سرطان پر قابو پانے کی کوششیں
بیسویں صدی پر سرطان کی حکومت رہی ہے۔ بے شمار قیمتی جانوں کو اس عفریت نے نگل لیا۔
ISLAMABAD:
''ابھی تو میں جوان ہوں'' یہ جملہ ہر اس شخص کے منہ سے سنیے جو جوان نہیں ۔ ان ''بچوں'' سے زندگی کی ساٹھ بہاریں دیکھ چکے ہوں ۔ خدا بھلا کرے پلاسٹک سرجنوں کا کہ یہ حضرات جوانی تقسیم کرتے ہیں، لیکن کیا کبھی یہ لوگ بھی بے کار ہوجائیں گے؟ کیا '' ابھی تو میں جوان ہوں'' کے ''ابھی'' کوکہنے کی کیا ضرورت باقی نہ رہے گی؟ کیا خواتین کے عمر چھپانے کی نوبت نہیں آئے گی؟ یا سیدھے الفاظ میں کیا سائنس ہمیشہ رہنے کا راز دریافت کر لے گی؟
پیدائش کے وقت حیوانات کے بچے ذہنی اعتبار سے ''بالغ'' پیدا ہوتے ہیں لیکن انسانی بچہ ذہنی طور پر بھی بچہ ہوتا ہے۔ وہ دنیا میں اگلے بیس سال سیکھنے میں گزارتا ہے۔ اس لمبے بچپن میں اس کی شخصیت بنتی ہے۔ وہ دنیا میں زندہ رہنے کے گر سیکھتا ہے اور اس کا دماغ کسی خاص طرف چل نکلتا ہے۔
بیس سے چالیس سال کا وقفہ جسمانی سے زیادہ ذہنی شباب کا وقت ہوتا ہے۔ ان دنوں میں انسانی ذہن اپنے عروج پر ہوتا ہے اور یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ نوجوان خصوصاً پاکستانی نوجوان اپنی زندگی کے بہترین دن سیاست، کھیل، ہنگاموں اور فلمی ستاروں کی نذرکردیتے ہیں۔ رہی سہی کسر ذہنی طور پر دیوالیہ کردینے والے ادارے جنھیں لوگ تعلیم گاہیں کہتے ہیں اور ان میں موجود حضرات پوری کردیتے ہیں۔ چالیس سال کی عمر کے بعد جسمانی اور ذہنی زوال شروع ہوجاتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کی عمر قریب ہے اور انسان دنیا کو خدا حافظ کہنے کی تیاری شروع کردیتا ہے اور پھر ایک دن یہ چراغ سحری گل ہوجاتا ہے۔ لیکن انسان بوڑھا اور جوان کیوں ہوتا ہے؟ عمرکیا راز ہے؟ اس کا جواب خاموشی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے! بس بچے جوان ہوجاتے ہیں اور جوان عمر رسیدہ اور عمر رسیدہ مر جاتے ہیں لیکن کیوں؟ کیا ہم سدا جوان نہیں رہ سکتے؟ شاید کبھی رہ سکیں لیکن فی الحال پلاسٹک سرجری پر اکتفا کیجیے۔
کیا ہم سرطان پر قابو پاسکتے ہیں؟
بیسویں صدی پر سرطان کی حکومت رہی ہے۔ بے شمار قیمتی جانوں کو اس عفریت نے نگل لیا۔ لیکن انسان نے بھی اس کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ سرطان کی خون آشامی اور انسان کی تحقیق ذاتی موازی خطوط پر سفر کرتی رہیں اور پھر رفتہ رفتہ انسان آگے نکلنے لگا ۔ سرطان کے حوصلے گھٹنے لگے اور آج ہم اکیسویں صدی میں گھٹتے برسوں کے ساتھ سرطان کی حکومت بھی گھٹتی ہوئی دیکھ رہے ہیں۔ چنانچہ ایک امریکی حیاتیات دان کو امید ہے کہ مجھے مکمل بھروسہ ہے کہ 2020ء تک ہم اس بارے میں وسیع معلومات حاصل کرلیں گے کہ سرطانی خلیے کیسے جنم لیتے ہیں؟
اس امریکی حیاتیات دان کا نام روبرٹ وینبرگ ہے اور یہ ان سائنس دانوں میں سے ایک ہے جنھوں نے سب سے پہلے مخصوص قسم کے سرطان کی ذمے داری جین GENE پر ڈالی تھی۔
امید کے ساتھ ساتھ روبرٹ کا ذہن اندیشوں سے بھی پر ہے چنانچہ وہ یہ بھی کہنے پر مجبور ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے، سب سامنے آتے ہی فوری تدارک ممکن ہو جاتا ہے۔ پاسچر کو یاد کیجیے۔ اس نے کئی قسم کے انفیکشن پیدا کرنے والے اسباب دریافت کیے لیکن اس کی دریافتوں کی مدد سے تدارک پیدا کرنے کی کامیابی آج سے کوئی پچاس یا ساٹھ سال پہلے ممکن ہوئی ہے۔
سرطان نے بیسویں صدی کو کس طرح لرزہ براندام رکھا اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ 2,91,0000 افراد کو سرطان کا مریض قرار دیا گیا امریکا کے ''نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ'' کو خدشہ ہے کہ 2020ء تک مریضوں کا 75 فیصد حصہ سرطان زدہ ہوگا۔
سرطان اور موت کا نام ایک دوسرے کی جگہ لیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ صرف جلدی نوعیت کے سرطان کو چھوڑ کر باقی تمام سرطانی اقسام میں زندگی کا چراغ زیادہ عرصہ روشن نہیں رہتا۔ چنانچہ جلدی اقسام میں مبتلا ہونے کے بعد پانچ سال زندہ رہنے کی توقع نوے فیصد ہے جب کہ پھیپھڑوں کے سرطان میں یہ توقع صرف تیرہ فیصد اور لبلبے کے سرطان میں محض دو فیصد رہ جاتی ہے۔
سرطان کے پنجے زندگی کا گلا کیونکر گھونٹتے ہیں؟ اس سوال کا جواب اس لیے مشکل ہے کہ سرطان کی کوئی 20 اقسام ہیں۔ بہرحال 1990ء کی دہائی میں مسلسل تحقیق نے یہ کامیابی ضرور حاصل کی کہ اس کی ذمے دار ایک ''اونکوجین'' ONCO GENE دریافت کر لی۔
اونکو جین جوکہ سرطان پیدا کرتی ہیں، عام قسم کے خلیات میں بے ضرر رہتی ہیں۔ پھر کسی قسم کی بیرونی تحریک (مثلاً کاسک اشعاع) ان کو متحرک کر دیتی ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ متحرک ہونے کا یہ عمل کیونکر واقع ہوتا ہے اس کے بعد یہ خلیات کو ضرر پہنچانے لگتی ہیں۔ خلیات اپنی مدافعت نہیں کر پاتے اور سرطان زدہ ہو جاتے ہیں۔
سرطان زدگی کا عمل کیونکر واقع ہوتا ہے۔ اس کی مکمل تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آسکیں لیکن جین کا اس میں بنیادی کردار یہ خوف پیدا کرتا ہے کہ انسان کے لیے یہ مرض ہمیشہ لاعلاج رہے گا۔ ''تغیرات، ارتقا کا ایک عام حصہ ہیں'' اونکو جینیات کے ماہر ولیم ہیورڈ کہتے ہیں ''اب ہم تغیرات کے خلاف تو کوئی ویکسین نہیں بنا سکتے۔''
ولیم ہیورڈ کا نقطہ نظر نسبتاً مایوسی پیدا کرتا ہے لیکن اس کی وجہ سے ناامید ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے ایک دوسرے سائنسدان مائیکل بشپ کے بقول کامیابی کے روشن امکانات موجود ہیں بشپ کا تعلق سان فرانسسکو کی کیلی فورنیا یونیورسٹی سے ہے اور وہ کہتے ہیں:
پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ عام خلیہ اپنے آپ پر کس طرح قابو رکھتا ہے۔ دوسرے ہمیں یہ واضح کرنا ہو گا کہ خرابی پیدا کرنے والے خلیات میں ہمیشہ ایک محدود تعداد کی جین ہی موجود ہوتی ہیں یا نہیں؟ اگر سرطانی ضررکا باعث جین ہیں تو وہ کون سی ہیں؟ اگر ہمیں یہ پتہ چل جائے کہ سرطان زدگی کا عمل کیسے ہوتا ہے تو ہم اس کے مخالف عمل پیدا کر کے علاج کر سکیں گے۔
روبرٹ وینبرگ جن کا ہم نے مضمون کی ابتدا میں ذکرکیا تھا، یہ خیال ہے کہ سرطان کے علاج کے لیے متاثرہ خلیات کے حیاتی و کیمیائی تعاملات پر غور کرنا چاہیے، ہم اگلے برسوں میں یہ معلوم کر لیں گے کہ وہ انکوجین کی وجہ سے کسی بھی خلیے میں پیدا ہونے والی حیاتی و کیمیائی تبدیلیاں کون سی ہیں؟'' روبرٹ وینبرگ کا کہنا ہے ''یہ معلوم کرنے کے بعد ان تبدیلیوں کو روکنا ممکن ہو جائے گا۔''
ہارورڈ یونیورسٹی سے منسلک ''اسکول آف پبلک ہیلتھ'' کے چیئرمین میکس الیکس کا نقطہ نظر اس ضمن میں یہ ہے کہ ہمیں خلیات سے متعلق حیاتیات کا مزید علم حاصل ہو گا۔ اس میں پچاس سال بھی لگ سکتے ہیں اور سو بھی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ہم اس عفریت سے نجات ضرورت پا لیں گے۔