تنقید کا نشہ

افسوس یہ نظام تنقید کی بیساکھیوں پر کھڑا ہے اور بحیثیت قوم ہم آؤٹ ریج پورن کے عادی ہوتے جارہے ہیں


نادیہ مرتضیٰ April 03, 2019
تنقید کرنا، سننا اور پڑھنا ایک نشہ ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

امریکی مصنف ڈیل کارنیگی نے 1936 میں آسانیاں بانٹنے، اثرورسوخ پیدا کرنے اور دوست بنانے کے چند اصول وضع کیے۔ How to win friends and influence people ایک کروڑ پچاس لاکھ کاپیوں کی اشاعت کے بعد اس زمانے کی بیسٹ سیلر، یعنی خوب خریدی جانی والی کتاب تھی۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ مصنف نے اصول وضع کرنے کے ساتھ ان اصولوں پر قائم کامیاب شخصیات سے متعلق چند واقعات بھی تحریر کیے ہیں۔

کتاب کا پہلا اصول ہے تنقید، مذمت اور شکایت سے پرہیز کیا جائے۔ 1863 میں ابراہم لنکن ''گیٹیزبرگ'' کے محاذ پرتھا۔ فتح قریب تھی۔ دوسرے فریق کے قدم اکھڑ چکے تھے اور ان کے پاس بھاگنے کا کوئی راستہ بھی موجود نہ تھا۔ ایک طرف ناقابل عبور پوٹومیک دریا اور دوسری طرف لنکن کی فوج تھی۔ لنکن اپنے حریف کی بے بسی بھانپ گیا اور اپنے جرنیل کو بذریعہ ٹیلی گراف حکم صادر کیا کہ دشمن کو موقع پر قتل کردیا جائے اور یہ آرڈر کونسل آف وار کے علم میں نہ لایا جائے۔ جرنیل نے حکم عدولی کرتے ہوئے دشمن کے بحفاظت دریا عبور کرنے کا انتظار کیا۔ ابراہم لنکن نے جرنیل کو اپنی فتح کا یہ آخری معرکہ سرانجام دینے کے سنہری موقع کو ضائع کرنے پرتضحیک آمیز خط لکھا۔ مگر کچھ عرصے بعد معلوم ہوا وہ خط کبھی ارسال ہی نہیں ہوا۔ لنکن نے اپنے غصے پر قابو پاکر تحمل سے سوچا، اتنے دن کے قتل وغارت کو قریب سے دیکھ کر، اگر وہ خود بھی میدان جنگ میں موجود ہوتا تو یہی کرتا، جو جرنیل نے کیا۔ یہ واقعہ مذکورہ کتاب سے اقتباس ہے۔

گویا جہاں تنقید کا عنصر آگیا، وہاں اثر ورسوخ جاتا رہا اور تمام تر توانائی و کارکردگی کے بجائے اپنے دفاع اور الزام تراشی پر صرف ہوجاتی ہے۔ اور لنکن یہ نہیں چاہتا تھا، اسے اپنے جرنیل کی ابھی مزید ضرورت تھی۔

ہمارے سیاسی، ریاستی نظام کا بھی یہی المیہ ہے کہ ملوکیت سے بچ بچا کر، جو کبھی جمہوریت نے دریا عبور بھی کیا، تو کھرے اورکھوٹے کو پرکھنے کا عدم توازن لے ڈوبا۔ بی بی کی پہلی حکومت پر کرپشن چارجز، ایوان میں گو بابا گو کے نعرے، زرداری ٹین پرسنٹ کا لقب، دس سال جیل۔ نہ ایک پیسہ وصول ہوا، نہ حکومت نے مددت پوری کی۔ میاں صاحب کی حکومت آئی، یہی عمل پھر دہرایا گیا اور یہی ناکامی پھر نواز حکومت نے دیکھی۔ جمہوریت کے داعیوں نے ہی جمہوری حکومتوں کو مددت پوری کیے بغیر گھر بھیجا۔

سیاست کا دوسرا نام ہی لعن طعن، تضحیک اور لعنت ملامت بن گیا۔ باقی تمام ادارے بھی تنقید کے ایسے اسیر ہوئے کہ فرق کرنا مشکل ہوگیا۔ اداروں کی ذمے داریاں آخر ہیں کیا؟ عسکری قیادت کے لیے سیاستدان بلڈی سویلین، اور عدلیہ کے لیے گاڈ فادر ٹھہرے۔ سانحہ تو یہ ہوا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے ریمارکس، جو اخبارات کی شاہ سرخیاں بنے، منتخب نمائدوں کی تضحیک، تنقید، مذمت اور نظام سے شکایت پر مبنی تھے۔ ''سیِسلین مافیا، چور، بدعنوان، کرپٹ، ہم وزیراعظم سے خوش نہیں''۔ ان ریمارکس نے عدالتوں کو بھی متنازع بنایا اور ملک کی لوٹی ہوئی دولت کی ایک پائی بھی وصول نہیں ہوئی۔

تحریک انصاف نے اپنی تمام تر توانائی اپنی حریف جماعتوں کی تنقید پر صرف کردی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سلیکٹڈ یا الیکٹڈ حکومت تو بنالی، مگر معاشی اور داخلی پالیسی کا ہوم ورک ہی مکمل نہیں تھا۔ میٹرو بس اور خادم اعلیٰ کے ترقیاتی کاموں پر تنقیدی جنازے دھوم سے نکالے گئے مگر تحریک انصاف کی حکومت پشاور میں بس ریپڈ ٹرانزٹ کا ایک منصوبہ بھی مکمل نہیں کرپائی۔

باقی رہا ریاست کا چوتھا ستون میڈیا... تو کوئی بھی پروگرام اٹھا کر دیکھ لیجئے، ممکن ہی نہیں اینکر زوردار آواز میں چیختا دھاڑتا ہوا کسی ایک سیاسی جماعت کی پگڑی نہ اچھالے ۔ پولررائزڈ میڈیا شام سات بجے سے رات 12 بجے تک پررگراموں میں خوب دھلائی کی نوکری بخوبی سرانجام دیتا ہے ۔

آج کل سب سے زیادہ تنقید کی زد میں ان ہی سیاسی جماعتوں کا بنایا ہوا ادارہ 'نیب' ہے، جس کے قوانین پر آج بھی کوئی جماعت کام کرنے کو تیار نہیں۔ مگر اس کی سبکی جاری ہے۔

ڈیل کارنیگی کی ماہرانہ رائے میں یہ بات تو ثابت ہے کہ تنقید کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ البتہ جدید سائیکولوجیکل ریسرچ بتاتی ہے کہ تنقید کرنا، سننا اور پڑھنا ایک نشہ ہے، جو انسانی ذہن کو سکون فراہم کرتا ہے۔ اسے سائنسی اصطلاح میں ''آؤٹ ریج پورن'' کہتے ہیں۔ افسوس یہ نظام تنقید کی بیساکھیوں پر کھڑا ہے اور بحیثیت قوم ہم آؤٹ ریج پورن کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