مودی کی انتخابی سیاست اور پاکستان

نریندرمودی یہ الیکشن بھی اسی حکمت عملی تحت لڑ رہے ہیں، جس کے تحت انھوں نے 2014ء کا الیکشن لڑا اور جیتا تھا۔

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگی تناومیں اگرچہ اب کافی کمی آ چکی ہے اور بھارتی دراندازی کے جواب میں پاکستان کی فوجی کارروائی نے حساب برابر کر دیا ہے ؛ لیکن جب تک بھارت میں الیکشن نہیں ہو جاتے، مودی سرکار کی طرف سے کسی اور دراندازی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ 2014ء کے الیکشن کی طرح 2019ء کے الیکشن کے لیے بھی بھارتی جنتا پارٹی اور ان کے انتخابی اتحاد نے اپنی انتخابی مہم کی بنیاد مسلم مخالف جذبات پر رکھی ہے اور یہ ان کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے کہ بھارت میں مسلم مخالف جذبات کواس طرح ہوا دی جائے کہ حالیہ الیکشن میں اس کا تمام تر انتخابی فائدہ حکومتی انتخابی اتحاد کو پہنچے۔

نریندرمودی کی انتخابی حکمت عملی کا مکمل ادراک اس وقت تک نہیں ہو سکتا، جب تک ان کی انتخابی سیاست کو شروع سے نہ سمجھ لیا جائے۔ نریندرمودی کی پیدائش اگرچہ 1947ء کے بعد کی ہے، لیکن بہت چھوٹی عمر میں ہی وہ انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ سے وابستہ ہو گئے، جس کا خمیر مسلم مخالف جذبات سے اٹھاہے۔ گھریلو زندگی سے وہ اوائل جوانی ہی میں متنفر ہوگئے، جو ان کے مزاج میں جبلی شدت کی غماز ہے۔راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کہنے کو صرف بھارتی مسلمانوں کے خلاف ہے، لیکن جب سیاسی سطح پریہ نفرت ظاہر ہوتی ہے تواول وآخراس کا ہدف پاکستان ہی ہوتا ہے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ 1971ء میں نریندر مودی نے آر ایس ایس رضاکار کی حیثیت پاکستان مخالف سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا اور بطور وزیراعظم بنگلہ دیش کے دورہ کے دوران میں نہایت ڈھٹائی سے اس کا اظہار بھی کیا۔1975ء میں اندراگاندھی نے ایمرجنسی لگائی تو نریندرمودی بھی حکومت مخالف ان سیاستدانوں میں شامل تھے، جن کو حکومت گرفتار کرنا چاہتی تھی، لیکن وہ انڈرگراونڈ چلے گئے۔کہا جاتا ہے کہ 1985ء میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے ایما پر ہی انھوں نے کانگریس مخالف بھارتیا جنتا پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔

بھارتیا جنتا پارٹی میں انھوں نے مختلف عہدوں پر کام کیا، حتیٰ کہ اس کے سیکریٹری جنرل بن گئے۔2001ء میں ان کی قسمت اس طرح کھلی کہ گجرات کے وزیراعلی کیشو پٹیل بیمار پڑ گئے۔ ان کے لیے کسی نائب کی تلاش شروع ہوئی۔ نریندرمودی کو یہ پیش کش کی گئی ، تو انھوں نے کہا، نائب بننے میں ان کو کوئی دلچسپی نہیں، البتہ اگران کو مکمل وزیراعلیٰ بنا دیا جائے تو وہ گجرات کی ہر طرح سے ذمے داری لینے کے لیے تیار ہیں۔ سینئر پارٹی لیڈر ایل کے ایڈوانی نے ان کی بھرپور مخالفت کی، لیکن نریندرمودی گجرات کے وزیراعلیٰ بننے میں کام یاب ہو گئے۔

2002ء میں ہندویاتریوں کی ایک ٹرین پر دہشتگردوں کے حملہ کے بعد گجرات میں جو ہندومسلم فسادات ہوئے اور جس میں سیکڑوں مسلمانوں کی جانیں گئیں،ان میں نریندرمودی کا کردار بڑا خوف ناک رہا؛ کیونکہ حملہ کے فوراً بعد یہ نریندرمودی ہی تھے، جنھوں نے بطور وزیراعلیٰ بغیر کسی تحقیق کے، اس سانحہ کا ذمے دار مقامی مسلمانوں کو قرار دیا تھا اور مقامی ہندوآبادی کو مسلمانوں کے خلاف تشدد پر اکسایا تھا۔2014ء کے الیکشن میں نریندرمودی نے اپنی انتخابی مہم کی بنیاد مسلم مخالف جذبات، اور پاکستان کی مخالفت پر رکھی اور بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف انتہائی زہریلی تقاریر کیں۔ان کی یہ تقاریر یوٹیوب پر اب بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان کی انتخابی تقاریر میں مسلم ووٹر کو سرے سے مخاطب ہی نہ کیا گیا، بلکہ صرف اور صرف ہندو ووٹر ان کا مخاطب تھا۔ ان کانعرہ یہ تھا کہ ''بھارتی مسلمانوں اور پاکستان دونوں کو سبق سکھا دیں گے، مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی بغاوت کو کچل دیں گے۔'' حکمت عملی یہ تھی کہ بھارت میں 80% سے زائد ہندو آبادی کو مسلمانوں کے خلاف اپنا ہم نوا بنانے سے بھارتیا جنتا پارٹی اور اس کے انتخابی اتحاد کو مطلوبہ اکثریت مل جائے گی۔

اگرچہ انتخابی مہم میں گجرات میں ان کے دور حکومت کی اقتصادی کامیابیوں کا بھی ڈھنڈورا پیٹا گیا،اور ان کے دورحکومت میں ریکارڈ جی ڈی پی کا جھنڈا بھی لہرایا گیا، مگر زور مسلم مخالف جذبات کو انگیخت دینے پر ہی رہا۔ نریندرمودی نے اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ کی پاکستان کے حوالہ سے امن پالیسی کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ حربہ کامیاب رہا، بلکہ اس حد تک کارگر ثابت ہوا کہ بھارتیا جنتا پارٹی اور اس کے انتخابی اتحاد نے پہلی بار پارلیمنٹ میں واضح اکثریت کی، کانگریس کو بدترین شکست ہوئی اور نریندرمودی وزارت عظما کے سنگھاسن پر براجمان ہو گئے۔


وزیراعظم بننے کے بعد نریندمودی کا پاکستان کا خبث باطن اسی وقت سامنے آ گیا تھا ، جب انھوں نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں وزیراعظم پاکستان ( نوازشریف ) کو مدعو کیا؛ لیکن جب وہ بھارت پہنچے تو نہ صرف یہ کہ ائرپورٹ پر ان کے استقبال کا کوئی بندوبست نہ تھا، بلکہ تقریب حلف برداری اور اس کے بعد ون آن ون ملاقات میں ان کی سبکی میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ دوطرفہ ملاقات کے بعد نریندرمودی ان کو کمرے کے باہر تک چھوڑنے کے لیے بھی نہ آئے۔ بھارت میں 2019ء کے الیکشن کی آمد آمد ہے۔

نریندرمودی یہ الیکشن بھی اسی حکمت عملی تحت لڑ رہے ہیں، جس کے تحت انھوں نے 2014ء کا الیکشن لڑا اور جیتا تھا، مسلمانوں کے خلاف نفرت اور پاکستان کے خلاف جارحیت؛ لیکن ایک چیز جو ان کے پیش نظر نہیں رہی، یا انھوں نے اس کے مضمرات پر غور نہیں کیا، وہ یہ ہے کہ 2014ء میں پاکستان پر نوازشریف کی حکومت تھی، جنھوں نے الیکشن کے فوراً بعد یہ تک کہہ دیا تھاکہ ان کو ملنے والے بھاری مینڈیٹ کا مطلب یہ بھی ہے کہ عوام نے ان کو بھارت کے ساتھ دوستی کرنے کا مینڈیٹ بھی دیا ہے، لیکن اب2019 ء میں اب وزیراعظم نوازشریف نہیں، بلکہ عمران خان ہیں اورخارجہ امور بالخصوص بھارت کے ضمن میں نوازشریف کے برعکس فوج کے ساتھ ان کی مکمل ہم آہنگی ہے۔

کانگریس تو ان کی اس انتخابی حکمت عملی کی کھلم کھلا مخالفت کر ہی رہی ہے، بھارتیا جنتاپارٹی کے انتخابی اتحاد میں بھی سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔ مستزاد یہ کہ نریندر مودی نے پاکستان میں دراندازی کرکے جو انتخابی چال چلی تھی، پاکستان نے جوابی کارروائی کرکے اس کو نہ صرف یہ کہ ناکام بنا دیا ہے ، بلکہ نظر بظاہر یہ آ رہا ہے کہ یہ دراندازی مودی سرکار کو انتخابی طور پر کافی مہنگی پڑی ہے اور اپوزیشن کو ان کے خلاف یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ بھارت کو پاکستان سے جو ہزیمت اٹھانا پڑی ہے، اور دنیا میں اس کی وجہ سے بھارت کی جو جگ ہنسائی ہو رہی ہے، اس کی ذمے دار صرف اور صرف نریندر مودی پرعائد ہوتی ہے۔

لیکن جیسا کہ شروع میں کہا گیا، جب تک بھارت میں الیکشن ہو نہیں جاتے، نریندرمودی سے کچھ بھی بعید نہیں۔ فی الوقت تو وہ شکست کے زخم چاٹ رہے ہیں، لیکن پاکستان سے حسد کی جس آگ میں وہ جل رہے ہیں، اس کی جلن میں وہ الیکشن سے پہلے زخمی سانپ کی طرح پھر سے کوئی ''واردات ڈالنے کوشش '' کرسکتے ہیں۔ شاعر نے بہت پہلے تنبیہ کی تھی ،

تو انم اینکہ نیا زارم اندرون کسی

حسود را چہ کنم کہ زخود برنج درست

( میں یہ تو کر سکتا ہوں کہ کسی کا دل نہ دکھاوں،

لیکن حاسد کا کیا کروںکہ وہ تو اپنی آگ آپ جل رہا ہے )
Load Next Story