جان کیری کا دورہ پاکستان

وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف ملک کے قبائلی علاقوں میں ہونے والے امریکی ڈرون حملوں کے سخت ناقد ہیں


MJ Gohar August 13, 2013
[email protected]

جنوبی ایشیا، بالخصوص پاکستان اور بھارت میں، امریکی عہدیداروں کے دورے بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ 9/11 کے بعد آنے والی تبدیلیوں اور دہشت گردی کے خلاف شروع کی گئی امریکی جنگ کے پھیلاؤ اور اس کے اثرات و نتائج کے حوالے سے پاکستان فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے ناتے امریکا کی خاص توجہ کا مرکز چلا آ رہا ہے۔ افغانستان میں امریکی جارحیت کے بعد گزشتہ ایک عشرے کے دوران پاک امریکا تعلقات میں کئی مرتبہ اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا۔ خطے میں پاکستان کی اہمیت کے پیش نظر امریکا کلی طور پر پاکستان کو نظر انداز نہیں کرسکتا، صدر بش سے لے کر امریکی وزیر خارجہ جان کیری تک اعلیٰ امریکی حکام پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ افغانستان کے معاملات اور وہاں جاری امریکی جنگ کے پاکستان پر اثرات کے تناظر میں پاک امریکی حکام کے دوروں پر دنیا بھر کے میڈیا کی نظریں لگی رہتی ہیں۔ گزشتہ دنوں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا اور صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیراعظم نواز شریف، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور دیگر اعلیٰ سرکاری حکام سے ملاقاتیں کیں۔

وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف ملک کے قبائلی علاقوں میں ہونے والے امریکی ڈرون حملوں کے سخت ناقد ہیں، وہ ان حملوں کو وطن عزیز کی سالمیت، آزادی و خودمختاری کی خلاف ورزی اور اندرون ملک دہشت گردی و تخریبی کارروائیوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ سمجھتے ہیں۔ میاں صاحب اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران انرجی بحران کے خاتمے اور امریکی ڈرون حملے رکوانے کے حوالے سے قوم کو یقین دہانیاں بھی کراتے رہے۔ توقع کی جا رہی تھی (ن) لیگ کی حکومت آنے کے بعد ملک سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو گا بلکہ امریکی ڈرون حملے بھی کسی حد تک رک جائیں گے لیکن نہ تو لوڈ شیڈنگ میں کمی آئی اور نہ ہی امریکا ڈرون اٹیک سے باز آیا بلکہ منتخب حکومت کے قیام کے فوری بعد 7 جون کو وزیر ستان پر ڈرون حملہ کر کے امریکا نے نواز حکومت کو اپنی پالیسی جاری رکھنے کا کھلا پیغام دے دیا تھا۔

خیال کیا جا رہا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے دورہ پاکستان کے دوران ہونے والی بات چیت میں نواز حکومت امریکی ڈرون حملے رکوانے کے حوالے سے کوئی سخت موقف اختیار کرے گی لیکن افسوس کہ پاکستان کی جانب سے بات صرف امریکی ڈرون حملے رکوانے کے مطالبے سے آگے نہ بڑھ سکی۔ وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے ڈرون حملے فوری بند کیے جانے کے مطالبے کے جواب میں امریکی وزیر خارجہ نے دو ٹوک انداز میں امریکی پالیسی واضح کرتے ہوئے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ امریکی دشمنوں کے خلاف ڈرون حملے جاری رہیں گے بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے جان کیری نے کہا کہ القاعدہ رہنما ایمن الظواہری پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کر رہا ہے کیونکہ جب وہ آپ کی مساجد، امام بارگاہوں اور بازاروں میں خودکش حملے کرتے ہیں تو اس سے پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

گویا ہمارے گھر میں بیٹھ کر ہم ہی کو آنکھیں دکھائی جا رہی ہیں اور ہم چار و ناچار امریکا کی آشیرباد کے لیے بچھے جا رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے مذاکرات کے دوران روایتی امریکی دباؤ کا حربہ استعمال کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کرے تاہم پاکستان نے جان کیری کا مطالبہ مسترد کر دیا۔ گویا ہر دو فریق کی جانب سے ایک دوسرے کے مطالبات مسترد کر دینے سے زیادہ بات آگے نہ بڑھ سکی۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے بھی امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے ون آن ون ملاقات کے دوران ان پر واضح کیا کہ ملک کے طول و ارض میں ہونے والے خودکش حملوں کو روکنے کے لیے امریکی ڈرون حملوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ عمران خان نے امریکی ڈرون حملوں، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ اور افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے حوالے سے اپنی پارٹی کا موقف بھی پیش کیا۔ تاہم ڈرون حملے رکوانے کے حوالے سے عمران خان کا مطالبہ بھی نقش برآب ثابت ہوا اور جان کیری امریکی پالیسی واضح کر کے اپنے ملک سدھار گئے۔

البتہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے دورہ پاکستان کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ پاک امریکا اسٹرٹیجک مذاکرات جو کافی عرصے سے تعطل کا شکار تھے، کی بحالی کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں جو بلاشبہ موجودہ حالت کے تناظر میں ایک مثبت پیش رفت ہے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جان کیری کا کہنا تھا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ مضبوط و مستحکم تعلقات کا خواہاں ہے جو دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں تعاون سے لے کر پاکستانی عوام کے مسائل و دیگر مسائل کے حل میں مددگار ہوں۔ انھوں نے نواز شریف کو دورہ امریکا کی دعوت بھی دی جو انھوں نے قبول کر لی ہے۔

درحقیقت امریکا افغانستان میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ خواہش اور کوشش کے باوجود افغانوں کی روایتی مزاحمت کے باعث امریکا کو مطلوبہ کامیابیاں نہ مل سکیں۔ اب اپنی خفت مٹانے کے لیے وہ 2014ء تک افغانستان سے ''عزت'' کے ساتھ نکلنا چاہتا ہے اسی لیے وہ طالبان سے مذاکرات کا بھی آرزو مند ہے اور اس ضمن میں پاکستان کے کردار و اہمیت سے بھی پوری طرح آگاہ ہے، یہی وجہ ہے وہ طالبان سے کامیاب اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے پاکستان کے تعاون و مدد کا طلب گار ہے، اسی باعث امریکی وزیر خارجہ نے اپنے دورہ پاکستان میں پاک امریکا اسٹرٹیجک مذاکرات کی بحالی اور متعدد شعبوں میں تعاون فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ ادھر پاکستان بھی لاتعداد مسائل و مشکلات کا شکار ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت اور اس کا دائرہ اندرون وطن تک پھیلنے کے باعث نہ صرف یہ غیر معمولی جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ اقتصادی و معاشی خسارے نے ملکی معیشت کو کاری ضربیں لگائی ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق 75 ارب ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے، جس کے ازالے کے لیے بیرونی مالیاتی تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ تاہم یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ امریکا محض اپنے مفادات کو اہمیت دیتا ہے اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے ہر انتہائی قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتا، پاکستان کی سلامتی، خودمختاری، آزادی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں اس کے نزدیک کوئی اہمیت اور معنی نہیں رکھتیں، وہ اپنے آخری ''شکار'' کو نشانہ بنائے جانے تک امریکی ڈرون حملے جاری رکھنا چاہتا ہے خواہ اس کے ردعمل میں پاکستان میں دہشت گردی، خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں انسانی جانوں کا زیاں ہی کیوں نہ ہوتا رہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے لیے موقع ہے کہ وہ اپنے مجوزہ دورہ امریکا میں صدر اوباما سے مذاکرات کے دوران ٹھوس دلائل کے ساتھ پاکستان کا مقدمہ پیش کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں