مہنگائی بم بھٹو کی پھانسی اور نٹور سنگھ

شنید ہے پچھلے آٹھ ماہ کے دوران حکومت 3300 ارب روپے کے قرضے لے چکی ہے


Tanveer Qaisar Shahid April 01, 2019
[email protected]

مغربی دُنیا میں یکم اپریل کی آمد پر ''اپریل فول'' منایا جاتا ہے۔ خوشی اور مسرت کے لیے دوست احباب سے اٹھکیلیاں کی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اس بار ''اپریل فول'' منایا جارہا ہے ، مگر ذرا منفرد انداز میں ۔ کہیں سے تیل نکلنے کی موہوم خبر سنا کر حقیقی انداز میں عوام کا تیل نکالنے کا عملی اقدام کر کے۔ مزید مہنگائی کا بم گرا کر۔جب سے تبدیلی والے نئے حکمران تشریف لائے ہیں، کمر شکن گرانی کے نئے نئے ریکارڈ قائم کیے جا رہے ہیں۔ مایوسی اور بُری معیشت کے سائے پھیل رہے ہیں۔

شنید ہے پچھلے آٹھ ماہ کے دوران حکومت 3300 ارب روپے کے قرضے لے چکی ہے ۔ سونا 70 ہزار روپے فی تولہ سے متجاوز ہو چکا ہے۔ ڈالر 141 روپے سے بڑھ گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ''خوشخبری'' سنا کر حکومت بد خبری سنا رہی ہے کہ روپیہ مزید اپنی قدر کھو دے گا ۔ یعنی نئی مہنگائی کا نیا بم نئی شدت سے پھٹنے والا ہے۔ پٹرول کی قیمت قیامت ڈھا رہی ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر صاحب کے ہونٹوں پر پھر بھی مسکراہٹ ہے۔ اور وزیر اعظم صاحب ارشاد فرما رہے ہیں: ''پچھلے حکمران ملک کا بیڑہ غرق کرکے گئے۔ ہم عوام کو کیسے معاشی تنگدستی کے بیلنے سے فوری نکال سکتے ہیں؟ قرضوں پر سُود کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کے بعد عوام کے لیے کچھ نہیں بچتا۔'' وزیر اعظم کے مشیرِ تجارت داؤد رزاق کا تازہ ارشاد ہے کہ ''عوام کو ابھی مزید مہنگائی برداشت کرنا پڑے گی۔'' عوام کے لبوں پر بس اب سرد آہیں رہ گئی ہیں۔لگتا ہے اُمید کی ساری کرنیں معدوم اور گُل ہو گئی ہیں ۔عوامی احساسات روز افزوں ہیں کہ ہمیں سجّی دکھا کر کھبّی مار ی گئی ہے۔

اپریل کے پہلے ہفتے میں یہ عوامی احساسات ایسے وقت میں اُبھر رہے ہیں جب تقریباً چار عشرے قبل ایک عوامی لیڈر کو اُن سے چھین لیا گیا تھا۔ جب بے نواؤں کی نوا بننے والے کو تختہ دار پر کھینچ دیا گیا تھا۔ کیسی عجب اور ستم ظریف بات ہے کہ وطنِ عزیز کے دونوں منتخب اور عوامی لیڈرزایک غیر منتخب اور زور زبردستی حاکم بننے والوں کے ہاتھوں اقتدار سے محروم کیے گئے لیکن عوام نے پھر دونوں عوامی لیڈروں کو تخت پر بٹھا دیا۔ تخت چھیننے والے ''عوام کی ڈھٹائی'' دیکھتے رہ گئے۔ 4 اپریل1979 کو پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے، اُن کی معاونت اور اعانت کرنے والوں نے دعوے کیے تھے: بھٹو مر گیا اور پیپلز پارٹی بھی مر گئی ۔

