اقدار مشرقی و مغربی نہیں ہوتیں
اگر ہم انفرادی و اجتماعی سطح پر صرف آفاقی اقدار پر ہی عمل کر لیں تو پھر ان مباحثوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
مجھ کند ذہن کو جو چند چیزیں شاید کبھی سمجھ میں نہ آسکیں ان میں بچپن سے اب تک گھر سے ریاست تک گونجنے والا یہ جملہ بھی ہے ''یہ بات ہماری روایات و رواج و مشرقی اقدار کے خلاف ہے '' یا'' دشمن قوتیں چاہتی ہیں کہ ہمیں اپنی اقدار سے محروم کر کے اپنی ہی طرح بے غیرت بنا دیں ہم یہ نہیں ہونے دیں گے ''۔ کبھی کبھی یہ جملہ یوں ہو جاتا ہے کہ فلاں فلاں سوچ ، قدم ، بات اور آئیڈیا ہماری مذہبی و مشرقی روایات سے لگا نہیں کھاتا لہذا ہم ڈٹ کر ان روایات سے ہٹنے یا مسخ کرنے والوں کا مقابلہ کریں گے۔
مجھے کوئی مسئلہ نہیں اپنی مشرقیت ، ریتی رواج اور اقدار پر عمل پیرا ہونے میں بس اگر یہ پتہ چل جائے کہ اس روایاتی اقداری زنبیل میں ایسا کیا ہے جو صرف ہمارے پاس ہے اور باقی دنیا اس سے محروم ہے ؟ اور یہ مشرقی روایات کس علاقے میں پائی جاتی ہیں ، پورے ایشیا، افریقہ و لاطینی امریکا میں یا صرف ایشیا میں یا صرف برصغیر میں یا صرف شمالی ہندوستان میں یا صرف پاکستان میں یا صرف مسلمانوں میں یا صرف دینی مدارس میں ؟ آخر کون یہ پوشاک سیتا ہے تاکہ ہم سب اسے پہن کے ایک سے ہو جائیں ؟
مجھے یہ تو معلوم ہے کہ سچ بولنا ، دوغلے پن سے پرہیز ، بڑوں کا احترام ، چھوٹوں سے شفقت ، کمزور ، بیمار ، اپاہج کی مدد ، اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت ، جرم کی حوصلہ شکنی، قانون پسندی ، نجی زندگی کی تکریم ، نفرت انگیزی سے پرہیز، جانوروں کو اذیت نہ دینا اور ایسی دسیوں اقدار پر ایک سیاہ فام زولو قبائلی سے لے کر برطانوی گورے تک ، مسلمان سے ملحد تک ، امیر سے غریب تک ، پپوا نیو گنی سے لے کر قطب شمالی کے اسکیمو تک سب کا اتفاق ہے اور سب اپنے اپنے انداز میں ان پر عمل پیرا نہ بھی ہوں تو عمل پیرا ہونے کی خواہش ضرور رکھتے ہیں۔
ان سے ہٹ کے ایسی کون سی اقدار ہیں جو بس ہماری ملکیت ہیں اور باقی دنیا ان سے ناواقف ہے ؟ اور ایسی کون کون سی برائیاں ہیں جو باقی دنیا میں ہیں مگر ہم ان سے خاصی حد تک پاک ہیں ؟ اگر اس کے علاوہ بھی کچھ ہے تو میں ضرور چاہوں گا کہ کوئی میری تعلیم کرے۔
مثلاً دنیا کا ایسا کون سا مذہب یا نظریہ ہے جو اپنے پیروکاروں کو کہتا ہے کہ سچ بولنا حرام اور جھوٹ بولنا حلال ہے ، خبردار اگر کسی نے کمزور کی مدد کی تو ہم سے برا کوئی نہ ہوگا۔ کاٹ کے رکھ دیں گے اگر کسی نے کسی بیمار کی خبر گیری کی، یا بھوکے کو کھانا کھلایا یا بے سہارا کے سر پے ہاتھ رکھا۔ زندہ جلا دیں گے اگر کسی نے کسی کو جانوروں پر تشدد سے روکا، ریپ نہیں کیا تو مار ڈالیں گے۔اگر ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا اور ہوتا ہے تو انتہائی برا سمجھا جاتا ہے تو پھر کون سی اضافی جنوبی ، شمالی ، مغربی ، مشرقی اقدار ؟
یہ سامنے کی بات سمجھنے میں کیا قباحت ہے کہ سب سے باحرمت انسانی جان ہے ، پیدائش اور موت کا حق صرف اور صرف اوپر والے کی ملکیت ہے۔سزا صرف جرم کی مقدار و ماہیت کے حساب سے دی جا سکتی ہے، سزا صرف ان جرائم پر دی جا سکتی ہے جن پر ہر انسان و تہذیب کا آفاقی اتفاق ہے کہ یہ جرائم ناقابلِ قبول ہیں ، جیسے قتل ، ریپ ، ایذا رسانی ، نسل کشی ، ریاستی و غیر ریاستی ، گروہی و غیر گروہی دہشت گردی ، اغوا ، ڈاکے اور چوری کی شکل میں ذاتی ملکیت و حرمت کی پامالی ، جسمانی ، ذہنی و جنسی بیگار یا ایسے دیگر جرائم جو متفقہ آفاقی اقدار سے متصادم ہوں۔
اگر ہم انفرادی و اجتماعی سطح پر صرف آفاقی اقدار پر ہی عمل کر لیں تو پھر ان مباحثوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی کہ مشرقی اقدار کیا ہیں اور مغربی کیا۔یہ مباحث چھیڑے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ کوئی فرد ، گروہ ، نظریہ یا ریاست ان اصطلاحات کی آڑ میں اپنا کوئی خاص ، سیاسی، سماجی ، نظریاتی یا معاشی ایجنڈا باقیوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، ہماری توجہ اصل مسائل سے بھٹکانا چاہتے ہیں یا ہمیں اس سبز باغ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جو ہے ہی نہیں۔
مگر کیسے معلوم ہو کہ ہمارے ساتھ دلفریب نعروں یا خوشنما نظریاتی تاویلات کی چکاچوند میں واقعی ہاتھ ہو رہا ہے اور ہماری توجہ کوئی ہائی جیکر اغوا کرنا چاہتا ہے۔اسے جانچنا بہت ہی آسان ہے۔ کوئی بھی شخص یا گروہ یا ریاست دلیل کے بجائے طاقت اور خوف کا استعمال کر کے اپنا منجن میرے اور آپ کے حلق سے یہ کہہ کر اتارنا چاہ رہے ہوں کہ یہ تمہاری بہتری کے لیے ہے لہذا بلاچون و چرا اسے نگل لو تو سجھئے کہ دال میں کالا ہے اور مقصد آپ کو جسمانی یا ذہنی غلامی کی زنجیرپہنانا ہے۔کوئی بھی شخص، گروہ یا ریاست آفاقی طور پر متفقہ اقدار کو اولین کے بجائے ثانوی حیثیت دینے کی کوشش کرے تو سمجھ لیں کہ دال میں کالا نہیں دال ہی کالی ہے۔
کوئی بھی شخص ، گروہ ، نظریہ یا ریاست سوال کو رسمی یا غیر رسمی جرم قرار دے دے تو سمجھ لیجیے کہ آفاقی اقدار سنگین خطرے میں ہیں۔سوال کا حق فطری ہے، اگر قدرت نے ہر بچے کو یہ حق دائمی طور پر بخشا ہے تو کوئی زمینی قوت کسی انسان سے کیسے چھین سکتی ہے۔ اگر کوئی یہ حق براہ راست یا بالواسطہ چھیننے کی کوشش کرے تو وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر انسان دوست نہیں ہو سکتا۔لہذا اس حق کا تحفظ ضروری ہے۔اگر یہ حق غصب ہو گیا تو پھر ہر حق غصب ہو سکتا ہے۔اس کی مثالیں آپ کے آس پاس بکھری پڑی ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)