غربت کا خاتمہ کیسے ممکن ہوگا

ملک میں موجود لوگوں میں نفرت یا غصہ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے، جو ملکی مفاد میں نہیں


سلمان عابد April 01, 2019
[email protected]

عوامی مفادات سے جڑا ایک بنیادی مسئلہ غربت کے خاتمے کا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں سیاسی یا فوجی کوئی بھی حکومت ہو اس کا نعرہ غربت کا خاتمہ ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے عوام اوراس کا بنیادی مفاد حکمران طبقہ کا کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ وہ عوامی مسائل کی بنیاد پر سیاست تو کرتے ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ان کی سیاسی ترجیحات کافی مختلف ہو جاتی ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے غربت مٹاو پروگرام کا اعلان کیا ہے ۔ ان کے بقول غربت کے خاتمے کے لیے نئی وزارت بنائی جائے گی۔ آئین کی شق 738 ڈی میں ترمیم کرتے ہوئے روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اورصحت ہر شہری کا بنیادی حق سمجھا جائے گا۔اس تناظر میں وزیر اعظم نے 80 ارب روپے کی خطیر رقم کا اضافہ بھی کیا ہے اور اس کو 2021تک 120ارب تک لے جایا جائے گا۔حکومتی پالیسی کے تحت لوگوں کی آمدنی کا علاقے کے لحاظ سے ڈیٹا اکھٹا کرنا اور ون ونڈو آپریشن کے تحت غرب افراد کو ایک ہی جگہ تمام سہولیات فراہم کرنا اور سروے کے بعد 57 لاکھ لوگوں کے بینک اکاونٹ کھولے جائیں گے۔اسی طرح حکومتی فیصلہ کے تحت بینظیر انکم اسکیم سپورٹ پروگرام، بیت المال پاکستان، تخفیف غربت کونسل اور تخفیف غربت فنڈکے تمام اداروں کو یکجا کیا جائے گا۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان حکومت میں آنے سے قبل بھی تسلسل کے ساتھ غربت کے خاتمہ کی بات کرتے رہے ہیں ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ ان موضوعات پر بات تو کرتا ہے یا اسی کو یقینی بنانے کے لیے پالیسی، قانون سازی یا ادارے سمیت مختلف نوعیت کے پروگرام شروع کیے جاتے ہیں، لیکن نتائج میں کوئی شفافیت نظر نہیں آتی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف وزیر اعظم عمران خان غربت کے خاتمہ کے پروگرام کا اعلان کرتے ہیں تو دوسری طرف پہلے سے موجود معاشی بدحالی لوگوں کی زندگیوں میں مزید مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ مہنگائی، بجلی، گیس، پٹرول سمیت دیگر اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کے پاس فوری طور پر غریب آدمی کو ریلیف دینے کی کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں۔ ممکن ہے کہ حکومت کے پاس مستقبل کے تناظر میں کچھ اچھی خوش خبریں ہوں، مگر آج کے حالات بظاہر حکومت کے کنٹرو ل میں نہیں نظر آتے ہیں۔معاشی میدان میں لمبی مدت کی معاشی پالیسیوں کی یقینی طور پر اہمیت ہوتی ہے، مگر چھوٹی مدت کی منصوبہ بندی بھی اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتی ہے او ر اسی پر توجہ دے کر آپ لوگوںس میں امید کا پہلو پید ا کرتے ہیں۔لیکن حکومتی معاشی سطح کے ماہرین فوری طورپر عام آدمی کے حوالے سے کوئی ریلیف نہیں رکھتے۔

ابھی حال ہی میں قومی ادارہ صحت اور برطانوی ادارہ برائے بین الااقوامی ترقی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد خطہ میں سب سے زیادہ ہے۔ اسٹنٹنگ کے موجودہ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں 44 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں محض 6 ماہ سے 23 ماہ تک کے 15 فیصد بچوں کو مناسب غذائی سہولتیں میسر ہیں جب کہ 85 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار بنتے ہیں۔ اسی طرح سے نئی نسل میں بیروزگاری کی شرح خوفناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ پڑھے لکھے اور ان پڑھ لوگ کے سامنے ایک بڑا چیلنج مناسب روزگار ہے ۔ ملکی اور بین الااقوامی سرمایہ کاری میں کمی، کاروبار کے محدود مواقعے، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، بدعنوانی اور کرپشن سے جڑا نظام، فنی تربیت کی کمی، کمزور معاشی و سیاسی ڈھانچہ، سیاسی عدم استحکام، عالمی اداروں پر حد سے بڑھتا ہوا انحصار، ٹیکس نیٹ میں کمی، حکومتی اداروں کی ناقص پالیسیاں، ادارہ جاتی عمل کا کمزور ہونا مخصوص طبقہ کے معاشی مفادات کا تحفظ جیسے مسائل کی وجہ سے ہم ایک ایسی معاشی پالیسی یا عمل پیش نہیں کرسکے جو سب کو معاشی تحفظ کو یقینی بنا سکے۔

وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ چین، ترکی، ملائیشیا، بھارت جیسے ملکوں کی مثالیں دیتے ہیں لیکن ان ممالک نے جو معاشی و سیاسی پالیسیاں اختیار کیں اس سے عملا ہم کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں ۔محض ان ملکوں کی مثالیں دینا، نعروں کی بنیاد پر سیاسی ڈگڈی بجانا اور عملی اقدامات میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ عمران خان بہت کچھ بدلنا چاہتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کے سامنے ایک فرسودہ نظام ہے او راس نظام کی بنیاد پر بڑ ی اصلاحات یا انقلابی اقدامات ممکن نہیں۔ ہمیںی انتظامی، ادارہ جاتی سمیت اپنی سیاسی ومعاشی پالیسیوں میں دنیا کے تجربات سے سیکھنا ہوگا۔

ایک مسئلہ یہ ہے کہ پوری روایتی سیاست، بیوروکریسی، پالیسی ساز افراد اوراداروں نے عملی طور پر پورے حکومتی یا حکمرانی کے نظام کو جکڑا ہوا ہے ۔ یہ ہی وہ طبقہ ہے جو بڑی تبدیلی میں رکاوٹ ہے ۔ اگر حکمران طبقہ کے پاس خود ٹھوس منصوبہ اور سیاسی فہم و حکمت نہیں ہوگی تو اس کے نتائج بھی مختلف ہی ہونگے۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ حکومتی معاشی ماہرین کی حکمت کی کمزوری کی وجہ سے یہ تاثر ابھر ہی نہیں رہا کہ حکومت معاشی عمل میں درست ٹریک پر گامزن ہے۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کوئی بھی جماعت ہو بشمول تحریک انصاف اقتدار میں آنے سے قبل ان کے پاس کوئی ٹھوس ہوم ورک نہیں ہوتا اورمحض نعرے بازی یا اقتدار میں آنے کے بعد کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔

یہ جو جمہوری اور سیاسی نظام کی کامیابی کی کنجی ہوتی ہے اس کا براہ راست تعلق معاشی استحکام سے ہوتا ہے ۔ ایک ایسا معاشی استحکام جو عام یا غریب افراد کے مفاد سے جڑ ہو, وگرنہ معاشی عدم استحکام اور ناانصافی یا تفریق کا عمل عملا سیاسی اور جمہوری نظام کی ناکامی کا سبب بھی بنتا ہے۔ایک بڑا چیلنج دیہی معیشت کا ہے جو بدحالی کا شکار ہے اور سارا بوجھ شہری معیشت پر کھڑا ہے ۔وزیر اعظم سب سے زیادہ محروم افراد جن میں بیوائیں,معذور افراد,خانہ بدوش,یتیم، مسکین، اسٹریٹ چلڈرن،خواجہ سرا کی بات کررہے ہیں، لیکن یہاں تو متوسط طقہ بھی بدحالی پر مبنی نظام میں جکڑا ہوا ہے۔امیری اور غریبی میں بڑھتی ہوئی خلیج یا ناہمواریاں ایک بڑا چیلنج ہے جو ملک میں موجود لوگوں میں نفرت یا غصہ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے، جو ملکی مفاد میں نہیں۔

وزیر اعظم کو سمجھنا ہوگا کہ اگر واقعی وہ غربت سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو ان کو اپنے ہی اردگرد موجود افراد، نظام اور اداروں کی سطح پر کچھ بڑا کرکے دکھانا ہوگا ۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان اشتراک کار، حکمرانی کے نظام کو نچلی سطح پر مستحکم کرنے، اداروں کی شفافیت سمیت منصوبہ یا پالیسی سازی کے نئے عمل کو پیدا کرنا ہو گا جو براہ راست غریب لوگوں کے مفاد سے جڑا ہو۔ ایک نئی سیاست اور عالمی اداروں کی معاشی پالیسیوں میں جکڑ کر یا حد سے زیادہ عالمی اداروں پر انحصار ہمیں کچھ نہیں دے سکے گا۔ وزیر اعظم کو تسلیم کرنا ہو گا کہ ان کی تبدیلی پر مبنی حکومت فی الحال لوگوں کو خوش کم مایوس زیادہ کررہی ہے یہ ہی عمران خان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے اوراس سے نمٹے بغیر ان کی تبدیلی پر مبنی حکمرانی کا نظام مکمل نہیں ہوسکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں