اللہ بے نیاز ہے

بے شمار لوگ آسمان پر چڑھے تھے وقت آنے پر نشان ِ عبرت بنا دئے گئے۔

h.sethi@hotmail.com

آج سے پندرہ سال قبل میری طرف سے لاہور جمخانہ کلب میں گولف کھیلنے کی دعوت پر دیا ہوا ایک کاروباری شخص کا جواب میرے ذہن میں اکثر گونجتا رہتا ہے لیکن ان سے دوبارہ ملاقات نہیں ہوئی ۔

اب ذرا تھوڑا سا موجودہ حالات پر بات ہوجائے، موجودہ اور ان سے پہلے چیف جسٹس دونوں کی قابلیت اور شہرت کا تو ہر شخص معترف ہے، یہ الگ بات کہ پہلے جج صاحب کو ایوان عدل سے باہر موجود برائیوں اور خامیوں کا نوٹس بھی لینا پڑا لیکن موجودہ چیف صاحب اندر کی کمزوریوں پر توجہ دینا اولین ترجیح سمجھتے ہیں جب کہ اکثریت کے نزدیک ملکی حالات دونوں کی سوچ کو اکٹھا کریں تو تقاضائے وقت قرار پاتا ہے البتہ دونوں ملکی حالات اور افراد کے اندر سرائیت ہو چکی خرابیوں کے اخراج و تدارک پر متفق پائے جاتے ہیں۔

جب سے ہمارے آج کل کے نوجوانوں نے ہوش سنبھالا ہے وہ اداروں کو مسلسل پامال اور بدحال ہوتے دیکھ کر فرار کے رستے تلاش کرتے دیکھے جا سکتے ہیں،کئی اس کوشش میں کامیاب ہو جاتے جب کہ بہت سے ناکام اور مشکلات سے دوچار ہونے کے بعد جرائم پیشہ کے ہاتھ لگ کر اپنی، خاندان کی اور معاشرے کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں اگر کسی ملک کے حکمران شہریوں اور جوان ہوتی نسل کے لیے قابل ِ تقلید مثالیں چھوڑیں تو ملک اور وہاں کا معاشرہ دنیا کی تاریخ اور اقوام ِ عالم میں محبت ، عزت اور قدر کی جگہ پاتا ہے لیکن اگر حکمرانوں کا کردار شرمناک گھٹیا ، مجرمانہ اور برائیوںو گندگیوں سے متعفن ہو تو اس ملک اور قوم کو تباہی و بربادی کے گڑھے کی طرف سرکتے دیکھا جا سکتا ہے تب صرف ایک مسیحا کے لیے دست ِ دُعا اُٹھانے اور اس کی قبولیت کی گنجائش رہ جاتی ہے۔ شکر ہے کہ ابھی ہمارا سرکنا شروع ہوا ہے گرے نہیں ہیں۔

ملک میں اندرون خانہ تین بڑے سیاسی گروہ ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں، پہلے واقعی ایسا تھا اور ہے بھی لیکن پھر دو گروپوں نے مصلحتاً گٹھ جوڑکر کے تیسرے یعنی اقتدار پر قابض گروہ کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے، اور اس کی کوشش ہے کہ کسی طرح برسراقتدار گروہ کو اقتدار سے باہر نکال دیا جائے اور اپنے آپ کو الزامات سے بری الذمے قرار دلوا دیا جائے جب کہ برسراقتدار گروپ اپنے طور پر اپنے مخالفین پر تابڑتوڑ حملے کر رہا ہے اور انھیں کرپشن کرنے والے قرار دے رہا ہے۔


اب یہ سارے ایک دوسرے کے خلاف ہرزہ سرائی اور الزامات لگانے میں مصروف ملک کی خاموش اکثریت کو تماشہ دکھانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور پوائنٹ اسکورنگ کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ عوام حیرانی سے انھیں یہ سب کچھ کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں لیکن وہ بے بس ہیں اور انھیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کریں۔ ویسے بھی ہر چیز کی حد ہوتی ہے، عوام کی ضرورت ہے تعلیم، صحت، روزگار، تفریح، خوراک یعنی روٹی ،کپڑا اور مکان ۔ انھیں انھی چیزوں سے دلچسپی ہے اور انھیں وہی حکمران اچھا لگے گا جو ان کی ضروریات پوری کرے گا۔

حکمران PTI سیاسی گروپ کو تو ہر صورت ملک کا پہیہ چلانا ہے لیکن ان کے مخالف گروپ حکمران ٹولے کی بد اعمالیوں کو بے نقاب کرنے میں مصروف ہیں حکمران گروپ مصر ہے کہ دونوں سابق حکمران گروپ یا سیاسی پارٹیاں دراصل اپنی کرپشن کے پینڈورا باکسز کو کھلنے سے بچانے کے لیے واویلہ کرتے ہوئے عوام کی توجہ ان تفتیشوں اور مقدمات کی طرف سے ہٹانے کا کھیل کھیل رہی ہیں، مقام ِ افسوس ہے کہ متعلقہ پراسیکیوشن والے محکموں اور عدالتی تاخیر کی وجہ سے عوام بے یقینی کی کیفیت سے دوچار سچ کا سورج دیکھنے کے لیے بیتاب ہیں۔ کہتے ہیں Justical Delayed is justice denied امید ہے، عدلیہ کے سربراہ اپنی جدوجہد اور Vision میں کامیاب ہو کر ملک و قوم کو اس گو مگوں کی کیفیت سے جلد نکال کر ایک مثال قائم کر جائیں گے۔

دنیا کے بہت سے حکمرانوں کے انجام کی روداد سے تاریخ کے صفحات بھرے ملتے ہیں لیکن گزشتہ 72 سال کی ہمارے ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ کرپشن میں لتھڑے حکمران آزاد پائے جاتے ہیں لیکن ہو نہیں سکتا کہ ان کا انجام بخیر ہو کیونکہ مشیت ِ ایزدی یہی ہے کئی ایک جگہ تو انسانوں کی اگلی نسل اپنے بڑوں کی نیکیوں اور بدیوں کا صلہ پاتی ہے۔

کالم کے شروع میں ذکر ہوا تھا ایک سخی سیٹھ کا ۔ پندرہ سال قبل گورنر ہاوس لاہور میں ایک تقریب کے بعد چائے پر گفتگو ہوئی جس کے اختتام پر میں نے موصوف کو لاہور جمخانہ کلب میں گولف کھیلنے کی دعوت دیے ڈالی تو اس نے مجھے انگریزی میں یہ جواب دیا کہ Sethi Sahib I don't play Golf, I play with money" اس روز تو میں جواب سن کر کچھ سمجھ نہ سکا تھا لیکن پندرہ سال تک ان کے کاروبار نے جو ترقی کی ، اس پر انگشت بدنداں رہ جاتا ہوں یا کبھی تصور میں سمندر کے پانیوں کی مدو جذر پر غور کرتاہوں اور پھر خدا کی قدرت و عنایات پر کہ وہ لوگوں کو کہاں سے اُٹھانے اور پھر کہاں لا گرانے پر قادر ہے۔

بے شمار لوگ آسمان پر چڑھے تھے وقت آنے پر نشان ِ عبرت بنا دئے گئے اور کئی ایسے جو ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے لیکن عالمگیر شہرت پا گئے۔ پروفیسر عبدالسلام کے والد محمد حسین انسپکٹر آف اسکولز کے دفتر میں بحیثیت کلرک بھرتی ہو کر ہیڈ کلرک ملازمت سے ریٹائر ہوئے، سارا عرصہ ملازمت اردو میں دستخط کرتے رہے، ان کا ایک ٹوٹا پھوٹا گھر تھا جب کہ اس کا مکین Nobel Laureate بنا۔ ادھر وہ سیٹھ جس کا پندرہ سال قبل ایک گولفر کو دیا ہوا جو اب اب تک صحیح معلوم ہوتا ہے کہ وہ گالف نہیں پیسے سے کھیلتا ہے، بے شک اﷲ بڑا بے نیاز ہے۔
Load Next Story