوستان کے مطالبے کے باوجود پاکستان کی مذمت بھی نہیں کی 'نہ ہی اس نے کشمیر کی ہندوستان کے ساتھ الحاق کی قانونی حیثیت پر بحث کی' حالانکہ سفارتی نمایندوں کی رائے میں اگر سلامتی کونسل ''عالمی عدالت انصاف ''کو یہ معاملہ بھیج کر ان سے رائے طلب کرتا تو اس کو مجرم کی نشاندہی میں آسانی ہوتی۔ سفارت کاروں کی رائے میں سلامتی کونسل کا کردار غیر ضروری طور پر ناکام تھا'کشمیر جیسے اہم مسئلے کے بارے میں سلامتی کونسل کی رائے غیر حقیقت پسندانہ اور تسائل پر مبنی تھی' اس امر کا اندازہ قرارداد کی منظوری کے بعد ہونے والے طویل بحثوں'مسئلے کو پیچیدہ بنانے'مذاکرات کے بار بار التوا نے ثابت کردیا'وقت گزرنے کے ساتھ 'تنازعہ بڑھتا رہا اور پرامن رائے شماری کا انعقاد مشکل ہوتا رہا۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر وارن آر آسٹن نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد یا اس کے بعد ہونے والے اقدامات غیر حقیقت پسندانہ اور نا قاابل عمل تھے 'ان اقدامات کا انحصار اس بات پرتھا کہ پاکستان اور ہندوستان سلامتی کونسل کے ساتھ کتنا تعاون کرتے ہیں ۔اس قرارداد کے ذریعے پابندیاں لگانے کا اختیار بھی نہیں دیا گیا 'ہندوستان اور پاکستان میں واقع امریکی سفارت خانے بھی اس قراردادکے بارے میں مایوسی کا شکار تھے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سلامتی کونسل نے مسئلے کی بنیادی نوعیت کو نظر انداز کردیا 'اس کو ایک قانونی تنازعہ کے بجائے سیاسی مسئلہ سمجھا گیا۔ سلامتی کونسل کے خیال میں کشمیر کا ہندوستان سے الحاق نامکمل تھا'اس کی تکمیل کے لیے عوام کی رائے جاننا ضروری تھا'اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ مسئلے کا آخری حل رائے شماری ہے 'اس وقت بھی قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ قانونی مسئلے کے بجائے سیاسی مسئلے کے طور پر دیکھنا ایک غلطی ہے او ر اس سے پاکستان اور ہندوستان کو مسئلے کے حل میں ناکامی ہوگی۔
پاکستان اور ہندوستان دونوں نے قرارداد نمبر47 پر اعتراضات اٹھائے۔ہندوستان نے پہلا اعتراض یہ اٹھایا کہ قرارداد میں ہندوستان اور پاکستان کو ایک ہی حیثیت دی گئی ہے اور حملہ آور کی حیثیت سے پاکستان کی مذمت اور کشمیر کا الحاق ہندوستان کو قانونی قرار دینے سے انکارکیا ہے' اس کے علاوہ ہندوستان کو دفاعی ضروریات کے لیے ریاست میں فوج رکھنے کی اجازت دینی چائیے تھی۔ اگر مختلف پارٹیوں پر مشتمل حکومت کا مطالبہ مان لیا جائے تو کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعلی شیخ عبداللہ کی حکومت کو مشکلات درپیش ہوں گی 'رائے شماری ایڈمنسٹریٹر کو بہت زیادہ اختیارات کی منتقلی کا مطلب ریاست کی خود مختاری کو ختم کرنا تھا 'مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ بھی غیر حقیقت پسندانہ ہے' ہندوستان کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ رائے شماری کے عمل سے پاکستان کو باہر رکھا جائے۔
دوسری طرف پاکستان نے کشمیر سے اپنے لوگوں کے اخراج اور ہندوستان کو محدود فوج رکھنے کی اجازت پر اعتراض اٹھایا 'اس کا مطالبہ تھا پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں بڑی پارٹی مسلم کانفرنس کو حکومت میں برابر کی نمایندگی دی جائے۔حکومت پاکستان کا خیال تھا کہ سلامتی کونسل کا رویہ اور تجاویز مثبت تھیں لیکن امریکا اور برطانیہ نے ہندوستان کو خوش کرنے کے ان تجاویز میں رد و بدل کی۔بہر حال دونوں ملکوں نے کمیشن کے قیام اور اس کے ساتھ کام کرنے پر رضامندی ظاہر کردی۔ اقوام متحدہ کمیشن کی کشمیر آ مد اور رائے شماری کے لیے اقدامات کی دلچسپ کہانی آیندہ۔