ذاتی ذمے داری مسائل کا تدارک ہے

بیماریاں ہماری خوشحالی کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہیں۔

shabnumg@yahoo.com

کوئی زمانہ تھا سنتے تھے کہ انسان موسموں کی طرح بدل جاتے ہیں۔ آج کل صورتحال یہ ہے کہ سننے میں آرہا ہے کہ موسم اب انسانوں کی طرح غیر یقینی ہوچلے ہیں۔ گزشتہ سال ان دنوں سخت گرمی پڑ رہی تھی جب کہ آج کل موسم کبھی ٹھنڈا توکسی وقت انتہائی گرم ہو جاتا ہے۔ صبح یا رات کے وقت سردی محسوس ہونے لگتی ہے، لیکن موسم کا مزاج یکساں نہیں رہتا، جب بگڑا تو قہر آلود گرمی پڑنے لگے گی۔

سرد گرم موسم کی وجہ سے لوگوں کوکئی عارضے لاحق ہوچکے ہیں۔ ای۔این ٹی اسپیشلسٹ کا کاروبار خوب چمک رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ خود اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے اور نہ ہی ہمیں بدلتے ہوئے وقت کے تقاضے کے مطابق چلنا آتا ہے۔ ہماری قوم کبھی گھوسٹ کلچر میں الجھ جاتی ہے توکبھی گوسپ پروگرامز یا کالمز میں مگن وخوش دکھائی دیتی ہے۔ جناب Gossip یعنی افواہ جو انگریزی زبان کا لفظ ہے مگر یہ لفظ ہمارے معاشرے کی خوب ترجمانی کرتا ہے۔ جیسے دوسرے لفظ تشکیل پائے ویسے یہ لفظ بھی وجود میں آیا ہوگا، مگر اب یہ قومی مزاج بن چکا ہے۔ لہٰذا ہم حقیقی مسائل سے کافی دورہوچکے ہیں جن میں گلوبل وارمنگ بھی شامل ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں تیزی سے وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔

کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جو فوری طور پر حل طلب سمجھے جاتے ہیں۔ جس میں روزمرہ کے معاملات شامل ہیں۔ آج کی دنیا میں جو موضوعات اہم سمجھے جاتے ہیں ان میں ماحولیاتی آلودگی وصحت سرفہرست ہیں۔ جس طرح جنگوں میں سب سے زیادہ عورتیں متاثر ہوتی ہیں۔ بالکل اسی طرح ماحولیاتی تبدیلیاں عورتوں کے لیے نئے جوکھم و مسائل لے کر آتی ہیں۔

عورتوں کے ہاتھوں میں پورے گھرکی صحت ہوتی ہے۔ موسموں کے زیر اثر جب وبائی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں تو براہ راست عورتیں متاثر ہوتی ہیں۔ ان کی ذمے داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ معاشی مسائل کو بھگتنے کے ساتھ انھیں کنبے کی صحت کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے۔گھرکی دیکھ بھال کرنے والی ماؤں کا ذہنی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔

موجودہ دور میں عورتوں کو اپنی ذمے داری سمجھ لینی چاہیے کہ وہ کس طرح آگ کی طرح دہکتے ہوئے کرہ ارض میں، اپنی نسلوں کی نگہبانی کریں گی۔ سوشل میڈیا ایک بہترین حل کے طور پر موجود ہے۔ جس کے توسط سے لوگوں کو آگہی دی جاسکتی ہے، جائز مسائل زیر بحث لاکر، حل ڈھونڈا جاسکتا ہے مگر آج کل فیس بک خود نمائی اور ستائشی رویوں کی جنت بنا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کو باہم معلومات فراہم کرنے کے لیے استعمال کرکے انسانی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب چند دنوں میں گرمی کی شدید لہر اٹھے گی یا بارشوں کے سلسلے شروع ہوجائیں گے تو ہمیں کس طرح خود کو اور تمام گھرکو بیماریوں سے تحفظ فراہم کرنا ہے؟

ہماری بہنیں یہ کام بخوبی کرسکتی ہیں، مگر انھیں اپنی ذمے داری سے آگاہ کرنا پڑے گا۔ اول تو وہ خود پرسکون رہیں اورگھرکے تمام افراد کو سانس لینے کے لیے کھلی فضا فراہم کریں۔ دوسرے الفاظ میں ذہنی آسودگی فراہم کریں۔ وہ گھر کے افراد کو پیش نظر ماحولیاتی خطرات سے آگاہ کرکے اپنی ذمے داری نبھانے کے لیے راہ ہموار کرسکتی ہیں۔ نئی روایت کو متعارف کروانے کے لیے یا کسی تبدیلی کی خاطر خود میں صبر و برداشت کا ہونا نہایت ہی ضروری ہے۔ اب کرنا کیا ہے یہ بھی طے کر لیجیے۔ گلوبل وارمنگ کا سامنا کرنے کے لیے پودے و درخت زیادہ سے زیادہ لگانے چاہئیں۔ سبزہ ماحولیاتی آلودگی سے لڑسکتا ہے۔


سبزہ گرمی کوکم کرنے کے ساتھ انسانی مزاج کو بھی معتدل رکھتا ہے۔ گرمیوں میں معتدل اور ٹھنڈی غذا کا انتخاب آدھے مسئلے کو حل کردیتا ہے۔ اس وقت انسانی صحت کو سب سے بڑا خطرہ باہرکے کھانوں سے ہے۔ باہر جو بھی غذا فراہم کی جاتی ہے وہ غیر فطری اورغیر معیاری ہے۔ انتخاب کا حق آپ کے پاس ہے کہ محض ذائقے کی خاطر خطرات مول لیے جائیں یا گھر میں سادہ غذا سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔ گرمیوں میں مرغن غذاؤں کو خیرباد کہہ کر سبزیوں، پھلوں اور دالوں کو روز مرہ کی غذا کا حصہ بنا لینا چاہیے۔ اگر ہم صحت بخش غذا کا صحیح انتخاب کرلیں تو علاج کا معاشی دباؤکم ہوسکتا ہے۔

بیماریاں ہماری خوشحالی کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہیں۔ موجودہ دور میں ذہنی آلودگی سے تو خطرہ اپنی جگہ برقرار ہے اور رہے گا مگر فطرت نے جس طرح انسان سے بدلہ لینے کا عہد کرلیا ہے وہ اس صدی کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ زمین پر انسان کی بقا کا مسئلہ ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ انسان نے فلاحی رویے کم تشکیل دیے مگر ہتھیار زیادہ بنائے ہیں۔ محبتیں بانٹنے کے بجائے نفرت کو منافع بخش کاروبار سمجھ کر تفریق و تعصب کو فروغ دیا ہے۔ انسان چاند کو تسخیر کرلے یا سائنسی طور پرکوئی بڑا کارنامہ کیوں نہ سرانجام دے ڈالے، مگر اسے فطرت سے چھیڑ چھاڑکرنے کے جرم کی پاداش میں سزا کے لیے بھی تیار ہونا پڑے گا۔

آج صورتحال یہ ہے کہ زیادہ پیسہ کمانے کے چکر میں زیادہ سے زیادہ جنگلات کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پانچ سال کے لیے انسانی صحت کو لاحق ماحولیاتی خطرات کے پیش نظر حکمت عملی جوڑ لی ہے۔ جس میں تین بلین لوگوں کو صحت کا تحفظ فراہم کیا جائے گا ۔ علاوہ ازیں صحت ایمرجنسی اور صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

موجودہ وقت میں ناقص غذا سب سے بڑا چیلنج ہے ناقص غذا کی وجہ سے کچھ خاندان شدید متاثر ہوئے۔ ہوٹل کے کھانے سے والدین و بچوں کی اموات کے بعد پاکستان فوڈ اتھارٹی نے ملک بھر میں ہوٹلز اور ریسٹورنٹس کی چیکنگ شروع کردی ہے۔ سندھ فوڈ اتھارٹی نے حیدرآباد اورکراچی میں کافی ریسٹورنٹس پر جرمانے عائد کردیے ہیں۔ ان چھاپوں کے دوران کئی تلخ حقائق سامنے آئے ہیں جو انتہائی افسوسناک ہیں۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ ہوٹلز پر کھانا کھانے والوں کا ہے۔ جس میں ملازمت پیشہ خواتین بھی شامل ہیں، جو گھر میں کھانا پکانے کے بجائے باہر سے کھانا منگا کر خاندان بھر کی صحت کو داؤ پر لگادیتی ہیں۔ باہر کا کھانا مضر صحت ہے۔ اس غذا کا بائیکاٹ کردیں۔

ہمارے ہاں تین وقت کے کھانے کا تصور موجود ہے۔ آج کل تو گھروں سے لے کر آفسز تک میں باہر سے لنچ منگوانے کا سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔ آپ لنچ گھر سے لے کر جائیں یا فروٹ پر گزارا کرلیں۔ جدید تحقیق کے مطابق ناشتہ اچھا کرنا چاہیے۔ اس کے بعد رات کا کھانا سات بجے تک کھا لینا چاہیے۔ دوپہر میں صحت بخش غذا لی جاسکتی ہے جیسے بوائل چنے، دہی، فروٹ یا سلاد وغیرہ۔ دوپہر کا نامعقول کھانا کھا کر اگر دل کی بیماریاں، بلڈ پریشر یا یرقان ہوجائے تو خوشحالی تو رخصت ہوگئی گھر سے۔

تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی فارماسوٹیکل انڈسٹری دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ جس کی وجہ ادویات کا بے جا استعمال ہے۔ خاص طور پر نیند اور سکون بخش ادویات زیادہ خریدی جاتی ہیں۔ الرجی یا کھانسی کی ٹیبلٹ شربت دوسرے نمبر پر ہیں جن میں نیند لانے کے اجزا شامل ہیں۔ آپ نسخے کے بغیر کسی بھی میڈیکل اسٹور سے یہ دوائیں حاصل کرسکتے ہیں۔

اس سال شدید گرمی پڑے گی لہٰذا گرمی سے مقابلے کا پلان ابھی سے بنائیے۔ تین مہینے کے اس پلان میں صاف پانی، چھتریاں، رومال، سادہ غذا ، اچھی نیند اور چہل قدمی بھی شامل کرلیجیے۔
Load Next Story