بلاول کی سیاست اور جعلی اکائونٹس
بھٹو کا نواسا ہے۔ لیکن یہ تو غلط ہے کہ وہ کرپٹ لوگوں کو بچانے کی کوشش کرے۔
سیاسی کالم لکھنا آج کل سب سے بڑا ''مسئلہ'' بن گیا ہے، کیوں کہ ملکی سیاست میں جب سے جھوٹ،کرپشن، فریب اور دھوکا دہی نے ڈیرے ڈال لیے ہیں تب سے سیاست بے رنگ اور بے ذائقہ ہوگئی ہے۔
ایک وقت جب ہم بھی ''جیالے'' ہوا کرتے تھے، بے لوث اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر سڑکوں پر نکلتے اور شام کو اپنے مقصد کے حصول کے بعد واپس لوٹتے، لیکن آج نہ تو احتجاج کرنے والے سیاستدانوں کو علم ہے کہ اُن کا ایجنڈا کیا ہے اور نہ سڑکوں پر نکلنے والے کارکنوں کو علم ہے کہ وہ کس کی طرفداری کر رہے ہیں؟آج سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کی تربیت کے بجائے انھیں کرپشن کے الزامات میں پیشیاں بھگتنے والے لیڈروں کے لیے ''شیلڈ'' بننے کا درس دے رہی ہیں۔
ایسا ہی گزشتہ ہفتے (بدھ کو) دیکھنے میں آیا جب زرداری اور بلاول کی نیب میں پیشی کے موقع پر نیب اسلام آباد میں کورٹ کے باہر جیالوں کی بھرپور ''مارا ماری'' ہوئی۔ جس کے بعد بلاول نے بھٹو کی طرز پر ''ٹرین مارچ'' کا اعلان کیا۔ جو گزشتہ روز ہی کراچی سے لاڑکانہ پہنچ کر اختتام پذیر ہوا۔ شیخ رشید کی وزارتِ ریلوے نے اس کے لیے 14 ڈبوں پر مشتمل خصوصی ٹرین فراہم کر دی تھی۔
بلاول کے ٹرین مارچ نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس روایت کو زندہ کیا جب سیاسی جماعتیں خصوصا ًحزب مخالف کے قائدین ٹرین کے ذریعے ملک کے طول وعرض کا سفر کرتے تھے اور ہر چھوٹے بڑے اسٹیشن پر جمع ہونے والے کارکنوں اور عوام سے خطاب کرتے تھے۔ اس وقت کے آمر ایوب خان نے بھٹو صاحب کو مشورہ دیا کہ '' بہتر یہی ہے کہ آپ کچھ ماہ کے لیے چھٹیوں پر چلے جائیں اور واپس آ کر سیاست میں حصہ لینے کے بارے میں مت سوچیے گا'' اس پر شہید ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے جواب دیا کہ ''اس بات کا فیصلہ اب پاکستان کے عوام کریں گے کہ میں سیاست میں حصہ لیتا ہوں یا نہیں''۔
جب چند دن بعد وہ راولپنڈی سے بذریعہ ٹرین لاہور کے لیے روانہ ہوئے تو اسٹیشن پر اس وقت کی کابینہ کے صرف دو وزیر جو بھٹو صاحب کے ذاتی دوست بھی تھے وہاں موجود تھے۔ اس وقت تک بھٹو صاحب کے استعفے اور ان کی ایوب خان کے ساتھ گفتگو تمام حلقوں میں پھیل چکی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جسے صرف دو لوگوں نے راولپنڈی اسٹیشن سے روانہ کیا تھا جب وہ لاہور پہنچا تو اسٹیشن پر ہزاروں کا مجمع موجود تھا جس میں زیادہ تر نوجوانوں تھے اور وہ سب حبیب جالبؔ کی ذوالفقار علی بھٹو کے لیے لکھی گئی مشہورِ نظم کے پرچے تقسیم کر رہے تھے نظم کا پہلا شعر ہی اس منظر، عوام اور شاعر کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے کہ:
دشتِ خزاں میں اپنا چمن چھوڑ کر نہ جا
تجھ کو پکارتا ہے وطن چھوڑ کر نہ جا
دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں ٹرین مارچ کو اپنی سیاسی نظریے کی ترویج وتشہیر اور سیاسی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ پھر ٹرین مارچ بینظیر بھٹو نے بھی اسے استعمال کیا۔ 1995ء میں بینظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف مسلم لیگ (ن)نے نواز شریف کی قیادت میں کراچی سے پشاور تک ٹرین مارچ کیا۔
ٹرین مارچ اس وقت کی ''تحریک نجات'' کا حصہ تھا۔ پھر پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف جماعت اسلامی نے 21 جولائی 1996ء کو کراچی سے پشاور تک ٹرین مارچ کا کیا۔ یہ مارچ حکومت کی مبینہ کرپشن کے خلاف تھا۔ مارچ کی قیادت اس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے کی۔ پھر 2002ء کے عام انتخابات سے پہلے مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے بھی رابطہ عوام کے سلسلے میں ٹرین مارچ کیا۔ اکتوبر 2008ء میں جماعت اسلامی نے اپنے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد کی قیادت میں مہنگائی، بیروزگاری اور حکومت کی جانب سے مشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھنے اور مشرف کے احتساب میں ناکامی کے خلاف پشاور سے کراچی تک ٹرین مارچ کیا۔پھر مئی 2016ء میں جماعت اسلامی نے کرپشن کے خلاف ٹرین مارچ کرنے کا اعلان کیا۔
بہرکیف واپس آتے ہیں بلاول کے ٹرین مارچ کی طرف تو چند روز قبل لاہور میں کچھ سندھی دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ ہمارا معصومانہ سوال تھا،کیا کرپٹ لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے؟ جواب میں وہ پھٹ پڑے، ہونی چاہیے، لیکن صرف سیاسی مخالفین کے خلاف کیوں؟ اور پھر انھوں نے ایک لمبی فہرست گنوا دی اور پوچھا، کیا یہ لوگ دودھ کے دھلے ہیں؟ پھر ہم نے ایک اور سوال داغا کہ عوام پوچھتے ہیں کہ گزشتہ 11سال سے پیپلزپارٹی سندھ میں برسر اقتدار ہے تو کیا جعلی اکاؤنٹس پنجاب والے آکر سندھ میں بنا گئے ہیں۔ اس پر میرے ''فاضل'' دوستوں نے تاریخی جملہ دہرایا کہ اس میں بلاول کا قصور نہیں ہے!
یقینا آپ بھی اس جواب سے ضرور متاثر ہوئے ہوں گے۔ بلاول پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انھیں علم ہی نہیں ہے کہ ان کی سیاست کو کس قدر نقصان پہنچایا گیا ہے۔ وہ الیکشن میں دھاندلی کی بات کر تے ہیں ، میں کہتا ہوں کہ اگر حالیہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے تو پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی کی 54 سیٹیں کیسے مل گئیں۔ پنجاب ان کا ووٹ بینک نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے انھیں یہ کہنے کا حق نہیں ہے،کہ انھیں پنجاب میں ہرایا گیا ہے۔ بلاول کو شاید علم ہی نہیں ہے کہ وہ سیاسی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ وہ جب یہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے دور میں سندھ میں مثالی ترقی ہوئی، کئی منصوبے مکمل کیے، تھر میں مٹھی اسپتال یا تھر میں صاف پانی کے پراجیکٹ لگائے گئے تو یہ سب باتیں ہوا میں کی جارہی ہیں۔ حقیقت میں تھری قحط زدہ'' پیاسے'' ہیں،ان کے بچے غذائیت سے محروم ہیں جب کہ مائیں نحیف اور کمزور ۔ اس انسانی المیے پر سندھ سرکار کی بے حسی اور لاپرواہی ساری دنیا کو دکھائی دے جاتی ہے۔
بہرکیف جمہوریت کے لیے پیپلزپارٹی کی پنجاب میں خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ بھٹو فیملی اور پیپلز پارٹی ہی نے ہمیشہ آمریت کو للکارا ہے ، ان ہی سے آمریت ہمیشہ خوفزدہ رہی ہے۔ لیکن بلاول کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پیپلزپارٹی کی حالیہ قیادت کی گورننس کیسی ہے، سندھ کے عوام کی بربادی اس کا ثبوت ہے۔جعلی بینک اکاؤنٹس کی چھان بین کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ زبانِ زدِعام ہو چکی ہیں۔پیپلز پارٹی ایک بڑی سیاسی،عوامی جماعت ہوا کرتی تھی جسے ایک علاقائی جماعت میں بدل دیا گیا ہے، پنجاب میں انتخابی مہم کے دوران پیپلز پارٹی کو امیدوار نہیں مل رہے تھے۔
لہٰذابلاول کو چاہیے کہ وہ اگر عملی سیاست میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اپنی پارٹی کے اندر صفائی کریں۔ وہ گزشتہ 10سال سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں ، ہمیں یقین ہے کہ وہ کرپٹ نہیں ہیں مگر اُن کی موجودگی میں سیکڑوں جعلی اکاؤنٹس بنے، جب ایک ہی اکاؤنٹ سے ایان علی اور بلاول کو ٹکٹیں جاری ہوں گی تو عوام سوال ضرور کریں گے ؟ہم بلاول کے ساتھ ہیں، ہم اُس کی سیاست کے مکمل سپورٹر ہیں، وہ ٹیلنڈ ہے، نیا خون ہے۔ اور سب سے بڑھ کر وہ ہماری شہید بی بی کا بیٹا ہے۔
بھٹو کا نواسا ہے۔ لیکن یہ تو غلط ہے کہ وہ کرپٹ لوگوں کو بچانے کی کوشش کرے۔ آخر گزشتہ 11سال سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی ہے اور تمام جعلی اکاؤنٹس بھی انھی کے ادوار اور صوبہ سندھ میں ہی بنے ہیں تو بلاول شفاف انکوائری کرانے کے آرڈر جاری کیوں نہیں کراتے؟ آخر وہ پارٹی کے چیئرمین ہیں۔ وہ عوام کو جوابدہ ہیں۔ ایسے بے نامی اکاؤنٹس پنجاب یا دیگر صوبوں میں کیوں نہیں نکلے، لہٰذا اگربلاول کسی کو بچا رہے ہیں تو یقینا یہ اُن کے سیاسی کرئیر شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کردینے کے مترادف ہو سکتا ہے۔اور اگر نیب یا ایف آئی اے غلط کررہی ہے تو آپ صحیح اسٹوری بیان کردیں،یہی پیپلزپارٹی کی بقاء کے لیے بہتر ہوگا!
ایک وقت جب ہم بھی ''جیالے'' ہوا کرتے تھے، بے لوث اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر سڑکوں پر نکلتے اور شام کو اپنے مقصد کے حصول کے بعد واپس لوٹتے، لیکن آج نہ تو احتجاج کرنے والے سیاستدانوں کو علم ہے کہ اُن کا ایجنڈا کیا ہے اور نہ سڑکوں پر نکلنے والے کارکنوں کو علم ہے کہ وہ کس کی طرفداری کر رہے ہیں؟آج سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کی تربیت کے بجائے انھیں کرپشن کے الزامات میں پیشیاں بھگتنے والے لیڈروں کے لیے ''شیلڈ'' بننے کا درس دے رہی ہیں۔
ایسا ہی گزشتہ ہفتے (بدھ کو) دیکھنے میں آیا جب زرداری اور بلاول کی نیب میں پیشی کے موقع پر نیب اسلام آباد میں کورٹ کے باہر جیالوں کی بھرپور ''مارا ماری'' ہوئی۔ جس کے بعد بلاول نے بھٹو کی طرز پر ''ٹرین مارچ'' کا اعلان کیا۔ جو گزشتہ روز ہی کراچی سے لاڑکانہ پہنچ کر اختتام پذیر ہوا۔ شیخ رشید کی وزارتِ ریلوے نے اس کے لیے 14 ڈبوں پر مشتمل خصوصی ٹرین فراہم کر دی تھی۔
بلاول کے ٹرین مارچ نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس روایت کو زندہ کیا جب سیاسی جماعتیں خصوصا ًحزب مخالف کے قائدین ٹرین کے ذریعے ملک کے طول وعرض کا سفر کرتے تھے اور ہر چھوٹے بڑے اسٹیشن پر جمع ہونے والے کارکنوں اور عوام سے خطاب کرتے تھے۔ اس وقت کے آمر ایوب خان نے بھٹو صاحب کو مشورہ دیا کہ '' بہتر یہی ہے کہ آپ کچھ ماہ کے لیے چھٹیوں پر چلے جائیں اور واپس آ کر سیاست میں حصہ لینے کے بارے میں مت سوچیے گا'' اس پر شہید ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے جواب دیا کہ ''اس بات کا فیصلہ اب پاکستان کے عوام کریں گے کہ میں سیاست میں حصہ لیتا ہوں یا نہیں''۔
جب چند دن بعد وہ راولپنڈی سے بذریعہ ٹرین لاہور کے لیے روانہ ہوئے تو اسٹیشن پر اس وقت کی کابینہ کے صرف دو وزیر جو بھٹو صاحب کے ذاتی دوست بھی تھے وہاں موجود تھے۔ اس وقت تک بھٹو صاحب کے استعفے اور ان کی ایوب خان کے ساتھ گفتگو تمام حلقوں میں پھیل چکی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جسے صرف دو لوگوں نے راولپنڈی اسٹیشن سے روانہ کیا تھا جب وہ لاہور پہنچا تو اسٹیشن پر ہزاروں کا مجمع موجود تھا جس میں زیادہ تر نوجوانوں تھے اور وہ سب حبیب جالبؔ کی ذوالفقار علی بھٹو کے لیے لکھی گئی مشہورِ نظم کے پرچے تقسیم کر رہے تھے نظم کا پہلا شعر ہی اس منظر، عوام اور شاعر کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے کہ:
دشتِ خزاں میں اپنا چمن چھوڑ کر نہ جا
تجھ کو پکارتا ہے وطن چھوڑ کر نہ جا
دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں ٹرین مارچ کو اپنی سیاسی نظریے کی ترویج وتشہیر اور سیاسی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ پھر ٹرین مارچ بینظیر بھٹو نے بھی اسے استعمال کیا۔ 1995ء میں بینظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف مسلم لیگ (ن)نے نواز شریف کی قیادت میں کراچی سے پشاور تک ٹرین مارچ کیا۔
ٹرین مارچ اس وقت کی ''تحریک نجات'' کا حصہ تھا۔ پھر پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف جماعت اسلامی نے 21 جولائی 1996ء کو کراچی سے پشاور تک ٹرین مارچ کا کیا۔ یہ مارچ حکومت کی مبینہ کرپشن کے خلاف تھا۔ مارچ کی قیادت اس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے کی۔ پھر 2002ء کے عام انتخابات سے پہلے مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے بھی رابطہ عوام کے سلسلے میں ٹرین مارچ کیا۔ اکتوبر 2008ء میں جماعت اسلامی نے اپنے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد کی قیادت میں مہنگائی، بیروزگاری اور حکومت کی جانب سے مشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھنے اور مشرف کے احتساب میں ناکامی کے خلاف پشاور سے کراچی تک ٹرین مارچ کیا۔پھر مئی 2016ء میں جماعت اسلامی نے کرپشن کے خلاف ٹرین مارچ کرنے کا اعلان کیا۔
بہرکیف واپس آتے ہیں بلاول کے ٹرین مارچ کی طرف تو چند روز قبل لاہور میں کچھ سندھی دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ ہمارا معصومانہ سوال تھا،کیا کرپٹ لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے؟ جواب میں وہ پھٹ پڑے، ہونی چاہیے، لیکن صرف سیاسی مخالفین کے خلاف کیوں؟ اور پھر انھوں نے ایک لمبی فہرست گنوا دی اور پوچھا، کیا یہ لوگ دودھ کے دھلے ہیں؟ پھر ہم نے ایک اور سوال داغا کہ عوام پوچھتے ہیں کہ گزشتہ 11سال سے پیپلزپارٹی سندھ میں برسر اقتدار ہے تو کیا جعلی اکاؤنٹس پنجاب والے آکر سندھ میں بنا گئے ہیں۔ اس پر میرے ''فاضل'' دوستوں نے تاریخی جملہ دہرایا کہ اس میں بلاول کا قصور نہیں ہے!
یقینا آپ بھی اس جواب سے ضرور متاثر ہوئے ہوں گے۔ بلاول پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انھیں علم ہی نہیں ہے کہ ان کی سیاست کو کس قدر نقصان پہنچایا گیا ہے۔ وہ الیکشن میں دھاندلی کی بات کر تے ہیں ، میں کہتا ہوں کہ اگر حالیہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے تو پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی کی 54 سیٹیں کیسے مل گئیں۔ پنجاب ان کا ووٹ بینک نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے انھیں یہ کہنے کا حق نہیں ہے،کہ انھیں پنجاب میں ہرایا گیا ہے۔ بلاول کو شاید علم ہی نہیں ہے کہ وہ سیاسی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ وہ جب یہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے دور میں سندھ میں مثالی ترقی ہوئی، کئی منصوبے مکمل کیے، تھر میں مٹھی اسپتال یا تھر میں صاف پانی کے پراجیکٹ لگائے گئے تو یہ سب باتیں ہوا میں کی جارہی ہیں۔ حقیقت میں تھری قحط زدہ'' پیاسے'' ہیں،ان کے بچے غذائیت سے محروم ہیں جب کہ مائیں نحیف اور کمزور ۔ اس انسانی المیے پر سندھ سرکار کی بے حسی اور لاپرواہی ساری دنیا کو دکھائی دے جاتی ہے۔
بہرکیف جمہوریت کے لیے پیپلزپارٹی کی پنجاب میں خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ بھٹو فیملی اور پیپلز پارٹی ہی نے ہمیشہ آمریت کو للکارا ہے ، ان ہی سے آمریت ہمیشہ خوفزدہ رہی ہے۔ لیکن بلاول کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پیپلزپارٹی کی حالیہ قیادت کی گورننس کیسی ہے، سندھ کے عوام کی بربادی اس کا ثبوت ہے۔جعلی بینک اکاؤنٹس کی چھان بین کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ زبانِ زدِعام ہو چکی ہیں۔پیپلز پارٹی ایک بڑی سیاسی،عوامی جماعت ہوا کرتی تھی جسے ایک علاقائی جماعت میں بدل دیا گیا ہے، پنجاب میں انتخابی مہم کے دوران پیپلز پارٹی کو امیدوار نہیں مل رہے تھے۔
لہٰذابلاول کو چاہیے کہ وہ اگر عملی سیاست میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اپنی پارٹی کے اندر صفائی کریں۔ وہ گزشتہ 10سال سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں ، ہمیں یقین ہے کہ وہ کرپٹ نہیں ہیں مگر اُن کی موجودگی میں سیکڑوں جعلی اکاؤنٹس بنے، جب ایک ہی اکاؤنٹ سے ایان علی اور بلاول کو ٹکٹیں جاری ہوں گی تو عوام سوال ضرور کریں گے ؟ہم بلاول کے ساتھ ہیں، ہم اُس کی سیاست کے مکمل سپورٹر ہیں، وہ ٹیلنڈ ہے، نیا خون ہے۔ اور سب سے بڑھ کر وہ ہماری شہید بی بی کا بیٹا ہے۔
بھٹو کا نواسا ہے۔ لیکن یہ تو غلط ہے کہ وہ کرپٹ لوگوں کو بچانے کی کوشش کرے۔ آخر گزشتہ 11سال سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی ہے اور تمام جعلی اکاؤنٹس بھی انھی کے ادوار اور صوبہ سندھ میں ہی بنے ہیں تو بلاول شفاف انکوائری کرانے کے آرڈر جاری کیوں نہیں کراتے؟ آخر وہ پارٹی کے چیئرمین ہیں۔ وہ عوام کو جوابدہ ہیں۔ ایسے بے نامی اکاؤنٹس پنجاب یا دیگر صوبوں میں کیوں نہیں نکلے، لہٰذا اگربلاول کسی کو بچا رہے ہیں تو یقینا یہ اُن کے سیاسی کرئیر شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کردینے کے مترادف ہو سکتا ہے۔اور اگر نیب یا ایف آئی اے غلط کررہی ہے تو آپ صحیح اسٹوری بیان کردیں،یہی پیپلزپارٹی کی بقاء کے لیے بہتر ہوگا!