سابق صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان کا عہد

ملک کے پہلے دیسی کمانڈر ان چیف کی فوجی اور سیاسی زندگی کے نشیب و فراز کی دلچسپ تفصیلات پر مبنی خصوصی رپورٹ


ملک کے پہلے دیسی کمانڈر ان چیف کی فوجی اور سیاسی زندگی کے نشیب و فراز کی دلچسپ تفصیلات پر مبنی خصوصی رپورٹ۔ فوٹو: فائل

KARACHI: 25 مارچ 1969 میں کوئٹہ کے سنڈمن ہائی اسکول میں آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا، ملک میں سیاسی بحران عروج پر تھا۔ صدر جنرل ایوب خان کے خلاف مشرقی اور مغربی پاکستان میں احتجاج اور تحریک شدت اختیار کر گئی تھی کہ اِس روز صدر مملکت ایوب خان نے قوم سے آخری خطاب کیا اور اقتدار چھو ڑ دیا اور ملک میں دوسرا مارشل لاء کمانڈر انچیف جنرل یحیٰ خان نے نا فذ کردیا اور چیف مار شل لا ایڈمنسٹر یٹرکے ساتھ صدربھی بن گئے۔

صدر ایوب کی تقریر کے بعد عوام کی ایک بڑی اکثریت اداس تھی کیو نکہ یہ حقیقت تھی کہ صدر ایو ب خان کے دور حکومت میں ملک نے بے مثال ترقی کی تھی۔ دوسری جانب وہ عوام تھے جو غربت کا شکار تھے اِن کو سابق سوویت یونین کے اشتراکی نعرے بھی بھا تے تھے اور قوم پرستی کے نظریات بھی۔ پھر ایک واضح اکثریت وہ تھی جو مسلمان ہو نے کے ساتھ اس بات کی متقاضی تھی کہ اسلامی نظام ملک میں نافذ العمل ہو۔ ہم آٹھویں جماعت کے ایک بے فکر سے طالب علم کی طرح یہ سب کچھ دیکھتے اور سنتے رہے۔

آج ٹھیک پچاس برس بعد ایک ایک بات یاد آرہی ہے، حقائق آج زیادہ عیاں اور واضح ہیں۔ آج پچاس سال گزرنے کے بعد بھی بعض ٹرکوں، بعض گھروں اور دکانوں میں سابق صدر ایوب خان کی تصاویر گیت کے اس مصرعے کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں ( تیرے جانے کے بعد تیری یاد آئی )۔ یوں یہ واحد فوجی حکمران ہیں جن کی یاد، بہر حال اب بھی آتی ہے اور یہ بھی ہے کہ ایک حلقہ ایوب کو اب بھی فوجی آمر ہی کہتا ہے۔

جدید تاریخ میں ایوب خان کی شخصیت بہت منفرد ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جو 1914 ء سے 1918ء تک جاری رہی اور اس میں مسلمانوں کی آخری خلافت ترکی عثمانیہ تھی جب جنگ ختم ہوگئی تو اُس وقت دنیا میں صرف تین اسلامی ملک ہی آزاد رہ گئے تھے جن میں افغانستان جس کو روس اور برطانوی ہندوستان کے درمیان بفر اسٹیٹ یعنی حائلی ریاست کے طور پر دو بڑی قوتوں کے درمیان چھوڑ دیا گیا تھا، آج کا سعودی عرب جس کو بڑی قوتوں نے اس لیئے کسی حد تک آزاد رکھا تھا کہ اگر حجاز مقدس پر قبضہ کرتے تو اس کا امکان تھا کہ پوری دنیا کے مسلمان اس پر ردعمل ظاہر کرتے اور صرف ترکی ایسا اسلامی ملک تھا جس کی عثمانیہ سلطنت یا خلافت کے دیگر ممالک تو برطانیہ اور دوسرے اس کے اتحادیوں نے اُس سے چھین لیئے تھے مگر مصطفی کمال پا شا نے ترکی کی آزادی کو بچا لیا تھا اور یوں باقی تمام اسلامی ممالک غلام تھے اور نو آبادیا تی نظام کی زنجیروں میں جکڑے ہو ئے تھے۔

14 اگست 1947 ء کو پاکستان بنا تو یہ اُس وقت نہ صرف آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک تھا بلکہ فوجی قوت کے اعتبار سے بھی دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک تھا مگر اس کی آزادی حقیقی معنوں میں اس وقت ہوئی جب پاکستان میں انگریز جنرل میسروری اور جنرل ڈیگلس گریسی کے بعد 1951ء میں ایوب خان ملک کے پہلے مسلمان کمانڈر انچیف بنے۔

واضح رہے کہ 1914ء سے 1945ء تک کا دور دنیا کا انتہائی اہم دور تھا جس کے دوران دنیا کی بڑی بڑی مملکتیں، ان کی حکومتیں، باشاہتیں بنیں بھی اور برباد بھی ہوئیں۔ یوں ایسے تغیراتی دور کا تقاضا بھی تھا کہ تاریخ ساز شخصیات پیدا ہوں، یوں ان دونوں عظیم جنگوں کے درمیان دنیا کی تاریخ کے اہم ترین لیڈر انقلابی اور جنرل پیدا ہوئے اور بہت سے ایسے جنرل اور فوجی افسران تھے جوخصوصاً دوسری جنگ عظیم میں مختلف محاذوں پر لڑے بھی اور پھر دوسری جنگ عظیم کے کچھ عرصے بعد میں اپنے اپنے ملکوں میں کہیں بغاوت یا انقلاب کے ذریعے کہیں جمہوری بنیادوں پر انتخابات کے ذ ریعے اقتدار میں آئے۔

انقلاب یا بغاوت کی زیادہ صورت ترقی پذیر اور اُن ملکوں میں رہی جو برطانوی نوآبادیات کی بجائے فرانس، پرتگال، اسپین، ہالینڈ یا اٹلی کی نو آبادت تھے جہاں اُن ملکوں کے عوام نے نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی۔ برطانیہ نے اپنی نو آبادیات میں حقائق کو تسلیم کرتے ہو ئے بہت ہوشیاری سے اپنے اقتدار کو طول دیا اور ساتھ ہی اِن نوآبادیات میں عوام کو خصوصاً پہلی جنگ عظیم کے بعد حکومتی اختیارات کے ساتھ مرحلہ وار اور محدود انداز میں حکومتی اور جمہوری عمل میں شامل کرنا شروع کردیا۔



جنگ عظیم اوّل کے بعد فوجی افسراں بھی مقامی طور پر برطانوی رائل فوج میں شامل کئے جانے لگے۔ اسی دور میں 14 مئی 1907ء میں ریحانہ نامی گائوں ضلع ہزارہ میں پیدا ہونے والے ایوب خان جنگ عظیم اوّل کے آٹھ سال بعد اور جنگ عظیم دوئم کے آغاز سے 13 سال پہلے 1926ء میں برٹش رائل آرمی میںکیڈٹ منتخب ہوئے اور دوسال کی تربیت کے بعد 2 فروری 1928ء کو سیکنڈ لیفٹیننٹ ہوئے۔ 2 مئی 1930ء کو لیفٹیننٹ اور پھر 2 فروری 1937ء کو کیپٹن ہوگئے اور اس دوران یعنی 1933ء سے1939ء تک وہ وزیرستان میں تعینات رہے۔ اس کے بعد دوسری عالمی جنگ 1939ء میں شروع ہوگئی تو وہ اس جنگ میں شامل ہوگئے۔ 1942ء میں برما کے محاذ پر بطور کرنل جنگ میں مصروف رہے۔ 1945ء میں بطور کرنل کمانڈ برما میں اہم ذمہ داریا ں نبھائیں اور 1946ء میں اِن کی پوسٹنگ خیبرپختو نخوا میںکر دی گئی ۔

قیام پاکستان کے وقت وہ ون اسٹار بریگیڈئر ہو چکے تھے۔ یوں وہ 1926ء سے 1946ء بیس سال تک برٹش رائل آرمی کے افسر رہے اور پاکستان کی آزادی کے وقت وہ بریگیڈئر ہو گئے تھے۔ 1947ء کے بعد 1951ء تک وہ جی ایچ کیو سنٹرل کمانڈ سنٹرل کمانڈر، جی او سی ایسٹرن کمانڈ ڈھاکہ، جی او سی انفینٹری اور کمانڈر ایسٹ بنگال رہے۔ فوج میں اُن کا بنیادی تعلق 19/5th Punjab Regiment سے تھا اور 1951ء کو وہ پاکستان کے پہلے مقامی کمانڈر انچیف ہو گئے، 16 اکتوبر1951ء میں ملک کے پہلے وزیر اعظم لیا قت علی خان کو شہید کردیا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو ملک غلام محمد جو اس وقت وزیر خزانہ تھے نے وزیر اعظم بنا دیا اور خود قائد اعظم اور خواجہ ناظم الدین کے بعد پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل بن گئے۔

چونکہ 1945-46 کے مشترکہ ہندوستان کے آخری انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہو نے والی اسمبلی 1935ء کے قانون ہند کی جگہ اپنا آئین نہیں بنا سکی تھی اس لیے ملک غلام محمد کو سیاسی کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا اور اس کے بعد اسمبلیاں اور حکومتوں کو توڑنے اور برخاست کرنے کا سلسلہ شرع ہو گیا جس سے ملک میں جمہوریت اور جمہوری عمل کمزور سے کمزور ہوتا چلا گیا۔ اِس کی ایک بڑی وجہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ملک کو درپیش بڑے مسائل بھی تھے۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے سابق سوویت یونین سے 1927ء سے تعلقات تھے، دوسری اہم وجہ روس سے پاکستان کی دوری کی یہ تھی کہ پاکستان اسلا می اعتبار سے دوقومی نظریے کے تحت بنا تھا اور روس کے لیے ایسا نظریاتی ملک ، نظریاتی لحاظ سے ایک چیلنج تھا۔ 1949ء میں چین سے بھی بھارت کے تعلقا ت بہت گہرے اور مضبوط ہو گئے۔ یوں خارجی محاذ پر ملک کو اس صورتحال میں روس، بھارت اور چین تینوں سے مقابلے کے لیے ایک مضبوط اور بڑی قوت کی ضرورت تھی اور یہ مجبوری لیا قت علی خان کے فوراً بعد پاکستان کو امریکہ کے قریب لے گئی۔

دنیا کی بد قسمتی یہ بھی رہی کہ دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد ہی سرد جنگ چھڑ گئی اور دنیا کے ترقی پذیر اور پسماند ہ ممالک اس سرد جنگ کا شکار ہوگئے۔ مغربی پاکستان کی اسٹرٹیجک پوزیشن بہت اہم ہے مگر اس وقت مشرقی پاکستان کے اعتبار سے بھی پاکستا ن دنیا کا ایک منفرد ملک تھا کہ اس کے دو حصوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ آزادی کے فوراً بعد ہی کشمیر کی جنگ ہوئی، مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان کے مقابلے میں کچھ زیادہ تھی جب کہ مغربی پاکستان رقبے میں تقریباً سات گنا بڑا تھا، اُس وقت مغربی پاکستان کی آبادی میںہندو ں کا تناسب ایک فیصد تھا اور مشرقی پاکستان میں ہندو آبادی کاتناسب تقریباً 22% تھا جو وہاں کی بنگالی مسلم آبادی کے مقابلے میں زیادہ تعلیم یا فتہ اور اہم سرکاری عہدوں پر فائز تھے اور اس صورتحا ل کو بھارت کی نہرو حکومت نے بہت گہری سازش کے ذریعے پروان چڑھایا۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک میں خصوصاً مشرقی پاکستان کے اعتبار سے سیاسی بحران بڑھنے لگا ۔خواجہ ناظم الدین کے بعد محمد علی بوگرہ 17 اپریل1953 سے 12 اگست 1955 تک وزیر اعظم رہے تو ان کے زمانے میں 1954 ء میں مشرقی پاکستان میں صوبائی انتخابات کروائے گئے جس میں مسلم لیگ کو بری ظرح شکست ہوئی۔ مسلم لیگ 307 نشستو ں میں سے صرف 10 نشستیں حاصل کر سکی۔

عوامی لیگ نے اپنی 143 نشستوں کے ساتھ دیگر جماعتوں کے اشتراک سے اے کے فضل الحق کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا مگر چھ ہفتوں میں جتو فرنٹ کی اس حکومت کو برطرف کرکے صوبائی اسمبلی کو تحلیل کردیا گیا اور فضل الحق کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور یوں یہ بحران شدت اختیار کرتا رہا مگر اس کو غیر جمہوری انداز سے خصوصاً 1951ء کے بعد سے دبایا جاتا رہا۔ اس وقت ہی امریکہ نے دفاعی نوعیت کے لحاظ سے فائدہ اٹھانا چاہا اور اس کے لیے پاکستان میں امریکہ کی حمایت اس وقت کی اہم سیاسی جماعتیں اورشخصیات بھی کرنے لگیں جن میں پیش پیش ملک غلام محمد اور دوسرے اہم بیوروکریٹ اسکندر مرزا تھے جو ملک غلام محمد کے بعد گورنرجنرل اور پھر 1956ء کے آئین کے نافذ العمل ہونے کے بعد پاکستان کے پہلے صدر مملکت بنے۔

اس دوران 1953ء سے 1958ء تک فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان پاکستان کی فوج کے کمانڈر انچیف کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر ِداخلہ اور وزیر دفاع بھی رہے، لیا قت علی خان کی شہادت کے بعد خوا جہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، ابراہیم اسماعیل چندریگر اور آخر میں فیروز خان نون پاکستا ن کے وزرا، اعظم رہے۔ حسین شہید سہروردی کے دور میں امریکہ نے پاکستان میں پشاور کے نزدیک بڈ بیر کے مقام پر سابق سوویت یونین کی فضائی جاسوسی کے لیے ہوائی اڈہ حاصل کر لیا جب کہ چوہد ری محمد علی نے 1956 ء کا پارلیمانی آئین بنایا اور آخری وزیر اعظم فیروز خان نون کے اپنے اقتدار کے آخری مہینوں میں گوادر کے علاقے کو مسقط سے خرید کر پاکستان میں شامل کر لیا۔

کہا جاتا ہے کہ اس کے لیے برطانیہ میں فیروز خان نون کے ذاتی تعلقات کے علاوہ کسی امریکی سروے رپورٹ کی بھی بڑ ی اہمیت رہی تھی پھر جب 1956 میں آئین کے نافذ العمل ہونے کے بعد 1935 کے قانون ہند میں گورنر جنرل کو اسمبلی تحلیل کرنے اور حکومت برخاست کرنے کے اختیارات ختم کر دئیے گئے اوراسکندر مرزا نئے آئین کے تحت گورنر جنرل کی بجائے صدر مملکت ہو گے تو انہوں نے اسمبلی کے بعض اراکین کے ساتھ مل کر یہ سازش کی کہ وہ آئین کے تحت عام انتخابات نہ ہونے دیں اور جب سیاسی بحران انتہاکو پہنچ گیا تو اُنہوں نے کمانڈر انچیف فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کو ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کا حکم دیا۔

ایوب خان نے7 اکتو بر 1958 کو مارشل لا ء نافذ کر کے بطور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر 1956 ء کے آئین کو منسوخ کر دیا اور پھر صدر اسکندر مرزا کو بھی برطرف کر کے 27 اکتوبر سے صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا، یہ ملک کا پہلا مارشل لاء تھا جو آزادی کے گیارہ سال بعد حکومتوں کی مسلسل ناکامیوں، سیاست کے ایوانوں میں ہونے والی جوڑ توڑ اور مقررہ مدت کے دوران عام انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے بھی لگایا گیا اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ عوام کی اکثریت نے اس کو قبول کیا اور بدقسمتی سے مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں میں اُس وقت اس مارشل لا کے خلاف کوئی آواز کوئی تحریک نہیں چلی۔ ایوب خان نے مارشل لا کے خوف کو پوری طرح اور بہت کم مدت میں فوج کے ذریعے استعمال کیا اور چند مہینوں میں فوج کو واپس چھائونیوں میں بلوایا اور باقی انتظام سول ایڈمنسٹریشن سے بہت خوبی سے لیا اور بیوروکریسی اس لیے بھی ان سے خوف زدہ رہی کہ انہوں نے 303 اعلیٰ سول سروس افسران کو فارغ کر دیا تھا پھر ایوب خان کی یہ خوش قسمتی تھی کہ انہیں جنرل محمد موسیٰ جیسا کمانڈر انچیف ملا تھا جس نے ایوب خان کا پوری طرح ساتھ دیا۔

ایوب خان کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ عمومًا قابلیت اور اہلیت کی بنیادوں پر اپنے وزرا اور اعلیٰ افسران کو تعینات کرتے تھے اور اس عمل میں اندیشوں کو بھی نظرانداز کردیتے تھے اس کی بڑی مثال ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں شمولیت تھی حالانکہ ایوب خان کو یہ معلوم تھا کہ سابق صدر اسکندر مرزا کی اہلیہ ناہید اضفانی اور بھٹو کی اہلیہ نصرت بھٹو آپس میں کزن تھیں اور اسکندر مرزا ہی نے بھٹو کو صرف 24 یا 25 سال کی عمر میں پاکستانی وفد میں شامل کرکے اقوام متحدہ میں بھیجا تھا اور پھر کابینہ میں بھی بطور وفاقی وزیر شامل کیا تھا۔

ایوب خان اس دوران بھٹو کی کارکردگی اور ذہانت سے واقف ہوگئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی کابینہ میں شامل کیا، اس طرح اُن کی کابینہ میں جتنے بھی لوگ شامل تھے تقریبًا سبھی میرٹ کی بنیاد پر شامل کئے گئے تھے۔ جمہوریت پسندوں کے بالکل برعکس وہ پاکستان میں مکمل یا عوامی اعتبار سے براہ راست جمہوریت کے قائل نہیں تھے اور اسی لیے انہوں نے اقتدارمیں آتے ہی صدراتی نظام حکومت کے تحت بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کروایا۔ یوں اُنہوں نے بنیادی جمہوریت کے تحت جو پہلے انتخابات کروائے وہ بلدیاتی طرز پر تھے اور اس کے لیے مشرقی اور مغربی پاکستان چالیس، چالیس ہزار چھوٹے حلقوں سے بی ڈی ممبران نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی، بنیادی جمہوریت کے اِن منتحب اراکین کو الیکٹرول کالج کا درجہ دیا گیا پھر ان چالیس، چالیس ہزار بی ڈی ممبران نے صوبہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو منتخب کیا۔

اس کے بعد دونوں صوبوں یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان کے کل 80000 بی ڈی ممبران جو اپنے چھوٹے حلقوں کے کو نسلر بھی تھے انہوں نے پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین کو منتخب کیا اور انہی اسی ہزار اراکین نے براہ راست محمد ایوب خان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر مملکت منتخب کیا، اس طرح صدر ایوب خان سب سے زیادہ بااختیار صدر ہو گئے اور جب انہوں نے 1962ء کا آئین نافذ کیا تو یہ بنیادی جمہوریت کا صدارتی نظام قومی اور عالمی سطح پر تسلیم بھی کیا گیا لیکن جہاں تک ملک میں پارلیمانی جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کا تعلق ہے تو اُنہوں اس کی بھر پور مخالفت کی اسی دور میں انقلابی شاعر حبیب جالب کی یہ نظم مشہور ہو ئی تھی (ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا ) ۔

اگرچہ پاکستان امریکہ کے تعلقات پاکستان کے لیے نا گزیر تھے اور لیاقت علی خان نے3 مئی تا 26 مئی 1950ء کو ایک بڑے وفد کے ساتھ امریکہ کا سر کاری دورہ کیا تھا لیکن 1953 تک پاکستان نے ان تعلقات کو کافی حد تک متوازن رکھا تھا، مگر خواجہ ناظم الدین کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقا ت بہت گہرے اور مضبو ط تو کہلانے لگے مگر یہ تعلقات متوازن نہیں تھے۔ 1954ء اور 1955ء میں پاکستان SEATO اور CENTO جیسے معاہدوں پر دستخط کر کے اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت ختم کر چکا تھا اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ صدر ایوب خان جیسے بااختیار اور طاقتور صدر کے اقتدار کے زمانے میں جب سوویت یونین کے وارسا پیکٹ گروپ اور امریکہ اور نیٹو اتحاد کے تحت دنیا میں سرد جنگ شدت اختیار کر گئی تھی پاکستان ایک عجیب کشمکش کا شکار ہوا اور شائد اس کی ابتدا اُس وقت ہوئی تھی جب قائد اعظم وفات سے پہلے بیمار ہوکر بلوچستان کے علاقے زیارت میں زیر علاج تھے اور یہاں انہوں نے تقریباًدو ماہ دس دن گزارے اورکہا جاتا ہے کہ اس دوران وہ لیا قت علی سے قدرے ناراض تھے کہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کو کسی قسم کی لچک اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، اور صدر ایوب خان جب 1958ء میں اقتدار میں آئے تو مسئلہ کشمیر گیارہ برس پرانا ہو چکا تھا۔

دوسری جانب مشرقی پاکستان کی 21% ہندو آبادی کے ساتھ وہاں سیاسی بحران کی شدت یوں بڑھ گئی تھی کہ ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا نے مسلم لیگ کے بہت سے پرانے رہنمائوں کو اقتدار کے لالچ کی بنیادوں پر سیاسی گروپ بندی میں الجھا کر فائدے اٹھائے اور یوں سیاستدان جمہوری راستے سے بھٹک گئے تھے اس لیے ایوب خان کو دو بنیادی چیلنجوں کا سامناتھا ایک جانب مشرقی پاکستان کی آبادی کو مطمئن کرنا تھا کہ اُن کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوگی تو دوسری جانب بھارت سے کشمیر کے مسئلے کو حل کروانا تھا۔ مسئلہ کو خود بھارت اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں لے گیا تھا اور اس کی قرار دادوں کے مطابق کشمیر کے عوام کی مرضی سے ریفرنڈم کی بنیاد پر کشمیریوں نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے کس کے ساتھ رہنا پسند کر یں گے۔



صدر ایوب خان کی حکومت کو دو، ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور 1958 ء سے 1964ء تک ہے جس میں مغربی پاکستان میں ایوب خان بہت مقبول رہے اور مشرقی پاکستان میں بھی اِن کو قبول کیا گیا، اس دوران ملکی، قومی سطح پر سیاست دان تقربیًا خاموش رہے اور بہت حد تک بے بس نظر آئے۔ سیاسی سرگرمیاں ماند پڑگئیں تھیں اس کی ایک بنیادی وجہ حکومت کی سختی اور خوف بھی تھا۔ ملک بھر میں بیوروکریسی اور پولیس حکومت سے بھر پور تعاون کرتی رہی، اظہار خیال پر اس حد تک پابندی تھی کہ عام ریستورانوں میں یہ نو ٹ آویزاں کئے جاتے تھے کہ سیاسی گفتگو کرنا منع ہے، ایوب خان نے اقتدار میں آتے ہی بھارت سے پانی کی تقسیم کا تنازعہ سندھ طاس معاہد ے کے تحت 1960-61 میں طے کر لیا اس معاہدے میں بھارت اور پاکستان فر یق اور ورلڈ بنک ضامن ہے۔

سندھ طاس معاہدے کے مطابق تین مشرقی دریا، راوی، ستلج اور بیاس بھارت کے حوالے کردئیے گئے اور تین مغربی دریائوں، سندھ، جہلم اور چناب کے پانیو ں پر پاکستان کے حق کو تسلیم کرلیا گیا، تین مشرقی دریائوں کے پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے منگلا اور تربیلا ڈیمز کی تعمیر کا فیصلہ ہو ا۔ اگر چہ کچھ لوگ سندھ طاس معاہدے پر اب بھی تنقید کرتے ہیں مگر پا کستان سمیت دنیا بھرکے ماہرین سندھ طاس معاہدے کو پانی کی تقسیم کا ایک بہترین معاہدہ قرار دیتے ہیں۔ ایوب خان کے دور اقتدار میں برصغیر کا بیشتر علاقہ سیلابوں ، سیم تھور، ٹڈی دل جیسی قدرتی آفات کا شکار رہا اس دوران امریکہ نے پی ایل480 کے تحت پاکستا ن کو غذائی اجناس خصوصًا گندم فراہم کی۔ حکومت کا امریکی مالی امداد پر بھی زیادہ انحصار رہا اور 1958ء سے 1969ء تک پاکستان نے اقتصادی امداد لی، یو ایس ایڈ اور امریکی فوجی امداد کے حوالے سے کل 31208.86 ملین ڈالر کی امداد حاصل کی۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 1958 تک اقتصادی امداد کا حجم 968.22 ملین ڈالر یوایس ایڈ 589.59 ملین ڈالر اور فوجی امداد کی مد میں 533.13 ملین ڈالر تھا مگر 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد امریکہ کی جانب سے امداد میں کمی آنے لگی اور جب 1969ء میں ایوب خان اقتدار سے رخصت ہو رہے تھے تو اس سال امریکہ کی جانب سے اقتصادی امداد کا کل حجم 541.76 ملین ڈالر یو ایس ایڈ 504.31 ملین ڈالر اور فوجی امداد صرف 0.5 ملین ڈالر تھی۔ جہاں تک تعلق پاکستان کی معیشت کا ہے تو صنعت و تجارت کے شعبوں سمیت پاکستان کے تمام شعبوں میں ایوب خان کے زمانے میں بے مثال ترقی ہوئی اور ایشیا میں پاکستان ترقی کے لحاظ سے جاپان کے بعد دوسرے نمبر پر تھا۔ اِن کے دور حکومت میں 1958ء سے 1969ء تک امریکی ڈالر تین روپے سے پانچ روپے کے درمیان رہا اور سونے کی قیمت 160 روپے سے 200روپے فی تولہ رہی اور ڈالر اور سونے کی قیمت میں جو اضافہ ہوا وہ بھی 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد ہوا۔ ملک میں ہزاروں چھوٹے بڑے کارخانے اور فیکٹریاں لگیں۔

اُس زمانے میں کسی ملک کی مستحکم ترقی کی بنیاد صنعتی ترقی ہی کو سمجھا جاتا۔ جہاں تک تعلق زراعت کا تھا تو اُس وقت تک ٹڈی دل،سیلاب اور خشک سالی ،فصلوں کی دیگر بیماریوں پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں نے قابو نہیں پایا تھااور آج کے مقابلے فی ایکڑ پیداوار نصف سے بھی کم تھی ،بد قسمتی سے ایوب خان کے دور میں صنعتی ترقی کے مقابلے میں زرعی ترقی پر اتنی توجہ نہیںدی گئی جتنی ضرورت تھی جب کہ صنعتی ترقی کے لیے صنعتکاروںاور سرمایہ کاروں کو بے پناہ مراعات اور فائدے دیئے گئے ڈیوٹی ٹیکسوں میں ضرورت سے زیادہ چھوٹ دی گئی مزدورں کی تنخواہیں کم رہیں سوشل سیکورٹی کے قوانین مزدورں کے حق میں نہیں تھے اور سرمایہ دار وں ،کارخانہ داروں کے نفع کی شرح بہت زیادہ رہی، کراچی اور چند بڑے شہروں کی آبادیوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگااُس وقت پاکستان میںدیہی آبادی کا تناسب76% تھا،مگر سالانہ قومی بجٹ کا 80% شہری نوعیت کے منصوبوں پر خرچ ہوتا تھا۔

اِن تمام باتوں کے باوجود صدر ایوب خان اپنے اقتدار کے پہلے دور میں یعنی 1958 سے 1964 تک مقبول اور کامیاب صدر تھے اس کی بنیادی وجوہات یہ تھیں کہ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد قومی رہنمائوں اور سیاست دانوں نے عوام کو مایوس کیا تھا 1958 میں مارشل لا کے آغاز پر ملک بھر میں منافع خوروں ذخیرہ اندوزوں ، اسمگلروں ،غنڈوں ،بدمعاشوں ،ڈاکوئوںکے خلاف سخت ایکشن لیا گیا تھا مارشل لا قوانین کے تحت کوڑے بھی لگائے گئے ،پھانسیاں بھی ہو ئیں،اگر چہ اس دور میں اظہار خیال پر بھی پابندیاں رہیں اورفیض احمد فیض ، حبیب جالب، میاں افتخارالدین،احمد ندیم قاسمی ، ضمیر علی اور دیگر شاعروں، ادیبوں،دانشوروں ،صحافیوں نے بھی بہت جبر سہا لیکن ملک میں مجموعی طور پر امن و امان اور عام سطح پر انصاف اور قانون کی حکمرانی رہی البتہ یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے کہ کیا اُس وقت کا قانون جمہوریت اور اظہار رائے کے تقاضے پورے رکرتا تھا؟لیکن یہ ضرور تھا کہ حکومت کی رٹ بہت سختی سے برقرار تھی، پولیس کا ایک سپاہی چارپائی کی رسی سے بیس ،بیس آدمیوں کو باندھ کر لے جا تا تھا عام طور پر سفارش،اقربا پروری، رشوت ستانی ختم کر د ی گئی تھی ،پہلے دور میں آٹا سولہ روپے کا من گوشت چھوٹا دو روپے سے تین روپے سیر،بڑا گوشت ایک روپے سے ڈیڑھ روپے سیر، خالص گھی چار روپے سیر، دودھ ایک روپے سیر تھا۔

اس دورحکومت کو عوامی اعتبار سے پاکستان کا سنہری دور بھی کہا جاتا ہے مگر خارجہ پالیسی اور انٹر نیشنل ریلیشن کے لحاظ سے پاکستان کی بڑی مجبوری رہی کہ پاکستان مکمل طور پر برطانیہ اور امریکہ کے زیر اثر رہا ،اُس وقت بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہرلا ل نہرو تھے جنہوں نے سوویت یونین کے ،اشتراکی ممالک کے وراسا پیکٹ گروپ اور امریکی اتحاد نیٹو گروپ سے ہٹ اُس وقت کے دیگر عالمی رہنمائوں سے مل کر غیر جانبدار ممالک کی تنظیم کے تحت نہ صرف پروپیگنڈا کی بنیاد پر بھارت نے خود کو خارجی محاذ پر غیرجانبدار ظاہر کیا تھا توساتھ ہی بھارت کے لیے ایک کامیاب متوازن خارجہ پالیسی اپنائی تھی اورغیر جانبدار ممالک کی اس تنظیم میں شامل ملکوں کو تیسری دنیا کا نام بھی دیا تھا ،اور اِن اہم پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں پر بھارت نے اس اعتبار سے خود کو لیڈر منوالیا تھا ۔ یہ نہر و سیاست کا ایک رخ اور دوسرا رخ یہ تھا کہ وہ امریکہ سے اور سابق سویت یونین سے بھی مفادات حاصل کر ہا تھا اور چین سے بھی اُ س کے تعلقات 1962ء تک بہت دوستانہ اورمضبوط تھے۔

صدر ایوب خان کے دور اقتدار میں فرانس میں چارلس ڈیگال صدر تھے چین میں مازے تنگ لیڈر اور وزیراعظم چواین لائی تھے سابق سویت یونین میں خروشیف،اور برزنیف برسراقتدار رہے ،برطانیہ میںہارلڈمیکلین،الیک ڈیگلس ہوم،اور ہارلڈ ویلسن وزرااعظم رہے جب کہ امریکہ میں1958ء تا 1969ء آئزن آور،جان ایف کینڈی اور لنڈن بی جانسن صدر رہے ،ایوب خان نے 1960 میں برطانیہ کا سرکاری دورہ کیا تو اُن کا فقید المثال استقبال کیا گیا ،1961ء میں ایوب خان نے امریکہ کا دورہ کیا اور یہاں بھی صدر جان ایف کینڈی نے اُن کا شاندار استقبال کیا ،امریکہ صدرجانسن نے 1967ء میں پاکستان کا دورہ کیا جب کہ نہرو نے1949 ، 1956 ،1960 اور1961 کو امریکہ کے سرکاری دورے کئے اور اِن کا بھی بہت گرم جو شی سے ستقبال کیا گیا 1956ء کے دورے میں نہرو نے بھارت کے لیے سالانہ اوسطا ً 822 ملین ڈالر کی امداد حاصل کرلی اور صدر آئزن ہاور سے تعلقات بڑھے اور1959ء میں آئزن ہاورنے انڈیا کا دورہ کیا۔

پاکستان کو 1960ء اور1962ء میں خارجہ پالیسی کے اعتبار سے مشکلات سامنا کرنا پڑا،یکم مئی 1960ء کو جب سویت یونین سے پاکستان کے تعلقات قدرے بہتر ہورہے تھے تو پاکستان کے علاقے سے اڑنے والے امریکی جاسوس طیارے U-2 کو سویت یو نین نے روسی علاقے کوسولینومیں مارگرایا اور اس کے پائلیٹFrancis Gary فر انسس گرے کو زندہ گرفتار کرلیا اور روس نے احتجاج کرتے ہوئے ایک جانب پیرس میں سویت یونین،فرانس،برطانیہ،اور امریکہ کے درمیان ہونے والی کانفرنس کا بائکاٹ کردیا تو دوسری جانب پاکستان کو دھمکی دی کہ روس نے پشاورکے گرد سرخ دائرہ لگا دیا ہے 1962 میں چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعہ پر جنگ چھڑی اسی دور میں کیوبا پر روسی میزائل نصب کرنے پر امریکہ اور روس کے درمیان نہایت خطرناک تنائو پید ا ہوا قدرت اللہ شہاب کے مطابق رات کو 2 بجے چینی سفارت خانے کی جانب سے یہ اطلاع ملی کہ صدر ایوب خان کو بتائو کہ چین اور بھارت جنگ ہو چکی ہے۔

