جبری قید کی ایک رات
اس سارے کھیل کا انت وہی نظر آ رہا ہے جو اس گائوں کے چوہدریوں اور تھانیدار نے تلاش کیا تھا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدوں پر حالیہ کشیدگی کی خبروں سے میرے ذہن کے پردے پر برسوں پہلے لاہور شہر سے تقریباً چالیس پنتالیس کلو میٹر دور دریائے راوی کے کنارے آباد ایک گائوں میں ہونے والی فائرنگ اور خوف و ہراس کا منظر گھوم گیا۔ اس گائوں کے دو گروپوں کے درمیان پرانی دشمنی چل رہی تھی' دونوں طرف سے کئی افراد قتل ہو چکے تھے' یہ غالباً عیدالفطر کے ایام تھے۔ شام ڈھلتے ہی ایک گروپ کے علاقے سے بندوق کا ایک فائر ہوا۔ دوسرے گروپ نے اسے دھمکی سمجھا اور ادھار چکانے کے لیے دو فائر داغے۔ اب پہلے والے گروپ نے جواباً 4 فائر کیے' دوسرے نے انتظار کیے بغیر آٹھ فائر نکالے اور پھر فضا گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونجنے لگی' متحارب گروپوں کے نوجوان اسلحہ لے کر گھروں کی چھتوں پر مورچہ زن ہو گئے اور بوڑھے دشمن دار اپنے جنگجوؤں کو ہدایات دینے لگے کہ فائرنگ کتنی اور کس سمت میں کرنی ہے۔
اس وقت میری عمر بارہ تیرہ برس کے لگ بھگ تھی اور میں اپنے عزیزوں کے ہاں عید کی خوشیاں منانے آیا تھا۔ اندھا دھند فائرنگ سے سب خوفزدہ ہو گئے' تھوڑی دیر بعد اسپیکروں کے ذریعے اعلانات شروع ہوگئے کہ کوئی شخص گھر سے باہر نکلا تو نقصان کا ذمے دار خود ہو گا۔ جو لوگ گائوں سے باہر ہیں' وہ بھی گائوں میں داخل نہ ہوں۔ گائوں سے لاہور کا ملتان روڈ تقریباً دو کلو میٹر دور ہے' گائوں کے لوگ کام کاج اور خریداری کے لیے لاہور جاتے ہیں، اکثر رات کے وقت گھر آتے' وہ بیچارے سڑک پر ہی رک گئے۔ مسافروں کو گائوں لانے والے تانگہ بان بھی وہیں رک گئے۔ جو گائوں میں تھے' وہ گھروں میں دبک گئے' دیہات میں خواتین رفع حاجت کے لیے عموماً رات کے وقت نکلتی ہیں' ان کے لیے بھی باہر جانا ممکن نہ رہا۔ ہر طرف خاموشی تھی اور اس میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور لائوڈ اسپیکروں کے اعلانات۔ دو دشمن دار گروپوں نے گاؤں میں کرفیو نافذ کر دیا تھا۔ ایسا خوفناک منظر میں نے زندگی میں دوبارہ نہیں دیکھا۔
اگلی صبح پولیس گائوں پہنچی' فریقین کے چوہدریوں کو بلایا' ان کی غلط فہمیاں دور کیں، پھر اسپیکروں پر گائوں والوں کے لیے امان کا اعلان ہوا۔ تب کہیں عوام نے سکھ کا سانس لیا اور معمولات زندگی رواں ہوئے' اس واقعہ کا اذیت ناک پہلو یہ تھا کہ پولیس نے کسی کے خلاف پرچہ درج نہیں کیا' فریقین نے بھی اس سازشی کو تلاش کرنا مناسب نہ سمجھا جس نے پورے گائوں کو خوف کی سولی پر لٹکانے کے لیے پہلا فائر کیا یا کرایا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بھی اس سے ملتا جلتا کھیل جاری ہے۔ چند روز پہلے مقبوضہ کشمیر میں کنٹرول لائن کے پونچھ سیکٹر میں بھارت کے فوجی مارے گئے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس واقعہ کی دو طرفہ تحقیقات کی جاتی تاکہ پتہ چلتا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا بھی ہے یا نہیں، اگر ہوا ہے تو اس میں کون ملوث ہے۔ ممکن ہے یہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کی سازش ہو۔ بھارت اور پاکستان میں ایسے ایکٹرز موجود ہیں جن کے لیے سرحدیں کوئی معنی نہیں رکھتیں اور سرحد کے آر پار ان کا نیٹ ورک موجود ہے۔ اس کے بجائے بھارت میں کانگریس اور بی جے پی نے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر پاکستان پر تبرا شروع کر دیا۔ بھارتی میڈیا نے آگ کو مزید بھڑکایا، بھارت میں چونکہ اگلے برس مئی میں عام انتخابات ہونے ہیں اور وہاں سیاسی جماعتیں ان انتخابات کو سامنے رکھ کر حکمت عملی تیار کر رہی ہیں' اس واقعے پر حکمران کانگریس خاموش رہتی ہے تو اسے بزدلی کا طعنہ دیا جاتا' منموہن سنگھ حکومت پر پہلے ہی کرپشن کے الزامات ہیں، اس واقعے پر خاموش رہنا' اس کی سیاسی موت ہے' یہی وجہ ہے کہ سونیا گاندھی بھی جذباتی ہوئیں اور پاکستان مخالف بیان داغا۔
بی جے پی تو اپوزیشن میں ہے' وہ اس ایشو کو جتنا زیادہ بھڑکائے گی' ہندی بیلٹ میں اسے اتنا ہی سیاسی فائدہ ہو گا۔ بی جے پی نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کے سنگھاسن پر دیکھنا چاہتی ہے۔ اسے اپنا سیاسی امیج بہتر بنانے کا سنہری موقع مل گیا۔ یہ ہے وہ سیاسی بے رحمی ہے جس کا مظاہرہ بھارت میں ہو رہا ہے۔ ادھر پاکستان میں تزویراتی گہرائی کے تصور کا خالق گروہ جو شمال مغرب سے مسلسل زخم کھا کر قدرے نڈھال ہے' وہ اس کشیدگی سے مطمئن اور خوش ہے۔ پاکستان کی مختصر سی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ دائیں بازو کا انتہا پسند گروہ بیک فٹ پر ہے اور کھل کر ہاؤ ہو نہیں کر رہا کیونکہ اس نے جنھیں اپنا کہہ کر پاکستانیوں سے ان کا تعارف کرایا تھا' وہ خود کش بمبار بن کر ہمارے شہروں میں تباہی پھیلا رہے ہیں۔ اب عوام قاتلوں کو اپنا کیسے سمجھیں۔ ایسے ماحول میں دائیں بازو کے انتہا پسند کس منہ سے پاکستانیوں کو قائل کریں کہ خطرہ مشرق سے ہے' شمال مغرب سے نہیں۔ دلیل سے محروم یہ طاقتور طبقہ حالیہ سرحدی کشیدگی پر دل ہی دل میں مسرور ہے اور دھیمے سروں میں میاں نواز شریف کی بھارت پالیسی پر تنقید کر رہا ہے۔
مجھے اس سارے کھیل کا انت وہی نظر آ رہا ہے جو اس گائوں کے چوہدریوں اور تھانیدار نے تلاش کیا تھا، جہاں میں بھی رات بھر جبراً محصور رہا تھا یعنی سازشی اور دشمن کی نشاندہی اور گرفتاری کے بغیر صرف فائر بندی پر راضی ہونا تا کہ اسٹیٹس کو قائم رہے۔ دشمن بھی وہیں اور گنیں بھی وہیں' جب جی چاہا' رات کے کسی پہر ایک فائر کر دیا اور پھر چل سو چل۔ اس سارے سیاپے میں میاں نواز شریف نے متحمل پالیسی اختیار کی ہے' خود جذباتی ہوئے نہ اپنے کابینہ کے ارکان اور پارٹی رہنمائوں کو ہونے دیا۔ وہ اس ملک کے دو بار وزیراعظم رہ چکے ہیں' دونوں بار ان کی اسٹیٹس کو والوں سے لڑائی ہوئی' انھیں کارگل بھی یاد ہے اور 12 اکتوبر 1999 بھی۔ نان اسٹیٹ ایکٹرز اور ان کے سرپرستوں کے بارے میں ان سے بہتر کون جانتا ہے۔
اگر بھارت میں امن کے پیامبر اپنے ہاں کے اسٹیٹس کو والوں کو پہچان لیں تو منزل زیادہ دور نہیں ہے' ورنہ وہی کچھ ہو گا جو اس گائوں میں ہوا' جہاں برسوں پہلے میں بھی گولیوں کی تڑتڑاہٹ کے خوف میں ساری رات جبری قید میں رہا۔
اس وقت میری عمر بارہ تیرہ برس کے لگ بھگ تھی اور میں اپنے عزیزوں کے ہاں عید کی خوشیاں منانے آیا تھا۔ اندھا دھند فائرنگ سے سب خوفزدہ ہو گئے' تھوڑی دیر بعد اسپیکروں کے ذریعے اعلانات شروع ہوگئے کہ کوئی شخص گھر سے باہر نکلا تو نقصان کا ذمے دار خود ہو گا۔ جو لوگ گائوں سے باہر ہیں' وہ بھی گائوں میں داخل نہ ہوں۔ گائوں سے لاہور کا ملتان روڈ تقریباً دو کلو میٹر دور ہے' گائوں کے لوگ کام کاج اور خریداری کے لیے لاہور جاتے ہیں، اکثر رات کے وقت گھر آتے' وہ بیچارے سڑک پر ہی رک گئے۔ مسافروں کو گائوں لانے والے تانگہ بان بھی وہیں رک گئے۔ جو گائوں میں تھے' وہ گھروں میں دبک گئے' دیہات میں خواتین رفع حاجت کے لیے عموماً رات کے وقت نکلتی ہیں' ان کے لیے بھی باہر جانا ممکن نہ رہا۔ ہر طرف خاموشی تھی اور اس میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور لائوڈ اسپیکروں کے اعلانات۔ دو دشمن دار گروپوں نے گاؤں میں کرفیو نافذ کر دیا تھا۔ ایسا خوفناک منظر میں نے زندگی میں دوبارہ نہیں دیکھا۔
اگلی صبح پولیس گائوں پہنچی' فریقین کے چوہدریوں کو بلایا' ان کی غلط فہمیاں دور کیں، پھر اسپیکروں پر گائوں والوں کے لیے امان کا اعلان ہوا۔ تب کہیں عوام نے سکھ کا سانس لیا اور معمولات زندگی رواں ہوئے' اس واقعہ کا اذیت ناک پہلو یہ تھا کہ پولیس نے کسی کے خلاف پرچہ درج نہیں کیا' فریقین نے بھی اس سازشی کو تلاش کرنا مناسب نہ سمجھا جس نے پورے گائوں کو خوف کی سولی پر لٹکانے کے لیے پہلا فائر کیا یا کرایا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بھی اس سے ملتا جلتا کھیل جاری ہے۔ چند روز پہلے مقبوضہ کشمیر میں کنٹرول لائن کے پونچھ سیکٹر میں بھارت کے فوجی مارے گئے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس واقعہ کی دو طرفہ تحقیقات کی جاتی تاکہ پتہ چلتا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا بھی ہے یا نہیں، اگر ہوا ہے تو اس میں کون ملوث ہے۔ ممکن ہے یہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کی سازش ہو۔ بھارت اور پاکستان میں ایسے ایکٹرز موجود ہیں جن کے لیے سرحدیں کوئی معنی نہیں رکھتیں اور سرحد کے آر پار ان کا نیٹ ورک موجود ہے۔ اس کے بجائے بھارت میں کانگریس اور بی جے پی نے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر پاکستان پر تبرا شروع کر دیا۔ بھارتی میڈیا نے آگ کو مزید بھڑکایا، بھارت میں چونکہ اگلے برس مئی میں عام انتخابات ہونے ہیں اور وہاں سیاسی جماعتیں ان انتخابات کو سامنے رکھ کر حکمت عملی تیار کر رہی ہیں' اس واقعے پر حکمران کانگریس خاموش رہتی ہے تو اسے بزدلی کا طعنہ دیا جاتا' منموہن سنگھ حکومت پر پہلے ہی کرپشن کے الزامات ہیں، اس واقعے پر خاموش رہنا' اس کی سیاسی موت ہے' یہی وجہ ہے کہ سونیا گاندھی بھی جذباتی ہوئیں اور پاکستان مخالف بیان داغا۔
بی جے پی تو اپوزیشن میں ہے' وہ اس ایشو کو جتنا زیادہ بھڑکائے گی' ہندی بیلٹ میں اسے اتنا ہی سیاسی فائدہ ہو گا۔ بی جے پی نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کے سنگھاسن پر دیکھنا چاہتی ہے۔ اسے اپنا سیاسی امیج بہتر بنانے کا سنہری موقع مل گیا۔ یہ ہے وہ سیاسی بے رحمی ہے جس کا مظاہرہ بھارت میں ہو رہا ہے۔ ادھر پاکستان میں تزویراتی گہرائی کے تصور کا خالق گروہ جو شمال مغرب سے مسلسل زخم کھا کر قدرے نڈھال ہے' وہ اس کشیدگی سے مطمئن اور خوش ہے۔ پاکستان کی مختصر سی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ دائیں بازو کا انتہا پسند گروہ بیک فٹ پر ہے اور کھل کر ہاؤ ہو نہیں کر رہا کیونکہ اس نے جنھیں اپنا کہہ کر پاکستانیوں سے ان کا تعارف کرایا تھا' وہ خود کش بمبار بن کر ہمارے شہروں میں تباہی پھیلا رہے ہیں۔ اب عوام قاتلوں کو اپنا کیسے سمجھیں۔ ایسے ماحول میں دائیں بازو کے انتہا پسند کس منہ سے پاکستانیوں کو قائل کریں کہ خطرہ مشرق سے ہے' شمال مغرب سے نہیں۔ دلیل سے محروم یہ طاقتور طبقہ حالیہ سرحدی کشیدگی پر دل ہی دل میں مسرور ہے اور دھیمے سروں میں میاں نواز شریف کی بھارت پالیسی پر تنقید کر رہا ہے۔
مجھے اس سارے کھیل کا انت وہی نظر آ رہا ہے جو اس گائوں کے چوہدریوں اور تھانیدار نے تلاش کیا تھا، جہاں میں بھی رات بھر جبراً محصور رہا تھا یعنی سازشی اور دشمن کی نشاندہی اور گرفتاری کے بغیر صرف فائر بندی پر راضی ہونا تا کہ اسٹیٹس کو قائم رہے۔ دشمن بھی وہیں اور گنیں بھی وہیں' جب جی چاہا' رات کے کسی پہر ایک فائر کر دیا اور پھر چل سو چل۔ اس سارے سیاپے میں میاں نواز شریف نے متحمل پالیسی اختیار کی ہے' خود جذباتی ہوئے نہ اپنے کابینہ کے ارکان اور پارٹی رہنمائوں کو ہونے دیا۔ وہ اس ملک کے دو بار وزیراعظم رہ چکے ہیں' دونوں بار ان کی اسٹیٹس کو والوں سے لڑائی ہوئی' انھیں کارگل بھی یاد ہے اور 12 اکتوبر 1999 بھی۔ نان اسٹیٹ ایکٹرز اور ان کے سرپرستوں کے بارے میں ان سے بہتر کون جانتا ہے۔
اگر بھارت میں امن کے پیامبر اپنے ہاں کے اسٹیٹس کو والوں کو پہچان لیں تو منزل زیادہ دور نہیں ہے' ورنہ وہی کچھ ہو گا جو اس گائوں میں ہوا' جہاں برسوں پہلے میں بھی گولیوں کی تڑتڑاہٹ کے خوف میں ساری رات جبری قید میں رہا۔