گالیاں اور مغلظات ہمارے سیاسی تکیہ کلام
ان سیاستدانوں کی پریس کانفرنسوں اور سوشل میڈیا بیانات پر مشتمل کوئی کتاب، بداخلاقی کا نوبل انعام ضرور حاصل کرے گی
سیاست اس فعل یا عمل کو کہتے ہیں جسے انجام دینے سے لوگ اصلاح کے قریب اور فساد سے دور ہو جائیں۔ امور مملکت کا نظم و نسق برقرار رکھنے والوں کو سیاست دان کہتے ہیں۔ سیاست کو بہت وسیع معنی دیئے گئے ہیں۔ جس کا شعبہ یا پیشہ سیاست ہو، وہ شخص بہت ہی با اخلاق اور نہایت دانش ور قسم کا انسان ہوتا ہے کہ اسے لوگوں کو سیدھے راستے پر چلانے کے ساتھ ساتھ ملک کا نظم و نسق بھی برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ یوں کہہ لیجیے کہ وہ ایک مثالی شخصیت یا رول ماڈل ہوتا ہے۔ اس کی بول چال اور رہن سہن کی نہ صرف مثال دی جاتی ہے بلکہ اس کی پیروی کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔
مگر ہماری سیاست ان سب معنی سے الگ تھلگ اور ''ذرا ہٹ کے'' ہے۔ ہم نے سیاست کو منافقت کے معنی دے دیئے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تو سیاست صرف منافقت کی حد تک محدود تھی؛ اور سیاست دان اگر ایک دوسرے پر طعن و طنز کے نشتر چلاتے تھے تو وہ بذلہ سنجی ہوتی تھی۔ اس میں اخلاق کا پہلو ہمیشہ مدنظر رکھا جاتا تھا۔ مگر آج کل اخلاقیات کے سوا باقی سب کچھ سیاسی بیانات سے ہی ملتا ہے۔
اب ہمیں بھونڈے قسم کے اسٹیج ڈرامے دیکھنے کی ضرورت نہیں، بس کوئی پریس کانفرنس سن لیجیے یا تھوڑی دیر سوشل میڈیا پر گزار لیجیے، ہمارے گالی دینے اور سننے کی جبلت کی تسکین ہوجاتی ہے۔
اب ہر پارٹی کا ایک تکیہ کلام ہے، دوسری پارٹی کے لیڈر کےلیے۔ اب پارٹی رہنما اپنے اصل نام سے کم اور اس دوسرے نام سے زیادہ جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ اب تو سیاسی جماعتوں نے گالم گلوچ کا جیسے باقاعدہ ایک شعبہ قائم کرلیا ہے جس کا کام ہی دوسری پارٹی کے اہم رہنماؤں کو گندے گندے القابات سے نوازنا ہے تاکہ وہ زبان نہ کھولے۔ لیکن اس کا اثر الٹا ہوتا ہے۔ دوسری پارٹی کے ''ماہرینِ ہرزہ سرائی'' نہایت عمدگی سے گالیوں اور بدزبانی کو دگنا کرکے واپس بھیجتے ہیں۔
اگر ہم ان تمام سیاست دانوں کی پریس کانفرنسیں اور سوشل میڈیا کے بیانات کو ایک کتابی شکل دیں تو ہماری کتاب بداخلاقی کا نوبل انعام ضرور حاصل کرے گی اور اس کتاب کو عورت مارچ والیاں اپنا نصاب بھی بنا سکتی ہیں؛ اور اپنے کلچر میں اسے بڑے دھڑلے سے رائج کرسکتی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہوگی کہ پھر ان کے بیانات پر کوئی اعتراض بھی نہیں کرپائے گا کہ یہ تو سیاستدانوں کے بیانات ہیں!
لد گئے وہ زمانے کہ جب ادب آداب سکھانے کےلیے اخبارات اور ٹیلی ویژن وغیرہ جیسا میڈیا استعمال کیا جاتا تھا۔ اب تو اسے اخلاق خراب کرنے کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے، آداب سیکھنے سکھانے کےلیے ہرگز نہیں۔ ہم سے ہمارے بچے اگر پریس کانفرنس میں دیئے گئے بیانات کی وضاحت پوچھتے ہیں تو ہم بغلیں جھانکنے لگ جاتے ہیں کہ اب انہیں کیا بتائیں؟
سیاستدان تو یقینی طور پر یہ بیانات بند نہیں کریں گے لیکن ایک اور حل ہے۔ اگر ٹی وی چینل والے صرف ایک بات پر بغیر لفافے کے اتفاق کرلیں کہ جو بھی بیان بدتمیزی پر مبنی ہوگا اسے نشر نہیں کیا جائے گا، تو ضرور سیاست دان بھی کچھ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے اور گالم گلوچ چھوڑ دیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مگر ہماری سیاست ان سب معنی سے الگ تھلگ اور ''ذرا ہٹ کے'' ہے۔ ہم نے سیاست کو منافقت کے معنی دے دیئے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تو سیاست صرف منافقت کی حد تک محدود تھی؛ اور سیاست دان اگر ایک دوسرے پر طعن و طنز کے نشتر چلاتے تھے تو وہ بذلہ سنجی ہوتی تھی۔ اس میں اخلاق کا پہلو ہمیشہ مدنظر رکھا جاتا تھا۔ مگر آج کل اخلاقیات کے سوا باقی سب کچھ سیاسی بیانات سے ہی ملتا ہے۔
اب ہمیں بھونڈے قسم کے اسٹیج ڈرامے دیکھنے کی ضرورت نہیں، بس کوئی پریس کانفرنس سن لیجیے یا تھوڑی دیر سوشل میڈیا پر گزار لیجیے، ہمارے گالی دینے اور سننے کی جبلت کی تسکین ہوجاتی ہے۔
اب ہر پارٹی کا ایک تکیہ کلام ہے، دوسری پارٹی کے لیڈر کےلیے۔ اب پارٹی رہنما اپنے اصل نام سے کم اور اس دوسرے نام سے زیادہ جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ اب تو سیاسی جماعتوں نے گالم گلوچ کا جیسے باقاعدہ ایک شعبہ قائم کرلیا ہے جس کا کام ہی دوسری پارٹی کے اہم رہنماؤں کو گندے گندے القابات سے نوازنا ہے تاکہ وہ زبان نہ کھولے۔ لیکن اس کا اثر الٹا ہوتا ہے۔ دوسری پارٹی کے ''ماہرینِ ہرزہ سرائی'' نہایت عمدگی سے گالیوں اور بدزبانی کو دگنا کرکے واپس بھیجتے ہیں۔
اگر ہم ان تمام سیاست دانوں کی پریس کانفرنسیں اور سوشل میڈیا کے بیانات کو ایک کتابی شکل دیں تو ہماری کتاب بداخلاقی کا نوبل انعام ضرور حاصل کرے گی اور اس کتاب کو عورت مارچ والیاں اپنا نصاب بھی بنا سکتی ہیں؛ اور اپنے کلچر میں اسے بڑے دھڑلے سے رائج کرسکتی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہوگی کہ پھر ان کے بیانات پر کوئی اعتراض بھی نہیں کرپائے گا کہ یہ تو سیاستدانوں کے بیانات ہیں!
لد گئے وہ زمانے کہ جب ادب آداب سکھانے کےلیے اخبارات اور ٹیلی ویژن وغیرہ جیسا میڈیا استعمال کیا جاتا تھا۔ اب تو اسے اخلاق خراب کرنے کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے، آداب سیکھنے سکھانے کےلیے ہرگز نہیں۔ ہم سے ہمارے بچے اگر پریس کانفرنس میں دیئے گئے بیانات کی وضاحت پوچھتے ہیں تو ہم بغلیں جھانکنے لگ جاتے ہیں کہ اب انہیں کیا بتائیں؟
سیاستدان تو یقینی طور پر یہ بیانات بند نہیں کریں گے لیکن ایک اور حل ہے۔ اگر ٹی وی چینل والے صرف ایک بات پر بغیر لفافے کے اتفاق کرلیں کہ جو بھی بیان بدتمیزی پر مبنی ہوگا اسے نشر نہیں کیا جائے گا، تو ضرور سیاست دان بھی کچھ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے اور گالم گلوچ چھوڑ دیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