کشکول کیوں نہیں ٹوٹا…

نئی حکومت یعنی (ن) لیگ کی حکومت کو قائم ہوئے دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے مگر ابھی تک پارٹی منشور کے مطابق۔۔۔

نئی حکومت یعنی (ن) لیگ کی حکومت کو قائم ہوئے دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے مگر ابھی تک پارٹی منشور کے مطابق یا نواز شریف، شہباز شریف برادران کی دھواں دھار تقاریر، وعدے، یقین دہانیاں جو الیکشن مہم کے دوران کی گئیں تھیں ان پر عمل درآمد کے کوئی آثار ان 2 مہینوں میں تو نمایاں نہیں ہوئے۔ میاں نواز شریف صاحب تو بہت پرسکون اور متفکر نظر آ رہے ہیں۔ ہاں البتہ ان کے دست راست وزیر خزانہ اسحٰق ڈار صاحب بہت ہی ''ایکٹیو'' نظر آ رہے ہیں۔ سالانہ بجٹ پیش کرنے سے پہلے انھوں نے خزانے کی تلاشی لی، معلوم ہوا کہ ''خزانہ خالی ہے'' ۔ لیکن اس کے باوجود وزیر خزانہ نے بجٹ بھی بنا لیا اور عوام کے سامنے پیش بھی کر دیا اور پھر پوسٹ بجٹ کانفرنس میں دھواں دھار طریقے سے میڈیا کے سوالات کا جواب بھی دیتے رہے۔

ایسے معلوم دیتا تھا کہ اس پیش کردہ بجٹ کا صرف ''روشن'' پہلو ہی ہے، ''دوسرے رخ'' کا پتہ نہیں تھا۔ وزیر خزانہ بتا رہے تھے کہ اول تو ہمیں ''خزانہ خالی'' ملا، دوم سابقہ حکومت کے چھوڑے ہوئے مسائل کا انبار ہمیں ورثے میں ملا پھر بھی ہماری حکومت (بالخصوص وزارت خزانہ) کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اتنی قلیل مدت میں ہم نے دن رات محنت کر کے بجٹ تیار بھی کیا اور بروقت عوام کے سامنے پیش بھی کر دیا۔ اس لیے صحافی حضرات کو چاہیے کہ وہ ایسے سوالات نہ اٹھائیں جن کی ذمے دار سابقہ حکومت تھی۔ اب صرف جو حالیہ بجٹ (2013-14) پیش کیا گیا ہے اسی کے اتار چڑھاؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے سوالات اٹھائیے، وزارت خزانہ آپ کو ہر طرح سے مطمئن کر دے گی۔ رہا سوال عوام کے کاندھوں پر مزید اضافی ٹیکسز کا بوجھ ڈال دیا ہے تو اس کا سیدھا سادہ جواب یہی ہے کہ ایسا کرنا ہمارے لیے مجبوری تھی کیونکہ ''خزانہ خالی'' تھا۔ آمدن زیرو ریٹ پر تھی اور اخراجات 100 فیصد سے بھی تجاوز کر گئے تھے۔

یہی وجہ تھی کہ ہم قرضہ لینے پر آمادہ ہو گئے اور اسی روشنی میں آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ کیونکہ سابقہ قرض کے سود کی قسط ماہ جولائی میں ادا کرنا تھی ورنہ ناکامی کی صورت میں ہمارا ملک ''ڈیفالٹر'' ہو جاتا۔ ہمارے سامنے اور کوئی متبادل راستہ نہ تھا اور ہم نے قرض اتارنے کے لیے نیا قرض لینے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس گئے اور یہ پیشکش کی کہ نیا قرضہ ہم اپنی شرائط پر لیں گے ورنہ نہیں۔ آئی ایم ایف نے ہماری پیشکش قبول کر لی اور 5.70 ارب ڈالر کا نیا قرضہ جاری کرنے کی منظوری دے دی۔ ٹیکسز تو ہم نے بڑے سرمایہ داروں پر لگائے، عام آدمی پر تو برائے نام ٹیکسز میں اضافہ کیا گیا جس کا بوجھ عوام کے لیے قابل برداشت ہو گا، اور پھر غیر ضروری اشیاء اور منصوبوں پر ٹیکسز عاید کیے گئے ہیں، جس کا بوجھ عوام تک منتقل نہیں ہو گا۔ کس قدر باریک بینی سے وزیر خزانہ سوالات کا جواب ہی نہیں دے رہے تھے بلکہ بجٹ کے خاص خاص نکات کی وضاحت بھی کرتے جا رہے تھے۔


