جھوٹی گواہی کے خلاف ’’ کھوسہ ڈاکٹرائن‘‘
جھوٹی گواہی دینے والے کو نہ صرف بے اعتبار قرار دینا چاہیے، اسے سزا ملنی چاہیے۔
ISLAMABAD:
جھوٹی گواہی اور دروغ گوئی کرپشن کو بنیاد فراہم کرتی ہے اور بیماری کی طرح پاکستانی ریاست، ملکی اداروں اور افرادِ کار کو کھوکھلا کررہی ہے۔ جھوٹی گواہی ایک خوفناک جرم ہے، عدالت کو گمراہ کرنے والے عوام اور سماج کو انصاف فراہم کرنے والی عدالتوں اور قوانین کو بے مقصد بنا دیتے ہیں۔
عوام کو انصاف کی فراہمی کسی بھی ریاست کی بنیادی ترین ذمے داریوں میں شامل ہے۔ اگر انتظامی ادارے اور حکومت ہی کا اعتبار نہ رہے تو نہ صرف یہ انصاف فراہم کرنے کے قابل رہتے ہیں بلکہ ریاست اور پورے نظام کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ دیانت دار شہری بھی عدالتوں سے رجوع کرنے سے خوف زدہ ہوجاتے ہیں کیوں کہ انھیں یہ یقین ہوجاتا ہے کہ ان کی شنوائی نہیں ہوگی، عدالتوں سے انصاف نہیں ملے گا اور جرم کرنے والے بآسانی قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر صاف بچ نکلیں گے۔
عدالت میں جھوٹ بولنے کو پاکستانی قوانین قابل سزا جرم قرار دیتے ہیں، بدقسمتی سے عدالتوں میں تواتر سے جھوٹی گواہی کے واقعات ہوتے ہیں لیکن اس قانون پر شاذ و نادر ہی کبھی عمل درآمد ہوتا ہے۔ کذب بیانی کے اس چلن نے ہمارے نظام انصاف کو تباہ کردیا ہے۔ عدالتی نظام میں اصلاح کے لیے کذب بیانی اور جھوٹی گواہی کا خاتمہ ناگزیر ہوچکا ہے۔
موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب آصف سعید کھوسہ نے دو ماہ قبل جنوری 2018کو اپنا منصب سنبھالا اور جھوٹی گواہی کے خاتمے کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا۔ ایک حالیہ عدالتی فیصلے میں جھوٹی گواہی دینے والے کی نشان دہی ہوئی اور اس گواہی کی بنیاد پر جس ملزم کو سزا ہوئی تھی اسے رہا کردیا گیا۔جناب چیف جسٹس کھوسہ کی سربراہی میں مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ نے صراحت سے یہ بیان کیا کہ بنیادی قانونی اصول''ایک بات میں جھوٹ، سب باتوں میں جھوٹ'' کو پاکستانی عدالتی نظام میں ایک مرتبہ پھر متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔ عدالتی فیصلے میں اس بنیادی اصول کو برطانوی قوانین اور اسلامی قانون کے پیمانوں پر بھی پرکھا گیا ہے جو کہ ملکی عدالتی نظام کی بنیاد ہے۔
رومن قانون کے اس بنیادی اصول کے برصغیر میں اطلاق کی تاریخ بھی بیان کی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ ہندوستانی عدالتوں میں انیسویں صدی کے آغاز سے جھوٹی گواہیاں پیش کی جاتی رہی ہیں۔ جسٹس کھوسہ نے اس فیصلے اور ایک ہندوستانی جج نے 1945میں برصغیر میں جھوٹی گواہی کے اسباب سے متعلق لکھا''ان کے نزدیک عدالت ایک اجنبی ادارہ ہے، ایک سیکیولر ادارہ جو ان کی ذات، سماج اور دیہی ماحول سے الگ ایک جگہ ہے جہاں بے رحمی کے ساتھ بلاخوف کسی احساسِ پشیمانی کے بغیر سچ کا قتل کیا جاسکتا ہے۔''یہ انتہائی اہم نکتہ ہے اور اگر صورت حال اب بھی جوں کی توں ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ برطانیہ کی سامراجی حکومت میں اداروں سے اجنبیت کا احساس کسی حد تک قابل فہم ہے، لیکن لوگ آزاد پاکستان میں کیوں جھوٹ بول رہے ہیں اور وہ بھی ایک ایسے ملک میں جس کے لیے انھوں نے اور ان کے آباء نے جدوجہد کی۔ اگر عدالتوں سے اجنبیت اور بے گانگی کا یہ احساس اب بھی قائم ہے تو اس سے دو باتیں سامنے آتی ہیں۔
اول تو یہ کہ آج بھی ایسے لوگ پاکستان کی اپنی شناخت سے گہرا تعلق قائم نہیں کرسکے اور اسی طرح وہ قومی عدالتوں اور قوانین سے بھی بے گانہ ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہمارے لوگوں کے دماغ آزادی کے ستر برس گزر جانے کے بعد بھی نو آبادیاتی آسیب کے اثر سے نہیں نکلے۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی نکلتا ہے کہ پاکستان ایک آزاد قومی ریاست ہونے کے باوجود اس کا نظام سیاست، قوانین اور عدالتیں برطانوی ورثہ ہیں ، ہمارے لوگ آج تک جنھیں دل سے تسلیم نہیں کرسکے اور یہ پورا نظام ان کے لیے آج بھی اجنبی ہے۔ کیا اسی خیال کی بنا پر 1920 کی دہائی میں مولانا مودودی اور ان کے ساتھیوں نے ایک اسلامی ریاست کی ضرورت کے اسباب بیان کیے تھے، ایک ایسی ریاست جو صرف باہر سے آنے والے تصورات اور اصولوں ہی پر انحصار نہ کرتی ہو بلکہ اس کے اپنے بنیادی تصورات بھی ہوں، جنھیں مسلمان اپنانے اور تسلیم کرنے کے لیے بہ خوشی آمادہ ہوں۔
فاضل جج صاحبان نے عدالتوں میں جھوٹی گواہی کے اسباب بیان کرتے ہوئے پاکستان میں تیزی سے پھیلتے ہوئے بیرسٹرز کے طبقے کا بھی ذکر کیا ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ ''گواہ جج کے سامنے وکیل کے ذریعے پیش ہوتا ہے۔
اگر وہ(وکلا) جھوٹی گواہی یا کذب بیانی کو بہ رضا و رغب یا خاموش رضا مندی کے ساتھ، اپنی سہولت کے لیے یا ارادتاً برداشت کرتے ہوئے جھوٹے گواہ کو غلط حقائق پر مبنی بیان دینے دیتے ہیں تو جھوٹی گواہی کے لیے دروازے چوپٹ کھلے رہیں گے۔''تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جھوٹی گواہی کے خلاف قوانین کا استعمال ہی شاذ و نادر ہوتا ہے اور اگر ہو بھی تو کام یابی سے اس کے نفاذ کی بہت کم مثالیں ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کاذب اور جھوٹے گواہوں کے حوصلے پست نہیں ہوتے۔ اسی لیے جسٹس کھوسہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بھلے سے یہ اصول رومی قانون سے اخذ کیا گیا ہے لیکن پاکستانی عدلیہ کو اسے خود پر لازم کرلینا چاہیے۔اگر کوئی وکیل بھی جانتے بوجھتے اپنے مؤکل کی جھوٹی گواہی عدالت میں پیش کرتا ہے تو اس گھناؤنے عمل پر اسے بھی جھوٹی گواہی کی سزا ملنی چاہیے اور اس کا لائسنس منسوخ کردینا چاہیے۔ یہ وکیل کی ذمے داری ہے کہ اس کا مؤکل عدالت میں سچ بولے اور اگر ایسا نہیں کرتا اور مؤکل کی کذب بیانی میں وکیل بھی معاون ہے تو اسے بھی یکساں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا چاہیے۔
فیصلے کے دوسرے حصے میں ''ایک بات میں جھوٹ، سب باتوں میں جھوٹ'' کے اصول کو اسلامی قوانین اور قرآن حکیم کے بیان کردہ اصولوں پر زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس فیصلے میں قرآن کریم کی ایسی دس آیات بیان کی گئی ہیں جن میں گواہی دینے، سچی گواہی دینے اور گواہی دیتے ہوئے جھوٹ کو سچ سے خلط ملط نہ کرنے یا حقائق چھپانے کے بارے میں تنبیہ کی گئی ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسلام نہ صرف گواہی دینے کی ترغیب دیتا ہے بلکہ گواہی چھپانے کو بھی اسلام نے ناپسند کیا ہے۔ جھوٹی گواہی کئی برائیوں کی جڑ ہے، یہ حق کے خلاف باطل کی معاون ہے، نا انصافی کو فروغ دیتی ہے اور نظام انصاف کے خلاف بے چینی پیدا کرنے کا بنیادی سبب ہے۔
یہ معاشرے میں شفافیت اور مساوات کو متاثر کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں عوام کی سلامتی خطرے میں پڑجاتی ہے۔ فیصلے میں احادیث کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ جھوٹی گواہی رسول اکرم ﷺ کے بیان فرمائے گئے چار کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔ رومی قانون کا جو اصول بیان کیا گیا ہے ، قرآن کی سورۃ النور کی آیت نمبر 4 میں ہے۔ ''جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کرسکیں تو انھیں اسّی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں۔''
جھوٹی گواہی دینے والے کو نہ صرف بے اعتبار قرار دینا چاہیے، اسے سزا ملنی چاہیے بلکہ آیندہ اس کے گواہی دینے پر بھی پابندی ہونی چاہیے۔ عزت مآب چیف جسٹس نے اس عدالتی فیصلے میں دلائل سے یہ ثابت کردیا ہے کہ رومن اصول قانون اسلامی تعلیمات سے متصادم نہیں بلکہ ان کے عین مطابق ہے۔
اس تاریخی عدالتی فیصلے میں دلائل کا خلاصہ اس طرح بیان ہوا ہے '' آخر میں ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی عدالتی نظام بلاارادہ جھوٹی گواہی کی اجازت دیتا ہے تو وہ تباہ ہوجائے گا اور جو سماج اسے برداشت کرتا ہے وہ خود کو برباد کردے گا۔ سچ انصاف کی بنیاد ہے اور انصاف کسی بھی مہذب معاشرے کی بنیاد، پس اگر سچ پر کسی بھی طرح کا سمجھوتا کرلیا جائے تو یہ کسی بھی معاشرے میں انصاف، شفافیت اور تہذیب کے مستقبل پر سمجھوتا ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ یہ عدالتی فیصلہ یہ اصول قائم کرتا ہے کہ ''ایک بار جھوٹ، ہمیشہ جھوٹ'' کے اصول کو فوجداری مقدمات اور اصول قوانین کا لازمی حصہ قرار دیا جائے اور ملکی عدالتیں اس پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق عمل درآمد کریں۔ یہ ہدایت بھی دی جاتی ہے کہ عدالت کے روبرو پیش ہونے والا کوئی گواہ اگر ارادتاً کذب بیانی کا مرتکب پایا جائے تو ، بلا رو رعایت، جھوٹی گواہی کا ارتکاب کرنے پر اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔''
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
جھوٹی گواہی اور دروغ گوئی کرپشن کو بنیاد فراہم کرتی ہے اور بیماری کی طرح پاکستانی ریاست، ملکی اداروں اور افرادِ کار کو کھوکھلا کررہی ہے۔ جھوٹی گواہی ایک خوفناک جرم ہے، عدالت کو گمراہ کرنے والے عوام اور سماج کو انصاف فراہم کرنے والی عدالتوں اور قوانین کو بے مقصد بنا دیتے ہیں۔
عوام کو انصاف کی فراہمی کسی بھی ریاست کی بنیادی ترین ذمے داریوں میں شامل ہے۔ اگر انتظامی ادارے اور حکومت ہی کا اعتبار نہ رہے تو نہ صرف یہ انصاف فراہم کرنے کے قابل رہتے ہیں بلکہ ریاست اور پورے نظام کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ دیانت دار شہری بھی عدالتوں سے رجوع کرنے سے خوف زدہ ہوجاتے ہیں کیوں کہ انھیں یہ یقین ہوجاتا ہے کہ ان کی شنوائی نہیں ہوگی، عدالتوں سے انصاف نہیں ملے گا اور جرم کرنے والے بآسانی قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر صاف بچ نکلیں گے۔
عدالت میں جھوٹ بولنے کو پاکستانی قوانین قابل سزا جرم قرار دیتے ہیں، بدقسمتی سے عدالتوں میں تواتر سے جھوٹی گواہی کے واقعات ہوتے ہیں لیکن اس قانون پر شاذ و نادر ہی کبھی عمل درآمد ہوتا ہے۔ کذب بیانی کے اس چلن نے ہمارے نظام انصاف کو تباہ کردیا ہے۔ عدالتی نظام میں اصلاح کے لیے کذب بیانی اور جھوٹی گواہی کا خاتمہ ناگزیر ہوچکا ہے۔
موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب آصف سعید کھوسہ نے دو ماہ قبل جنوری 2018کو اپنا منصب سنبھالا اور جھوٹی گواہی کے خاتمے کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا۔ ایک حالیہ عدالتی فیصلے میں جھوٹی گواہی دینے والے کی نشان دہی ہوئی اور اس گواہی کی بنیاد پر جس ملزم کو سزا ہوئی تھی اسے رہا کردیا گیا۔جناب چیف جسٹس کھوسہ کی سربراہی میں مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ نے صراحت سے یہ بیان کیا کہ بنیادی قانونی اصول''ایک بات میں جھوٹ، سب باتوں میں جھوٹ'' کو پاکستانی عدالتی نظام میں ایک مرتبہ پھر متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔ عدالتی فیصلے میں اس بنیادی اصول کو برطانوی قوانین اور اسلامی قانون کے پیمانوں پر بھی پرکھا گیا ہے جو کہ ملکی عدالتی نظام کی بنیاد ہے۔
رومن قانون کے اس بنیادی اصول کے برصغیر میں اطلاق کی تاریخ بھی بیان کی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ ہندوستانی عدالتوں میں انیسویں صدی کے آغاز سے جھوٹی گواہیاں پیش کی جاتی رہی ہیں۔ جسٹس کھوسہ نے اس فیصلے اور ایک ہندوستانی جج نے 1945میں برصغیر میں جھوٹی گواہی کے اسباب سے متعلق لکھا''ان کے نزدیک عدالت ایک اجنبی ادارہ ہے، ایک سیکیولر ادارہ جو ان کی ذات، سماج اور دیہی ماحول سے الگ ایک جگہ ہے جہاں بے رحمی کے ساتھ بلاخوف کسی احساسِ پشیمانی کے بغیر سچ کا قتل کیا جاسکتا ہے۔''یہ انتہائی اہم نکتہ ہے اور اگر صورت حال اب بھی جوں کی توں ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ برطانیہ کی سامراجی حکومت میں اداروں سے اجنبیت کا احساس کسی حد تک قابل فہم ہے، لیکن لوگ آزاد پاکستان میں کیوں جھوٹ بول رہے ہیں اور وہ بھی ایک ایسے ملک میں جس کے لیے انھوں نے اور ان کے آباء نے جدوجہد کی۔ اگر عدالتوں سے اجنبیت اور بے گانگی کا یہ احساس اب بھی قائم ہے تو اس سے دو باتیں سامنے آتی ہیں۔
اول تو یہ کہ آج بھی ایسے لوگ پاکستان کی اپنی شناخت سے گہرا تعلق قائم نہیں کرسکے اور اسی طرح وہ قومی عدالتوں اور قوانین سے بھی بے گانہ ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہمارے لوگوں کے دماغ آزادی کے ستر برس گزر جانے کے بعد بھی نو آبادیاتی آسیب کے اثر سے نہیں نکلے۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی نکلتا ہے کہ پاکستان ایک آزاد قومی ریاست ہونے کے باوجود اس کا نظام سیاست، قوانین اور عدالتیں برطانوی ورثہ ہیں ، ہمارے لوگ آج تک جنھیں دل سے تسلیم نہیں کرسکے اور یہ پورا نظام ان کے لیے آج بھی اجنبی ہے۔ کیا اسی خیال کی بنا پر 1920 کی دہائی میں مولانا مودودی اور ان کے ساتھیوں نے ایک اسلامی ریاست کی ضرورت کے اسباب بیان کیے تھے، ایک ایسی ریاست جو صرف باہر سے آنے والے تصورات اور اصولوں ہی پر انحصار نہ کرتی ہو بلکہ اس کے اپنے بنیادی تصورات بھی ہوں، جنھیں مسلمان اپنانے اور تسلیم کرنے کے لیے بہ خوشی آمادہ ہوں۔
فاضل جج صاحبان نے عدالتوں میں جھوٹی گواہی کے اسباب بیان کرتے ہوئے پاکستان میں تیزی سے پھیلتے ہوئے بیرسٹرز کے طبقے کا بھی ذکر کیا ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ ''گواہ جج کے سامنے وکیل کے ذریعے پیش ہوتا ہے۔
اگر وہ(وکلا) جھوٹی گواہی یا کذب بیانی کو بہ رضا و رغب یا خاموش رضا مندی کے ساتھ، اپنی سہولت کے لیے یا ارادتاً برداشت کرتے ہوئے جھوٹے گواہ کو غلط حقائق پر مبنی بیان دینے دیتے ہیں تو جھوٹی گواہی کے لیے دروازے چوپٹ کھلے رہیں گے۔''تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جھوٹی گواہی کے خلاف قوانین کا استعمال ہی شاذ و نادر ہوتا ہے اور اگر ہو بھی تو کام یابی سے اس کے نفاذ کی بہت کم مثالیں ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کاذب اور جھوٹے گواہوں کے حوصلے پست نہیں ہوتے۔ اسی لیے جسٹس کھوسہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بھلے سے یہ اصول رومی قانون سے اخذ کیا گیا ہے لیکن پاکستانی عدلیہ کو اسے خود پر لازم کرلینا چاہیے۔اگر کوئی وکیل بھی جانتے بوجھتے اپنے مؤکل کی جھوٹی گواہی عدالت میں پیش کرتا ہے تو اس گھناؤنے عمل پر اسے بھی جھوٹی گواہی کی سزا ملنی چاہیے اور اس کا لائسنس منسوخ کردینا چاہیے۔ یہ وکیل کی ذمے داری ہے کہ اس کا مؤکل عدالت میں سچ بولے اور اگر ایسا نہیں کرتا اور مؤکل کی کذب بیانی میں وکیل بھی معاون ہے تو اسے بھی یکساں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا چاہیے۔
فیصلے کے دوسرے حصے میں ''ایک بات میں جھوٹ، سب باتوں میں جھوٹ'' کے اصول کو اسلامی قوانین اور قرآن حکیم کے بیان کردہ اصولوں پر زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس فیصلے میں قرآن کریم کی ایسی دس آیات بیان کی گئی ہیں جن میں گواہی دینے، سچی گواہی دینے اور گواہی دیتے ہوئے جھوٹ کو سچ سے خلط ملط نہ کرنے یا حقائق چھپانے کے بارے میں تنبیہ کی گئی ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسلام نہ صرف گواہی دینے کی ترغیب دیتا ہے بلکہ گواہی چھپانے کو بھی اسلام نے ناپسند کیا ہے۔ جھوٹی گواہی کئی برائیوں کی جڑ ہے، یہ حق کے خلاف باطل کی معاون ہے، نا انصافی کو فروغ دیتی ہے اور نظام انصاف کے خلاف بے چینی پیدا کرنے کا بنیادی سبب ہے۔
یہ معاشرے میں شفافیت اور مساوات کو متاثر کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں عوام کی سلامتی خطرے میں پڑجاتی ہے۔ فیصلے میں احادیث کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ جھوٹی گواہی رسول اکرم ﷺ کے بیان فرمائے گئے چار کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔ رومی قانون کا جو اصول بیان کیا گیا ہے ، قرآن کی سورۃ النور کی آیت نمبر 4 میں ہے۔ ''جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کرسکیں تو انھیں اسّی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں۔''
جھوٹی گواہی دینے والے کو نہ صرف بے اعتبار قرار دینا چاہیے، اسے سزا ملنی چاہیے بلکہ آیندہ اس کے گواہی دینے پر بھی پابندی ہونی چاہیے۔ عزت مآب چیف جسٹس نے اس عدالتی فیصلے میں دلائل سے یہ ثابت کردیا ہے کہ رومن اصول قانون اسلامی تعلیمات سے متصادم نہیں بلکہ ان کے عین مطابق ہے۔
اس تاریخی عدالتی فیصلے میں دلائل کا خلاصہ اس طرح بیان ہوا ہے '' آخر میں ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی عدالتی نظام بلاارادہ جھوٹی گواہی کی اجازت دیتا ہے تو وہ تباہ ہوجائے گا اور جو سماج اسے برداشت کرتا ہے وہ خود کو برباد کردے گا۔ سچ انصاف کی بنیاد ہے اور انصاف کسی بھی مہذب معاشرے کی بنیاد، پس اگر سچ پر کسی بھی طرح کا سمجھوتا کرلیا جائے تو یہ کسی بھی معاشرے میں انصاف، شفافیت اور تہذیب کے مستقبل پر سمجھوتا ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ یہ عدالتی فیصلہ یہ اصول قائم کرتا ہے کہ ''ایک بار جھوٹ، ہمیشہ جھوٹ'' کے اصول کو فوجداری مقدمات اور اصول قوانین کا لازمی حصہ قرار دیا جائے اور ملکی عدالتیں اس پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق عمل درآمد کریں۔ یہ ہدایت بھی دی جاتی ہے کہ عدالت کے روبرو پیش ہونے والا کوئی گواہ اگر ارادتاً کذب بیانی کا مرتکب پایا جائے تو ، بلا رو رعایت، جھوٹی گواہی کا ارتکاب کرنے پر اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔''
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)