منافقت بالآخر ظاہر ہو کر رہتی ہے

نیوزی لینڈ کا معاشرہ انگشت بدنداں ہے اور وہاں کی حکومت سرگرداں ہے۔



ISLAMABAD: نیوزی لینڈ کے شہرکرائسٹ چرچ میں ایک گورے نسل پرست نے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے عین نماز جمعہ کے وقت دو مساجد پر دہشتگردانہ حملے کرکے تقریبا 50 افراد کو شہید اور سو کو زخمی کردیا ۔ نیوزی لینڈ کی حکومت اس دہشتگردی پر ہل کر رہ گئی۔ نیوزی لینڈ کا معاشرہ انگشت بدنداں ہے اور وہاں کی حکومت سرگرداں ہے، دہشتگردی اب ان کے گھروں تک آن پہنچی ہے۔

یہ پہلی بار ہوا کہ ایک دہشتگرد کے دہشتگردانہ عمل کو یورپی معاشرے نے دہشتگردی قرار دیا۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے اس حملے کو دہشتگردی قرار دیا اور اس پر اپنے شدید رنج وغم کا اظہارکیا۔ اس سے قبل ہمیشہ گوروں کی طرف سے کی جانے والی دہشتگردانہ کارروائیوں کو یورپ کے مختلف ممالک کے حکمران شوٹنگ قرار دیتے تھے اور حملہ آور کو عام طور پر ذہنی مریض قرار دے کر ایسی کارروائیوں کو ''داخل دفتر'' کیے جانے کے دروازے کھول دیے جاتے تھے، مگر اس بار نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم نے اسے کھلی دہشتگردی قرار دے کر اقوام یورپ کے لبوں پر مہر لگا دی ہے۔

''دہشتگرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا '' یہ جملہ اتنی بار دہرایا جا چکا ہے کہ اب اس میں خود کوئی وزن نہیں رہا۔ اب اگر ہم کہیں کہ دہشتگرد کا کوئی رنگ نہیں ہوتا تو پورا یورپ بلبلا اٹھے گا ۔کیونکہ پہلی بار سفید فام دہشتگردی کو دہشتگردی قرار دیا گیا ہے ورنہ سفید فاموں کی طرف سے ایسی شوقیہ فائرنگ کو محض شوٹنگ قرار دے کر نظر انداز کردیا جاتا رہا ہے البتہ کسی کالے یا رنگ دار کی ذرا سی غلط کاری بہت بڑی دہشتگردی قرار دے دی جاتی ہے اس کے تانے بانے ناپسندیدہ ممالک سے منسلک قرار دیے جاتے ہیں اور پھر متعلقہ ممالک کے خلاف انتہائی متعصبانہ اقدامات کیے جاتے رہے ہیں۔

مگر اس بار بھلا ہو نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کا کہ انھوں نے پوری جرأت مندی سے اس دہشتگردی کو دہشتگردی قرار دیا۔ مسلمانوں کی جانوں کے زیاں پر رنج و غم کا اظہار کیا اور رنگ دار اقوام کو انسانوں کی صف میں لاکھڑا کیا۔

اس حادثے میں مختلف افراد، مختلف اقوام اور مختلف گروہوں کے رویے خاصے مختلف رہے ہیں اور ان پر توجہ دینا ضروری ہے۔ یہ حادثہ نیوزی لینڈ میں واقع ہوا۔ دہشتگرد نے جمعہ کا دن پسند کیا۔ جمعہ کی نماز کے اجتماع کا وقت دہشتگردی کے لیے منتخب کیا اور فائرنگ سے چند منٹ قبل سوشل میڈیا پر اپنی کارروائی کوکرنے سے پہلے ظاہر بھی کر دیا۔ اس نے اپنے ٹوپ میں جو سرکی حفاظت کے لیے تھا ایک کیمرہ بھی لگا رکھا تھا جس کے ذریعے اس خوں آشام حادثے کی تفصیلات باقاعدہ سوشل میڈیا پر نشر ہوتی رہیں۔

پھر بھی پولیس کوئی نصف گھنٹے بعد جائے وقوعہ پر پہنچی۔ محض یہی ایک چیز ہم میں اور اس یورپی ملک میں یکساں دکھائی دی ورنہ وہاں کے نظام میں اس قدر تاخیرکا جواز نہیں دیا جاسکتا۔

دوسرے روز جب مجرم کو عدالت میں پیش کیا گیا تو وہ قطعاً پشیمان نہیں تھا بلکہ فتح کا نشان بناکر اپنی کارگزاری کی عظمت کو ظاہرکر رہا تھا۔

لیکن نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم نے نہ صرف اس کارروائی کو دہشتگردی قرار دیا بلکہ وہ مسلمانوں کے غم میں برابر کی شریک رہیں۔ انھوں نے سیاہ لباس زیب تن کرکے اور دوپٹہ اوڑھ کر خالص مسلم ثقافت کے انداز میں شہدا کے متعلقین کے پاس جاکر ان سے تعزیت کی، ان سے ہمدردی کا اظہار کیا اور ان کے غم میں شریک و سوگوار رہیں اور یوں انسانیت کا پرچم بلند رکھا۔

دوسری طرف امریکا کے متعصب سفید فام صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس واقعے پر جس میں پچاس مسلمان شہید اور سوکے قریب زخمی ہوئے اور جنھیں اس طرح قتل کیا گیا جس طرح مچھر مارنے والی گن سے مچھر مارے جاتے ہیں فرمایا اور بڑی بے شرمی سے فرمایا کہ سفید فام قوم پرستی سے دنیا کو کوئی خطرہ نہیں، جب ان کی توجہ 49 مسلمانوں کے قتل عام کو خطرناک رجحان قرار دینے کی طرف مبذول کرائی گئی تو فرمایا ''میں ایسا نہیں سمجھتا'' افغانستان کی پہاڑیوں میں بیٹھا اسامہ بن لادن تو دنیا بھر کے لیے خطرہ تھا اور اس کی خاطر سالوں سے افغانستان پر فوج کشی کی جاتی رہی مگر یہ رنگ دار مسلمانوں کی جانوں کا ضیاع پر مسٹر ٹرمپ کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے ٹرمپ کے اس رویے کو منافقانہ قرار دیا ہے۔ آخر خون بھی تو بولتا ہے۔

مسٹر ٹرمپ کی ہرزہ سرائی پر ہمیں زیادہ حیرت نہیں وہ پہلے بھی ایسے ہی احمقانہ اور ظالمانہ ارشادات فرماتے رہے ہیں اور ان کے ملک میں ہزاروں لوگ ان کو ذہنی طور پر غیر متوازن قرار دیتے رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس حد تک ذہنی مریض کو امریکی صدر مقررکیا جا سکتا ہے یا وہ اپنے عہدے پر قائم رہ سکتا ہے۔ یہ امریکی معاشرے کے لیے غور کرنے کی بات ہے ۔

کرائسٹ چرچ میں شہادت پانے والوں میں 9 پاکستانی بھی شامل ہیں۔ تین افراد ہنوز لاپتہ ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں مرنے والوں کے لواحقین کے یہاں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ مگر ہم پی ایس ایل کے فائنل میں اس قدر مگن رہے کہ میچ کی ابتدا میں ایک منٹ کی منافقانہ خاموشی کو اظہار غم کے لیے مناسب خیال کیا گیا اور فائنل کی ابتدا سے قبل موسیقی، رقص اور آتش بازی سے پوری طرح لطف اندوز ہوتے رہے۔ سنا ہے کھلاڑیوں نے سیاہ پٹیاں باندھ کر کھیل کھیلا مگر اس کھیل سے قبل جو کھیل کھیلا گیا وہ پوری قوم کے لیے ندامت اور ذلت کا باعث ہے۔

سرکاری سطح پر قومی پرچم پی ایس ایل کے اختتام کے بعد سر نگوں کیا گیا مگر میچ کی خوشیوں اور خرمستیوں میں کسی قسم کی رکاوٹ کو گوارا نہیں کیا گیا۔

اب کچھ دن نیوزی لینڈ کے شہدا سے ہم آہنگی کی خاطر چند اور غیر اسلامی اقدامات کیے جائیں گے مثلاً کسی مخصوص جگہ پر موم بتیاں روشن کی جائیں گی ان کی یاد میں کسی مخصوص جگہ پر پھول رکھے جائیں گے جو اظہار غم کے محض رسمی طریقے ہیں اور ان طریقوں کا ہماری ثقافتی زندگی سے دور دور کا واسطہ نہیں مگر کیا کیا جائے کہ اس ''منافقانہ'' عمل کی سربراہی ہمارے سیاستدان فرما رہے ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں