14 اگست یوم آزادی یا یوم غلامی
قوموں کی زندگی میں آزادی کا دن، عزم نو و عزم صمیم اور کچے پکے ارادوں کو پختہ ارادوں میں تبدیل کرنے کے لیے آتا ہے۔
QUETTA:
قوموں کی زندگی میں آزادی کا دن، عزم نو و عزم صمیم اور کچے پکے ارادوں کو پختہ ارادوں میں تبدیل کرنے کے لیے آتا ہے۔ ہمارے ہاں آزادی کا دن تو مسلسل آتا ہے لیکن انتظار کے باوجود آزادی نہیں آتی۔ اس بار 14 اگست اس عالم میں طلوع ہو رہا ہے کہ چاروں صوبوں اور مرکز میں عوام کی منتخب حکومتیں قائم ہیں اور بڑے جاہ و جلال اور وعدوں اور دعووں کے ساتھ برسر اقتدار آئی ہیں۔ مگر وفاقی حکومت نے جتنی تیزی سے اور جتنے بڑے پیمانے پر اپنے ووٹروں اور عوام کو مایوس کیا ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ حکمران اس حکمت اور مصلحت کو نہیں سمجھ سکے کہ اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اگر مسائل میں کمی نہ کر سکیں تو اضافہ بھی نہ کریں۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا مطلب ہی یہ تھا کہ روپے کی قدر میں کمی، بجلی کی قیمتوں اور مہنگائی و بیروزگاری میں اضافہ ہونا ہے۔
اعلان تو یہی ہوا کہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے گا لیکن جن سے ٹیکس پہلے سے وصول کیا جاتا ہے ان پر جی ایس ٹی کے ذریعے مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا گیا اور جو ٹیکسوں سے آزاد زندگی بسر کرنے کے عادی ہو چکے ہیں، آصف زرداری ہوں یا نواز شریف، دونوں کی حکومت میں ان کی جیب سے کوئی پیسہ قومی خزانے میں نہیں جا سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنے بیانات میاں نواز شریف نے زرداری حکومت کے بارے میں پچھلے پانچ سال میں دیے تھے، اگر ان ہی بیانات کو من و عن آصف زرداری صاحب کے نام سے نواز شریف صاحب کی حکومت کے بارے میں جاری کر دیا جائے تو کسی کو اس پر حیرت نہیں ہو گی۔ بلوچستان اور سندھ کے حوالے سے بھی بہت اچھی اطلاعات ابھی تک نہیں مل سکی ہیں۔ دونوں صوبوں میں حکومت مفقود ہے، بالخصوص دونوں صوبوں کے دارالحکومتوں میں دہشت گردوں کا راج ہے ۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں جہاں ہم کولیشن پارٹنر ہیں، حکومت نے کچھ اقدامات اٹھائے ہیں لیکن ہمارے خیال میں عوام کے دکھوں کو کم کرنے کے لیے جس رفتار سے ہمیں چلنا چاہیے اور جن مسائل کو ترجیحی اعتبار سے اہمیت دینی چاہیے، وہ ہنوز توجہ طلب ہیں۔
جس بڑے پیمانے پر دھاندلی کے بعد موجودہ حکومتیں اقتدار میں آئی ہیں، اس کے بعد ان سے اسی طرح کی کارکردگی کی توقع کی جانی چاہیے تھی۔ گو کہ صدارتی انتخاب کے بعد فخرو بھائی نے اپنی ناکامی تسلیم کر تے ہوئے استعفیٰ دے دیا لیکن حالیہ انتخابات میں ان کی ناکامی کھل کر سامنے آ گئی تھی اور انھیں اسی وقت مستعفی ہو کر حقائق سے قوم کو آگاہ کرنا چاہیے تھا۔ ان کی زیر نگرانی ایسے الیکشن ہوئے جن پر تمام جماعتوں کو اعتراض تھا۔ کراچی میں سرے سے الیکشن کا عمل ہی نہ ہو سکا۔ ہمارے نزدیک تو ان کا استعفیٰ اس وقت ضروری ہو چکا تھا جب کراچی کے حوالے سے انھوں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا تھا کراچی میں حلقہ بندیاں دوبارہ کی جائیں، ووٹر لسٹوں کی فوج کی موجودگی میں از سر نو تصدیق کی جائے اور پولنگ کے دن بھی لا اینڈ آرڈر کے حوالے سے فوج کو ایک رول دیا جائے۔ جس وقت فخرو بھائی نے ان فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرنے کی ٹھانی تھی ہماری نظر میں تو وہ اس وقت ہی عملاً اپنے منصب سے مستعفی ہو گئے تھے۔ وہ قوم بالخصوص کراچی کے عوام کو آزاد انہ اور منصفانہ انتخابات کے خواب کی تعبیر دینے میں ناکام رہے۔ نواز حکومت بھی مفاہمت کے نام پر جو نتائج پیپلز پارٹی کی حکومت کو ملے تھے، انھی کے حصول کے لیے اس تجربے کو دہرانا چاہتی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ جن سے ڈکٹیشن لیتے ہیں، انھوں نے کانوں میں یہ بات پھونک دی ہے کہ ایم کیو ایم کو حکومت میں وافر حصہ دیا جائے۔
اقتدار سنبھالتے ہی وفاقی حکومت کی طرف سے قومی سلامتی پالیسی کو ازسر نو ترتیب دینے اور اس حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد پر بہت شور و غوغا سننے کو ملا، اس کی تیاریوں، پھر اس کے التوا، پھر اس کے نام کی تبدیلی، پھر اس کی ہیئت کے بارے میں نئی نئی تجاویز، وقت نے پھر اس بات کو ثابت کیا کہ ہم اے پی سی بلانے میں بھی آزاد نہیں ہیں اور اس کے انعقاد کے لیے بھی امریکی سرپرستی اور اجازت درکار ہے۔ جب تک امریکا اجازت نہیں دے گا، اس کا انعقاد ناممکنات میں سے رہے گا۔ بھارت سے دوستی کے لیے بے چینی اور بے قراری بھی حکومت کے ہر اقدام اور اعلان سے ٹپکی پڑتی ہے اور کنٹرول لائن پر بڑھتی بھارتی جارحیت، بھارتی ڈرون کی فضائی سرحدوں کی خلاف ورزی اور دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن اور امرتسر میں دوستی بس پر حملے سے بھی اس پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ گویا کشمیری ہمارے سوتیلے بھائی ہیں جن سے انتقام لینے کی بہت جلدی ہے۔
پاکستان کے حصے کے جن دریائوں پر بند باندھ کر بھارت بجلی بنا رہا ہے، ہم اسی بجلی کی خرید اری کے لیے منہ مانگے دام دینے کو تیار ہیں اور آبی جارحیت ترک کرنے کا مطالبہ کرنے کے بجائے سرے سے اس بات کو ہی ختم کر دینا چاہتے ہیں کہ بھارت آبی جارحیت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ گزشتہ 65 سال میں پرویز مشرف کے سوا پاکستان میں آنے جانے والی سول و فوجی حکومتوں نے کشمیر پر ایک ہی موقف رکھا، کشمیریوں کی مسلسل داد رسی کی کوشش کی اور جب جب ان پر مظالم کی طویل رات کو طویل تر کرنے کی کوششیں ہوئیں، کشمیریوں کو یہ احساس ہوا کہ پاکستان ہمارے ساتھ ہے اور عوام کے علاوہ حکومتیں بھی ہمارے لیے کچھ نہ کچھ کرتی ہیں لیکن اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ پرویز مشرف کا دور لوٹ رہا ہے اور پھر سے کشمیریوں کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی تیاری اور ان کے اصولی موقف کو اوجھل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ہر قیمت پر بھارت سے دوستی کے نتیجے میں ملک کو بجلی بحران سے نکالنے کی ''خوش خبری ''دی جا رہی ہے۔
یہ ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب کشمیر میں تحریک آزادی عروج پر ہے اور وہاں گلی کوچوں میں پاکستانی پرچم لہرائے جا رہے ہیں۔ یہ رویے آزاد قوموں کے نہیں ہوا کرتے ۔14 اگست کو ہم دنیا کو کیا منہ دکھانا چاہتے ہیں؟ کیا ہم 14 اگست کو یوم آزادی کے بجائے یوم غلامی منانا چاہتے ہیں؟ حکمرانوں کے رویے یہی چغلی کھا رہے ہیں جو بڑے پیمانے پر کشمیریوں کی جدوجہد کو نظر انداز کر رہے ہیں اور عالمی ضمیر اور عالمی برادری کو کچوکے دینے کے بجائے خود کو مضمحل کر رہے ہیں۔
الیکشن کے نتائج جس طرح عوام کے سینے پر مونگ دلنے کی روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں، جس طرح حکومت میں آتے ہی کرپشن سکینڈل سامنے آنے لگے ہیں، امریکی و بھارتی جارحیت کے حوالے سے حکومت نے جس بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے، اور جس طرح حالیہ بارشوں اور سیلاب کے دوران حکومت کی عدم موجودگی اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے حوالے سے عدم تحفظ کا احساس ابھرا ہے، ناگزیر ہے کہ ایسے تمام عناصر جو ملک میں جمہوریت اور انتخاب کے حامی ہیں ، سر جوڑ کر بیٹھیں اور سنجیدگی سے پوری صورتحال کا جائزہ لے کر کم سے کم ایجنڈے اور پروگرام کے تحت عوام کو اپنی جدوجہد میں شریک کریں ۔ حکمران اقتدار کے نشے میں سرشار ہیں اور اس بات کو بھول گئے ہیں کہ آئی جے آئی کا معاملہ بھی ایک عرصے کے بعد ایکسپوز ہو گیاتھا اور اب تو وقت بہت بدل گیا ہے، عین ممکن ہے کہ مہینوں کے اندر ہی یہ بات طشت از بام ہو جائے کہ موجودہ الیکشنز کتنے آزادانہ اور منصفانہ تھے؟ اور جو لوگ کامیاب ہو کر تخت پر براجمان ہیں ان کی کامیابی میں کون سے عناصر ترکیبی شامل تھے؟ لہٰذا حکمرانوں کو آئینہ دکھانے کے لیے بھی ضروری ہے کہ ایجنڈے اور مسائل پہ اتفاق رکھنے والی جماعتیں مل جل کر حالات کی بہتری کی تدبیر بھی کریں اور قوم کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنے کا لائحہ عمل بھی تیار کریں۔