غالباً یہ اشارہ تھا کہ پاکستان کشمیر کے لیے بھارت سے جنگ کردے ،لیکن ایوب خان نے ناگواری سے کہا کہ انہیں اس کی اطلاع ہے اس سوال پر اب تک بحث کی جاتی ہے مگر لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ خارجہ پالیسی ایک دن میں تشکیل نہیں پاتی ،یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ چین جو اپنی آزادی کے بعدسے 13 سال تک تو بھارت کا دوست رہا اب اچانک جنگ پر یہ چاہے کہ پاکستان بھی بھارت پر حملہ کردے ،دوستی کا اعتبار قائم ہونے میں آخر کچھ وقت لگتا ہے پھر بطور صدر وہ یہ جانتے تھے کہ امریکہ نے انہیں واضح کردیا تھا بھارت بہرحال ایک غیر اشتراکی ملک ہے اور اس کی جنگ چین جیسے اشتر اکی ملک سے ہے اس لیے پاکستان اِس وقت اُس پر حملہ کرنے کی غلطی نہ کرے اور بعض اطلاعات کے مطابق امریکہ نے صدر ایوب کو یقین دلایا تھا کہ بعد میں وہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کی کوشش کرئے گا۔

27 اکتوبر1958 کو صدر ایوب نے ذولفقار علی بھٹوکواپنی کابینہ میںتجارت اور اطلاعات کا وفاقی وزیر بنایاتھا اس کے بعد ،1962 میں کابینہ میں ردو بدل کی تو منظور قادر کی جگہ سابق وزیر اعظم محمد علی بوگرا، کو وزیر خارجہ بنا دیا اِن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا وہ 23 جنوری 1963 میں انتقال کر گئے تو پھر کچھ عرصے بعد ذولفقار علی بھٹو کو وزیر خارجہ بنادیا گیا جو خارجہ امورمیں ایوب خان کو پہلے ہی مفید مشورے دیتے تھے۔

واضح رہے کہ ایوب خان کو آج تک فرینڈ آف امریکہ کے خطاب سے بھی یاد کیا جا تا ہے جب کہ ایوب خان کی کتاب کا نام فرینڈز۔ ناٹ ماسٹر ہے جس کا ترجمہ تو اقبال کے اس مصرع سے کیا گیا کہ ''اُس رزق سے موت اچھی،، لیکن اِس کا لفظی ترجمہ کچھ یو ں بنتا ہے ''دوست۔ مالک نہیں''یوں جب ذولفقار علی بھٹو وزیر خارجہ بنے تو انہوں نے ایوب خان کے دل میں دبی ہوئی آرزو کو ابھارا ،اب چین واقعی بھارت سے دور ہو گیا تھا نہرو نے اُس وقت ہی بھارت کے وسیع رقبے اور اس کی آبادی کے پیش نظر یہ محسوس کر لیا تھا کہ مستقبل قریب میں علاقائی اور عالمی سطح پر معاشی اقتصادی، سیاسی میدان میں اُس کا مقابلہ ہمسایہ ملک چین سے ہو گا اور چین سے کیونکہ روس کے اختلافات بھی بہت بڑھ گئے تھے تو نہروکی بھارتی خارجہ پالیسی کا تقاضہ یہی تھا کہ چین سے دشمنی کی وجہ سے اُسے روس اور امریکہ دونوں سے امداد اور فائدے حاصل ہونگے ،اور پاکستان کے لیے بہتر صورت یہ پیدا ہو رہی تھی کہ اُسے علاقے میں بھارت کے مقابلے میں اُس سے ذرا بڑی قوت کی حمایت حاصل ہو گئی تھی مگر اُس وقت چین ترقی پزیر ملکوں کی صف میں بھی بہت آگے نہیں تھا اورچین 1964 میں ایٹمی قوت بناتھا یوں صدر ایوب خان اور اِن کے جوانسال باصلاحیت اور ذہین وزیر ِ خارجہ بھٹونے چین سے تعلقات کو مضبوط کیا اور کسی حد تک خارجہ پالیسی کو متوازن کرنے کی کوشش کی اس دوران چین سے اقتصادی معاشی ترقی اور اس میں تعاون کے معاہدے ہونے لگے ۔

مگر اہم اوربڑے ترقیاتی منصوبے امریکہ ،برطانیہ اور فرانس وغیرہ ہی سے کئے جاتے رہے ایوب خان کے دورحکومت کے پہلے نصف حصے میں 1961ء میں پاکستان میں ریلوے کا صد سالہ جشن منایا گیا اور لاہور تا خانیوال الیکٹریک ٹرین شروع کی گئی ،سکھر میں ریلوے کا نیا پل بنایا گیا اسلام آباد جیسا خوبصورت شہر اور دارالحکومت تعمیر کیا گیا اس دور میں پاکستان ایشیا میںجاپان کے بعد ترقی میں دوسرے نمبر پر تھا صدر ایوب خان نے ملک کی متوازن اور مستحکم ترقی کے لیے جنوبی ایشیا میں سب سے پہلے خاندانی منصوبہ بندی کے تحت تیزی سے بڑھتی ہو ئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر سالانہ بجٹ میں معقول رقم رکھی ایوب حکومت نے اپنا پہلا سالانہ قومی بجٹ مالی سال 1959-60 پیش کیا جس کا مجموعی ہجم ایک ارب 56 کروڑ 8 لاکھ تھا یہ خسارے کی بجائے بچت کا بجٹ تھا جس میں 2 کروڑ 63 لاکھ کی بچت تھی اور آخر ی بجٹ مالی سال 1968-69 کا تھا جس کا مجموعی حجم 6 ارب88 کروڑ93 لاکھ تھا اور خسارے کی بجائے بچت 2 ارب 52 کروڑ73 لاکھ روپے تھی۔ صدر ایوب خان نے اپنے دور اقتدار میں دس قومی بجٹ پیش کئے یہ تمام بجٹ خسارے کی بجا ئے بچت کے بجٹ تھے۔

صد ر جنرل ایوب خان کی حکومت کا دوسرا دور اُن کے لیے بہتر ثابت نہیں ہوا۔ بھارتی وزیر اعظم کی موت کے ایک سال بعد،1965 میں مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں نے جدو جہدآزادی تیز کر دی ،اور پاکستان کی سیاسی اور اخلاقی حمایت اُن کے ساتھ تھی ایوب خان کو بھٹو نے یہ یقین دلایا تھا کہ نوے فیصد امید ہے کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا اور اس طرح اگر یہ جدو جہد آزادی اسی رفتار سے جاری رہی تو بھارت کو مجبوراً مقبوضہ کشمیر چھوڑنا پڑے گا مگر 6 ستمبر 1965ء کو بھارت نے مغربی پاکستان میں کشمیر میں جنگ بندی لائن کے علاوہ سندھ اور پنجاب سے ملنے والی بین الاقوامی سرحدوںسے پوری قوت سے اور اچانک حملہ کردیا،بھارت نے مشرقی پاکستان کا محاذ نہیں کھولا تھا اُس زمانے میں پاکستان اور بھارت دونوں شدید غذ ائی قلت کا شکار ہورہے تھے اور گندم کی فی ایکڑ ز تین گنا پیداوار کا بیچ ،میکسی پاک، امریکی ماہرین نے بنا لیا تھا جس کے جہاز اس پاک بھارت سترہ روزہ جنگ کی وجہ سے روک دیئے گئے اور یہ جنگ صرف 17 دن بعد اس لیے بند کرنی پڑی کہ امریکہ نے پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کو اسلحے کی سپلائی روک دی تھی ۔

واضح رہے کہ بھارت اپنی فوج کے لیے بڑی مقدار اور تعدا د میں اسلحہ سویت یونین سے بھی خریدتا تھا اس لیے اُس کی مشکلات پاکستان کے مقابلے میں کم تھیں،پاکستان کو ا س جنگ میں بھارت پر برتری حاصل تھی ،خصوصًا کشمیر میں پاکستان جنگ بندی لائن سے آگے بڑھ گیا تھا ،اور جب تاشقند میں معاہدہ طے پارہاتھا تو بقول ذولفقار علی بھٹونے صدر ایوب خان کو یہ مشورہ دیا تھا کہ بین الاقوامی دبائو کے تحت یہ ضروری ہے کہ دونوں ملک اپنی اپنی فوجیں زمانہ امن کی پو زیشن پر سرحد وں پرلے آئیں لیکن کشمیر اقوام متحد ہ کی سیکورٹی کو نسل کے تحت ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ہی حل ہو ناہے اور یہاں عالمی سطح کی تسلیم شدہ سرحد نہیں اس لیے مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی فوجیں جہاں تک آگے بڑھ چکی ہیں وہاں نئی جنگی بندی لائن قرار دی جائے اور بقول ذوالفقار علی بھٹو یہاں جب اُن کے اس اعتراض کے باوجودپاکستان اور بھارت کے درمیان معاہدہ تاشقند پر دستخط ہوگئے تو ذولفقار علی بھٹو نے اس کے تھوڑے عرصے بعد وازارت خارجہ سے استعفیٰ دے دیا اور پھر پاکستان پیپلز پارٹی بنا کر صدر ایوب خان کے خلاف تحریک شروع کردی یہ تحریک اس لیے بھی زیادہ قوت اختیار کر گئی جنوری1965 میں ایوب خان نے بنیادی جمہور یت اور صدارتی نظام کے لیے 1962 کے آئین کے تحت دوسرے انتخابات کروائے تھے۔

جس میں متحد ہ اپوزیشن نے محترمہ فاطمہ جناح کو مشترکہ طور پر صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا بھٹو ایوب خان کی اس صدارتی انتخابی مہم میں ایوب خان کے ساتھ تھے اِن انتخابات میں بی ڈی ممبران کی تعداد دگنی کردی گئی تھی، انتخابات کے نتائج کے بعد صدر ایوب خان پر انتخابات میں خصوصاً مشرقی پاکستان اور کراچی میں دھاندلی کے شدید الزامات بھی لگے تھے اور اب تاشقند معاہدے میں ملکی مفادات کے خلاف فیصلے کا الزام تھا یوں بھٹو ،مجیب الرحمن ، مولانا بھاشانی،اور دیگر تقریباً تمام سیاسی رہنمائوں نے مل کر ایوب خان کے خلاف کامیا ب تحریک چلائی اور ایوب خان نے 25 مارچ 1969ء کو اقتدارچھوڑدیا۔ انہیں کچھ عرصہ بعد دل کی تکلیف لا حق ہو گئی تھی اور 19 اپریل 1974ء کو اسی عارضہ قلب کی وجہ سے 66 سال کی عمر میں اسلام آباد میں وفات پائی ،اُن کی وفات کو آج 45 سال گزر گئے ہیں اور اقتدار چھوڑے آج پوری نصف صدی گزر گئی ہے،آج بھی اُن کے لیے یہ مصرع لکھا نظر آتا ہے '' تیرے جانے کے بعد تیری یاد آئی۔''

ڈاکٹر عرفان احمدبیگ ( تمغۂ امتیاز)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں