گداگری نہیں گدھاگری

پاکستان میں کوئی شعبہ ترقی کرے یا نہ کرے لیکن گدھے وافر مقدار میں پاکستان میں موجود ہیں


خطیب احمد April 02, 2019
پاکستان دنیا میں گدھوں کی تعداد کے حوالے سے تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہنر میں بھی مشقت کے مدارج طے کرنے کے بعد انسان کو مہارت حاصل ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اعتماد اور پختگی بھی حاصل ہوتی رہتی ہے۔ دل کو بوجھل کردینے والا ایک خیال ستا رہا تھا کہ ملک میں گداگری کا پیشہ اس قدر فروغ پارہا ہے، تو اس پر بھی کچھ قلم آزمائی کی جاۓ۔

ابھی کچھ عرصے پہلے اس بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک ایک خبر پڑھی، جس میں ایک سیاسی جماعت نے اسمبلی میں ایک قرارداد جمع کرائی۔ ویسے تو اسمبلی میں جو قراردادیں پیش کی جاتی ہیں، وہ قانون سازی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی نیا قانون بنایا جاتا ہے تو اس پر اراکین اسمبلی کی منظوری بعد ہی عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ ہمارے ہاں سرے سے ہی عمل کرنے والا عنصر نہیں ہے۔ بات ہورہی تھی قرارداد کی، جوکہ اسمبلی میں حکومت کو مبارکباد دینے کی غرض سے طنزیہ طور پر جمع کروائی گئی تھی۔ جس کا متن تھا کہ پاکستان میں کوئی شعبہ ترقی کرے یا نہ کرے لیکن گدھے وافر مقدار میں پاکستان میں موجود ہیں۔

جب یہ قرارداد اسمبلی میں پیش کی گئی، تو یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ جبکہ قرارداد کے متن کے مطابق پاکستان دنیا میں گدھوں کی تعداد کے حوالے سے تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ ملک میں اس وقت 53 لاکھ گدھے پائے جاتے ہیں۔ جبکہ محکمہ لائیو اسٹاک پنجاب نے بتایا کہ صوبائی دارالحکومت لاہور میں گدھوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے اور لاہور شہر میں گدھوں کی تعداد اس وقت تقریباً 41 ہزار سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔

یہ وہ واحد ترقی ہے، جس پر رویا جائے یا ہنسا جائے، یہ کہنا تو مشکل ہے، البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان ترقی کر رہا ہے۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ لاہور کے حوالے سے تو سوشل میڈیا پر اس قدر مذاق بنایا جاتا ہے کہ لاہور کی بریانی گدھوں کی ہوتی ہے۔ اگر یہ بریانی گدھوں کی ہوتی تو گدھوں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہوتا؟ گدھوں کی تعداد میں کمی واقع ہونی چاہیے تھی۔

خیر اب یہ سفید خاکستری رنگ کا جانور، جو گھوڑے سے بھی چھوٹا ہوتا ہے، بے چارہ صرف بوجھ لادنے کے کام آتا ہے۔ ہمارے ہاں گدھے جیسے معصوم محنتی جانور سے محنت و مشقت کروائی جاتی ہے اور اس جانور کو ہم ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کے لیے بطور طعنہ بھی استعمال کرتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ معصوم جانور انسان کے کام تو آتا ہے مگر انسان اس پر سوار ہونے میں جھجھکتا ہے۔ اکثر شادیوں پر بھی دلہا گھوڑے پر سوار ہوتا ہے، اگر گدھے پر سوار ہوجائے گا تو لڑکی والوں کو پہچاننے میں دشواری ہوگی کہ دلہا کون سا ہے، کیونکہ دونوں ہی سج سنور کے آتے ہیں۔

ویسے تو ہمارے سیاستدان بھی ان گدھوں کی مانند ہیں۔ کیونکہ گدھوں کی خوبی یہ بھی ہے کہ جب بھی بولتے ہیں "ڈھینچوں ڈھینچوں" ہی بولتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہمارے سیاستدان کوئی بھی کام عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں کرتے بلکہ اپنے مفاد کے لیے کرتے ہیں۔ عوام ان کے ہاتھوں پس رہے ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ گدھوں کی اقسام میں تفریق کرنا سیکھ لیں، کیونکہ یہ دو ٹانگوں والے بھی ہوتے ہیں۔ البتہ ابھی گدھوں کی تعداد میں ہمارے ملک کا تیسرا نمبر ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو ایسے گدھوں کی تعداد مزید بڑھ گئی، تو ہمارے ملک کا گدھاگری میں اول نمبر ہوگا۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں