بڑے بول

مشاہدہ ہے کہ انسان عام طور پر لاف زنی یا بڑے بول اس وقت بولتا ہے جب اس کی کوئی حیثیت یا پوزیشن مستحکم ہوتی ہے۔


شاہد سردار March 31, 2019

حضرت علیؓ کا شہرہ آفاق قول ہے کہ ہر انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ایک مسلمہ امر ہے کہ دنیا میں سب سے بڑا فاتح وہی ہے جو زبان کے سرکش گھوڑے کو سدھارنے میں کامیاب ہوجائے۔ ویسے بھی ہر شعبہ ہائے زندگی سے منسلک افراد کے لیے الفاظ کا چناؤ یا انتخاب نہایت اہم ہوتا ہے مگر قیادت کی تنی ہوئی رسی پر چلنے والوں کے لیے تو الفاظ کے انتخاب کی اہمیت حد درجہ بڑھ جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سیاست کے پرخار راستے پر چلنے والوں کو پہلا سبق یہی دیا جاتا ہے کہ زبان کے سرکش گھوڑے کی لگام ڈھیلی نہ ہونے دی جائے۔ جس طرح جنگ میں گھوڑے کو بے لگام چھوڑ دینے والا سوار عبرتناک شکست کے نزدیک ہوجاتا ہے، اسی طرح سیاست کے میدان میں وہ شہسوار منہ کے بل گرتا ہے جو زبان کے گھوڑے کی طنابیں ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے۔

ویسے بھی زیرک یا فہمیدہ سیاستدانوں کا یہ وصف ہوتا ہے کہ وہ کم بولتے ہیں، جہاں ایک لفظ سے کام چلتا ہو وہاں جملہ ضایع نہیں کرتے اور جہاں ایک فقرے سے ضرورت پوری ہوجائے، وہاں تقریرکرنے کی حماقت نہیں کرتے۔ ویسے بھی انسان کوئی بھی ہو کیسا ہی کیوں نہ ہو، اس کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو وہ خود تو مر جاتا ہے لیکن اس کے الفاظ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

مشاہدہ ہے کہ انسان عام طور پر لاف زنی یا بڑے بول اس وقت بولتا ہے جب اس کی کوئی حیثیت یا پوزیشن مستحکم ہوتی ہے اور پھر یہ ایک ناقابل تردید حقیقت بھی ہے کہ شہرت، دولت اور طاقت جب کسی ایک وجود میں سما جائے تو نتیجہ اس کی بالآخر تباہی اور بربادی کے سوا اورکچھ نہیں نکلتا۔ اس لیے دولت، طاقت اور شہرت کو تین سگی بہنوں سے بھی تعبیرکیا گیا ہے جس طرح ہمارے مذہب میں جیتے جی دو سگی بہنوں سے کوئی شخص شادی نہیں کرسکتا، اسی طرح جب کوئی انسان دولت، شہرت اور طاقت کو اپنی بیوی بنانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی بربادی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، اس لیے کہ یہ تینوں ایک دوسرے کی خوفناک دشمن بھی ہیں اور یہ کسی ایک ذات، ایک گھر میں اکٹھی نہیں رہ سکتیں اور اس آفاقی حقیقت سے بھی کوئی انکاری نہیں ہوسکتا کہ غرور اور تکبرکو اللہ کبھی پسند نہیں کرتا۔

انسانی فطرت یہ بھی ہے کہ اسے ملنے والی کامیابی کو وہ اپنی ذاتی کوشش سمجھتا ہے اور یہ احساس ہی اس کے اندر غرور، تکبر یا ''بڑے بول'' پیدا کرتا ہے اور یہیں سے انسان کی خرابی اور اس کے زوال کا آغاز ہوتا ہے۔ ایک توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ ہرکامیاب انسان آخر میں تنہا کیوں ہوجاتا ہے؟ اس کی وجہ اس کا غرور اور تکبر ہوتا ہے دوسری کوئی چیز نہیں ۔ فرعون اور نمرود کو دیکھ لیں یہ دونوں انتہائی درجے کے ذہین ، فطین اور باصلاحیت حکمران تھے لیکن غرور اور تکبر نے دونوں کو نیست و نابود کردیا۔

ذوالفقار علی بھٹو ملکی اور بین الاقوامی افق کے ایک ذہین اور شاطر سیاستدان تھے اور اپنے مقاصد کی راہ تراشنے کا فن ان پر ختم تھا انھوں نے صدر پاکستان اسکندر مرزا کو قائد اعظم سے بھی بڑا لیڈر قرار دیا تھا اور اپنے مطلب کے لیے بھٹو نے جنرل ایوب خان کو ''ڈیڈی'' بنالیا تھا، بعد ازاں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کامیابیوں اور دراز سیاسی قد نے انھیں غرور میں مبتلا کردیا تھا، اگرچہ بھٹو اپنے الفاظ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے مگر ان کے چند جملے آج بھی ان کا تعاقب کرتے نظر آتے ہیں۔

انھوں نے ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلائے جانے پر دھمکی دی کہ ''جس نے اس اجلاس میں شرکت کی میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔'' بھٹو کا ایک اور بڑا بول یا لاف زنی کے معیار پر پورا اترنے والا سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے جملہ ''اُدھر تم اِدھر ہم'' لاکھ وضاحتوں کے باوجود ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ یہی نہیں بھٹو نے ایک بار جذبات کی روانی میں یہ کہا تھا کہ ''اگر مجھے قتل کیا گیا تو ہمالیہ خون کے آنسو روئے گا۔'' مگر ایسا نہ ہوا۔مرد مومن مرد حق کا خود ساختہ نعرہ لگوانے والے جنرل ضیا الحق نے کہا تھا کہ ''پاکستان کا آئین ہے کیا چیز؟

چند صفحات کی ایک دستاویز جسے میں جب چاہوں پھاڑکر پھینک دوں۔'' ضیا الحق خود دنیا سے جس طرح گئے وہ سبھی جانتے ہیں مگر ان کا یہ جملہ آج بھی سوہان روح بنا ہوا پاکستان کی تاریخ میں رقم ہے۔پرویز مشرف کے دور میں بلوچوں سے بہت ناانصافیاں ہوئیں، کئی آپریشن ہوئے لیکن ان کا ایک جملہ اس دور میں بارود سے زیادہ مہلک ثابت ہوا کہ ''یہ سترکی دہائی نہیں کہ یہ لوگ پہاڑوں پر چڑھ جائیں گے، ہم انھیں وہاں سے ماریں گے جہاں سے انھیں پتا بھی نہیں چلے گا۔''آصف زرداری کا شمار پاکستان کے زیرک سیاستدانوں میں باآسانی کیا جاسکتا ہے بالخصوص ڈرائنگ روم سیاست میں انھیں ملکہ حاصل ہے۔ آصف زرداری نے مشکل اور نازک دور میں زبان بندی اور خاموشی کو اپنی طاقت بنایا اور لب کشائی کے معاملے میں ہمیشہ بہت محتاط رہے۔

جب سیاسی مخالفین کی کڑوی کسیلی باتوں کا حوالہ دیا جاتا تو وہ کوئی جواب دینے کے بجائے بات کو ہنس کر ٹال دیتے۔ لیکن ججوں کی بحالی سے متعلق ان کے منہ سے ایک جملہ نہ جانے کیسے نکل کر تاریخ میں انمٹ ہوگیا کہ ''وعدے قرآن وحدیث نہیں ہوتے۔'' آصف زرداری کا ''اینٹ سے اینٹ بجا دینے'' والا جملہ جس کے لیے انھوں نے استعمال کیا اس نے ایک زمانے میں انھیں خود ساختہ جلاوطنی پر مجبورکردیا تھا۔ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم جب سیاسی افق پر تیزی سے نمایاں ہو رہے تھے تو اپنے بہت زیادہ بولنے کے حوالے سے ملکی سیاست میں ''بہت بڑی تبدیلی'' کا پیش خیمہ بن گئے تھے۔ جی ہاں عمران خان وزیر اعظم بننے سے پہلے بڑی بڑی معتبر شخصیات کو ''اوئے'' کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔

شیخ رشید کے بارے میں ان کا کہا گیا ایک جملہ تاریخ کے صفحات میں درج ہے نہ مٹنے والی سیاہی سے کہ ''میں اسے تو اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں'' لیکن وہی شیخ رشید ان کی کابینہ میں ریلوے کے وزیر ہیں ۔ اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ دنیا میں تکبر، بڑے بول، لاف زنی یا بڑبولے پن کی سب سے بڑی شکل ''سیلف میڈ'' اور ''میں'' میں پنہاں ہے۔ جب بھی کوئی خاکی انسان اپنے آپ کو عقل کل (سبھی کچھ) اور اپنے عروج کو اپنی وجہ کہتا یا سمجھتا ہے تو وہ نہ صرف اللہ کی قدرت اور فطرت کی نفی کرتا ہے بلکہ وہ ان تمام انسانوں کے احساسات اور مہربانیوں کو بھی روند ڈالتا ہے جنھوں نے اس کی کامیابی میں مرکزی کردار ادا کیا تھا، اور یہی دنیا کا بدترین تکبر ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