پاکستان کا نیوزی لینڈ
ہمیں سب سے پہلے انسان بننا ہے اور اگر ہم انسان ہی نہ بن پائے تو باقی سارے بھیس اپنی معانی کھو بیٹھتے ہیں۔
یہ ہندو لڑکیاں جوابھی بالغ بھی نہیں ہوتیں، کیسے ہمارے مذہب کی سب باتیں سمجھ جاتی ہیں اور پھر مسلمان بن جاتی ہیں۔کوئی ہندو لڑکا ایسے کیوں نہیں کرتا یا پھر ادھیڑعمرکی ہندو عورت یا بوڑھا مرد ؟ اور اگر ایسا ہوتا بھی ہے تویہ صرف سندھ میں ہی کیوں ہوتا ہے، جہاں پیر ہیں، سید ، وڈیرے ہیں یا پھر ان کے مزارعے ہیں مرید ہیں اور ان کے عقیدت مند ہیں ۔ ہزاروں سالوں کی تاریخ میں کتنے سارے مذہب یہاں آئے ۔
بدھوں سے پہلے یہاں کی اکثریت کا مذہب یہاں جین مت تھا ، ان کے قدیم مندر اب بھی آپ کو تھر میں ملیں گے ، مگر جین مذہب کا ایک بھی پیروکار نہیں۔ جب راجا داہرکے اجداد کشمیر سے یہاں پہنچے تو بدھوں کا دور حکومت تھا، ان کو شکست تو دی مگر اکثریت یہاں بدھوں کی تھی اور ہندو اقلیت میں تھے ۔ پھر جب محمد بن قاسم نے اروڑ میں جو راجا داہرکی سلطنت کا دارالسلطنت تھا ، اس کو شکست دی تو یہاں کی اکثریت کا مذہب ہندو مت تھا ۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے سندھ کے بادشاہ اہل تشیع تھے جب کہ اکثریت سنّی مسلمانوں کی اور ساتھ ساتھ ہندو بھی یکساں اکثریت میں تھے۔
1947 تک یہاں کراچی میں یہودیوں کی بھی بستیاں تھیں اور وہ امن سے رہتے تھے۔ ہمارے سندھ کے ہندو گرو نانک کو بہت مانتے ہیں،ان کے مجسمے اپنے مندروں میں رکھتے ہیں ۔ شیر باز مزاری اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ جب رنجیت سنگھ نے ڈیرہ غازی خان پر حملہ کیا تو خیرپور ریاست کی دیواریں ہلنے لگیں ۔ ہندو رنجیت سنگھ کی دربار پہنچے کہ تالپور حکمراں نے ان کا جینا حرام کیا ہے۔
رنجیت سنگھ نے دھمکی دے بھیجی توخیر پور ریاست کے حکمران تو سدھرگئے جب کہ حیدرآباد جو مجموعی سندھ کا دارالخلافہ تھا وہ نہیں ۔ بلآخر سندھ میں نائو مل نامی جو بہت بڑے کراچی کے بیوپاری تھے اس نے چارلس نیپیئر سے مل کر، تالپوروں کا صفایا کیا۔ سندھ میں اس کو اسی طرح غدار مانا جاتا ہے جس طرح بنگال میں میر جعفر جس نے پلاسی کی جنگ میں نواب سراج الدولہ کو دھوکا دے کے انگریزوں سے گٹھ جوڑکیا، لیکن نائومل نے یہ غداری کیوں کی کوئی نائومل کی زبانی بھی سنے۔
یہ وہی تضادات تھے جس نے صوفی ازم کو جنم دیا، اتنی گہری چھاپ ہے ، اس کی شاید ہی پاکستان کے کسی اورجگہ ہو ۔ صوفی ازم کا محور انسانیت تھا ، محبت، امن آشتی تھا ۔ مسلمانوں میں یہ صوفی تحریک تھی تو ہندوؤں میں بھگتی تحریک۔ ادھر کبیر تھا تو ادھر بلھا، باہو ، لطیف ، سچل اور سامی تھے ،ادھر فارس میں صوفی مزاج نے رومی، جامی ، حافظ و شیراز جیسی سوچیں پیدا کی ۔ ایک عشق تھا اور دوسری طریقت اور دونوں آپس میں ٹکرا گئے ۔
صوفی شاعروں نے ملا اور قاضی کو نشانہ بنایا کیونکہ وہ بادشاہ کے دربار کا حصہ تھے اور انھوں نے صوفیوں کو نہ چھوڑا۔ سندھ میں ایک صوفی تھے مخدوم بلاول ، ارغونوں کا سندھ میں دور حکومت تھا۔ ٹھٹھہ ان کا دارالخلافہ تھا ۔ مخدوم بلاول پر اسی طرح کی تہمت لگی جو دہلی کے مست سرمد پر لگی تھی یا جوبغداد میں منصور حلاج پر لگی تھی۔ کہتے ہیں کہ فتویٰ والوں نے اسے تیل کی چکی میں زندہ پیس دیا اور مخدوم اسی چکی میں جاتے ہوئے بھی حق ، حق، حق کے نعرے بلند کرتا رہا ۔ یہ وہی سندھ کی سرزمین ہے جہاں دہلی کے تخت کے حقیقی وارث دارہ شکوہ نے پناہ لی تھی ۔ یہیں سے اسے گرفتارکیا گیا تھا ۔
اور پھر سندھ کے ایک عظیم صوفی شاہ عنایت صوفی بھی تھے۔ ٹھٹھہ کے نواح میں آباد تھے ۔ یہ برصغیر کا پہلا کمیون تھا ۔ جہاں سب کچھ اس کی بنائی چھوٹی ریاست کا تھا۔ اس شخص پر حیدر آباد دکن و میسور کے باغیوں کا بڑا اثر تھا اور وہ یہاں اس کی چھوٹی سی ریاست میں ساتھ رہتے تھے جہاںپر نہ کوئی امیر تھا نہ کوئی غریب اور نہ ہی کسی کو ذاتی ملکیت رکھنے کا حق تھا ۔ جس کا اصول تھا کہ جو زمین بوئے گا فصل اس کی ہوگی ۔ سندھ پر دہلی کا راج تھا ۔کلہوڑو گورنر تھے ، شاہ عنایت نے دہلی اور اس کے گورنرکو ٹیکس دینے سے انکارکردیا۔ اس نے اپنی فوج بھی بنائی تھی اور اس طرح دہلی کی فوج سے جنگ ہوئی سیکڑوں صوفی فقیر شاہ عنایت کے شہید ہوگئے اور وہ خود بھی لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔
اکبر اعظم جس نے برصغیرکی کایا پلٹی۔ ہندو اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا ۔کہیں اور نہیں بلکہ تھر کے علاقے عمرکوٹ میں پیدا ہوا ۔ جب ہمایوں کو دہلی میں شکست ہوئی تو راجپوتوں نے اسے راجھستان اور سندھ میں پناہ دی ۔ بادشاہ بنا تو اس نے اسی راجپوتوں کی لڑکی جودھا بائی سے شادی کی ، جس نے اکبرکی سیکولر سوچ پرگہرے نقوش چھوڑے۔
سندھ اب بھی ان ہی تضادات اور افکار کے ساتھ اپنے ارتقا کے زینے چڑھ رہا ہے ۔ بہت ہی محبت والی،آشتی والی صوفیوں کی دھرتی سندھ جیسی زمین شاید کوئی اور پاکستان میں نہ ہوگی ۔ ہماری ثقافت کے بہت قریب سرائیکی وسیب کے لوگ ہیں ، صوفی تھے ، بلھے ، باہوکے پیروکاروں میں سے تھے ۔
اب نیوزی لینڈ سے جو ہوا کا جھونکا چلا ہے، 9/11 کے بعد جو نفرتوں کی لہر چلی تھی اور پھر پوری مغربی دنیا وامریکا میں جو مسلمانوں کے خلاف جو نفرت کے بیج بوئے گئے،اس وقت ان کو شکست ملی جب 51 مسلمان شہید ہوئے کرائسٹ چرچ کی مسجد میں ۔ نیوزی لینڈ کے شہری چونک گئے، ان کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن نے مسلمانوں کا لباس اوڑہ لیا اور نقاب اپنے چہرے پر رکھ دیا۔ سب نے جوش میں آکرکہا کہ ہم مسلمان ہیں ۔ انھوں نے اذانیں دینا شروع کردیں۔ اینکروں نے اپنے پروگراموں میں حجاب و نقاب پہنے۔ پارلیمنٹ کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ یہ وہی فیس بک تھا جس نے مسجد میں حملہ کرنے والے دہشت گرد کو براہ راست مناظر پر لائیو دکھایا ، اسی فیس بک پر، پوری دنیا کے میڈیا میں جیسنڈا آرڈن یوں سرخرو ہوئیں جس طرح طالبان کے خلاف قلم کی نوک سے لڑنے والی ملالہ ہوئی تھی۔
میرا سندھ بالکل اسی طرح کا تھا اور آج بھی ہے ۔ یہ دو چار زبردستی بچوں کے مذہب تبدیل کرکے ہندو جو سندھ میں رہتے ہیں ان کی تذلیل نہیں کی جا سکتی ہے۔
