سائنس نامہ
کائنات کے سب سے ’ بوڑھے‘ ستارے دریافت
خلائی دوڑ: جاپان بھی تسخیرِقمر کے لیے کوشاں
جنوب مشرقی ایشیائی ملک کی مستقبل قریب میں چاند کی جانب تحقیقی خلائی جہاز روانہ کرنے کے لیے تیاریاں
چاند، کرۂ ارض سے نزدیک ترین قدرتی سیارہ ہے۔ اسی قربت کے باعث یہ جرم فلکی ہمیشہ سے انسان کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ چاند کی مسحورکن خوب صورتی پر شاعروں نے تخیلاتی پروازیں کرتے ہوئے دیوان کے دیوان لکھ ڈالے وہیں کتنے ہی فلکیات دانوں کی زندگیاں اس کے مادّی پہلوؤں سے جوجھتے گزر گئیں مگر ان کی یہ محنت و سعی لاحاصل نہیں رہیں۔
آج چاند سے متعلق جتنی بھی معلومات ہمیں دست یاب ہیں وہ اسی طبقۂ انسانی کی رہین منت ہیں۔ ماہرین فلکیات اور سائنس داں ہر دور میں اپنے پیش روؤں کی محنت سے استفادہ کرتے ہوئے چاند پر تحقیق کے عمل کو آگے بڑھاتے رہے، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ 13 ستمبر 1959ء وہ تاریخی دن تھا جب سطح قمر پر انسانی ساختہ کوئی شے اتری۔ یہ سابق سوویت یونین کی جانب سے بھیجا گیا مصنوعی سیارہ Luna 2 تھا۔ 20 جولائی 1969ء کو اس وقت تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا جب ابن آدم کے قدم چاند کی سرزمین سے مَس ہوئے۔ 1969ء سے لے کر 1972ء تک انسان 6 مرتبہ چاند پر اترا۔ چاند کی جانب خلابازبردار مشن کی روانگی کا سلسلہ 7 دسمبر 1972ء کو اپالو 17کی پرواز کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا، تاہم مصنوعی سیارے بھیجے جاتے رہے، اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
امریکا، روس اور چین کے خلائی مشن کام یابی سے چاند پر اترچکے ہیں۔ خلائی تحقیق کی دوڑ میں شامل جاپان بھی دو بار چاند کے مدار میں خلائی تحقیقی جہاز پہنچا چکا ہے، یہ خلائی جہاز اپنا مشن مکمل کرنے کے بعد چاند سے ٹکرا کر فنا ہوگئے تھے۔ مشرقی ایشیا میں واقع ملک نے اب چاند کی سطح کو کھوجنے کے لیے تحقیقی جہاز روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سرزمین قمر پر اتر کر یہ مجوزہ تحقیقی خلائی جہاز یا گاڑی ( moon rover ) زیرزمین چھپے رازوں سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ خلائی گاڑی کی تیاری کے لیے جاپان ایرواسپیس ایکسپلوریشن ایجنسی ( JAXA ) نے عالمی شہرت یافتہ کارساز ادارے ٹویوٹا سے اشتراک کرلیا ہے۔
خلائی تحقیق میں نجی شعبے کی بڑھتی ہوئی صلاحیت کے پیش نظر حکومتیں اپنے منصوبوں کے لیے نجی اداروں سے اشتراک کررہی ہیں۔ JAXA نے بھی اسی رجحان کے تحت ٹویوٹا سے ہاتھ ملایا ہے۔ جاپانی خلائی ایجنسی کی ویب سائٹ پر دست یاب معلومات کے مطابق مجوزہ خلائی منصوبے جسے LUNAR-A کا نام دیا جاسکتا ہے، کے تحت براہ راست چاند کے زیرزمین حصے پر تحقیق کی جائے گی جس سے اس قدرتی سیارے کے آغاز اور ارتقا کے بارے میں مفید معلومات ہوسکتی ہیں۔
جاپانی خلائی ایجنسی کے مطابق یہ خلائی مشن چاند پر '' ہارڈ لینڈنگ'' کرے گا یعنی انتہائی تیزرفتار سے چاند کی سطح سے ٹکرائے گا۔ درحقیقت خلائی جہاز سے دو penetrator نکل کر برق رفتاری سے سطح قمر سے ٹکرائیں گے اور زیرمین ایک سے تین میٹر تک چلے جائیں گے۔ JAXA کے مطابق اس مشن کے دو مقاصد ہوں گے: پہلا مقصد چاند کی لوہے سے بھرپور اندرونی سطح کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہے۔ یہ معلومات خلائی جہاز کے چاند کی سطح سے زوردار انداز میں ٹکرانے سے پیدا ہونے والی لہروں کی پیمائش کے ذریعے حاصل ہوں گی۔ لہروں کی پیمائش کے لیے خلائی جہاز میں دیگر جدید آلات کے ساتھ انتہائی حساس سیزمومیٹر نصب ہوں گے۔ مشن کا دوسرا مقصد حرارتی بہاؤ ( heat flux ) کی پیمائش کرنا ہے۔ اس ڈیٹا سے سائنس دانوں کو چاند کے اندرونی حصے میں حرارت پیدا کرنے والے تاب کار عناصر کی بہتات کے بارے میں معلومات حاصل ہوں گی۔
مشن کی روانگی کی حتمی تاریخ کا تعین فی الوقت نہیں کیا گیا تاہم یہ خلائی جہاز جاپان کے انتہائی طاقت وَر V راکٹ پر سوار ہوکر ارضی مدار سے باہر نکلے گا۔ اسے اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے نصف برس کا عرصہ درکار ہوگا۔
تسخیرقمر کو نصف صدی گزرجانے کے بعد کئی اقوام چاند پر اپنے مشن بھیج کر معلومات حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں۔ ناسا نے2024ء میں زمین کے گرد محوگردش سیارے کی طرف مشن روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ گذشتہ ماہ اسرائیل خلائی جہاز روانہ کرچکا ہے جو اسی برس چاند کی سطح پر اترے گا۔
جاپانی خلائی ایجنسی حالیہ دنوں میں ایک سیارچے سے چٹان کے نمونے حاصل کرنے کے تاریخی مشن کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہی ہے۔ اس کا خلائی جہاز ' ہایابوسا 2' سیارچے کا ایک چکر کامیابی سے لگا چکا ہے، مزید دو چکر لگانے کے بعد وہ زمین کا رخ کرے گا اور سیارچے کی مٹی اور پتھر کے نمونے ماہرین کے حوالے کرے گا۔ JAXA کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان نمونوں سے آغاز حیات اور تخلیق کائنات کے بارے میں بنیادی سوالات کے جواب حاصل ہوسکیں گے۔
۔۔۔
کائنات کے سب سے ' بوڑھے' ستارے دریافت
ہماری کہکشاں کی وسعتوں میں ڈیرہ ڈالے 'بزرگوں ' کی عمر 13 ارب سال ہے
ماہرین فلکیات نے ہماری کہکشاں 'ملکی وے' میں کائنات کے چند قدیم ترین ستارے دریافت کرلیے ہیں جن کی عمریں سائنس دانوں کے مطابق 12.8ارب سال تک ہیں۔ ملکی وے کی وسعتوں میں چُھپے ان ستاروں کو منظرعام پر لانے کا کارنامہ برازیل میں واقع سائو پالو یونی ورسٹی سے وابستہ فلکیاتی ماہرین نے انجام دیا ہے۔ رائل آسٹرونومیکل سوسائٹی کے ماہنامہ ''منتھلی نوٹسز'' میں شایع شدہ تحقیق کے مطابق فلکیات داں چلی میں نصب جیمینی ٹیلی اسکول اور ارضی میں محوگردش مشہور زمانہ ہبل ٹیلی اسکوپ سے حاصل کردہ ڈیٹا کا تجزیہ کررہے تھے۔ ان کی خصوصی توجہ کا مرکز زمین سے 21500 نوری سال کی دوری پر واقع ستاروں کا جُھرمٹ تھا جو فلکیاتی اصطلاح میں HP1 کہلاتا ہے۔ ماہرین فلکیات جانتے تھے کہ یہ جُھرمٹ قدیم ترین ستاروں کا ہے جن کی روشنی بھی 'پیرانہ سالی' کے ساتھ ساتھ مدہم پڑتی چلی گئی ہے۔ ڈیٹا کے تجزیے سے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ یہ جُھرمٹ کائنات کے سب سے عمررسیدہ ستاروں کا مسکن ہے جن کی عمریں اندازاً 12 ارب 80 کروڑ سال تک ہیں۔
سائو پالو یونی ورسٹی کی محقق اسٹیفانو سوزا کے مطابق ہماری کہکشاں کا پھیلائو 10ہزار نوری سال کے مساوی ہے اور اس کی وسعتوں میں ان گنت ستارے اور سیارے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں جن میں یہ قدیم ترین ستارے بھی شامل ہیں۔ یہ ستارے ملکی وے کے باہر کو نکلے ہوئے حصے یا اُبھار ( bulge) میں دریافت ہوئے ہیں۔
اس تحقیق کے ماہرین فلکیات کی ٹیم نے adaptive optics نامی امیجنگ تیکنیک کا استعمال کیا۔ یہ تیکنیک خلائی تصاویر میں سے ارضی مدار میں بکھری روشنی کی لہروں کے باعث پیدا ہونے والے غیرضروری نشانات کو ختم کردیتی ہے جس کی وجہ سے تصاویر بالکل واضح ہوجاتی ہیں اور ان کا تحقیقی مطالعہ و تجزیہ آسان ہوجاتا ہے۔
دونوں دوربینوں سے حاصل شدہ ڈیٹا (تصاویر و اعدادوشمار ) کو یکجا کے کر تحقیقی ٹیم زمین سے ان ستاروں کے فاصلے کا تعین کیا۔ حتیٰ کہ سب سے مدہم ستارے کی بھی زمین سے دوری معلوم کی گئی۔ فاصلے کی پیمائش کے اعدادوشمار سے کام لیتے ہوئے بعدازاں یہ تعین کیا گیا کہ کون سا ستارہ کتنا روشن ہے۔ ہر ستارے کی روشنی کی شدت اور اس کی رنگت سے یہ معلومات حاصل ہوئیں کہ آیا کوئی ستارہ ، بونا ستارہ ( dwarf star) ہے یا نہیں، اور کیا اس میں سے ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بھاری عناصر کا اخراج ہورہا ہے؟
ستاروں کے عناصر کا وزن (metallicity) ' بزرگی ' کو پہنچے ہوئے اجرام فلکی کی عمر کا تعین کرنے میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ کائنات کے ابتدائی ستارے خالص ہائیڈروجن گیس کے بادلوں سے تشکیل پائے۔ اسی طرح کائنات میں ہیلیئم گیس کے اولین ایٹم ان قدیم ترین ستاروں کے مرکزوں میں ہونے والے نیوکلیائی تعاملات کے نتیجے میں وجود میں آئے۔ جیسے جیسے مزید ستارے تخلیق پاتے رہے ویسے ویسے نیوکلیائی تعاملات کی وجہ سے مزید عناصر جنم لیتے گئے جن سے آج ہم واقف ہیں۔
ماہرین کے مطابق جو ستارے ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بھاری عناصر خارج کرتے ہیں انھیں نسبتاً جوان خیال کیا جاتا ہے۔ چناں چہ جب محققین نے مشاہدہ کیا کہ HP1 نامی 'آبادی' کے 'مکین' برائے نام بھاری عناصر اپنی جسمانی حدود سے باہر دھکیل رہے ہیں تو انھیں اندازہ ہوگیا کہ ان کی جڑیں کائنات کے ابتدائی ادوار میں پیوست ہیں۔ بعدازاں مشاہدات کی بنیاد پر محققین نے ان ستاروں کی عمر کا تعین کیا جو اوسطاً 12.8 ارب سال تھا۔
ماہرین کے مطابق اس دریافت سے کائنات اور ہماری کہکشاں کے ارتقا کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
۔۔۔
زہریلے مادّے کھا کر بجلی بنانے والے بیکٹیریا۔۔۔۔۔!
ماحولیاتی آلودگی اور توانائی کا بحران قصۂ پارینہ بن جائے گا
آلودگی کرۂ ارض کا اہم ترین ماحولیاتی مسئلہ ہے، جس سے نمٹنے کے لیے دنیا مختلف جتن کررہی ہے۔ سماج کے دوسرے طبقوں کی طرح سائنس داں برادری بھی آلودگی سے نبردآزما ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے نت نئی ایجادات اور دریافتیں کررہی ہے۔ حال ہی میں امریکا کی واشنگٹن اسٹیٹ یونی ورسٹی کے محققین ایسے خردبینی جان دار پکڑنے میں کام یاب ہوئے جو آلودگی کھاتے اور بجلی پیدا کرتے ہیں۔ یہ خردبینی جاندار ریاست مونٹانا کے یلواسٹون نیشنل پارک کی ہارٹ لیک کے طاس کے علاقے میں پائے گئے جہاں پانی کا درجۂ حرارت 43 سے 93 ڈگری سیلسیئس تک تھا۔ یونی ورسٹی کی تحقیقی ٹیم کے سربراہ پروفیسر عبدالرحمان محمد کے مطابق یہ پہلی بار ہے جب یہ بیکٹیریا شدید گرم ماحول میں پائے گئے ہیں۔ سائنس داں کا کہنا ہے کہ یہ منفرد خردبینی جاندار آج دنیا کو درپیش دو اہم ترین مسائل یعنی بڑھتی ہوئی آلودگی اور توانائی کی قلت سے نجات دلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
یہاں ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بیکٹیریا یہ کام کیسے کرسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بیکٹیریا حقیقتاً آلودگی کو کھا جاتے ہیں۔ یہ زہریلے آلودہ مادّوں (toxic pollutants) کو کم زہریلی اور کم خطرناک مادّوں یا اشیاء میں بدل دیتے ہیں اور اس عمل کے دوران بجلی بھی پیدا کرتے ہیں۔ پروفیسر عبدالرحمان محمد کے مطابق ' آلودگی خوری' کے دوران بیکٹیریا کے الیکٹران دھاتوں اور دوسری سطحوں پر منتقل ہوتے ہیں اور اس عمل کے دوران برقی رَو خارج ہوتی ہے جس کے استعمال سے کم طاقت والے برقی آلات چلائے جاسکتے ہیں۔
پروفیسر عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ ان جراثیم کو جمع کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ خردبینی جانداروں کو پکڑنے کے لیے محققین نے انتہائی گرم پانی میں کچھ برقیرے ( electrodes) چھوڑ دیے۔ اس عمل سے انھیں امید تھی کہ بیکٹیریا اپنی ' کمین گاہوں' سے باہر آجائیں گے۔ بیکٹیریا کو پکڑنے کے لیے پروفیسر عبدالرحمان نے حرارت کا طاقت وَر مزاحم آلہ (potentiostat ) تیار کیا۔ پوٹینشواسٹیٹ ایک برقیاتی آلہ ہوتا ہے جو تین برقیروں پر مشتمل سیل کو کنٹرول کرنے کے لیے درکار ہوتا ہے۔ محققین نے پانی میں برقیرے ڈال کر چھوڑ دیے۔ ایک ماہ بعد انھوں نے جائزہ لیا تو یہ دیکھ کر بے حد خوش ہوئے کہ ان کی محنت رنگ لے آئی تھی اور وہ ان نادر بیکٹیریا کو ان کے قدرتی ماحول میں پکڑنے میں کام یاب ہوچکے تھے۔ یہ کام یابی اس لیے اہم تھی کہ تجربہ گاہ میں جیوتھرمل خواص جیسے گرم چشمے وغیرہ کا مہیا کرنا مشکل ہوتا ہے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے جب سائنس دانوں نے جراثیم کو بجلی پیدا کرنے پر مجبور کیا ہو۔ پہلے بھی اس نوع کے تجربات کیے جاچکے ہیں۔ تاہم بیکٹیریا کو ان کے قدرتی ماحول میں پکڑنے میں سائنس داں پہلی بار کام یاب ہوئے، اور انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ مستقبل قریب میں یہ خردبینی جاندار آلودگی کے خاتمے اور بجلی کی پیداوار میں اہم کردار ادا کریں گے۔
جنوب مشرقی ایشیائی ملک کی مستقبل قریب میں چاند کی جانب تحقیقی خلائی جہاز روانہ کرنے کے لیے تیاریاں
چاند، کرۂ ارض سے نزدیک ترین قدرتی سیارہ ہے۔ اسی قربت کے باعث یہ جرم فلکی ہمیشہ سے انسان کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ چاند کی مسحورکن خوب صورتی پر شاعروں نے تخیلاتی پروازیں کرتے ہوئے دیوان کے دیوان لکھ ڈالے وہیں کتنے ہی فلکیات دانوں کی زندگیاں اس کے مادّی پہلوؤں سے جوجھتے گزر گئیں مگر ان کی یہ محنت و سعی لاحاصل نہیں رہیں۔
آج چاند سے متعلق جتنی بھی معلومات ہمیں دست یاب ہیں وہ اسی طبقۂ انسانی کی رہین منت ہیں۔ ماہرین فلکیات اور سائنس داں ہر دور میں اپنے پیش روؤں کی محنت سے استفادہ کرتے ہوئے چاند پر تحقیق کے عمل کو آگے بڑھاتے رہے، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ 13 ستمبر 1959ء وہ تاریخی دن تھا جب سطح قمر پر انسانی ساختہ کوئی شے اتری۔ یہ سابق سوویت یونین کی جانب سے بھیجا گیا مصنوعی سیارہ Luna 2 تھا۔ 20 جولائی 1969ء کو اس وقت تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا جب ابن آدم کے قدم چاند کی سرزمین سے مَس ہوئے۔ 1969ء سے لے کر 1972ء تک انسان 6 مرتبہ چاند پر اترا۔ چاند کی جانب خلابازبردار مشن کی روانگی کا سلسلہ 7 دسمبر 1972ء کو اپالو 17کی پرواز کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا، تاہم مصنوعی سیارے بھیجے جاتے رہے، اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
امریکا، روس اور چین کے خلائی مشن کام یابی سے چاند پر اترچکے ہیں۔ خلائی تحقیق کی دوڑ میں شامل جاپان بھی دو بار چاند کے مدار میں خلائی تحقیقی جہاز پہنچا چکا ہے، یہ خلائی جہاز اپنا مشن مکمل کرنے کے بعد چاند سے ٹکرا کر فنا ہوگئے تھے۔ مشرقی ایشیا میں واقع ملک نے اب چاند کی سطح کو کھوجنے کے لیے تحقیقی جہاز روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سرزمین قمر پر اتر کر یہ مجوزہ تحقیقی خلائی جہاز یا گاڑی ( moon rover ) زیرزمین چھپے رازوں سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ خلائی گاڑی کی تیاری کے لیے جاپان ایرواسپیس ایکسپلوریشن ایجنسی ( JAXA ) نے عالمی شہرت یافتہ کارساز ادارے ٹویوٹا سے اشتراک کرلیا ہے۔
خلائی تحقیق میں نجی شعبے کی بڑھتی ہوئی صلاحیت کے پیش نظر حکومتیں اپنے منصوبوں کے لیے نجی اداروں سے اشتراک کررہی ہیں۔ JAXA نے بھی اسی رجحان کے تحت ٹویوٹا سے ہاتھ ملایا ہے۔ جاپانی خلائی ایجنسی کی ویب سائٹ پر دست یاب معلومات کے مطابق مجوزہ خلائی منصوبے جسے LUNAR-A کا نام دیا جاسکتا ہے، کے تحت براہ راست چاند کے زیرزمین حصے پر تحقیق کی جائے گی جس سے اس قدرتی سیارے کے آغاز اور ارتقا کے بارے میں مفید معلومات ہوسکتی ہیں۔
جاپانی خلائی ایجنسی کے مطابق یہ خلائی مشن چاند پر '' ہارڈ لینڈنگ'' کرے گا یعنی انتہائی تیزرفتار سے چاند کی سطح سے ٹکرائے گا۔ درحقیقت خلائی جہاز سے دو penetrator نکل کر برق رفتاری سے سطح قمر سے ٹکرائیں گے اور زیرمین ایک سے تین میٹر تک چلے جائیں گے۔ JAXA کے مطابق اس مشن کے دو مقاصد ہوں گے: پہلا مقصد چاند کی لوہے سے بھرپور اندرونی سطح کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہے۔ یہ معلومات خلائی جہاز کے چاند کی سطح سے زوردار انداز میں ٹکرانے سے پیدا ہونے والی لہروں کی پیمائش کے ذریعے حاصل ہوں گی۔ لہروں کی پیمائش کے لیے خلائی جہاز میں دیگر جدید آلات کے ساتھ انتہائی حساس سیزمومیٹر نصب ہوں گے۔ مشن کا دوسرا مقصد حرارتی بہاؤ ( heat flux ) کی پیمائش کرنا ہے۔ اس ڈیٹا سے سائنس دانوں کو چاند کے اندرونی حصے میں حرارت پیدا کرنے والے تاب کار عناصر کی بہتات کے بارے میں معلومات حاصل ہوں گی۔
مشن کی روانگی کی حتمی تاریخ کا تعین فی الوقت نہیں کیا گیا تاہم یہ خلائی جہاز جاپان کے انتہائی طاقت وَر V راکٹ پر سوار ہوکر ارضی مدار سے باہر نکلے گا۔ اسے اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے نصف برس کا عرصہ درکار ہوگا۔
تسخیرقمر کو نصف صدی گزرجانے کے بعد کئی اقوام چاند پر اپنے مشن بھیج کر معلومات حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں۔ ناسا نے2024ء میں زمین کے گرد محوگردش سیارے کی طرف مشن روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ گذشتہ ماہ اسرائیل خلائی جہاز روانہ کرچکا ہے جو اسی برس چاند کی سطح پر اترے گا۔
جاپانی خلائی ایجنسی حالیہ دنوں میں ایک سیارچے سے چٹان کے نمونے حاصل کرنے کے تاریخی مشن کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہی ہے۔ اس کا خلائی جہاز ' ہایابوسا 2' سیارچے کا ایک چکر کامیابی سے لگا چکا ہے، مزید دو چکر لگانے کے بعد وہ زمین کا رخ کرے گا اور سیارچے کی مٹی اور پتھر کے نمونے ماہرین کے حوالے کرے گا۔ JAXA کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان نمونوں سے آغاز حیات اور تخلیق کائنات کے بارے میں بنیادی سوالات کے جواب حاصل ہوسکیں گے۔
۔۔۔
کائنات کے سب سے ' بوڑھے' ستارے دریافت
ہماری کہکشاں کی وسعتوں میں ڈیرہ ڈالے 'بزرگوں ' کی عمر 13 ارب سال ہے
ماہرین فلکیات نے ہماری کہکشاں 'ملکی وے' میں کائنات کے چند قدیم ترین ستارے دریافت کرلیے ہیں جن کی عمریں سائنس دانوں کے مطابق 12.8ارب سال تک ہیں۔ ملکی وے کی وسعتوں میں چُھپے ان ستاروں کو منظرعام پر لانے کا کارنامہ برازیل میں واقع سائو پالو یونی ورسٹی سے وابستہ فلکیاتی ماہرین نے انجام دیا ہے۔ رائل آسٹرونومیکل سوسائٹی کے ماہنامہ ''منتھلی نوٹسز'' میں شایع شدہ تحقیق کے مطابق فلکیات داں چلی میں نصب جیمینی ٹیلی اسکول اور ارضی میں محوگردش مشہور زمانہ ہبل ٹیلی اسکوپ سے حاصل کردہ ڈیٹا کا تجزیہ کررہے تھے۔ ان کی خصوصی توجہ کا مرکز زمین سے 21500 نوری سال کی دوری پر واقع ستاروں کا جُھرمٹ تھا جو فلکیاتی اصطلاح میں HP1 کہلاتا ہے۔ ماہرین فلکیات جانتے تھے کہ یہ جُھرمٹ قدیم ترین ستاروں کا ہے جن کی روشنی بھی 'پیرانہ سالی' کے ساتھ ساتھ مدہم پڑتی چلی گئی ہے۔ ڈیٹا کے تجزیے سے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ یہ جُھرمٹ کائنات کے سب سے عمررسیدہ ستاروں کا مسکن ہے جن کی عمریں اندازاً 12 ارب 80 کروڑ سال تک ہیں۔
سائو پالو یونی ورسٹی کی محقق اسٹیفانو سوزا کے مطابق ہماری کہکشاں کا پھیلائو 10ہزار نوری سال کے مساوی ہے اور اس کی وسعتوں میں ان گنت ستارے اور سیارے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں جن میں یہ قدیم ترین ستارے بھی شامل ہیں۔ یہ ستارے ملکی وے کے باہر کو نکلے ہوئے حصے یا اُبھار ( bulge) میں دریافت ہوئے ہیں۔
اس تحقیق کے ماہرین فلکیات کی ٹیم نے adaptive optics نامی امیجنگ تیکنیک کا استعمال کیا۔ یہ تیکنیک خلائی تصاویر میں سے ارضی مدار میں بکھری روشنی کی لہروں کے باعث پیدا ہونے والے غیرضروری نشانات کو ختم کردیتی ہے جس کی وجہ سے تصاویر بالکل واضح ہوجاتی ہیں اور ان کا تحقیقی مطالعہ و تجزیہ آسان ہوجاتا ہے۔
دونوں دوربینوں سے حاصل شدہ ڈیٹا (تصاویر و اعدادوشمار ) کو یکجا کے کر تحقیقی ٹیم زمین سے ان ستاروں کے فاصلے کا تعین کیا۔ حتیٰ کہ سب سے مدہم ستارے کی بھی زمین سے دوری معلوم کی گئی۔ فاصلے کی پیمائش کے اعدادوشمار سے کام لیتے ہوئے بعدازاں یہ تعین کیا گیا کہ کون سا ستارہ کتنا روشن ہے۔ ہر ستارے کی روشنی کی شدت اور اس کی رنگت سے یہ معلومات حاصل ہوئیں کہ آیا کوئی ستارہ ، بونا ستارہ ( dwarf star) ہے یا نہیں، اور کیا اس میں سے ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بھاری عناصر کا اخراج ہورہا ہے؟
ستاروں کے عناصر کا وزن (metallicity) ' بزرگی ' کو پہنچے ہوئے اجرام فلکی کی عمر کا تعین کرنے میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ کائنات کے ابتدائی ستارے خالص ہائیڈروجن گیس کے بادلوں سے تشکیل پائے۔ اسی طرح کائنات میں ہیلیئم گیس کے اولین ایٹم ان قدیم ترین ستاروں کے مرکزوں میں ہونے والے نیوکلیائی تعاملات کے نتیجے میں وجود میں آئے۔ جیسے جیسے مزید ستارے تخلیق پاتے رہے ویسے ویسے نیوکلیائی تعاملات کی وجہ سے مزید عناصر جنم لیتے گئے جن سے آج ہم واقف ہیں۔
ماہرین کے مطابق جو ستارے ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بھاری عناصر خارج کرتے ہیں انھیں نسبتاً جوان خیال کیا جاتا ہے۔ چناں چہ جب محققین نے مشاہدہ کیا کہ HP1 نامی 'آبادی' کے 'مکین' برائے نام بھاری عناصر اپنی جسمانی حدود سے باہر دھکیل رہے ہیں تو انھیں اندازہ ہوگیا کہ ان کی جڑیں کائنات کے ابتدائی ادوار میں پیوست ہیں۔ بعدازاں مشاہدات کی بنیاد پر محققین نے ان ستاروں کی عمر کا تعین کیا جو اوسطاً 12.8 ارب سال تھا۔
ماہرین کے مطابق اس دریافت سے کائنات اور ہماری کہکشاں کے ارتقا کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
۔۔۔
زہریلے مادّے کھا کر بجلی بنانے والے بیکٹیریا۔۔۔۔۔!
ماحولیاتی آلودگی اور توانائی کا بحران قصۂ پارینہ بن جائے گا
آلودگی کرۂ ارض کا اہم ترین ماحولیاتی مسئلہ ہے، جس سے نمٹنے کے لیے دنیا مختلف جتن کررہی ہے۔ سماج کے دوسرے طبقوں کی طرح سائنس داں برادری بھی آلودگی سے نبردآزما ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے نت نئی ایجادات اور دریافتیں کررہی ہے۔ حال ہی میں امریکا کی واشنگٹن اسٹیٹ یونی ورسٹی کے محققین ایسے خردبینی جان دار پکڑنے میں کام یاب ہوئے جو آلودگی کھاتے اور بجلی پیدا کرتے ہیں۔ یہ خردبینی جاندار ریاست مونٹانا کے یلواسٹون نیشنل پارک کی ہارٹ لیک کے طاس کے علاقے میں پائے گئے جہاں پانی کا درجۂ حرارت 43 سے 93 ڈگری سیلسیئس تک تھا۔ یونی ورسٹی کی تحقیقی ٹیم کے سربراہ پروفیسر عبدالرحمان محمد کے مطابق یہ پہلی بار ہے جب یہ بیکٹیریا شدید گرم ماحول میں پائے گئے ہیں۔ سائنس داں کا کہنا ہے کہ یہ منفرد خردبینی جاندار آج دنیا کو درپیش دو اہم ترین مسائل یعنی بڑھتی ہوئی آلودگی اور توانائی کی قلت سے نجات دلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
یہاں ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بیکٹیریا یہ کام کیسے کرسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بیکٹیریا حقیقتاً آلودگی کو کھا جاتے ہیں۔ یہ زہریلے آلودہ مادّوں (toxic pollutants) کو کم زہریلی اور کم خطرناک مادّوں یا اشیاء میں بدل دیتے ہیں اور اس عمل کے دوران بجلی بھی پیدا کرتے ہیں۔ پروفیسر عبدالرحمان محمد کے مطابق ' آلودگی خوری' کے دوران بیکٹیریا کے الیکٹران دھاتوں اور دوسری سطحوں پر منتقل ہوتے ہیں اور اس عمل کے دوران برقی رَو خارج ہوتی ہے جس کے استعمال سے کم طاقت والے برقی آلات چلائے جاسکتے ہیں۔
پروفیسر عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ ان جراثیم کو جمع کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ خردبینی جانداروں کو پکڑنے کے لیے محققین نے انتہائی گرم پانی میں کچھ برقیرے ( electrodes) چھوڑ دیے۔ اس عمل سے انھیں امید تھی کہ بیکٹیریا اپنی ' کمین گاہوں' سے باہر آجائیں گے۔ بیکٹیریا کو پکڑنے کے لیے پروفیسر عبدالرحمان نے حرارت کا طاقت وَر مزاحم آلہ (potentiostat ) تیار کیا۔ پوٹینشواسٹیٹ ایک برقیاتی آلہ ہوتا ہے جو تین برقیروں پر مشتمل سیل کو کنٹرول کرنے کے لیے درکار ہوتا ہے۔ محققین نے پانی میں برقیرے ڈال کر چھوڑ دیے۔ ایک ماہ بعد انھوں نے جائزہ لیا تو یہ دیکھ کر بے حد خوش ہوئے کہ ان کی محنت رنگ لے آئی تھی اور وہ ان نادر بیکٹیریا کو ان کے قدرتی ماحول میں پکڑنے میں کام یاب ہوچکے تھے۔ یہ کام یابی اس لیے اہم تھی کہ تجربہ گاہ میں جیوتھرمل خواص جیسے گرم چشمے وغیرہ کا مہیا کرنا مشکل ہوتا ہے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے جب سائنس دانوں نے جراثیم کو بجلی پیدا کرنے پر مجبور کیا ہو۔ پہلے بھی اس نوع کے تجربات کیے جاچکے ہیں۔ تاہم بیکٹیریا کو ان کے قدرتی ماحول میں پکڑنے میں سائنس داں پہلی بار کام یاب ہوئے، اور انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ مستقبل قریب میں یہ خردبینی جاندار آلودگی کے خاتمے اور بجلی کی پیداوار میں اہم کردار ادا کریں گے۔