طلاق کیوں اور کیسے

میاں بیوی میں علیحدگی کا ذمے دار کوئی بھی فریق یا دونوں فریقین ہوں مگر اس کی سزا معصوم بچوں کو ہی ملتی ہے۔


Adnan Ashraf Advocate August 13, 2013
[email protected]

رمضان المبارک میں ایک خبر آئی تھی کہ میاں بیوی میں علیحدگی کے بعد بیوی نے تین بچوں کی تحویل کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا جس پر عدالت نے شوہر کو تینوں بچوں کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کر دیا تھا۔ بچوں کے باپ نے بچوں کے چھن جانے کے خوف سے نہر پر جا کر تینوں بچوں کو ایک ایک کر کے نہر میں دھکا دے دیا اور خود بھی نہر میں کود کر جان دے دی۔ دوسری خبر رمضان کے آخری دن کی تھی۔ جس کی روداد یہ ہے کہ ماں نے بچوں کی تحویل کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی جس میں عدالت نے تینوں بچے باپ سے لے کر ماں کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔

بچوں نے والدہ کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور باپ اور پھوپھی سے لپٹ کر آہ و بکا شروع کر دی، بچوں کو زبردستی پولیس اہلکاروں کے ذریعے چھین کر ماں کے حوالے کر دیا گیا۔ جس پر باپ اور پھوپھی بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ عدالت میں موجود لوگ اور عدالتی عملہ انتہائی افسردہ اور آبدیدہ ہو گئے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے سابقہ جسٹس خواجہ نوید احمد نے کہا کہ رمضان کے مہینے میں عین عید کے موقع پر ایسی صورت حال پر عدالت فیصلہ موخر کر سکتی تھی، عدالت کو مقدمے کی سماعت کے دوران صورت حال سے اچھی طرح آگاہی ہو جاتی ہے، انھوں نے کہا کہ انصاف اندھا ہوتا ہے لیکن ججز اندھے نہیں ہوتے۔

میاں بیوی میں علیحدگی کا ذمے دار کوئی بھی فریق یا دونوں فریقین ہوں مگر اس کی سزا معصوم بچوں کو ہی ملتی ہے، ان کی زندگیاں اور مستقبل دونوں بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ ہمارے ایک واقف نے کسی معاملے پر اپنی بیوی کو دفعتاً تین طلاقیں ادا کر دیں، پھر بہت پچھتایا، علماء سے معلومات کیں انھوں نے کہا کہ طلاق واقع ہو گئی اور بغیر حلالہ کے بیوی اس کے لیے حرام ہو گئی، بیوی کے گھر والے جو بیرون ملک مقیم تھے، اپنی بیٹی اور اس کے تین بچوں کو اپنے ہمراہ ملک سے باہر لے گئے۔ آج سال ہا سال گزر جانے کے باوجود وہ شخص اپنے بیوی بچوں کا ذکر کرتا ہے تو گھٹنوں میں سر ڈال کر یوں رونے لگتا ہے جیسے آج کا واقعہ ہو۔

میاں بیوی ، ان کے خاندان والے، رشتے دار اور ثالث طلاق کے مضمرات اور مستقبل میں پیش آنے والے سماجی و معاشی مسائل بلکہ مصائب سے عموماً نابلد ہوتے ہیں، جن کی ایک طویل فہرست ہے۔ طلاق ہو جانے کے بعد اس کا خمیازہ میاں بیوی اور خاص طور پر بچوں کو مدتوں نہیں بلکہ نسلوں برداشت کرنا پڑتا ہے۔ مہینے بھر کی بات ہے کہ ملک کے بڑے بڑے قومی اخبارات کے پہلے صفحات پر ایک باپ کی طرف سے دو مرتبہ چوتھائی صفحات پر مشتمل اشتہارات شائع ہوئے جس میں یہ شخص اپنی سابقہ بیوی کی جانب سے اپنی حقیقی بیٹی کی شادی کے موقع پر اس کے سوتیلے باپ کی ولدیت تحریر کیے جانے پر احتجاج کر رہا تھا، اس نے اس سلسلے میں قرآن و حدیث کے مستند حوالے بھی پیش کیے تھے۔ طلاق کی حد سے بڑھتی ہوئی شرح ایک لمحہ فکریہ ہے، اس عمل کو حلال کاموں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے اور شیطان کو سب سے زیادہ خوشی شوہر اور بیوی کے درمیان علیحدگی کرانے سے ہوتی ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے ایک وقت میں صرف ایک طلاق دینے کی تلقین کی ہے اور بیک وقت دو اور تین طلاقیں دینے سے منع فرمایا ہے تا کہ شاید اﷲ کوئی نئی راہ پیدا کر دے اور فریقین رجوع کر لیں۔ اس لیے طلاق کے بعد شوہر کے گھر میں ہی رہائش اور نان نفقہ کی ذمے داری بھی شوہر کے ذمے قرار دی ہے۔ اگر نادانی، غصہ یا حماقت کی وجہ سے بیک وقت تین طلاقیں دے بھی دیتا ہے تو ایک ہی شمار کی جاتی ہے۔ نبیؐ نے اپنے دور میں اس قسم کا فیصلہ دیا تھا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے پورے دور خلافت اور حضرت عمرؓ کے خلافت کے بعد ابتدائی سالوں میں اس کے مطابق فیصلے ہوتے رہے۔ حضور اکرمؐ کے دور میں جب ایک آدمی نے اکٹھی تین طلاقیں دے ڈالیں تو آپؐ نے فرمایا کہ کیا اﷲ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ سورۃ بقرہ آیت 229 میں ہے کہ ''طلاق دو دفعہ ہے یا تو اچھے طریقے سے روک لینا یا پھر شائستگی کے ساتھ چھوڑ دینا''۔ علماء کرام کا استدلال ہے کہ اس آیت میں لفظ مرتان کے معنی ''مرۃ بعد مرۃ'' یعنی ایک دفعہ کے بعد دوسری دفعہ ہے نہ کہ محض لفظی تکرار۔ اس کی مثال قرآن میں موجود ہے۔

اﷲ کا ارشاد ہے کہ ''اے ایمان والو! تمہارے غلام، لونڈیاں اور تمہارے نابالغ بچے تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آیا کریں، ایک نماز فجر سے پہلے، دوسرے دوپہر کے وقت جب آرام کر رہے ہوں، تیسرے عشا کے بعد، یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں۔'' اس آیت میں تلاوت مرات تین دفعہ کے معنی واضح کیے گئے ہیں کہ یہ تین الگ الگ اوقات ہیں نہ کہ زمانہ واحد میں تین اوقات کا اجتماع، اس سے واضح ہے کہ مرتان کے لفظ میں تفریق کا مفہوم شامل ہے۔ حضرت معقل بن یسارؓ کی ہمشیرہ کو شوہر نے طلاق دے دی، پھر عدت گزرنے کے بعد ان دونوں میں رضامندی ہونے لگی تو حضرت معقلؓ نے جو بہن کے ولی تھے، نکاح میں رکاوٹ ڈالی جس پر اﷲ نے یہ آیت نازل فرمائی ''اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت پوری کر چکیں تو انھیں ان کے شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو''۔

عہد نبویؐ میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا، میاں بیوی دونوں کی جان پر بن آئی۔ عورت آپؐ کے پاس آئی اور اس مصیبت سے نجات کی راہ پانے کے لیے آپ سے جھگڑنے پر آ گئی تو اﷲ نے زوجین کی مشکلات کا حل فرمادیا جو یہ تھا کہ اپنی بیوی کو اپنی ماں کہہ دینے سے چونکہ فی الحقیقت وہ ماں نہیں بن جاتی لہٰذا اس بات کو اﷲ نے ناپسند اور انہونی بات قرار دے کر اس کا کفارہ مقرر کر دیا۔ اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد سے علما یہ نتیجہ بھی نکالتے ہیں کہ فی نفسہ الفاظ میں کچھ تاثیر نہیں ہوتی بلکہ الفاظ میں تاثیر شرعی احکام سے ہی پیدا ہوتی ہے اور شرعی احکام سے ہی یہ تاثیر ختم ہو جاتی ہے لہٰذا طلاق کے لفظ یا تین طلاق کے الفاظ کی تاثیر کا پتہ چلانے کے لیے شرعی حکم یا سنت نبویؐ کا لحاظ رکھنا پڑے گا۔

عہد نبویؐ کا ایک اور واقعہ ہے کہ حضرت رکانہؓ نے بیوی کو طلاق دے ڈالی، بڑے مغموم و رنجیدہ ہوئے، معاملہ حضورؐ سے ذکر کیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم نے کیسے طلاق دی؟ صحابی نے کہا میں نے اسے تین طلاقیں دیں۔ پھر دریافت فرمایا ایک ہی مجلس؟ صحابی نے کہا ہاں ایک ہی مجلس میں۔ آپؐ نے فرمایا کہ ایک طلاق واقع ہوئی ہے تم اگر چاہتے ہو تو اس سے رجوع کر لو۔ اس صحابی نے رجوع کر لیا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں مجلس واحد ایک ہی وقت میں متعدد طلاقیں ایک ہی طلاق رجعی میں شمار ہوتی ہیں خواہ زبانی یا تحریری صورت میں ہوں جس میں مرد کو دوران عدت رجوع کا مکمل حق اور عدت گزر جانے کی صورت میں نیا نکاح کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے، البتہ تیسری طلاق کے بعد یہ حق ختم اور بیوی اس کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔

مصر، سوڈان، اردن، شام، مراکش وغیرہ میں تین طلاقوں کو ختم کر کے ایک ہی شمار کرنے کا قانون نافذ ہے۔ لیکن ہمارے ہاں عوام الناس، علما، وزارت قانون اس مسئلے سے لاعلمی، غفلت اور ابہام کا شکار ہیں، بعض نکاح فسخ ہو جانے اور دوبارہ رجوع کرنے کے لیے حلالہ کا مشورہ دیتے ہیں، جس پر اﷲ کے رسول نے لعنت فرمائی اور اس کے کرنے والے کو ''تیس مستعار'' یعنی کرایہ کا سانڈ قرار دیا اور اس عمل پر حضرت عمرؓ نے رجم کی سزا مقرر فرمائی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں