سندھ میں نیا بلدیاتی نظام تیار صرف کراچی میں میٹرو پولیٹن کارپوریشن بنے گی دیہی علاقوں میں ڈسٹرکٹ کونسلی

کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کیلیے پانچوںمیونسپل کارپوریشنزسے20، 20ارکان لیے جائیں گے

فوٹو: فائل

سندھ کابینہ نے صوبے بھر میں یکساں بلدیاتی نظام نافذ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

اس ضمن میں مجوزہ مسودہ قانون تیار کرلیا گیا ہے جبکہ تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد بل تیار کرکے سندھ اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ پیرکوسندھ کابینہ کا اجلاس وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی زیر صدارت وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں صوبائی وزرا نثار احمد کھوڑو، سید اویس مظفر، شرجیل انعام میمن، ڈاکٹر سکندر میندرو، میر ہزار خان بجارانی اور دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس میں لوکل گورنمنٹ قانون 2013کا مجوزہ مسودہ پیش کیا گیا جس پر اراکین کابینہ نے مختلف تجاویز پیش کیں۔ وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن نے بتایا کہ سندھ لوکل گورنمنٹ بل2013کا مسودہ سندھ گورنمنٹ کی ویب سائٹ کے ذریعے جاری کیا جائے گا۔ انھوں نے بتایا کہ قانون میں عوام کے نمائندوں کو زیادہ سے زیادہ نمائندگی دی گئی ہے۔

حکومت کی یہ اولین ترجیح ہے کہ عوام کو انصاف ان کی دہلیز پر فراہم کیا جائے۔ شرجیل میمن نے کہا کہ نئے بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے جبکہ لوکل گورنمنٹ قانون کا مسودہ تمام سیاسی جماعتوں کو فراہم کیا جائے گا اس ضمن میں قائم کمیٹی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کرے گی۔ ذرائع کے مطابق کراچی کے شہری علاقوں میں میٹروپولیٹن کارپوریشن، 5ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز (ڈی ایم سیز) اور وارڈز ہوں گے جبکہ دیہی علاقوں میں ڈسٹرکٹ کونسل اور یونین کونسلز ہوں گی۔ اسی طرح صوبے کے دیگر اضلاع میں چھوٹے شہروں کے لیے وارڈز اور ٹاؤن کمیٹیز، اس سے بڑے شہروں کے لیے وارڈز اور میونسپل کمیٹیز اور مزید بڑے شہروں کے لیے وارڈز اور میونسپل کارپوریشنز ہوںگی۔ جبکہ ان اضلاع کے دیہی علاقوں میں ڈسٹرکٹ کونسلز اور یونین کونسلز ہوں گی۔ مسودہ قانون کے مطابق ہر کونسل (لوکل باڈی) میں خواتین کیلیے22 فیصد، مزدور /ہاری کیلیے5 فیصد اور اقلیتوں کیلیے5 فیصد نشستیں مختص کی گئی ہیں۔

مسودہ قانون میں لوکل باڈیز کے انتخابات کا طریقہ کار بھی وضع کردیا گیا ہے۔ دیہی علاقوں میں بنیادی یونٹ یونین کونسل ہوگا۔ ہر یونین کونسل کی 7 ارکان کا براہ راست انتخاب ہوگا۔ ان ہی7 ارکان میں سے یونین کونسل کا چیئرمین اور وائس چیئرمین منتخب ہوگا۔ ہر یونین کونسل کا چیئرمین متعلقہ ضلع کی ڈسٹرکٹ کونسل کا رکن ہوگا۔ ڈسٹرکٹ کونسل کے یہ ارکان اپنے چیئرمین اور وائس چیئرمین کا انتخاب کریں گے، ساتھ ہی مخصوص نشستوں کے لیے بھی ووٹ دیں گے۔ تمام شہری علاقوں میں بنیادی یونٹ وارڈ ہوگا۔ وارڈز کے7، 7 ارکان کا بھی براہ راست انتخاب ہوگا۔ ان ہی7ارکان میں سے وارڈز کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب ہوگا۔ متعلقہ ٹاؤن کمیٹیز، میونسپل کمیٹیز اور میونسپل کارپوریشنز کی حدود میں واقع وارڈز کے چیئرمین ان کمیٹیز اور کارپوریشنز کے ارکان ہوں گے۔ وہ اپنے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب کریں گے اور مخصوص نشستوں کے لیے بھی ووٹ دیں گے۔ صوبے کے باقی اضلاع کی طرح کراچی کے دیہی علاقوں کی یونین کونسلز کا بھی اسی طرح براہ راست انتخاب ہوگا اور ان یونین کونسلز کے چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل کے ارکان ہوں گے جو اپنے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ مخصوص نشستوں کے لیے بھی ووٹ دیں گے۔ کراچی کے شہری علاقوں میں وارڈز کے ارکان کا براہ راست انتخاب ہوگا۔ ان وارڈز کے چیئرمین متعلقہ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز کے رکن ہوں گے۔




یہی ارکان اپنی ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین اور مخصوص نشستوں کے لیے ارکان کا انتخاب کریں گے۔ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے لیے پانچوں ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز سے برابری کی بنیاد پر اور سینیٹ کی طرح20، 20 ارکان لیے جائیں گے۔ ان 20 ارکان کے انتخاب کے طریق کار پرمشاورت جاری ہے۔ ایک تجویزہے کہ ہر ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کے ارکان اپنے اندر سے20 ارکان کا انتخاب کریں جبکہ دوسری تجویزہے کہ سینیٹ کی طرح باہر سے ہر ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن اپنے20 ارکان کا انتخاب کرکے میٹروپولیٹن کارپوریشن میں بھجوائے جومیئر اور ڈپٹی میئر کے ساتھ ساتھ مخصوص نشستوں کے لیے بھی انتخاب کریں گے۔ مسودہ قانون میں ہر بلدیاتی ادارے کے اختیارات اور فرائض الگ کردیے گئے ہیں۔ کوئی ادارہ کسی دوسرے ادارے کے کام میں مداخلت نہیں کرسکے گا۔ مسودہ قانون کے مطابق صوبائی حکومت کے کوئی بھی اختیارات بلدیاتی اداروں کو منتقل نہیں کیے گئے ہیں۔ ریونیو، پولیس اور پالیسی پلاننگ کے امور صوبائی حکومت کے پاس رہیں گے تاہم صوبائی حکومت کی بلدیاتی اداروں میں بے جا مداخلت کو روکنے کے لیے بھی مسودہ قانون میں کچھ چیزیں شامل کی گئی ہیں۔

مسودہ قانون کے مطابق بلدیاتی ادارے صوبائی یا ضلعی انتظامیہ کے ماتحت نہیں ہوں گے اور وہ انتظامی اور مالیاتی طور پر خود مختار ہوں گے۔ تمام بلدیاتی ادارے اپنے ملازمین کی بھرتیاں، تبادلے اور تقرریاں خود کرسکیں گے۔ ان کی تنخواہوں اور مراعات کی ذمے داری بھی ان بلدیاتی اداروں پر ہوگی اور یہ ملازمین صرف اور صرف متعلقہ بلدیاتی اداروں کو جواب دہ ہوں گے۔ ان بلدیاتی اداروں کو حکومت سندھ خود براہ راست فنڈز منتقل کرے گی۔ صوبے کی ہر یونین کونسل، ٹاؤن کمیٹی، میونسپل کمیٹی، میونسپل کارپوریشن، میٹروپولیٹن کارپوریشن اور ڈسٹرکٹ کونسل صوبائی حکومت سے براہ راست فنڈز حاصل کرے گی اور اسے خرچ کرنے میں خود مختار ہوگی۔ اس ضمن میں صوبائی سطح پر ایک فنانس کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔ یہ کمیشن آبادی، وسائل، ضروریات اور پسماندگی کی بنیاد پر فنڈز تقسیم کرنے کا فارمولا طے کرے گا۔ پہلی مرتبہ بلدیاتی اداروں کے آڈٹ کا بھی نظام وضع کیا گیا ہے۔ آڈیٹر جنرل کی سطح پر تمام بلدیاتی اداروں کا آڈٹ باقاعدگی سے ہوگا۔

مسودہ قانون کے مطابق صوبائی حکومت ایک5رکنی لوکل گورنمنٹ کمیشن بھی قائم کرے گی جس کے سربراہ صوبائی وزیر بلدیات ہوں گے جبکہ ارکان میں سندھ اسمبلی کے2ارکان اور بلدیاتی امور کے2ماہرین شامل ہوں گے۔ ایک رکن سندھ اسمبلی کا تعلق حزب اقتدار سے ہوگا جبکہ دوسرے کا تعلق حزب اختلاف سے ہوگا۔ یہ کمیشن مختلف بلدیاتی اداروں کے درمیان تنازعات اور ان سے متعلق شکایات پر فیصلہ کرے گا اور اپنی سفارشات وزیراعلیٰ سندھ کو ارسال کرے گا جو اس فیصلے کی روشنی میں کارروائی کرنے کے مجاز ہوں گے۔ دریں اثنا سندھ کابینہ کے اجلاس میں صوبے میں کچی شراب، مین پوری، گٹکا اور دیگر ممنوعہ اشیاکی تیاری اور فروخت کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے اور اس ضمن میں حیدرآباد سے کارروائی کا آغاز کیا جائے گا ایکسائز، پولیس اور رینجرز مشترکہ طور پر اس مذموم کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کریں گے۔ شرجیل میمن نے کہا کہ سندھ کابینہ کے اجلاس میں گواہوں کو قانون تحفظ فراہم کرنے کی مسودہ کی منظوری دی گئی۔

اجلاس میں صوبائی وزیر کچی آبادی جاوید ناگوری پر حملے کی بھی مذمت کی گئی۔ انھوں نے بتایا کہ سندھ کابینہ کے اجلاس میں سندھ اسمبلی اور سندھ سیکریٹریٹ سمیت ریڈ زون کی سیکیورٹی کو مزید سخت کرنے اور وہاں ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے اور ریڈزون میں پارکنگ کے ایشو کو حل کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی۔ کمیٹی میں صوبائی وزیر شرجیل میمن، منظور وسان اور چیف سیکریٹری سندھ اعجاز چوہدری پر مشتمل ہوگی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے ہدایت دی کہ کراچی میں ٹریفک کے نظام کو بہتر کیا جائے تاکہ عوام کے لیے آسانی ہو اور انھیں ریلیف مل سکے۔ وزیر اطلاعات نے بتایا کہ سندھ کابینہ کے اجلاس میں کراچی سرکلرریلوے کے سلسلے میں سندھ حکومت کی جانب سے ٹیکس میں چھوٹ، مشینری کی درآمد پر ٹیکس میں رعایت اور زمین کی سہولت کی فراہمی کی بھی منظوری دی گئی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے چیف سیکریٹری سندھ کوہدایت کی کہ کراچی سرکلرریلوے اہم منصوبہ ہے۔ اس پر فوری پیشرفت ہونی چاہیے تاکہ کراچی کے شہریوں کوٹرانسپورٹ کی بہترسہولتیں میسر آسکیں۔
Load Next Story