علمی و فکری میلہ کی پذیرائی

لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں اب علمی اور فکری میلوں یا مجالس کا اہتمام بہت زور شور سے دیکھنے کو مل رہا ہے

salmanabidpk@gmail.com

کسی بھی معاشرے کاحسن اس کا علمی و فکری اثاثہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ کام اسی صورت میں ہوتا ہے جب ریاست، حکومت، ادارے اور رائے عامہ بنانے والے افراد اورادارے مل کر علمی اور فکری ماحول کو پیدا کرنے اوراسے مضبوط بنانے میں اپنا اپنا موثر کردار ادا کرتے ہیں ۔

علمی اور فکری ماحول لوگوں کو سیکھنے، سکھانے، ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے سمیت معاشرے میں ایک متبادل فکری سوچ کو بالادستی دیتی ہے۔ معاشرے کی اصل ضرورت دنیا میں ہونے والی نئی نئی تبدیلیوں سے آگاہی اور اپنے لیے ترقی کا راستہ تلاش کرنے سے جڑی ہوتی ہے ۔یہ کام ایک بڑی فکری اور مالی سرمایہ کاری سے ہی ممکن ہوتا ہے اوراس کام کا تجزیہ کرتے وقت ہم قومی سطح پر اپنی ترجیحات کا تعین بھی کرسکتے ہیں کہ ہم عملی طور پر کہاں کھڑے ہیں۔

پاکستان کے بڑے شہروں بالخصوص لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں اب علمی اور فکری میلوں یا مجالس کا اہتمام بہت زور شور سے دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یہ ایک اچھی کوشش ہے اورجو لوگ بھی ایسی کوششوں کا حصہ ہیں ہمیں ہر سطح پر اس کی پذیرائی کرنی چاہیے ۔ اس کا اہتمام چھوٹے شہروں میں بھی کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ وہاں بھی ایسا شاندار صلاحیتوں پر مبنی علمی و فکری اثاثہ موجود ہے جسے سب کے سامنے پیش بھی کیا جانا چاہیے اور وہاں کی نئی نسل کو سیکھنے کے مواقع بھی ملنے چاہییں۔اس جمود کو توڑنا ہوگا کہ یہ فکری و علمی میلے محض بڑے شہروں تک کا کھیل ہے اور اس کو دیگر شہروں تک جوڑنا منتظمین کا ایجنڈا نہیں۔

پچھلے دنوں لاہورمیں مینجمنٹ ہاؤس کے سربراہ اعجاز نثار اور ان کی ٹیم کی سربراہی میں ایک تین روزہ Learn Fest 2109 کا اہمتام کیا گیا جو 22 -24 مارچ کو لاہور میں منعقد ہوا۔ اعجاز نثار ایک بہت قابل اور باصلاحیت شخصیت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں کچھ کرنے کا جنون اور شوق بھی رکھتے ہیں۔ خاص طورپر ان کی خواہش ہے کہ وہ نئی نسل میں سیکھنے اور سکھانے کے ماحول کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرکے ایک ایسا علمی ماحول پیدا کرسکیں جو نئی نسل کو آگے بڑھنے کے لیے درست سمت ، سوچ اور فکر فراہم کرسکے۔ وہ معاشرے کے پڑھے لکھے کامیاب افراد جن کا تعلق مختلف شعبوں سے ہے ان کے درمیان اور نئی نسل کے درمیان ایک مکالمہ کی مدد سے سیکھنے اورسکھانے کے کلچر کو پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔ اسی سوچ کی بنیاد پر انھوں نے لاہور میں مینجمنٹ ہاؤس کی بنیاد رکھی اور وہاں موجود ماحول خود اس کی بھرپور عکاسی کرتا ہے کہ نئی نسل اس اہم ادارے اور وہاں موجود افراد سے کئی حوالوں سے استفادہ کر سکتی ہے۔

اس تین روزہ فیسٹیول میں ایک ہی وقت میں مختلف فورمز پر مختلف ماہرین اور سننے والوں کا اکٹھا ہونا اور تجربات کی تقسیم کے ساتھ ساتھ مکالمہ کی مدد سے اپنا اپنا نکتہ نظر پیش کرنا کمال کا کام تھا۔ مختلف ہالز اور رومز میں مختلف ماہرین نے بہت سے موضوعات پر مجالس کو سجا رکھا تھا۔ علم ، ادب ، کلچر، کاروبار، انسانی ترقی ، کامیابی کی راہیں ، میڈیا ، معاشیات، سماج ، سفرنامہ ،ماحولیات، زندگی میں آسانیاں پیدا کرنا ، تربیت کا عمل ، اچھا لکھاری بننے کا عمل ، شوق مطالعہ ، خواتین اور بچوں کے مسائل ، تحقیقی عمل ، امن رواداری کا کلچر، فلم ، ڈرامہ ، شاعری، فلسفہ جیسے اہم معاملات پر فکری نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ محض مکالمہ یا بات چیت ہی نہیں تھی بلکہ مختلف فلموں کو دکھا کر بھی بحث و مباحثہ کی فکر کو آگے بڑھایا گیا۔ ان نشستوں میں بڑے بڑے کاروباری شخصیات کی موجودگی اور اپنی کامیابی کے تجربات کو پیش کرنے کا عمل بھی نئی نسل کو بہت کچھ سیکھنے کا باعث بنا۔


سب سے اچھی بات یہ لگی کہ اس میں نئی نسل کے لوگوں کی بھرپور شمولیت تھی جو اس بات کا احساس دیتی تھی کہ اگر نئی نسل کے لوگوں کو زیادہ اچھے مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ ان سے سیکھنے کے لیے تیار ہیں۔ خاص طور پر لڑکیوں کی موثر شرکت سے بھی خوشی ہوئی کیونکہ لڑکیوں کی موثر شمولیت اور ترقی کے عمل میں ان کو شامل کیے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی کے اصل اہداف کو حاصل نہیں کر سکتا۔ مینجمنٹ ہاؤس اور اعجاز نثار کا کمال یہ ہے کہ وہ اس میلہ سے ہٹ کر پاکستان کی قومی ترقی اور اس میں مثبت عمل کی مدد سے انسانی وسائل کو بنیاد بنا کر ایک بڑا ماڈل رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ہم محض ملک میں اور باہر کے تجربات کو بنیاد بنا کر ہی اپنے ایجنڈے کو ترتیب دے کر ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کا اظہارکر کے عملی اقدامات پر توجہ دیں تو ہم بہت بہتر نتائج جلد حاصل کر سکتے ہیں۔

علمی اور فکری مباحثوں کی اہم خوبی اس کا ماحول ہوتا ہے۔ کیونکہ جتنا زیادہ دوستانہ ماحول ہوگا اتنا ہی لوگ ایک دوسرے کے سے بغیر کسی خوف کے سیکھ سکتے ہیں۔ یہاں LearnFestکی قیادت اورٹیم کو مبارکباد دینی ہوگی کہ جن میںعلی عباس ، ماریہ توقیر، اظہر وڑائچ، نعمان، حسین، مناہل اور فرحین شامل تھے۔کیونکہ ا س ٹیم نے جس انداز سے سب کو معاونت فراہم کی وہ قابل قدر ہے ۔چھوٹے چھوٹے گروپس میں مختلف لوگوں کا بیٹھنا اور مستقبل کی پیش بندی کرنا اورنئی نئی فکر کو بنیاد بنا کر کچھ نیا پن تلاش کرنے کا عمل واقعی ہمیں بہت کچھ سیکھنے میں مدد دیتا ہے۔ کیونکہ اب واقعی سیکھنے کے لیے ہمیں بھی جدید طور طریقوں کو بنیاد بنا کر روائتی طریقوں سے جان چھڑانی ہوگی ۔

اس تین روزہ علمی میلہ میں فلم کو دکھانا اورٖپھر اس کے بعد اس پر بات چیت کا ماحول بہت جاندار تھا اورفلم یا ڈرامہ کی مدد سے آگاہی اورنئی نئی بحثوں کو جنم دینا اوربچوں میں مثبت اورتنقید ی پہلووں کو اجاگر کرنے کی کوشش واقعی ہمیں امن اور رواداری پر مبنی معاشرے کی طرف لے جانے میں مدد فراہم کرے گی۔ خود والدین کو بھی سیکھنا ہوگا کہ وہ محض بچو ں پر امتحانات، نصابی کتابوں، ٹیوشن کا بوجھ ڈالنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کریں یا ان پر زور دیں کہ وہ اپنی تعلیمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں اور اس طرح کے علمی و فکری میلوں کا حصہ بن کر اپنے اندر قائدانہ صلاحیتوں کو اجاگر کریں ۔تعلیمی ادارے اس عمل میںآگے بڑھیں اور ایسے سیکھنے کے ماحول کو بنیاد بنا کر نئی نسل کو بہتر مواقع فراہم کریں ۔

اعجاز نثار اور ان کی ٹیم کو چاہیے کہ وہ اس علمی او رفکری عمل کو محض ایک یا دو میلوں تک محدود نہ رکھیں بلکہ اس میں ایسا تسلسل پیدا کریں کہ وہ تمام ادارے جو انسانی شخصیت سازی ، تربیت ، ترقی کے عمل میں شریک ہیں ان کے ساتھ مل کر ایک ایسی مہم کو چلائیں جو واقعی نئی نسل کو انفرادی عمل کے ساتھ ساتھ اجتماعی عمل کا حصہ بنائے ۔ کیونکہ ہمارے ملک کو نئی نسل کے ایسے سفیر درکار ہیں جو مختلف شعبوں میں نہ صرف ذاتی ترقی کریں بلکہ ان کی ترقی کا عمل ملک کو بھی فائدہ پہنچاسکے ۔

یہ جو نئی نسل میں گھٹن، بے چینی ، اضطرابیت اور مایوسی سمیت ذہنی دباو کا عمل ہے اس کو ختم کرنا اور ان میں مثبت سوچ اور فکر کو اجاگر کرنا واقعی ایک بڑا ایجنڈا ہونا چاہیے۔خاص طو رپر ہم نئی نسل میں کیسے رواداری پر مبنی کلچر، سوچ اورفکر کو پیدا کرنے اورمعاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی سمیت ایک دوسرے کو قبولیت نہ کرنے کے عمل کو روک سکیں تو اس سے ہم ایک مہذہب اور ذمے دار معاشرے کی فکر کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔

وہ تمام ادارے جو انسانی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں ان کو اس مینجمنٹ ہاوس سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔اسی طرح اگر اعجاز نثار اپنی ان سرگرمیوں میں تسلسل پیدا کر سکیں اور ایک ایسا ماہرین کا پول بنانے میں کامیاب ہو جائیں جو مختلف شعبوں میں اپنی اپنی مہارتوں کو بنیاد بنا کر دوسروں کے ساتھ تبادلہ کرنے کے لیے تیار ہوں تو اس سے بڑی کوئی خدمت نہیں ہو گی۔ اس تین روزہ عملی میلہ نے اس تاثر کی بھی نفی کی کہ یہاں کوئی ٹیلنٹ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ اس نئی نسل کو ٹیلنٹ کو مواقع او رماحول کی فراہمی کا ہے۔کیونکہ اگر ایک اچھے ماحول کو بنیاد بناکچھ کرنے کا موقع ملے تو یہ ہی نسل قومی ترقی کے دھارے میں تیزی لاسکتی ہے ۔ویسے بھی ہمارا مستقبل اسی نئی نسل سے جڑا ہوا ہے اوران ہی کو قومی دھارے میںلانا ہماری ضرورت ہے اور یہ ہماراایجنڈا ہونا چاہیے۔
Load Next Story