یہ کہنا کہ ان لڑکیوں نے خود اپنی مرضی سے پسند کی شادی کی ہے۔ مکمل جواب نہیں، سوال یہ ہے کہ کیوں ہر سال ایسا واقعہ گھوٹکی کے پاس ہوتا ہے ۔ ہمارے سادہو فقیر منش بھگت کنورکا قتل 1939 میں ہوا۔ ذمے دارون کا حوالہ سندھ کی تاریخ میں درج ہے۔
سندھ پاکستان کا قلعہ ہے جس نے واپس اسی ملک کو اسی جگہ لے کر آنا ہے جہاں سے محبت، امن وآشتی کا پیغام پھر سے ایک بار پورے پاکستان میں ابھرے گا۔ پاکستان کو سندھ نے بنایا اور اس قائد اعظم کے پاکستان کی حفاظت بھی سندھ کرے گا۔ ہمیں اپنے ملک میں بستی اقلیتوں کو اعتماد دینا ہے اور جو ان کے حقوق آئین میں واضح ہیں وہ دینے پڑیں گے ۔ قطع نظر اس کے ہندوستان میں جو مسلمانوں کے ساتھ ظلم وزیادتی روا ہے وہ مقبوضہ کشمیر ہو یا ہندوستان کا مسلمان شہری۔
یہ صرف گھوٹکی ضلع کی دو ہندو لڑکیاں نہیں ہیں۔ ایک مینگھواڑ ہے تھرکی اور ایک لکشمی باگڑی جس کا کیس میں نے سندھ ہائی کورٹ میں داخل کیا ہے۔
خان صاحب سے پہلے کسی بھی وزیر اعظم نے اس طرح اس ظلم پر نوٹس نہیں لیا تھا جس طرح انھوں نے لیا ہے۔ یہ نوٹس ہماری اقلیتوں کا اعتماد بحال کرے گا اور جس طرح پنجاب کے وزیر اطلاعات کو تبدیل کیا گیا اس لیے کہ اس نے ہماری ہندوکمیونٹی کے بارے میں تعصب آمیز بیان دیا۔
ہمیں سب سے پہلے انسان بننا ہے اور اگر ہم انسان ہی نہ بن پائے تو باقی سارے بھیس اپنی معانی کھو بیٹھتے ہیں۔ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اچھے بھی ہیں اور برے بھی ۔ ہر ایک کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ جس طرح ہندوستان کے سکھوں کے لیے یہاں کرتار پور ہے اسی طرح ہندوستان میں رہتے سندھی ہندوؤں کے لیے اڈیرو لال میں، جھولے لعل ہے ۔ ایک چھت کے نیچے مسجد بھی ہے تو مندر بھی ۔اس کے مرید ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ لکم دینکم ولی دین ۔
بدھوں سے پہلے یہاں کی اکثریت کا مذہب یہاں جین مت تھا ، ان کے قدیم مندر اب بھی آپ کو تھر میں ملیں گے ، مگر جین مذہب کا ایک بھی پیروکار نہیں۔ جب راجا داہرکے اجداد کشمیر سے یہاں پہنچے تو بدھوں کا دور حکومت تھا، ان کو شکست تو دی مگر اکثریت یہاں بدھوں کی تھی اور ہندو اقلیت میں تھے ۔ پھر جب محمد بن قاسم نے اروڑ میں جو راجا داہرکی سلطنت کا دارالسلطنت تھا ، اس کو شکست دی تو یہاں کی اکثریت کا مذہب ہندو مت تھا ۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے سندھ کے بادشاہ اہل تشیع تھے جب کہ اکثریت سنّی مسلمانوں کی اور ساتھ ساتھ ہندو بھی یکساں اکثریت میں تھے۔
1947 تک یہاں کراچی میں یہودیوں کی بھی بستیاں تھیں اور وہ امن سے رہتے تھے۔ ہمارے سندھ کے ہندو گرو نانک کو بہت مانتے ہیں،ان کے مجسمے اپنے مندروں میں رکھتے ہیں ۔ شیر باز مزاری اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ جب رنجیت سنگھ نے ڈیرہ غازی خان پر حملہ کیا تو خیرپور ریاست کی دیواریں ہلنے لگیں ۔ ہندو رنجیت سنگھ کی دربار پہنچے کہ تالپور حکمراں نے ان کا جینا حرام کیا ہے۔
رنجیت سنگھ نے دھمکی دے بھیجی توخیر پور ریاست کے حکمران تو سدھرگئے جب کہ حیدرآباد جو مجموعی سندھ کا دارالخلافہ تھا وہ نہیں ۔ بلآخر سندھ میں نائو مل نامی جو بہت بڑے کراچی کے بیوپاری تھے اس نے چارلس نیپیئر سے مل کر، تالپوروں کا صفایا کیا۔ سندھ میں اس کو اسی طرح غدار مانا جاتا ہے جس طرح بنگال میں میر جعفر جس نے پلاسی کی جنگ میں نواب سراج الدولہ کو دھوکا دے کے انگریزوں سے گٹھ جوڑکیا، لیکن نائومل نے یہ غداری کیوں کی کوئی نائومل کی زبانی بھی سنے۔
یہ وہی تضادات تھے جس نے صوفی ازم کو جنم دیا، اتنی گہری چھاپ ہے ، اس کی شاید ہی پاکستان کے کسی اورجگہ ہو ۔ صوفی ازم کا محور انسانیت تھا ، محبت، امن آشتی تھا ۔ مسلمانوں میں یہ صوفی تحریک تھی تو ہندوؤں میں بھگتی تحریک۔ ادھر کبیر تھا تو ادھر بلھا، باہو ، لطیف ، سچل اور سامی تھے ،ادھر فارس میں صوفی مزاج نے رومی، جامی ، حافظ و شیراز جیسی سوچیں پیدا کی ۔ ایک عشق تھا اور دوسری طریقت اور دونوں آپس میں ٹکرا گئے ۔
صوفی شاعروں نے ملا اور قاضی کو نشانہ بنایا کیونکہ وہ بادشاہ کے دربار کا حصہ تھے اور انھوں نے صوفیوں کو نہ چھوڑا۔ سندھ میں ایک صوفی تھے مخدوم بلاول ، ارغونوں کا سندھ میں دور حکومت تھا۔ ٹھٹھہ ان کا دارالخلافہ تھا ۔ مخدوم بلاول پر اسی طرح کی تہمت لگی جو دہلی کے مست سرمد پر لگی تھی یا جوبغداد میں منصور حلاج پر لگی تھی۔ کہتے ہیں کہ فتویٰ والوں نے اسے تیل کی چکی میں زندہ پیس دیا اور مخدوم اسی چکی میں جاتے ہوئے بھی حق ، حق، حق کے نعرے بلند کرتا رہا ۔ یہ وہی سندھ کی سرزمین ہے جہاں دہلی کے تخت کے حقیقی وارث دارہ شکوہ نے پناہ لی تھی ۔ یہیں سے اسے گرفتارکیا گیا تھا ۔
اور پھر سندھ کے ایک عظیم صوفی شاہ عنایت صوفی بھی تھے۔ ٹھٹھہ کے نواح میں آباد تھے ۔ یہ برصغیر کا پہلا کمیون تھا ۔ جہاں سب کچھ اس کی بنائی چھوٹی ریاست کا تھا۔ اس شخص پر حیدر آباد دکن و میسور کے باغیوں کا بڑا اثر تھا اور وہ یہاں اس کی چھوٹی سی ریاست میں ساتھ رہتے تھے جہاںپر نہ کوئی امیر تھا نہ کوئی غریب اور نہ ہی کسی کو ذاتی ملکیت رکھنے کا حق تھا ۔ جس کا اصول تھا کہ جو زمین بوئے گا فصل اس کی ہوگی ۔ سندھ پر دہلی کا راج تھا ۔کلہوڑو گورنر تھے ، شاہ عنایت نے دہلی اور اس کے گورنرکو ٹیکس دینے سے انکارکردیا۔ اس نے اپنی فوج بھی بنائی تھی اور اس طرح دہلی کی فوج سے جنگ ہوئی سیکڑوں صوفی فقیر شاہ عنایت کے شہید ہوگئے اور وہ خود بھی لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔
اکبر اعظم جس نے برصغیرکی کایا پلٹی۔ ہندو اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا ۔کہیں اور نہیں بلکہ تھر کے علاقے عمرکوٹ میں پیدا ہوا ۔ جب ہمایوں کو دہلی میں شکست ہوئی تو راجپوتوں نے اسے راجھستان اور سندھ میں پناہ دی ۔ بادشاہ بنا تو اس نے اسی راجپوتوں کی لڑکی جودھا بائی سے شادی کی ، جس نے اکبرکی سیکولر سوچ پرگہرے نقوش چھوڑے۔
سندھ اب بھی ان ہی تضادات اور افکار کے ساتھ اپنے ارتقا کے زینے چڑھ رہا ہے ۔ بہت ہی محبت والی،آشتی والی صوفیوں کی دھرتی سندھ جیسی زمین شاید کوئی اور پاکستان میں نہ ہوگی ۔ ہماری ثقافت کے بہت قریب سرائیکی وسیب کے لوگ ہیں ، صوفی تھے ، بلھے ، باہوکے پیروکاروں میں سے تھے ۔
اب نیوزی لینڈ سے جو ہوا کا جھونکا چلا ہے، 9/11 کے بعد جو نفرتوں کی لہر چلی تھی اور پھر پوری مغربی دنیا وامریکا میں جو مسلمانوں کے خلاف جو نفرت کے بیج بوئے گئے،اس وقت ان کو شکست ملی جب 51 مسلمان شہید ہوئے کرائسٹ چرچ کی مسجد میں ۔ نیوزی لینڈ کے شہری چونک گئے، ان کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن نے مسلمانوں کا لباس اوڑہ لیا اور نقاب اپنے چہرے پر رکھ دیا۔ سب نے جوش میں آکرکہا کہ ہم مسلمان ہیں ۔ انھوں نے اذانیں دینا شروع کردیں۔ اینکروں نے اپنے پروگراموں میں حجاب و نقاب پہنے۔ پارلیمنٹ کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ یہ وہی فیس بک تھا جس نے مسجد میں حملہ کرنے والے دہشت گرد کو براہ راست مناظر پر لائیو دکھایا ، اسی فیس بک پر، پوری دنیا کے میڈیا میں جیسنڈا آرڈن یوں سرخرو ہوئیں جس طرح طالبان کے خلاف قلم کی نوک سے لڑنے والی ملالہ ہوئی تھی۔
میرا سندھ بالکل اسی طرح کا تھا اور آج بھی ہے ۔ یہ دو چار زبردستی بچوں کے مذہب تبدیل کرکے ہندو جو سندھ میں رہتے ہیں ان کی تذلیل نہیں کی جا سکتی ہے۔
یہ کہنا کہ ان لڑکیوں نے خود اپنی مرضی سے پسند کی شادی کی ہے۔ مکمل جواب نہیں، سوال یہ ہے کہ کیوں ہر سال ایسا واقعہ گھوٹکی کے پاس ہوتا ہے ۔ ہمارے سادہو فقیر منش بھگت کنورکا قتل 1939 میں ہوا۔ ذمے دارون کا حوالہ سندھ کی تاریخ میں درج ہے۔
سندھ پاکستان کا قلعہ ہے جس نے واپس اسی ملک کو اسی جگہ لے کر آنا ہے جہاں سے محبت، امن وآشتی کا پیغام پھر سے ایک بار پورے پاکستان میں ابھرے گا۔ پاکستان کو سندھ نے بنایا اور اس قائد اعظم کے پاکستان کی حفاظت بھی سندھ کرے گا۔ ہمیں اپنے ملک میں بستی اقلیتوں کو اعتماد دینا ہے اور جو ان کے حقوق آئین میں واضح ہیں وہ دینے پڑیں گے ۔ قطع نظر اس کے ہندوستان میں جو مسلمانوں کے ساتھ ظلم وزیادتی روا ہے وہ مقبوضہ کشمیر ہو یا ہندوستان کا مسلمان شہری۔
یہ صرف گھوٹکی ضلع کی دو ہندو لڑکیاں نہیں ہیں۔ ایک مینگھواڑ ہے تھرکی اور ایک لکشمی باگڑی جس کا کیس میں نے سندھ ہائی کورٹ میں داخل کیا ہے۔
خان صاحب سے پہلے کسی بھی وزیر اعظم نے اس طرح اس ظلم پر نوٹس نہیں لیا تھا جس طرح انھوں نے لیا ہے۔ یہ نوٹس ہماری اقلیتوں کا اعتماد بحال کرے گا اور جس طرح پنجاب کے وزیر اطلاعات کو تبدیل کیا گیا اس لیے کہ اس نے ہماری ہندوکمیونٹی کے بارے میں تعصب آمیز بیان دیا۔
ہمیں سب سے پہلے انسان بننا ہے اور اگر ہم انسان ہی نہ بن پائے تو باقی سارے بھیس اپنی معانی کھو بیٹھتے ہیں۔ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اچھے بھی ہیں اور برے بھی ۔ ہر ایک کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ جس طرح ہندوستان کے سکھوں کے لیے یہاں کرتار پور ہے اسی طرح ہندوستان میں رہتے سندھی ہندوؤں کے لیے اڈیرو لال میں، جھولے لعل ہے ۔ ایک چھت کے نیچے مسجد بھی ہے تو مندر بھی ۔اس کے مرید ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ لکم دینکم ولی دین ۔