اس سارے انٹرویو سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ابھی تو کنوئیں میں ڈول ڈالا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پانی کی سطح کتنی گہرائی پر ہے۔ جب پانی کی سطح تک ڈول پہنچ جائے گا تو پانی بھی مل جائے گا۔ وزیر خزانہ صاحب کو کون بتائے کہ یہ تو آپ ہوائی کارتوس فائر کر رہے ہیں۔ عملی طور پر تو ابھی تک کچھ بھی عوام کے سامنے نہیں لایا گیا۔ محض تسلیاں دینے اور یقین دہانیاں کرانے اور تصوراتی نقشے بنانے سے کام نہیں چلے گا۔ ابھی تو آپ آئی ایم ایف کے شکنجے میں پھنس گئے ہیں۔ آپ آئی ایم ایف کے شکنجے سے آزاد ہوں گے تب ہی تو آزادانہ پالیسیاں بنا سکیں گے اور قومی حمیت برقرار رکھ پائیں گے۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی کہ ''کشکول کیوں نہیں ٹوٹا؟'' اس لیے کہتے ہیں کہ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے مصنوعی بھڑکیں نہیں مارنی چاہئیں۔ الیکشن مہم کے دوران کشکول توڑنے پر اتنا زور دیا گیا پھر بھی نہ ٹوٹ سکا۔ بلکہ اسے دوبارہ تھام لینا پڑا۔ کیا خوب کہا ہے اپوزیشن لیڈر نے کہ ہمارا کشکول تو چھوٹا تھا لیکن ان کا کشکول تو ½ میٹر لمبا ہے۔

بتائیے کیسا تمسخر اڑایا جا رہا ہے کشکول توڑنے کا وعدہ کرنے والوں کا۔ ارے بھائی! ابھی کچھ کام کرو، عملی مظاہرہ، تب حالات کا اندازہ ہو گا۔ خالی خولی نعرے لگانے سے کام نہیں چلے گا کشکول خودبخود تو ٹوٹنے سے رہا۔ ویسے بھی آپ نے خود کہا ہے کہ خزانہ خالی ہے تو جب کشکول میں کچھ ڈالو گے تب ہی تو وزن سے ٹوٹ جائے گا۔ سیدھی سیدھی بات کیوں نہیں کہی جاتی کہ اس لیے ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے ہیں کہ کشکول کو بھر لیا جائے اور ٹوٹنے سے بھی بچا لیا جائے۔ مگر افسوس اس بات کا ہی ہے کہ آئی ایم ایف نے قرضے دے دے کر ہمارا اعتماد متزلزل کر دیا ہے۔ ہم اپنی معیشت کو سدھارنے کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔ بس ایک آسان طریقہ اپنا لیا کہ کشکول اٹھاؤ اور آئی ایم ایف کے دروازے پر پہنچ جاؤ۔ ضرورت پوری ہو جائے گی۔ اب ہم سے کون پوچھنے آ رہا ہے کہ یہ قرضہ کیوں لیا گیا، کس منصوبے کے لیے لیا گیا، کتنے فنڈز استعمال ہوئے، منصوبہ مکمل ہوا یا نہیں، کتنی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا تھا اور حقیقی لاگت کتنی آئی؟ منصوبہ منافع بخش رہا یا نقصان اٹھانا پڑا؟ کون پوچھے گا ان سے؟ اسی لیے تو چیف جسٹس صاحب کو ان معاملات کا بار بار ''از خود نوٹس'' لینا پڑ رہا ہے اور عدالت میں پیشی پر حکومت کو منہ کی کھانا پڑ رہی ہے۔

بے ایمانی، بدعنوانی، کرپشن جیسے حالات سامنے آ رہے ہیں۔ لیکن کسی کو پرواہ نہیں۔ عدالت کیا کر لے گی زیادہ سے زیادہ سزا سنادے گی، جیل میں ڈلوا دے گی۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا یہ تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرنا کوئی ہم سے سیکھے۔ ہم ایسی ویسی سیاست نہیں کرتے۔ منافع والی سیاست کرتے ہیں ہر قسم کے مسئلے کو نمٹانا یا ٹالنا ہمارے لیے مشکل نہیں ہے۔ اگر یہ پیچیدہ گُر ہم کسی کو بتا دیں تو ہم سیاستدان نہیں رہتے، بلکہ چوہوں کے آگے بھی بھیگی بلی بننا پڑتا ہے۔ وزیر خزانہ صاحب سوال و جواب سے تنگ آ کر پریس کانفرنس سے اٹھ کر چلے گئے۔ ہاں! اگر ایسا نہ کرتے تو مسائل کا انبار اور صحافیوں کے سوالات کے تابڑ توڑ حملے ان کے زبانی کلامی دعوے، یقین دہانیوں کی قلعی کھول کر رکھ دیتے۔ بہرحال صحافی حضرات ہوں یا اپوزیشن لیڈر ہوں یا عوامی نمائندے ہوں، کتنی ہی کوشش کر لیں ''کشکول نہیں ٹوٹے گا''۔

ارے میاں! یہ سب دکھاوا، جھوٹ، فریب اور عوام کے ساتھ دھوکا دہی ہے، نہ کوئی کشکول توڑے گا نہ کشکول توڑ کر کوئی اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں مارے گا۔ بس کشکول کو مضبوطی سے تھامے رہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی اور آ کر اس کشکول کو نہ توڑ دے۔ کشکول زندہ باد!
Load Next Story