عمران خان کے لیے مہاتیر محمد کی نصیحتیں
یقیناًوزیر اعظم عمران خان نے بھی نصیحتوں اور نادر مشوروں سے بھرے مہاتیر محمد کے ان خطبوں کو دل کے کانوں سے سُنا ہوگا۔
وزیر اعظم جناب عمران خان نے بجا طور پر خوشی کا اظہار کیا جب انھیں حالیہ یومِ پاکستان کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا پیغامِ تہنیت ملا ۔ ادھر یومِ پاکستان سے ایک روز قبل کراچی میں دہشت گردی کا ایک ایسا خونی سانحہ رُونما ہُوا جس کی سرخ بازگشت سارے ملک میں سنائی دی گئی۔
وطنِ عزیز کے ممتاز اور محترم عالمِ دین، مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ،پر نہ معلوم دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا۔ حضرت مولاناتو اللہ کے فضل و کرم سے محفوظ ومامون رہے لیکن دو محافظ شہید کر دیے گئے ۔مفتی صاحب قبلہ کے ایک قریبی ساتھی، مولانا شہاب ، بھی شدید زخمی ہُوئے۔
بعض تجزیہ نگاروں نے اس دہشت گردی کاذمے دار بھارت کو ٹھہرایا ،لیکن عمران خان کی طرف سے بھارت کا نام نہیں لیا گیا ہے ۔ شائد وہ اُس کشیدگی میں مزید اضافہ نہیں چاہتے ہیں جو پہلے ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود ہے۔
بہرحال مفتی محمد تقی عثمانی صاحب پر حملہ کرکے امن دشمنوں نے ایسے حساس موقع پر واردات ڈالی جب پاکستان میں یومِ پاکستان کی تیاریاں عروج پر تھیں اور ہمارے ہاں معزز مہمان ڈاکٹر مہاتیر محمد صاحب بھی تشریف لا چکے تھے۔ عین اسی لمحے کراچی میں غارتگر دہشت گردوں نے اپنا سیاہ چہرہ دکھا دیا ۔ منصوبہ سازوں نے پاکستان میں ملا ئشین وزیر اعظم کی موجودگی میں ہمیں نادم کرنے کا قابلِ مذمت پروگرام بنایا تھا لیکن ناکام رہے۔
خدا کا شکر ہے کہ معزز اور محترم مہمانِ گرامی ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اپنی کسی گفتگو میں اس سانحہ کا ذکر نہیں کیا ۔ انھیں پاکستان کے وقار کا خیال بھی رہا ہوگا۔ مہاتیر محمد تو اس قدر مہذب مزاج ہیں کہ وہ پاکستان میں تین روز تک قیام پذیر رہے ، کئی شاندار تقریبات اور بزنس کانفرنسوں سے خطاب فرمایا ، اخبار نویسوں کے رُوبرو بھی آئے لیکن مجال ہے کہ اُن کی زبان پر اپنے ملک کے مبینہ کرپٹ سیاستدانوں کا ذکر آیا ہو ۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ڈاکٹر مہاتیر محمد کو ملائشیا میں کرپٹ سیاستدانوں سے سخت معاملات کرنا پڑ رہے ہیں ۔ اُن کا پالا اپنے ملک کے ایک سابق وزیر اعظم اور اُن کی اہلیہ کی اربوں ڈالرز کی مبینہ بدعنوانیوں سے پڑا ہُوا ہے لیکن انھوں نے پاکستان میں موجودگی کے دوران اپنے ملک کے مبینہ کرپٹ عناصر کے بارے کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں کیا۔
ایسا کرتے تو ایک پنجابی محاورے کے مطابق اپنے ہی پیٹ سے کپڑا ہٹاتے۔ ہمارے وزیر اعظم نے جب پچھلے سال نومبر میں ملائشیا کا دَورہ کیا تو ایسا محتاط اسلوب اختیار نہ کر سکے ۔ ملائشیا میں کھڑے ہو کر بھی اپنے ملک کے مبینہ کرپٹ سیاستدانوں کی داستانیں سناتے رہے ۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد صاحب نے دَورئہ پاکستان میںاپنے ملک کے سیاستدانوں کے بارے جو انداز اختیار کیا ہے ، یہ دراصل اشارے کی زبان میں عمران خان کو نصیحت بھی ہے۔ کاش ، کوئی اس نصیحت پر عمل بھی کرسکے۔
ملائشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اسلام آباد کی ایک بزنس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے یوں کہا:''پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ٹیکس میں نرمی کرنی چاہیے۔''اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ٹیکس کولیکشن میں پہلے ہی اربوں روپے کی کمی آ چکی ہے ۔ اب غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی ٹیکس میں نرمی دی جائے گی تو معاملہ کہیں مزید نہ بگڑ جائے ۔ مہاتیر محمد نے اسلام آباد میں یہ بھی کہا تھا:''حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے ۔
حکومت کا کام بس یہ ہے کہ کاروبار کے لیے آسان مواقع فراہم کرے ۔ یہ مواقع تب ہی ثمر آور ثابت ہو سکتے ہیں جب ملک میں پائیدار امن ہواور ہمسایوں سے تعلقات اچھے ہوں گے۔'' مہاتیر محمد تحمل، جذبات سے عاری اور بردباری سے گفتگو کرنے کے عادی ہیں ۔ اُن کے بیان میں کوئی ابہام نہیں ہوتا۔ ہماری بزنس کمیونٹی سے اُن کا مذکورہ خطاب دراصل ہمارے وزیر اعظم صاحب کے لیے خاص نصیحت بھی ہے۔ بھارت ، ایران اور افغانستان ہمارے تین قریبی ہمسائے ہیں۔ عمران خان کو ان سے فوری مکالمہ کرنا چاہیے۔ تبھی ملک میں پائیدار امن بھی ہوگا اور کاروبار کے مواقع بھی میسر آئیں گے ۔ خان صاحب کو برسرِ اقتدار آئے آٹھ ماہ ہو چلے ہیں لیکن بدقسمتی ہے کہ ہمارے ان تینوں ہمسایوں سے اطمینان بخش تعلقات استوار نہیں ہو سکے ہیں۔ حیرانی کی بات مگر یہ ہے کہ دُور بیٹھے بھارت سے افغانستان اور ایران کے تعلقات گہرے اور گُوڑے ہیں۔ ہم ساتھ بیٹھ کر بھی اپنے ان مسلمان ، برادر ممالک سے ایسے تعلقات نہیں بنا سکے ہیں جنہیں ''مستحسن''کہا جاسکے۔
ہمسایوں کے حوالے سے مہاتیر محمد کی نصیحت کو پلّے باندھ لینا چاہیے۔ بھارت سے تعلقات کی استواری ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ جناب نواز شریف نے تیسری بار وزیر اعظم بن کربھارت سے پُر امن تعلقات بنا کر ملک میں بہتر کاروباری ماحول بنانے کی بھرپور کوششوں کا آغاز تو کیا تھا لیکن اُن کی راہیں جلد ہی مسدود کر دی گئیں۔ مہاتیر محمد کی نصیحتوں کو گوشِ ہوش سے سُن کر عمران خان صاحب کو آگے بڑھ کر افغانستان اور ایران سے 'ٹوٹے' تعلقات کا دھاگہ پھر سے جوڑنا ہوگا۔
مہاتیر صاحب نے جاتے جاتے جب یہ کہا کہ ''ہم پاک ، بھارت مسائل کو بخوبی سمجھتے ہیں لیکن ہم دونوں ممالک میں سے کسی کا بھی ساتھ نہیں دیں گے'' تو کیا وہ ناصحانہ انداز میں عمران خان سے کہہ گئے ہیں : بھئی ، ہماری طرف نہ دیکھئے ، اپنے تنازعات خود حل کیجیے؟سچی بات مگر یہ ہے کہ مہاتیر صاحب نے اپنی اس جانبداری سے ہماری دل آزاری کی ہے ۔پاکستان اور عمران خان کی محبتوں کا جواب محبتوں سے نہیں دیا ہے۔ہم حیران ہیں کہ حق و باطل کی جنگ میں ایسی غیر جانبداری چہ معنی دارد؟
وزیر اعظم عمران خان کی موجودگی میں ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اسرائیل کے بارے جو بلیغ اشارہ کیا اور اس اشارے کے پسِ پردہ جو نصیحت کار فرما تھی ، اِسے بھی نظر انداز نہیں کرناچاہیے ۔اسلام آباد میں جناب مہاتیر محمد نے یوں کہا: ''ملائشیا نے تمام ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کیے۔ لیکن اسرائیل سے ہمارے کبھی تعلقات نہیں رہے۔ اسرائیل کے علاوہ ہماری کسی سے دشمنی نہیں ۔ ہم یہودیوں کے خلاف نہیں ہیں، لیکن ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے۔'' مہاتیر محمد جب یہ گفتگو کررہے تھے ، ہال میں پِن ڈراپ سائلنس تھی ۔ بزرگ اور مدبر ملائشین وزیر اعظم نے باتوں باتوں میں اسرائیل کے بارے میں اپنے ملک کی پالیسی بھی بیان کر دی تھی اور اشاروں اشاروں میں ہمیں بھی نصیحت کر گئے ۔
مکرم و محترم مہاتیر محمد صاحب کی عمر نوے سال سے زائد بتائی جاتی ہے ۔ وہ سیاست، معیشت ، سفارتکاری اور اقتدار کی بہت سی دھوپ چھاؤں دیکھ چکے ہیں ۔ اُن کے مشاہدات و تجربات سے مستفید ہونا چاہیے ۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے ہمارے ہاں کچھ ایسی آوازیں سنائی دے رہی ہیں جن میں بین السطور یہ کہنے اور باور کرانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں اب کوئی قباحت نہیں رہی ۔ ایسی دلیلیں سامنے رکھی جارہی ہیں کہ ''جب کئی مسلمان ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کررکھا ہے تو ہمیں تسلیم کرنے میں کیا ہرج ہے؟''۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے مگر واضح کردیا ہے کہ ظالم اور قابض اسرائیل کو تسلیم کرنے کا ابھی کوئی وقت نہیں ہے، پاکستان بھی اپنی سابقہ پالیسی پر عمل پیرا رہے ۔ ترکی سمیت کچھ عرب ممالک اگر اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں تو اُن کا تتبع اور تقلید ہر گز نہیں کی جا سکتی۔
یقیناًوزیر اعظم عمران خان نے بھی نصیحتوں اور نادر مشوروں سے بھرے مہاتیر محمد کے ان خطبوں کو دل کے کانوں سے سُنا ہوگا ۔ہم اُمید رکھ سکتے ہیں کہ مہاتیر محمد کی نصیحتوں کے پس منظر میں عمران خان اپنے حریف سیاستدانوں کے حوالے سے بھی ملک میں رواداری ، صبر اور اکرام کے کلچر کو فروغ دینے کی اپنی سی کوشش کریں گے۔شریف برادران کو جو عدالتی ریلیف ملا ہے ، اِسے شائد آگے بڑھانے کی بھی ضرورت ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری کے ٹرین مارچ کے پس منظر کی تفہیم بھی ضروری ہے ۔
وطنِ عزیز کے ممتاز اور محترم عالمِ دین، مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ،پر نہ معلوم دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا۔ حضرت مولاناتو اللہ کے فضل و کرم سے محفوظ ومامون رہے لیکن دو محافظ شہید کر دیے گئے ۔مفتی صاحب قبلہ کے ایک قریبی ساتھی، مولانا شہاب ، بھی شدید زخمی ہُوئے۔
بعض تجزیہ نگاروں نے اس دہشت گردی کاذمے دار بھارت کو ٹھہرایا ،لیکن عمران خان کی طرف سے بھارت کا نام نہیں لیا گیا ہے ۔ شائد وہ اُس کشیدگی میں مزید اضافہ نہیں چاہتے ہیں جو پہلے ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود ہے۔
بہرحال مفتی محمد تقی عثمانی صاحب پر حملہ کرکے امن دشمنوں نے ایسے حساس موقع پر واردات ڈالی جب پاکستان میں یومِ پاکستان کی تیاریاں عروج پر تھیں اور ہمارے ہاں معزز مہمان ڈاکٹر مہاتیر محمد صاحب بھی تشریف لا چکے تھے۔ عین اسی لمحے کراچی میں غارتگر دہشت گردوں نے اپنا سیاہ چہرہ دکھا دیا ۔ منصوبہ سازوں نے پاکستان میں ملا ئشین وزیر اعظم کی موجودگی میں ہمیں نادم کرنے کا قابلِ مذمت پروگرام بنایا تھا لیکن ناکام رہے۔
خدا کا شکر ہے کہ معزز اور محترم مہمانِ گرامی ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اپنی کسی گفتگو میں اس سانحہ کا ذکر نہیں کیا ۔ انھیں پاکستان کے وقار کا خیال بھی رہا ہوگا۔ مہاتیر محمد تو اس قدر مہذب مزاج ہیں کہ وہ پاکستان میں تین روز تک قیام پذیر رہے ، کئی شاندار تقریبات اور بزنس کانفرنسوں سے خطاب فرمایا ، اخبار نویسوں کے رُوبرو بھی آئے لیکن مجال ہے کہ اُن کی زبان پر اپنے ملک کے مبینہ کرپٹ سیاستدانوں کا ذکر آیا ہو ۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ڈاکٹر مہاتیر محمد کو ملائشیا میں کرپٹ سیاستدانوں سے سخت معاملات کرنا پڑ رہے ہیں ۔ اُن کا پالا اپنے ملک کے ایک سابق وزیر اعظم اور اُن کی اہلیہ کی اربوں ڈالرز کی مبینہ بدعنوانیوں سے پڑا ہُوا ہے لیکن انھوں نے پاکستان میں موجودگی کے دوران اپنے ملک کے مبینہ کرپٹ عناصر کے بارے کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں کیا۔
ایسا کرتے تو ایک پنجابی محاورے کے مطابق اپنے ہی پیٹ سے کپڑا ہٹاتے۔ ہمارے وزیر اعظم نے جب پچھلے سال نومبر میں ملائشیا کا دَورہ کیا تو ایسا محتاط اسلوب اختیار نہ کر سکے ۔ ملائشیا میں کھڑے ہو کر بھی اپنے ملک کے مبینہ کرپٹ سیاستدانوں کی داستانیں سناتے رہے ۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد صاحب نے دَورئہ پاکستان میںاپنے ملک کے سیاستدانوں کے بارے جو انداز اختیار کیا ہے ، یہ دراصل اشارے کی زبان میں عمران خان کو نصیحت بھی ہے۔ کاش ، کوئی اس نصیحت پر عمل بھی کرسکے۔
ملائشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اسلام آباد کی ایک بزنس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے یوں کہا:''پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ٹیکس میں نرمی کرنی چاہیے۔''اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ٹیکس کولیکشن میں پہلے ہی اربوں روپے کی کمی آ چکی ہے ۔ اب غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی ٹیکس میں نرمی دی جائے گی تو معاملہ کہیں مزید نہ بگڑ جائے ۔ مہاتیر محمد نے اسلام آباد میں یہ بھی کہا تھا:''حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے ۔
حکومت کا کام بس یہ ہے کہ کاروبار کے لیے آسان مواقع فراہم کرے ۔ یہ مواقع تب ہی ثمر آور ثابت ہو سکتے ہیں جب ملک میں پائیدار امن ہواور ہمسایوں سے تعلقات اچھے ہوں گے۔'' مہاتیر محمد تحمل، جذبات سے عاری اور بردباری سے گفتگو کرنے کے عادی ہیں ۔ اُن کے بیان میں کوئی ابہام نہیں ہوتا۔ ہماری بزنس کمیونٹی سے اُن کا مذکورہ خطاب دراصل ہمارے وزیر اعظم صاحب کے لیے خاص نصیحت بھی ہے۔ بھارت ، ایران اور افغانستان ہمارے تین قریبی ہمسائے ہیں۔ عمران خان کو ان سے فوری مکالمہ کرنا چاہیے۔ تبھی ملک میں پائیدار امن بھی ہوگا اور کاروبار کے مواقع بھی میسر آئیں گے ۔ خان صاحب کو برسرِ اقتدار آئے آٹھ ماہ ہو چلے ہیں لیکن بدقسمتی ہے کہ ہمارے ان تینوں ہمسایوں سے اطمینان بخش تعلقات استوار نہیں ہو سکے ہیں۔ حیرانی کی بات مگر یہ ہے کہ دُور بیٹھے بھارت سے افغانستان اور ایران کے تعلقات گہرے اور گُوڑے ہیں۔ ہم ساتھ بیٹھ کر بھی اپنے ان مسلمان ، برادر ممالک سے ایسے تعلقات نہیں بنا سکے ہیں جنہیں ''مستحسن''کہا جاسکے۔
ہمسایوں کے حوالے سے مہاتیر محمد کی نصیحت کو پلّے باندھ لینا چاہیے۔ بھارت سے تعلقات کی استواری ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ جناب نواز شریف نے تیسری بار وزیر اعظم بن کربھارت سے پُر امن تعلقات بنا کر ملک میں بہتر کاروباری ماحول بنانے کی بھرپور کوششوں کا آغاز تو کیا تھا لیکن اُن کی راہیں جلد ہی مسدود کر دی گئیں۔ مہاتیر محمد کی نصیحتوں کو گوشِ ہوش سے سُن کر عمران خان صاحب کو آگے بڑھ کر افغانستان اور ایران سے 'ٹوٹے' تعلقات کا دھاگہ پھر سے جوڑنا ہوگا۔
مہاتیر صاحب نے جاتے جاتے جب یہ کہا کہ ''ہم پاک ، بھارت مسائل کو بخوبی سمجھتے ہیں لیکن ہم دونوں ممالک میں سے کسی کا بھی ساتھ نہیں دیں گے'' تو کیا وہ ناصحانہ انداز میں عمران خان سے کہہ گئے ہیں : بھئی ، ہماری طرف نہ دیکھئے ، اپنے تنازعات خود حل کیجیے؟سچی بات مگر یہ ہے کہ مہاتیر صاحب نے اپنی اس جانبداری سے ہماری دل آزاری کی ہے ۔پاکستان اور عمران خان کی محبتوں کا جواب محبتوں سے نہیں دیا ہے۔ہم حیران ہیں کہ حق و باطل کی جنگ میں ایسی غیر جانبداری چہ معنی دارد؟
وزیر اعظم عمران خان کی موجودگی میں ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اسرائیل کے بارے جو بلیغ اشارہ کیا اور اس اشارے کے پسِ پردہ جو نصیحت کار فرما تھی ، اِسے بھی نظر انداز نہیں کرناچاہیے ۔اسلام آباد میں جناب مہاتیر محمد نے یوں کہا: ''ملائشیا نے تمام ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کیے۔ لیکن اسرائیل سے ہمارے کبھی تعلقات نہیں رہے۔ اسرائیل کے علاوہ ہماری کسی سے دشمنی نہیں ۔ ہم یہودیوں کے خلاف نہیں ہیں، لیکن ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے۔'' مہاتیر محمد جب یہ گفتگو کررہے تھے ، ہال میں پِن ڈراپ سائلنس تھی ۔ بزرگ اور مدبر ملائشین وزیر اعظم نے باتوں باتوں میں اسرائیل کے بارے میں اپنے ملک کی پالیسی بھی بیان کر دی تھی اور اشاروں اشاروں میں ہمیں بھی نصیحت کر گئے ۔
مکرم و محترم مہاتیر محمد صاحب کی عمر نوے سال سے زائد بتائی جاتی ہے ۔ وہ سیاست، معیشت ، سفارتکاری اور اقتدار کی بہت سی دھوپ چھاؤں دیکھ چکے ہیں ۔ اُن کے مشاہدات و تجربات سے مستفید ہونا چاہیے ۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے ہمارے ہاں کچھ ایسی آوازیں سنائی دے رہی ہیں جن میں بین السطور یہ کہنے اور باور کرانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں اب کوئی قباحت نہیں رہی ۔ ایسی دلیلیں سامنے رکھی جارہی ہیں کہ ''جب کئی مسلمان ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کررکھا ہے تو ہمیں تسلیم کرنے میں کیا ہرج ہے؟''۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے مگر واضح کردیا ہے کہ ظالم اور قابض اسرائیل کو تسلیم کرنے کا ابھی کوئی وقت نہیں ہے، پاکستان بھی اپنی سابقہ پالیسی پر عمل پیرا رہے ۔ ترکی سمیت کچھ عرب ممالک اگر اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں تو اُن کا تتبع اور تقلید ہر گز نہیں کی جا سکتی۔
یقیناًوزیر اعظم عمران خان نے بھی نصیحتوں اور نادر مشوروں سے بھرے مہاتیر محمد کے ان خطبوں کو دل کے کانوں سے سُنا ہوگا ۔ہم اُمید رکھ سکتے ہیں کہ مہاتیر محمد کی نصیحتوں کے پس منظر میں عمران خان اپنے حریف سیاستدانوں کے حوالے سے بھی ملک میں رواداری ، صبر اور اکرام کے کلچر کو فروغ دینے کی اپنی سی کوشش کریں گے۔شریف برادران کو جو عدالتی ریلیف ملا ہے ، اِسے شائد آگے بڑھانے کی بھی ضرورت ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری کے ٹرین مارچ کے پس منظر کی تفہیم بھی ضروری ہے ۔