12 اکتوبر 1999 کو محمد نواز شریف سے اقتدار چھیننے اور پھر انھیں جلا وطن کرنے والوں نے بھی دعوے کیے تھے: نواز شریف رفت گزشت اور نون لیگ کی سیاست کا قصہ بھی ختم۔ چشمِ فلک نے پھر دیکھا کہ اُس جگہ بھی گھاس اُگی جہاں بھٹو کے گلے میں پھندہ ڈالا گیا تھا۔ زیڈ اے بھٹو کی پھانسی کو ایک عشرہ بھی نہیں گزرا تھا کہ بھٹو کی پارٹی بھی برسرِ اقتدار آ گئی اور بھٹو کی بیٹی بھی۔ آمریت ہار گئی اور عوام ظفریاب رہے۔پیپلز پارٹی آج بھی ایک صوبے میں حکمران ہے۔ اور نواز شریف بھی اقتدار سے بزورِ طاقت محروم کیے جانے کے ٹھیک سوا عشرے بعد تیسری بار وہیں وزیر اعظم بن گئے جہاں سے ایک آمر نے انھیں دیس نکالا دیا تھا۔ آمریت کو پھر شکستِ فاش ہُوئی اور جمہور عوام پھر سرخرو رہے۔ یعنی جمہوریت کے فیضانات سے مستفیض نہ ہونے کے باوصف وطنِ عزیز کے عوام نے جمہوریت سے کبھی پیٹھ نہیں پھیری۔پچھلے چار عشروں سے جب بھی اپریل کا پہلا ہفتہ طلوع ہوتا ہے، مصلوب ذو الفقار علی بھٹو کی المناک موت پھر یاد کے دروازے پر دستک دینے لگتی ہے۔

یہ ہفتہ پھر طلوع ہو چکا ہے اور یادوں کے اُفق پر بھٹو کی یادیں پھر رنگ بکھیر رہی ہیں۔ سابق بھارتی سفیر، دانشور اور مشہور بیوروکریٹ کنور نٹور سنگھ کی ضخیم سوانح حیات One Life Is Not Enough زیر مطالعہ ہے ۔ اِسے پہلے بھی پڑھ چکا ہُوں لیکن اس میں مندرج ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کی داستان پھر سے پڑھی ہے۔ دل پھر سے اداس اور افسردہ ہے۔ کنور نٹور سنگھ جنرل ضیاء الحق کے دَورِ حکومت میں اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر متعین رہے۔ وہ اپنی مذکورہ سوانح حیات میں لکھتے ہیں:''بھٹو کی پھانسی کے بعد مَیں بھٹو صاحب کی بیوہ، محترمہ نصرت بھٹو، کے نام ایک تعزیتی خط لایا تھا۔ یہ خط بھارتی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی کا تھا۔

جنرل ضیاء الحق میرے اس خط پر ناراض تو یقیناً ہُوئے مگر اُن کی مہربانی کہ مجھے نصرت بھٹو صاحبہ سے ملنے اور یہ خط خود پہنچانے کی اجازت عنایت فرما دی۔'' نٹور سنگھ کراچی میں بھٹو مرحوم کی رہائشگاہ (70کلفٹن) پر پہنچنے اور محترمہ نصرت بھٹو سے ملنے کا احوال یوں سناتے ہیں: '' وسیع گھر میں دل کو تڑپا دینے والا سناٹا تھا۔ وہ رہائش گاہ نہیں تھی، بلکہ یوں لگتا تھا جیسے کوئی منظّم گورستان ہو۔ بینظیر بھٹو جیل میں تھیں اور نصرت بھٹو گھر میں تنہا اور بیمار۔ مَیں نے از راہِ ہمدردی بیگم نصرت بھٹو سے بھٹو صاحب کی پھانسی بارے پوچھا تو انھوں نے دلگیر لہجے میں مجھے بتایا: میرے شوہر کو پھانسی سے کئی گھنٹے قبل قتل کیا جا چکا تھا۔ ایک مرے ہُوئے شخص کوپھانسی پر لٹکایا گیا۔''

4 اپریل کے آتے ہی بھٹو کی پھانسی کے حوالے سے کئی داستانیں پھر سے گردش میں آ جاتی ہیں۔ جس حکمران کے دَورِ آمریت میں بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی، اُسے تو کب کا پاکستانی عوام نے بھلا دیا ہے لیکن قائدِ عوام کو عوام اب تک فراموش نہیں کرسکے ہیں۔ سیکڑوں اگر نہیں تو درجنوں کتابیں مصلوب کیے جانے والے سیاسی رہبر پر لکھی جا چکی ہیں۔ اُن مضامین، تجزیوں اور کالموں کی تعداد تو لاکھوں تک پہنچ چکی ہو گی جو پچھلے چار عشروں کے دوران بھٹو مرحوم کے بارے لکھے گئے ہیں۔ بھٹو کی یاد میں جو شاعری معرضِ وجود میں آئی، اُس کی خوشبو بھی ہنوذ محو نہیں ہو سکی ہے۔ ''خوشبو کی شہادت'' نامی کتاب اُن نظموں، غزلوں اور قطعات پر مشتمل شاعری ہے جو بھٹو کی پھانسی کی المناک یاد میں آنسو بن کر شاعروں کے قلم سے ٹپکی۔ کئی سال پہلے ایک طرحدار شاعر جناب سلیم شاہد نے اسے مرتب کیا تھا ۔ اس کا حرفِ آغاز محترمہ بینظیر بھٹو کا اور دیباچہ بی بی صاحبہ کے معتمدِ خاص جناب بشیر ریاض ( جو خود بھی بھٹو فیملی کے معتبر مصنف ہیں) کا لکھا گیا ہے ۔

''خوشبو کی شہادت'' میں ہمارے بڑے بڑے شعرا کا کلام شامل ہے۔ یہ کتاب پھر سے شایع کی گئی ہے۔ اس میں نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کے آٹو گرافز بھی ہیں۔ اسے بک ہوم، بک اسٹریٹ ،56 مزنگ روڈ لاہور سے قیمتاً حاصل کیا جا سکتا ہے۔پھانسی سے قبل پسِ دیوارِ زنداں بھٹو صاحب نے If I AM ASSASSINATED بھی لکھی تھی۔ اِسے بھی دوبارہ شایع کیا گیا ہے۔ یہ بھی بک ہوم کے پتے سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ بھٹو مرحوم کی چالیسویں برسی کے موقع پر اس کتا ب کا مطالعہ از بس ضروری ہے۔

چودہ صفحات پر مشتمل اس کا مفصل تعارف مشہور بھارتی اخبار نویس اور ایڈیٹر، پران چوپڑا، نے لکھا ہے۔پران صاحب بنیادی طور پرلاہورئیے تھے۔ نصف درجن شاندار کتابیں لکھیں ۔بی بی صاحبہ پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہُوئیں تو اُن سے ملنے پاکستان بھی آئے تھے۔ کوئی چھ سات سال پہلے گزر گئے۔دونوں مذکورہ کتابیں بھٹو لیگیسی فاؤنڈیشن نے خوبصورت اور دلکش انداز میں چھاپی ہیں۔ بھٹو صاحب کی لکھی یہ انگریزی کتاب دراصل سب سے پہلے ہمارے محبوب ومشفق جناب شاہ جی عرف عباس اطہر صاحب اور خواجہ نذیر صاحب کی زیر نگرانی شایع کی گئی تھی۔ شاہ جی ہمیں اپنے مخصوص لہجے میںاس کتاب کی پُر اسرار اشاعت کے بارے میں کہانی سنایا کرتے تھے۔ اب بھٹو صاحب بھی اللہ کے پاس پہنچ چکے ہیں اور ہمارے شاہ جی بھی۔ رہے نام اللہ کا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں