حق تلفی کی سزا

قرآن کریم کی اصطلاح میں اس گناہ کا نام ’’تطفیف‘‘ یعنی ناپ تول میں کمی کرنا ہے۔

قرآن کریم کی اصطلاح میں اس گناہ کا نام ’’تطفیف‘‘ یعنی ناپ تول میں کمی کرنا ہے۔ فوٹو : فائل

قرآن کریم کے تیسویں پارے میں ایک سورت ''سورۃ المطففین'' ہے۔ اللہ تعالی نے اس سورت کی ابتدائی آیات میں ایک گناہ کا ذکر کرکے اس کے ارتکاب کرنے والوں کو قیامت کے دن بُرے انجام سے ڈرایا ہے۔

قرآن کریم کی اصطلاح میں اس گناہ کا نام ''تطفیف'' یعنی ناپ تول میں کمی کرنا ہے۔ کیوں کہ اس زمانے میں لین دین عام طور پر ناپ تول کے ذریعے ہوتا تھا۔ لیکن اس سے مراد حق دار کے کسی بھی حق کو ادا کرنے میں کمی کوتاہی کرنے کے ہیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں انسان کی زندگی سے متعلق ہر شعبے کے احکامات تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔ لین دین بھی انسان کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے، ہر انسان اپنی زندگی میں حقوق کی ادائی اور وصولی کے غیر متناہی سلسلے میں بندھا ہوا ہے۔ اس لحاظ سے یہ انسانی معاشرے کا لازمی جزو ہے۔

حقوق کے لین دین کے معاملے میں معاشرے کا رویہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ لوگ دوسروں سے اپنے حقوق وصول کرنے میں انتہائی چستی اور تیزی دکھاتے ہیں لیکن جب دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی نوبت آتی ہے تو اس میں کمی کوتاہی اور غفلت و سستی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہر شخص کو صرف اپنے حقوق کی فکر ہوتی ہے لیکن اپنے ذمے دوسروں کے حقوق سے وہ غافل ہوتا ہے۔ معاشرے میں بسنے والے لوگوں کے درمیان اختلافات، لڑائی اور جھگڑوں کی ایک بہت بڑی وجہ بھی یہی رویہ ہے۔ چناں چہ لوگ اپنے حقوق وصول کرنے کے لیے آپس میں دست و گریبان نظر آتے ہیں۔

قرآن و حدیث میں حقوق کی ادائی کی انتہائی سختی کے ساتھ تاکید کی گئی ہے، اس سلسلے میں اسلام کی تعلیمات اور ہدایات بہت واضح طور پر کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔ اگر معاشرے میں بسنے والا ہر انسان اسلامی تعلیمات کے مطابق دوسروں کے حقوق ادا کرنے والا بن جائے تو لوگوں کے درمیان حقوق کے حوالے سے یہ کش مکش ہی ختم ہوجائے گی اور انسانی معاشرے میں امن و سکون کی فضا قائم ہوجائے گی۔ اللہ تعالی نے اس سلسلے میں مذکورہ سورت کی ابتدائی آیات میں ان لوگوں کے لیے ہلاکت اور بُرے انجام کی خبر دی ہے جو دوسروں سے اپنا حق پوری طرح وصول کرتے ہیں لیکن دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں کمی کوتاہی اور غفلت کرتے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں، مفہوم: '' کیا ایسے لوگوں کو گمان نہیں ہے کہ یہ لوگ (قیامت کے) اس بڑے دن میں دوبارہ زندہ کیے جائیں گے، جس دن سب لوگ اللہ تعالی کے سامنے (حساب کتاب کے لیے) کھڑے ہوں گے۔''

یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اپنے حقوق وصول کرتے ہوئے، دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں کمی کوتاہی کرنے سے اس گناہ کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے، اس لیے اس کو خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے حقوق بھی وصول نہیں کرتا ہے اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں بھی کمی کوتاہی کرتا ہے تو وہ بھی گناہ گار ہے اور اس سزا کا مستحق ہے۔ کیوں کہ ہر شخص کو اپنے حقوق حاصل کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے، اب اگر وہ اپنے حقوق سے خود ہی دست بردار ہوجاتا ہے تو اسے دوسروں کے حقوق تلف کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی۔ اس لیے انسان کو ہر صورت دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی فکر کرنا ضروری ہے۔


احادیث طیّبہ میں بھی دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی حدیث شریف کا مفہوم ہے: ''جس نے اپنے کسی بھائی کے ساتھ ظلم و زیادتی کی ہو، اس کی آبرو ریزی کی ہو، یا کسی دوسرے معاملے میں حق تلفی کی ہو، اس کو چاہیے کہ آج ہی اس زندگی میں اس سے معاملہ صاف کرالے۔ آخرت کے دن آنے سے پہلے کہ جب اس کے پاس ادا کرنے کے لیے دینار و درہم کچھ بھی نہیں ہوگا، اگر اس کے پاس نیک اعمال ہوں گے تو اس کے ظلم کے بہ قدر وہ مظلوم کو دے دیے جائیں گے اور اگر اس کے پاس نیک اعمال نہیں ہوں گے تو مظلوم کے کچھ گناہ لے کر اس پر ڈال دیے جائیں گے۔'' (صحیح بخاری)

دوسری حدیث کا مفہوم ہے: ''انسان کے نامۂ اعمال میں گناہوں کی ایک فہرست وہ ہے جن کو اللہ تعالی انصاف کے بغیر نہیں چھوڑے گا اور وہ انسانوں کی آپس کی زیادتیاں اور حق تلفیاں ہیں کہ ان کا بدلہ ضرور دلایا جائے گا۔'' (بیہقی)

مفسّرین نے قرآن کریم کی ان آیات کی تفسیر میں ایک بہت اہم بات یہ بھی ذکر کی ہے کہ حقوق کی دو قسمیں ہیں۔ حقوق اللہ: یعنی اللہ تعالی کے حقوق جیسے نماز، روزہ اور زکوۃ وغیرہ۔ اور حقوق العباد: یعنی بندوں کے حقوق جو آپس میں ایک دوسرے کے ذمے ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں مذکور ''تطفیف'' کا یہ گناہ حقوق کی ان دونوں قسموں میں شامل ہے۔ چناں چہ انسان جس طرح حقوق العباد کی ادائی میں کمی کوتاہی کرنے سے اس گناہ کا مرتکب ہوکر سزا کا مستحق ہوتا ہے اسی طرح حقوق اللہ کی ادائی میں کمی کوتاہی کرنے والا بھی اس گناہ کا مرتکب اور سزا کا مستحق ہوگا۔

حضرت عمرؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز کے رکوع سجود پوری طرح ادا نہیں کررہا تھا اور عجلت میں جلدی نماز ختم کررہا تھا تو آپؓ نے اس سے فرمایا کہ تُونے اللہ کے حق میں تطفیف کردی ہے۔ اس سے مراد یہ کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی صحیح طرح اور مکمل ادائی انتہائی ضروری ہے۔ ان کی ادائی میں کمی کوتاہی کرنا، غفلت اور بے پروائی کرنا اللہ تعالی اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی کا باعث ہے۔

اللہ تعالی ہمیں قرآن و حدیث کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Load Next Story