نئی حکومت کے وعدے
ہمارے حکمران عمران خان نے شاید اس نعرہ کی بازگشت سن رکھی ہے اس لیے انھوں نے اس میں اضافہ کر دیا۔
کئی دہائیوں کے بعد پاکستان کے حکمران عمران خان نے ایک پرانے نعرے کی یاد تازہ کرتے ہوئے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگادیا بلکہ انھوں نے اس خوش کن نعرے میں اضافہ کرتے ہوئے صحت اور تعلیم کو بھی شامل کر دیا ہے۔ اسی طرح کا ایک نعرہ آج سے چالیس برس قبل پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے بھی لگایا تھا اور ان کی پارٹی اس عرصہ کے دوران کئی مرتبہ اقتدار میں رہنے کے باوجود اس نعرہ پر عمل درآمد نہ کر سکی لیکن ذوالفقار علی بھٹو کا نعرہ ابھی تک زندہ اور اس کی گونج باقی ہے ۔
ہمارے حکمران عمران خان نے شاید اس نعرہ کی بازگشت سن رکھی ہے اس لیے انھوں نے اس میں اضافہ کر دیا اور عوام کو روٹی کپڑے اور مکان دینے کے ساتھ صحت اور تعلیم کی سہولت دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جب بھٹو صاحب نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا تو میں نے ایک دن شام کو لاہور کے فلیٹیز ہوٹل کے لان میں ان کے ساتھ ٹہلتے ہوئے یہ پوچھا کہ بھٹو صاحب آپ نے بہت بڑا نعرہ دیا ہے آپ اس پر عمل درآمد کیسے کریں گے۔
بھٹو صاحب میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور کہا کہ مسلمان جنت کے خواب دیکھتے ہیں لیکن انھوں نے جنت دیکھی ہوئی نہیں ہے ۔ یہ کہہ کر بھٹو صاحب آگے بڑھ گئے اور میں یہ سوچتا رہ گیا کہ کتنا عقلمند اور ہوشیار لیڈر ہے کہ جس نے عوام کو ایک ایسا نعرہ دیا ہے جس کی تکمیل مشکل ہی نہیں ناممکن ہے لیکن عوام نے بھٹو صاحب کے اس نعرے پر لبیک کہا اور ان کو حکمرانی کے تخت پر بٹھا دیا۔ اس کے بعد کیا ہوا وہ ماضی کا قصہ اور تلخ یادیں ہیں لیکن بھٹو صاحب کی پارٹی ابھی بھی اس نعرے کو کیش کرانے کی کوشش کرتی ہے اور اب اس میں جناب عمران خان بھی شامل ہو گئے ہیں اورانھوں نے بھی عوام کو سہانے خواب دکھانے شروع کر دیے ہیں اور پرانا نعرہ ایک بار پھر زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی نیک نیتی کی بات کی جائے تو اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ان کی ذات فی الحال ان تمام نقائص سے پاک ہے جو ایک جماندرو سیاست دان میں ہو سکتے ہیں، وہ نیک نیت ہیں قوم کے لیے اور پاکستان کے لیے کچھ کر گزرنے کے نیک ارادے رکھتے ہیں لیکن ان کے نیک ارادوں میں ان کی ٹیم ان کا ساتھ نہیں دے پا رہی اور جیسے جیسے حکومت کا وقت گزر رہا ہے ان کے لیے مشکلات بھی بڑھتی جا رہی ہیں، ان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ملک کی مقتدر قوتیں ان کا ساتھ دے رہی ہیں لیکن اس گزرتے وقت کے ساتھ عوام جنہوں نے ان کو بڑی امیدوں کے ساتھ منتخب کیا تھا ان کی وہ امیدیں اور آسیں ٹوٹتی جارہی ہیں ۔
مہنگائی میں ہوشربا اضافہ اس وقت حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے اور ہمارے وزیر خزانہ مزید مہنگائی کی نوید سنا رہے ہیں ، بجلی گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ اور روپے کی قدر میں مزید کمی کی 'خوشخبری' سنا دی گئی ہے ۔ کشکول توڑنے کے دعوے دعوے ہی رہے۔
عالمی ساہوکاروں نے نئے پاکستان کی نئی حکومت کو اپنے شکنجے میں بالآخر جکڑ لیا ہے اور خبر یہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے نے قرضے دینے کی حامی بھر لی ہے لیکن ان قرضوں کی وصولی کے لیے عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے جس کو حکومت چارو ناچار پورا کرنے پر مجبور ہے اور آنے والے دنوں میں مہنگائی کا بم پھٹنے والا ہے ۔ عالمی طاقتیں ایک مستحکم پاکستان کے حق میں بالکل بھی نہیں ہیں وہ ایک کمزور پاکستان کی جو ان کے مرہون منت ہو کی متمنی ہیں اوروہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی ہو گئی ہیں۔
حکومت کی اگر بات کی جائے تو اس نے عوام کو جو خواب دکھائے تھے ان کی خوش کن تعبیر کے بجائے الٹا ان کے بھیانک نتائج سامنے آ رہے ہیں اور اپوزیشن کی جماعتیں جن کو عوام نے الیکشن میں ٹھکرا دیا تھا، وہ اب آہستہ آہستہ حکومت کی عوامی محاذ پر اپنی ناکامی کو کیش کر ا کے اپنی سیاست کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں عوام جن کی زندگی میں پہلے ہی مشکلات کچھ کم نہ تھیں اور وہ ماضی کے حکمرانوں سے ناراض تھے نئی حکومت کے قیام کے بعد بھی ان کی مشکلات میں کمی نہیں ہوئی اس لیے عوام اب اپوزیشن کی بات سن رہے ہیں لیکن چونکہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے سربراہ کرپشن کے الزامات پر نیب میں پیشیاں بھگت رہے ہیں اس لیے ابھی تک وہ عوام کو متاثر کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں ۔
اپوزیشن کے شور وغوغا کا اگر کسی کو فائدہ ہوا ہے تو وہ میاں نواز شریف کی ذات ہے جن کو ابتدائی طور پر عدالت نے چھ ہفتوں کی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا ہے جب کہ ان کے برعکس میاں شہباز شریف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت بھی مل گئی ہے ۔ میاں صاحب اب ضمانت پر رہا ہوکر اپنی مرضی سے علاج کراسکیں گے۔
حکومت نے میاں نواز شریف کوجیل میں بھی علاج معالجے کی سہولت دینے کا اعلان کیا تھا لیکن میاں نوازشریف نے اس حکومتی پیشکش کو رد کر دیا اور علاج کرانے سے انکار کر دیا تھا، شنید ہے کہ وہ اب ضمانت پر رہائی کے بعد شریف میڈیکل سٹی میں اپنا علاج کرائیں گے عین ممکن ہے کہ ان کے علاج کے لیے غیر ملکی معالج بھی بلوائے جائیں جو ان کے علاج کے متعلق فیصلہ کریں ۔ بہرحال میاں نواز شریف حکومت کو دباؤ میںلانے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور ان کی ضمانت کو اس سلسلے کی کڑی اور اس سے منسلک ان کے مستقبل کے بارے میںچہ میگوئیاں بھی جاری ہیں۔
اگر چہ فوری طور پرملکی معیشت میں بہتری کے آثار نظر نہیں آرہے جس کی وجہ سے حکومت پر عوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور اس دباؤ میں کمی کے لیے حکومت آئی ایم ایف سے قرض لینے پر بھی مجبور ہو گئی ہے کیونکہ اگرمزید کچھ عرصہ تک ملکی معیشت کی صورتحال جوں کی توں رہتی ہے تو پھرموجودہ حکومت کا نعرہ روٹی کپڑا اور مکان کے ساتھ صحت اور تعلیم اپنی موت آپ مر جائے گا حکومت عوامی مقبولیت کھو دے گی اور عوام سیاست دانوں سے ایک بار پھر دھوکا کھا کر احتجاج کرنے پر مجبور ہوںگے۔
ہمارے حکمران عمران خان نے شاید اس نعرہ کی بازگشت سن رکھی ہے اس لیے انھوں نے اس میں اضافہ کر دیا اور عوام کو روٹی کپڑے اور مکان دینے کے ساتھ صحت اور تعلیم کی سہولت دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جب بھٹو صاحب نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا تو میں نے ایک دن شام کو لاہور کے فلیٹیز ہوٹل کے لان میں ان کے ساتھ ٹہلتے ہوئے یہ پوچھا کہ بھٹو صاحب آپ نے بہت بڑا نعرہ دیا ہے آپ اس پر عمل درآمد کیسے کریں گے۔
بھٹو صاحب میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور کہا کہ مسلمان جنت کے خواب دیکھتے ہیں لیکن انھوں نے جنت دیکھی ہوئی نہیں ہے ۔ یہ کہہ کر بھٹو صاحب آگے بڑھ گئے اور میں یہ سوچتا رہ گیا کہ کتنا عقلمند اور ہوشیار لیڈر ہے کہ جس نے عوام کو ایک ایسا نعرہ دیا ہے جس کی تکمیل مشکل ہی نہیں ناممکن ہے لیکن عوام نے بھٹو صاحب کے اس نعرے پر لبیک کہا اور ان کو حکمرانی کے تخت پر بٹھا دیا۔ اس کے بعد کیا ہوا وہ ماضی کا قصہ اور تلخ یادیں ہیں لیکن بھٹو صاحب کی پارٹی ابھی بھی اس نعرے کو کیش کرانے کی کوشش کرتی ہے اور اب اس میں جناب عمران خان بھی شامل ہو گئے ہیں اورانھوں نے بھی عوام کو سہانے خواب دکھانے شروع کر دیے ہیں اور پرانا نعرہ ایک بار پھر زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی نیک نیتی کی بات کی جائے تو اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ان کی ذات فی الحال ان تمام نقائص سے پاک ہے جو ایک جماندرو سیاست دان میں ہو سکتے ہیں، وہ نیک نیت ہیں قوم کے لیے اور پاکستان کے لیے کچھ کر گزرنے کے نیک ارادے رکھتے ہیں لیکن ان کے نیک ارادوں میں ان کی ٹیم ان کا ساتھ نہیں دے پا رہی اور جیسے جیسے حکومت کا وقت گزر رہا ہے ان کے لیے مشکلات بھی بڑھتی جا رہی ہیں، ان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ملک کی مقتدر قوتیں ان کا ساتھ دے رہی ہیں لیکن اس گزرتے وقت کے ساتھ عوام جنہوں نے ان کو بڑی امیدوں کے ساتھ منتخب کیا تھا ان کی وہ امیدیں اور آسیں ٹوٹتی جارہی ہیں ۔
مہنگائی میں ہوشربا اضافہ اس وقت حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے اور ہمارے وزیر خزانہ مزید مہنگائی کی نوید سنا رہے ہیں ، بجلی گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ اور روپے کی قدر میں مزید کمی کی 'خوشخبری' سنا دی گئی ہے ۔ کشکول توڑنے کے دعوے دعوے ہی رہے۔
عالمی ساہوکاروں نے نئے پاکستان کی نئی حکومت کو اپنے شکنجے میں بالآخر جکڑ لیا ہے اور خبر یہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے نے قرضے دینے کی حامی بھر لی ہے لیکن ان قرضوں کی وصولی کے لیے عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے جس کو حکومت چارو ناچار پورا کرنے پر مجبور ہے اور آنے والے دنوں میں مہنگائی کا بم پھٹنے والا ہے ۔ عالمی طاقتیں ایک مستحکم پاکستان کے حق میں بالکل بھی نہیں ہیں وہ ایک کمزور پاکستان کی جو ان کے مرہون منت ہو کی متمنی ہیں اوروہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی ہو گئی ہیں۔
حکومت کی اگر بات کی جائے تو اس نے عوام کو جو خواب دکھائے تھے ان کی خوش کن تعبیر کے بجائے الٹا ان کے بھیانک نتائج سامنے آ رہے ہیں اور اپوزیشن کی جماعتیں جن کو عوام نے الیکشن میں ٹھکرا دیا تھا، وہ اب آہستہ آہستہ حکومت کی عوامی محاذ پر اپنی ناکامی کو کیش کر ا کے اپنی سیاست کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں عوام جن کی زندگی میں پہلے ہی مشکلات کچھ کم نہ تھیں اور وہ ماضی کے حکمرانوں سے ناراض تھے نئی حکومت کے قیام کے بعد بھی ان کی مشکلات میں کمی نہیں ہوئی اس لیے عوام اب اپوزیشن کی بات سن رہے ہیں لیکن چونکہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے سربراہ کرپشن کے الزامات پر نیب میں پیشیاں بھگت رہے ہیں اس لیے ابھی تک وہ عوام کو متاثر کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں ۔
اپوزیشن کے شور وغوغا کا اگر کسی کو فائدہ ہوا ہے تو وہ میاں نواز شریف کی ذات ہے جن کو ابتدائی طور پر عدالت نے چھ ہفتوں کی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا ہے جب کہ ان کے برعکس میاں شہباز شریف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت بھی مل گئی ہے ۔ میاں صاحب اب ضمانت پر رہا ہوکر اپنی مرضی سے علاج کراسکیں گے۔
حکومت نے میاں نواز شریف کوجیل میں بھی علاج معالجے کی سہولت دینے کا اعلان کیا تھا لیکن میاں نوازشریف نے اس حکومتی پیشکش کو رد کر دیا اور علاج کرانے سے انکار کر دیا تھا، شنید ہے کہ وہ اب ضمانت پر رہائی کے بعد شریف میڈیکل سٹی میں اپنا علاج کرائیں گے عین ممکن ہے کہ ان کے علاج کے لیے غیر ملکی معالج بھی بلوائے جائیں جو ان کے علاج کے متعلق فیصلہ کریں ۔ بہرحال میاں نواز شریف حکومت کو دباؤ میںلانے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور ان کی ضمانت کو اس سلسلے کی کڑی اور اس سے منسلک ان کے مستقبل کے بارے میںچہ میگوئیاں بھی جاری ہیں۔
اگر چہ فوری طور پرملکی معیشت میں بہتری کے آثار نظر نہیں آرہے جس کی وجہ سے حکومت پر عوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور اس دباؤ میں کمی کے لیے حکومت آئی ایم ایف سے قرض لینے پر بھی مجبور ہو گئی ہے کیونکہ اگرمزید کچھ عرصہ تک ملکی معیشت کی صورتحال جوں کی توں رہتی ہے تو پھرموجودہ حکومت کا نعرہ روٹی کپڑا اور مکان کے ساتھ صحت اور تعلیم اپنی موت آپ مر جائے گا حکومت عوامی مقبولیت کھو دے گی اور عوام سیاست دانوں سے ایک بار پھر دھوکا کھا کر احتجاج کرنے پر مجبور ہوںگے۔