میں جشن آزادی منائوں تو کیسے

پاکستان میں 2008ء سے اب تک حکومتیں بھی صرف اور صرف ووٹ کی قوت سے اقتدار میں لائی یا وہاں سے ہٹائی جا رہی ہیں۔


Nusrat Javeed August 13, 2013
[email protected]

عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بندوں کے جذبات ٹھنڈے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے گزشتہ کئی برسوں سے 14 اگست میرے لیے چھٹی کا بس ایک اور دن رہا ہے۔ اِس سال مگر مَیں کئی روز صرف اس دن کے بارے میں سوچتا رہا ہوں اور نتیجتاً خود کو مزید فکرمند کرنے کے سوا کچھ اور حاصل نہ کر سکا۔

غیرملکی تسلط اور غلامی سے آزادی کی خواہش کو سمجھنے کے لیے آپ کو بڑا عالم فاضل ہونے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کے ساتھ مسئلہ کچھ اس حوالے سے یکتا ہے کہ اس ملک کے قیام کا سبب محض انگریز سے آزادی کی خواہش نہ تھا، اصل تڑپ اس بات کی تھی کہ انگریزوں کے برصغیر سے چلے جانے کے بعد ہم لوگ ہندو اکثریت کے تسلط کا شکار نہ ہو جائیں۔ ہندو اکثریت کا خوف اس وجہ سے تھا کہ کانگریس سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی طرح قائداعظم بھی انگریزوں سے آزاد ہو جانے کے بعد اُن کی متعارف کردہ جمہوری روایات اور پارلیمانی نظام سے وابستگی کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔

حال ہی میں اخوان المسلمون کے بنائے صدر مُرسی کے خلاف ہنگاموں کا سلسلہ چلا اور پھر ترکی میں تقسیم اسکوائر میں جو تحریک بنی، اس نے Majoritarianism کی اصطلاح کو زیادہ وضاحت سے بیان کر دیا ہے۔ یہ اصطلاح اس رویے کے منفی اثرات کو اُجاگر کرتی ہے جو جمہوری طریقے سے اکثریتی ووٹ حاصل کرنے کے بعد مختلف رہنما اور سیاسی جماعتیں اپنے مخالفین کے بارے میں استعمال کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ رویہ آمریت کی بدترین شکل اس لیے بھی ہے کہ اسے استعمال کرنے والوں کو عوام کی اکثریت سے ملنے والی حمایت کا بھرپور زعم ہوتا ہے۔ مصر اور ترکی میں وہاں کے منتخب حکمرانوں کی جانب سے اس رویے کے بے دردانہ استعمال نے مجھے اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ قائداعظم اپنے لوگوں کے لیے ایک جداگانہ مملکت کیوں چاہتے تھے۔ بات صرف جداگانہ مملکت کی ضرورت کو سمجھنے تک محدود نہیں تھی، اصل مقصد یہ بھی تھا کہ اس جداگانہ مملکت کے شہریوں کو حقِ حکمرانی ملے اور وہ اس حق کے استعمال کے ذریعے ایک ایسی ریاست کی تعمیر کریں جو جدید زمانے کے تقاضوں پر ہر طرح سے پوری اُترے۔

آج کا پاکستان ایک آزاد مملکت ہے۔ 2008ء سے اب تک حکومتیں بھی صرف اور صرف ووٹ کی قوت سے اقتدار میں لائی یا وہاں سے ہٹائی جا رہی ہیں، مگر ریاست پاکستان کی طاقت و قوت دن بدن سکڑتی چلی جا رہی ہے۔ اس سال رمضان کے مقدس مہینے میں پے در پے ایسے واقعات ہوئے ہیں جنھوں نے ریاست کی کمزوری کو بڑی سفاکی سے بے نقاب کر دیا ہے۔ سکھر میں آئی ایس آئی کے دفاتر پر دہشت گردوں کے حملے، ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل کا توڑا جانا اور کوئٹہ میں درجنوں پولیس والوں کی شہادتیں دل ہلا دینے والے واقعات ہیں جو ہمیں کم از کم یہ سوچنے پر ضرور مجبور کرتے ہیں کہ پاکستان کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر بنائے گئے ادارے اب اپنی اپنی ساکھ بچانے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔

ایسے میں تین بہت زیادہ بڑے ہی پڑھے لکھے اور سنجیدہ لکھنے والوں نے جل کر طنزیہ انداز میں نہیں بلکہ بڑی ہی سنجیدگی کے ساتھ اس خیال کو اپنی تحریروں کے ذریعے بڑھاوا دینے کی کوشش کی ہے کہ بجائے طالبان کو لڑائی کے ذریعے شکست دینے کے، ریاست پاکستان کو یہ سوچنا چاہیے کہ کیوں نہ شمالی وزیرستان کو ایک آزاد ریاست تسلیم کر لیا جائے۔ طالبان کو موقع دیا جائے کہ وہ اس ریاست کو ''امارت'' میں تبدیل کرنے کے بعد اسے اقوامِ متحدہ کا ایک آزاد اورخودمختار ملک کے طور پر باقاعدہ رُکن بنانے کی کوشش کریں۔ ایسا ہو گیا تو بین الاقوامی قوانین کے تقاضوں کے تحت پاک افغان سرحد پر قائم ہونے والی ایک اور ریاست پاکستان کے ''اندرونی معاملات'' میں تخریب کارانہ مداخلت سے باز رہ سکتی ہے۔ وہ اس پر تیار نہ ہو تو پاکستان اس ''امارت'' کی جانب سے پھیلائی گئی ''تخریبی کارروائیوں'' کے خلاف عالمی برادری سے رجوع کر کے اپنی امن و سلامتی کے لیے بین الاقوامی تعاون کا طلب گار ہو سکتا ہے۔

میں اپنے بہت ہی معزز ساتھیوں کی یہ تحریریں بار بار پڑھنے کے بعد اب بھی اس گمان میں مبتلا رہنا چاہتا ہوں کہ انھوں نے شمالی وزیرستان میں ایک آزاد امارت قائم کرنے کا خیال جلے دل سے سوچا ہے۔ اگر واقعتاً وہ سنجیدہ ہیں تو یہ کیوں نہ سمجھ پائے کہ پاکستان کی ریاست کے خلاف اتنی وحشت سے لڑنے والے عناصر چند علیحدگی پسندوں کی طرح صرف شمالی وزیرستان کو ایک جداگانہ مملکت بنانے کے خواب نہیں دیکھ رہے۔ انھیں یقین ہے کہ ان کے پاس اس دُنیا میں زندگی گزارنے کا ایک مکمل طریقۂ کار موجود ہے۔ وہ اس کا اطلاق پاکستان کے کسی قبائلی علاقے میں نہیں، ''اسلام کے نام پر قائم ہوئے'' پورے کے پورے پاکستان پر کرنا چاہتے ہیں۔ میرے جیسے لاکھوں کروڑوں اپنے کام سے کام رکھنے والے عام شہری ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

ہم اپنی جان و مال کے تحفظ کے لیے صرف اور صرف اپنی ریاست کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ہماری بدقسمتی مگر یہ ہے کہ ہماری ریاست کے مالک و مختار بنے لوگوں کو اپنے تئیں ریاست کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ شہروں سے دُور محلات نما فارم ہائوسز میں رہتے ہیں۔ جن کے تحفظ کے لیے وردیاں پہنے جدید ترین اسلحے کے ساتھ بہت ہی تربیت یافتہ کمانڈو مارکہ گارڈ موجود ہیں۔ ان کی بیویاں اور بچے جب گھروں سے بازار یا اسکول جانے کو نکلتے ہیں تو ان گارڈز کی گاڑیاں انھیں سیکیورٹی فراہم کرتی ہیں۔ ان لوگوں کے بچے غیرملکی یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں۔ ان انتظامات کے ساتھ کہ اگر پاکستان میں حالات ابتر ہو جائیں تو انھیں وطن لوٹنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔

وہ جنھیں اپنی روزمرہ زندگی میں ریاست کی کہیں بھی ضرورت نہیں، میرے اور آپ کے ووٹوں سے اس ریاست کے حکمران بنے ہوئے ہیں، جہازوں میں بیٹھ کر غیرملکی دورے کرتے ہیں اور اربوں روپوں کے معاہدات پر دستخط کرتے ہیں۔ خود محفوظ سرکاری گھروں میں رہتے ہیں اور بوتلوں سے پانی پیتے ہیں۔ انھیں ریاست اور اس کی قوت کو بحال کرتے ہوئے اسے مزید طاقتور بنانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ قائداعظم نے انگریز کی غلامی اور ہندو انتہاپسندی سے ہمیں بچا لیا تھا، اب ہمارے بنائے ہوئے حکمران مجھے اور آپ کو دہشت گردوں کے بے بس غلام بنانے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ اتنی تیزی سے روزبروز اپنی جان، مال اور آزادی چھن جانے کے بڑھتے ہوئے خوف کے سائے میں اس برس کا 14 اگست مجھے اُداس کر رہا ہے۔ میں جشن منائوں تو کیسے؟!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں