پاکستان کے دو سنگین ترین مسئلے
اگر ایف آئی اے جرم ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کے بعد آئین سے غداری کے مقدمے کی بھی راہ کھل سکتی ہے۔
ڈھائی سو روپے کے کیبل پر آنے والے بھانت بھانت کے چینلوں پر ٹاک شو دیکھ دیکھ کر ، بیس روپے کا اخبار پڑھ کے ، فیس بک اور ٹویٹر پر سیاستدانوں کو برا بھلا کہہ کر ، ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ملکی حالات پر کڑھتے ہوئے اور پھر سو روپے کا پٹرول موٹر سائیکل میں ڈلوا کر مہنگائی کو گالیاں دیتے ہوئے آپ خود کو بہت بڑا بقراط سمجھتے ہیں نا ؟ تو پھر بتائیے کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے کہ جس نے حکومت اور حزبِ اختلاف کی نیند اڑا رکھی ہے ؟
مجھے معلوم ہے آپ میں سے کوئی فٹاک سے کہے گا کہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اتنی اضافی اجناس پیدا ہوئی ہیں کہ رکھنے کی جگہ نہیں۔ اسی لیے پچھلے بارہ ماہ کے دوران پانچ لاکھ ٹن گندم اور ساڑھے سات لاکھ ٹن چاول ہم نے بیرونی ممالک کو فروخت کر دیا ہے، چینی کے گودام منہ کو آئے ہوئے ہیں۔نیا اسٹاک رکھنے کی جگہ بمشکل نکالنی پڑ رہی ہے۔پھر بھی ہر پانچواں پاکستانی ناکافی غذائیت سے دوچار ہے۔کیونکہ رزق تو وافر ہے مگر خریدنے کے پیسے نہیں، پیسے ہوں بھی تو اس رزق کی تقسیم کا نظام اتنا ناقص ہے کہ خوراک غریب ترین طبقات تک آسانی سے پہنچ ہی نہیں پاتی۔گویا دریا کے کنارے بیٹھے ہیں مگر پیاسے ہیں۔یہ مسئلہ ضرور ہے مگر اتنا بڑا بھی نہیں کہ حکمرانوں اور حزبِ اختلاف کی نیند اڑا دے۔
تو کیا ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ روپیہ مسلسل پھسل رہا ہے، آج ایک سو بیالیس روپے کا ڈالر ہے اور اگلے چند ماہ میں ایک سو ستر تک پہنچ سکتا ہے۔ برآمدات اگر سو روپے کما کے دے رہی ہیں تو درآمدات ایک سو اڑسٹھ روپے کھا رہی ہیں۔ سعودی ، اماراتی اور چینی دوستوں سے جو آٹھ ساڑھے آٹھ ارب ڈالر قرضے پر اٹھائے ہیں وہ چھ سے آٹھ ماہ کے دوران چٹ پٹ ہو جائیں گے، اگر معیشت تب بھی نہ اٹھی تو پھر کس کے آگے ہاتھ پھیلائیں گے؟ آئی ایم ایف قرضہ دینے کو تیار بیٹھا ہے مگر اللے تللے اور بیمار اداروں اور عوامی سہولتوں کی سبسڈی ختم کرنے کی شرط پر۔کیا یہ ہم سے ہو پائے گا ؟
معیشت بیٹھنے کی وجہ سے شرح سود میں اضافہ کرنا پڑ رہا ہے، شرح سود میں اضافے کے سبب سرمایہ کار بینک سے قرضہ لے کر نئی سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔ افراطِ زر آٹھ ماہ میں چار فیصد سے بڑھ کر ساڑھے آٹھ فیصد تک ہو گیا ہے۔چنانچہ مہنگائی دگنی محسوس ہو رہی ہے۔تو یہ ہے اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ۔جی نہیں اس سے بھی بڑا ایک اور مسئلہ ہے جس کا حکومت اور حزبِ اختلاف کو تو مکمل ادراک ہے مگر آپ جیسے بقراطوں کو ہرگز ہرگز نہیں۔
اب آپ کہیں گے کہ گزشتہ ایک برس سے بین الاقوامی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( فیٹف ) دہشت گردوں کو سرمائے کی فراہمی کے چینلز بند کرنے کے لیے ہماری گردن پر جو گرم گرم پھونکیں مار رہی ہے دراصل یہ ہے اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا دردِ سر۔حالانکہ جب سے گزشتہ برس پاکستان کو فیٹف نے دہشت گردی کے لیے پیسے کی ترسیل روکنے میں ناکام ممالک کی گرے لسٹ میں ڈالا ہے اس کے بعد سے ہمارے مالیات، انتظام اور سلامتی کے اداروں نے اس گرے لسٹ سے باہر آنے کے لیے قانون سازی کی ہے، نگرانی کے عمل کو بہتر بنایا ہے،کئی شدت پسند تنظیموں پر اور گہری نگاہ رکھی جا رہی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی دہشت گرد فہرست میں جتنی تنظیموں اور افراد کے نام ہیں ( سوائے مولانا مسعود اظہر) ان سب کو کالعدم قرار دے کر ان کے اثاثے تحویل میں لے لیے گئے ہیں، اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے ہیں۔ ان سے بظاہر غیر منسلک افراد اور تنظیموں کی مالیاتی ترسیلات پر بھی کڑی نگاہ رکھی جا رہی ہے۔
مگر فیٹف والے پھر بھی نہیں مان رہے اور کہہ رہے ہیں کہ کاغذ پر تو ہم نے بہت اچھا اور متاثر کن نقشہ بنایا ہے مگر دہشت گردوں کو سرمائے کی ترسیل روکنے کے لیے وفاقی سے لے کر ضلع سطح تک جس انتظامی و معلوماتی رابطہ کار موثر ڈھانچے کی ضرورت ہے وہ غائب ہے۔بینکوں پر بھلے نظر ہو مگر چندوں کے ڈبوں،اسمگلنگ کے پیسے اور اس کالے پیسے سے اجناس کی خرید کے بعد انھیں بیچ کر پھر اس سفید پیسے کو دہشت گردوں تک پہنچانے کا نیٹ ورک اب بھی قائم ہے۔
لہذا کوئی ضمانت نہیں کہ جون میں جب فیٹف کا پیرس میں بڑا اجلاس ہو گا تو وہ پاکستان کو گرے لسٹ سے خارج کرنے کے بجائے کہیں بلیک لسٹ میں ڈالنے کی سفارش نہ کر بیٹھے۔اس لیے ہمیں نقشے مت دکھاؤ کچھ کیا ہے تو وہ بتاؤ۔ اور اگر پاکستان بلیک لسٹ ہو جاتا ہے تو پھر علاوہ چند وفادار دوستوں کے کوئی ملک یا مالیاتی ادارہ تجارت، قرضے اور امداد کی بات کرتے ہوئے ہچکچائے گا یا من مانی شرائط کے عوض ہماری مدد پر تیار ہوگا۔یوں ادھ موئی معیشت پر مزید درے پڑیں گے۔ ہماری کمر پے پہلے ہی اتنے نیل پڑ چکے ہیں کہ ہم مزید اقتصادی پھینٹی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ تو یہ ہے اس وقت ہمارا سب سے بڑا اور سنگین قومی مسئلہ۔۔۔
یہ مسئلہ ضرور ہے مگر اتنا سنگین بھی نہیں کہ حکومت اور حزبِ اختلاف سب کچھ بھول بھال کر اسے حل کرنے کے لیے کندھے سے کندھا جوڑ لیں۔
تو سنیے کہ اس وقت ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ کیا ہے ؟
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام بدلنا۔وزیرِ اعظم عمران خان نے گھوٹکی میں جلسے سے خطاب کے بعد اپنے حامی ارکانِ اسمبلی اور اتحادیوں سے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جس کے تحت پچھلے نو برس میں ایک سو چوبیس ارب روپے پچاس لاکھ لاچار خواتین میں پانچ ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے بانٹے گئے ہیں۔اس پروگرام میں بے قاعدگیوں کے سبب اس کا نام بدلا جا سکتا ہے ( گویا صرف نام بدلنے سے یہ پروگرام شدھ اور پوتر ہو جائے گا)۔
اس پر ظاہر ہے کہ پیپلز پارٹی نے سخت ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے گھٹیا سیاسی حربہ قرار دیا۔عمران خان کے دستِ راست شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر نام بدلنے کے حق میں نہیں ۔عمران خان کے گورنر سندھ عمران اسماعیل نے شاہ صاحب کی رائے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نام ضرور بدلا جائے گا۔پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ نے کہا کہ انکم سپورٹ پروگرام سے بے نظیر کا نام ہٹانے کی بات کرنے والو عوام کے دلوں سے کیسے ہٹاؤ گے۔اس کے لیے تمہیں قانون میں ترمیم کرنی پڑے گی اور سینیٹ میں ہم یہ کوشش اپنی اکثریت کی بنا پر ناکام بنا دیں گے۔اس پر وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے خورشید شاہ کو وہ دیمک قرار دیا جو قومی اداروں کو اب تک کھاتی رہی ہے۔
اس سے بھی بڑا ایک سنگین قومی مسئلہ ہے۔یعنی ایف آئی اے ان صحافیوں ، بلاگرز اور تنظیموں کے پیچھے لگ گئی ہے جنہوں نے عزت ماآب سعودی ولی عہد کے دورہِ پاکستان کے موقع پر فیس بک پر مقتول سعودی صحافی جمال خشوگی کا تواتر سے تذکرہ کیا۔یہ عناصر شائد بھول گئے کہ آئین کا آرٹیکل انیس جہاں آزادیِ اظہار کی ضمانت دیتا ہے وہیں دوست ممالک کے بارے میں منفی تبصروں کی بھی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
چنانچہ اگر ایف آئی اے جرم ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کے بعد آئین سے غداری کے مقدمے کی بھی راہ کھل سکتی ہے اور آئین سے غداری کا مقدمہ آرٹیکل چھ کے تحت چلایا جاتا ہے اور آرٹیکل چھ کے تحت سزا موت ہے۔
تو یہ ہیں جناب اس وقت پاکستان کو لاحق دو سب سے سنگین مسائل۔کوئی شک ؟؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)